میں نے زندگی میں اس سے مہنگا کپڑا نہیں دیکھا تھا‘ چھ میٹر کی قیمت 16 لاکھ روپے تھی‘ فی میٹر تین لاکھ روپے‘ میں نے کپڑے کو ہاتھ لگا کر دیکھا‘ چہرے پر رگڑا‘ ہاتھ ہلا ہلا کر وزن کر کے بھی دیکھا‘آخر میں ناک کے سامنے رکھ کر لمبی سانس لی لیکن اس میں کوئی خاص چیز نہیں تھی۔
میں نے دکان دار سے پوچھا ’’یہ اتنا مہنگا کیوں ہے؟‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’کپڑے کا دھاگا اٹلی میں بنتا ہے اور یہ فرانس میں تیار ہوتا ہے‘ اس میں تین قسم کے دھاگے ہیں‘ تیسرا دھاگا ریشمی ہے اور یہ چین کے شہر شیان میں بنتا ہے اور اس دھاگے کی وجہ سے شاہراہ ریشم کا نام ریشم پڑا تھا‘اس دھاگے سے پرانے زمانے میں بادشاہوں کی پوشاک تیار ہوتی تھی‘‘۔
وہ رکا اور لمبا سانس لے کر بولا ’’یہ دھاگا شیان سے ختن جاتا ہے اور وہاں اسے دو سال تک مشک کے ساتھ رکھا جاتا ہے جب اس کے تمام ریشوں میں مشک بس جاتی ہے تو پھر یہ فرانس جاتا ہے اور اسے اٹلی کے دھاگوں کے ساتھ جوڑ کر تیار کیا جاتا ہے‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔
میں اس دوران اسے حیرت سے دیکھتا رہا‘ میں نے اس سے مزید پوچھا ’’اور اٹلی کے دھاگے کی کیا خصوصیت ہے؟‘‘ وہ مسکرایا اور بولا ’’تاریخ اور بیک گراؤنڈ لمبی ہے‘ آپ کے لیے بس اتنا جاننا کافی ہے اس دھاگے سے غلاف کعبہ بنتا ہے‘‘۔
یہ سن کر میں خاموش ہو گیا‘ میں حجت سے اپنا ایمان خراب نہیں کرنا چاہتا تھا‘ ہماری گفتگو کے دوران میرے دوست خاموش کھڑے رہے‘ ہماری بحث ختم ہوگئی تو انھوں نے اسے سوٹ پیک کرنے کا حکم دے دیا‘ دکان دار نے شان دار پیکٹ میں کپڑا پیک کیا اور خوشامد کی حد تک احترام کے ساتھ ہمارے حوالے کر دیا۔
میرے دوست نے کریڈٹ کارڈ سے پے منٹ کی اور ہم آگے چل پڑے‘ میں بہت پریشان تھا‘ چھ میٹر کپڑے کے سولہ لاکھ روپے اور اس کپڑے کی بھی اس نے شلوار قمیض سلوانی تھی‘ میں نے زندگی میں شلوار قمیض کا اتنا مہنگا کپڑا دیکھا تھا اور نہ سنا تھا۔
وہ اس کے بعد جوتوں کی دکان پر چلا گیا‘ وہ اپنے لیے سلیپر خریدنا چاہتا تھا‘ وہ مختلف سلیپر دیکھ رہا تھا اور میں گھوم پھر کر جوتوں کی شیلف دیکھ رہا تھا‘ وہ دکان بہت مہنگی تھی‘ ہر جوتا پانچ ہزار یوروز کا تھا‘ ان میں سب سے سستا ٹاول کا بیڈ روم سلیپر تھا لیکن وہ بھی ہزار یورو کا تھا‘ میں نے سلیز مین سے اس کے قیمتی ہونے کی وجہ پوچھی تو اس نے جوتے کے اوپر لگے کلپ کی طرف اشارہ کیا‘ وہ 22 کیرٹ سونے کا تھا‘ میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
میں ابھی دکان میں گھوم رہا تھا کہ میرے دوست نے پانچ ہزار یوروز کے سلیپرز بھی خرید لیے‘ میں نے رقم کو فوراً پاکستانی روپوں میں تبدیل کر کے دیکھا‘ یہ بھی 8 لاکھ روپے بنتے تھے(2020میں)‘ میرے سارے طوطے اڑ گئے کیوں کہ سلیپر بھی عام سے تھے اور کپڑا بھی اور میرے محترم دوست نے کھڑے کھڑے ان پر24 لاکھ روپے خرچ کر دیے تھے‘ ہم زیورچ کی اس گلی سے نکلے اور آہستہ آہستہ جھیل کے ساتھ واک کرنے لگے۔
میں آدھ گھنٹہ صبر سے چلتا رہا‘ میں نے فیصلہ کیا تھا میں اپنے دوست سے اس فضول خرچی کے بارے میں سوال نہیں کروں گا‘ میرا خیال تھا یہ مجھے اپنی دولت سے متاثر کرنا چاہتا ہے اور اگر میں نے اس سے سوال کر لیا تو اس کی انا کی تسکین ہو جائے گی اور میں اس دن اسے خوش نہیں کرنا چاہتا تھا۔
لیکن میرے اندر کی بے چینی میرے فیصلے سے بڑی ثابت ہوئی لہٰذا میں نے ہوٹل کے دروازے پر پہنچ کر اس سے اس فضول خرچی کی وجہ پوچھ ہی لی‘ میرا خیال تھا باٹا یا سکیچر کے سلیپر 8 لاکھ روپے کے ان سلیپروں سے زیادہ اچھے‘ آرام دہ اور خوب صورت تھے اور پاکستان میں 16 لاکھ روپے کے کپڑے سے زیادہ اچھا کپڑا بنتا ہے‘ ہم اگر وہ خرید لیتے تو ہم 16 لاکھ میں سے پونے 16لاکھ بچا سکتے تھے۔
میری بات سن کر وہ مسکرایا اور پھر بولا ’’یہ ایک لمبی کہانی ہے اور یہ کہانی لاہور کے ڈپٹی کمشنر سے شروع ہوتی ہے‘ کیا تمہارے پاس یہ فضول کہانی سننے کا وقت ہے؟‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’سو فیصد‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’لاہور میں مال روڈ پر میری ایک پراپرٹی تھی‘ میں اسے گرا کر نئی عمارت بنوانا چاہتا تھا‘ میں نے ایل ڈی اے میں نیا نقشہ جمع کرایا۔
کسی بابو نے اس پر سوا کروڑ روپے کا ٹیکس لگا دیا‘ میری فائل مختلف صاحبوں اور دفتروں میں گردش کرنے لگی‘ مجھے آخر میں پتا چلا لاہور کا ڈی سی یہ ٹیکس ختم کر سکتا ہے ‘میں نے اس سے ملاقات اور کام کے لیے سفارشیں شروع کر دیں‘ میں نے اپنا ہر تعلق استعمال کیا یوں بیس دن کی خواری کے بعد میری ڈی سی صاحب سے ملاقات طے ہو گئی‘ میں بہت ایکسائیٹڈ تھا۔
ملاقات کے دن میں نہایا‘ دھویا‘ الٹی اور سیدھی شیو کی‘ اپنا بہترین اور مہنگا لباس اور جوتے پہنے‘ شان دار پرفیوم لگائی‘ ڈرائیور بھجوا کر گاڑی کی سروس کرائی‘ اس میں ائیرفریشنر کرایا اور وقت سے دس منٹ پہلے ڈی سی آفس پہنچ گیا‘ ڈی سی صاحب میٹنگ میں تھے‘ مجھے ویٹنگ روم میں بٹھا دیا گیا‘ میں ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرتا رہا‘ اس دوران میں پاکٹ سپرے کے ذریعے بار بار اپنے ہاتھوں اور گردن پر پرفیوم لگاتا رہا‘ بہرحال میری باری آ گئی۔
میں ڈی سی صاحب کے سامنے بیٹھ گیا لیکن ان کا موڈ آف تھا‘ انھوں نے توجہ کے بغیر اوپر اوپر سے میری بات سنی‘ میری فائل پر اچٹتی نظر ڈالی اور اس کے بعد پی اے کو بلا کر کہا‘ آپ یہ فائل لے جائیں اور مجھے پڑھ کر بتائیں‘ ہم ان کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‘‘ وہ اس کے ساتھ ہی کرسی سے اٹھے اور اپنا ہاتھ میری طرف بڑھا دیا‘ میں مایوس ہو کر واپس آ گیا‘ میری تیاری‘ شیو‘ بہترین لباس‘ قیمتی جوتوں اور پرفیوم کا ان پر ذرا بھی اثر نہیں ہوا‘ مجھے گاڑی کی سروس اور ائیرفریشنر کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا‘‘۔
وہ خاموش ہو گئے‘ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا‘ وہ خاموش بیٹھے رہے‘ میں نے بے چینی سے پوچھا ’’چوہدری صاحب اس واقعے کا آپ کی فضول خرچی سے کیا تعلق ہے؟‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’بڑا گہرا تعلق ہے‘ آپ جانتے ہیں میں پانچ وقت کا نمازی ہوں‘ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں نماز وقت پر ادا کرتا ہوں‘ میں اس ملاقات کے بعد گھر گیا‘ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا‘ میں نے گھر جا کر کپڑے بدلے‘ وضو کیا اور نماز کے لیے مسجد چلا گیا۔
نماز کے دوران میرے اندر سے آواز آئی‘ چوہدری نذیر تم نے ایک معمولی سے ڈی سی سے ملاقات کے لیے کتنا اہتمام کیا تھا‘ اپنی الماری کا بہترین لباس‘ مہنگے ترین جوتے اور شان دار پرفیوم لگایا ‘ تم وقت سے پہلے میٹنگ کے لیے بھی پہنچ گئے لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے کے لیے تم نے سستا ترین لباس اور پرانے جوتے پہنے اور بغیر پرفیوم مسجد آگئے‘ تم نے وضو کے بعد ہاتھ اور پاؤں بھی خشک نہیں کیے تھے۔
کیا نعوذ باللہ ڈی سی اللہ تعالیٰ سے بڑا تھا؟ اگر نہیں تو پھر تم تیاری اور صفائی کے بغیر اللہ تعالیٰ کے سامنے کیوں حاضر ہوتے ہو؟ گندا ترین لباس پہنتے ہو‘ ٹوٹے پھوٹے اور غلیظ سلیپر پہن کر مسجد آتے ہو‘ تمہارے پاؤں اور ہاتھ گیلے ہوتے ہیں اور تمہارے منہ سے بدبو آ رہی ہوتی ہے‘ تم اس حلیے کے ساتھ مالک کائنات کے سامنے کیوں کھڑے ہوتے ہو‘ کیا تم بندگی کے معیار پر پورے اترتے ہو؟
اس احساس نے مجھے پاؤں کے ناخن سے لے کر سر کے بالوں تک جھنجوڑ دیا اور میں نماز کے دوران ہچکیاں لے کر رونے لگا‘ میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا جا رہا تھا‘ مجھے رہ رہ کر محسوس ہو رہا تھا میں نادانستگی میں شرک کرتا آ رہا تھا۔
آپ خود سوچیے کیا آپ گیلے ہاتھوں سے کسی ڈی سی سے ہاتھ ملائیں گے‘ ڈی سی چھوڑیے‘ آپ کانسٹیبل سے ہاتھ ملانے کے لیے بھی پہلے اپنی پینٹ یا قمیض سے ہاتھ خشک کریں گے‘ آپ کلرک سے ملاقات کے لیے بھی صاف ستھرے کپڑے اور جوتے پہنیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری کے لیے گندے‘ غیر استری شدہ اور سستے کپڑے پہنیں گے۔
آپ مسجد میں ایسے جوتے لے کر جائیں گے جو اگر چوری بھی ہو جائیں تو آپ کو خاص فرق نہ پڑے‘ کیا یہ حلیہ بادشاہوں کے بادشاہ کے لیے مناسب ہے‘ کیا ہمیں مالک کائنات کے سامنے اس طرح پیش ہونا چاہیے؟ میں تھوڑی سی رقم کے لیے پوری تیاری کے ساتھ ڈی سی کے سامنے پیش ہوا تھا لیکن وہ طاقت جس نے مجھے زندگی سے لے کر اطمینان تک ہزاروں نعمتیں دیں‘ میں اس کے دفتر میں تیاری کے بغیر آگیا‘ مجھ سے بڑا بدبخت کون ہوگا۔
میں روتا جا رہا تھا‘ اپنے رب سے معافی مانگتا جا رہا تھا اور یہ عہد کرتا جا رہا تھا میں آیندہ جب بھی نماز پڑھوں گا‘ جب بھی اللہ کے سامنے حاضری دوں گا اپنا سب سے قیمتی لباس پہن کر آؤں گا اور باقاعدہ تیاری سے آؤں گا لہٰذا وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں نماز کے لیے سب سے مہنگے کپڑے کا لباس بنواتا ہوں‘ مسجد جانے کے لیے مہنگے ترین جوتے خریدتا ہوں اور بازار کی سب سے اچھی اور مہنگی پرفیوم لگا کر اللہ کے دربار میں حاضری دیتا ہوں‘‘۔
وہ خاموش ہو گیا‘ میری حیرت عقیدت میں تبدیل ہو گئی‘ چوہدری صاحب رکے‘ لمبی سانس لی اور بولے ’’تم اب میرے ایک سوال کا جواب دو‘ تمہیں وزیراعظم ملاقات کے لیے بلائے تو تم کیا کرو گے؟‘‘ میں نے فوراً جواب دیا ’’بے شک میں اپنا سب سے اچھا اور نفیس لباس اور قیمتی جوتے پہنوں گا‘ خوشبو بھی سب سے اچھی لگاؤں گا اور فل تیاری کے ساتھ جاؤں گا‘‘
وہ ہنسے اور پھر بولے ’’میں نے یہ کپڑا اور یہ جوتے کائنات کے سب سے بڑے وزیراعظم کے سامنے حاضری کے لیے خریدے ہیں‘ کیا اب بھی یہ تمہیں فضول خرچی محسوس ہو رہی ہے؟‘‘ میں اٹھا‘ ان کا ہاتھ کھینچا اور بے اختیار اپنے کانپتے ہوئے ہونٹ اس کے ہاتھ پر رکھ دیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اللہ تعالی جا رہا تھا ملاقات کے سے ملاقات فضول خرچی چاہتا تھا لاکھ روپے خاموش ہو وہ خاموش کے سامنے بنتا ہے جاتا ہے نماز کے کے ساتھ کے لیے اور اس کے بعد اور یہ ہو گیا ہے اور
پڑھیں:
وزیراعظم نے رمضان پیکیج کا اعلان کردیا؛ 40 لاکھ گھرانوں کو رقم ملے گی
اسلام آباد:وزیراعظم شہباز شریف نے رمضان پیکیج کا اعلان کردیا، جس کے تحت ملک کے 40 لاکھ گھرانوں کو رقم فراہم کی جائے گی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی دارالحکومت میں رمضان پیکیج کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ رواں برس 40 لاکھ خاندانوں (جو تقریباً 2 کروڑ افراد بنتے ہیں) کو ڈیجیٹل والٹ کے ذریعے 5 ہزار روپے فی گھرانہ دیے جائیں گے۔
20 ارب روپے کی خطیر رقم مختص
انہوں نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ رواں برس رمضان المبارک میں مہنگائی ماضی کے مقابلے میں کم ہے۔ رمضان پیکیج کے لیے اس سال حکومت نے 20 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی ہے، جس سے 40 لاکھ پاکستانی گھرانے کو فائدہ ہوگا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس یہ رقم 7 ارب روپے تھی، جس میں اس سال 200 فی صد اضافہ کرکے 20 ارب روپے مختص کی گئی ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ملک بھر کے لیے رمضان پیکیج کو بغیر کسی تفریق کے متعارف کروایا جا رہا ہے، جس سے کراچی تا گلگت تمام شہروں کے مستحق خاندان اس پیکیج سے مستفید ہو سکیں گے۔
رمضان پیکیج کی شفافیت
انہوں نے بتایا کہ رمضان پیکیج 2025ء کی شفافیت کے لیے اسٹیٹ بینک، ٹیک ادارے اور نادرا کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ ان اداروں کی محنت کا نتیجہ ہے کہ رمضان پیکیج مستحق افراد تک پہنچے گا۔
دہشت گردی کا قلع قمع کرنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے
وزیراعظم نے کہا کہ ملک کو محفوظ بنانے کے لیے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے قوم اور ادارے پُرعزم ہیں۔ اس ناسور کے لیے ایسی قبر کھودیں گے کہ اس کا دوبارہ نکلنا ناممکن ہوگا۔ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دہشت گردی کا قلع قمع نہ کردیا جائے۔
انہوں نے گزشتہ روز ہونے والے خودکش دھماکے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اکوڑہ خٹک میں مولانا حامد الحق سمیت دیگر افراد کی شہادت کا واقعہ غمزدہ ہے، جس پر پوری قوم افسردہ ہے۔ ہم اس دھماکے کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ کے پی کے حکومت واقعے کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔
شہباز شریف نے کہا کہ دہشت گردی کا خاتمہ 2018ء میں ہو چکا تھا۔ ملک میں قیام امن کے لیے 80 ہزار پاکستانیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا جائے، اسی طرح پاک فوج کے افسران، جوان، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہل کاروں کی قربانیاں بھی وطن عزیز کو محفوظ بنانے کے لیے دی گئیں، مگر ایک بار پھر دہشت گردی کا ناسور سر اٹھا رہا ہے، اس کی وجوہات کا سب کو پتا ہے، فی الحال اس کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتا۔
کھربوں کے محصولات زیرالتوا ہیں، سب نکلوائیں گے
وزیراعظم نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ کھربوں روپے کے محصولات جو حکومت نے وصول کرنے ہیں، وہ عدالتوں اور مختلف فورمز میں التوا کا شکار ہیں۔ 2022-23 تک ڈالر آسمان چھو رہا تھا، تب بینکوں نے ونڈفال پرافٹ بنایا، جس پر ٹیکس لگایا گیا تو انہوں نے اسٹے آرڈرز لے لیے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عدالت عالیہ سندھ نے ایک اسٹے آرڈر کو ختم کیا، جس کے نتیجے میں گورنر اسٹیٹ بینک نے ایک ہی دن میں 23 ارب روپے بینکوں سے نکال کر قومی خزانے میں منتقل کیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ابھی تو آغاز ہے، ہم یہ کھربوں روپے کا منافع بنانے والے بینکوں سے نکلوائیں گے۔
یوٹیلٹی اسٹورز سے جان چھڑا رہے ہیں
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہم اب یوٹیلٹی اسٹورز سے جان چھڑوا رہے ہیں۔ ان کی نجکاری کی جائے گی، جس سے بہتری آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ رمضان پیکیج کے تحت اب لوگوں کو قطار میں لگنا نہیں پڑے گا بلکہ باعزت طریقے سے ڈیجیٹل والٹ سے وہ ریلیف حاصل کر سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یوٹیلٹی اسٹورز میں بدعنوانی عروج پر تھی، اب باقاعدہ نظام بنا دیا ہے، جس کے تحت رمضان پیکیج کی کڑی نگرانی ہوگی۔
وزیراعظم نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ملکی اداروں کی عوام کے لیے کی گئی کوششوں کو قبول کرے اور ماہِ مقدس کی برکتوں سے پاکستان اور پاکستانیوں کو درپیش مسائل و پریشانیوں کا خاتمہ کرے۔