Express News:
2025-03-02@22:06:23 GMT

ہندوستان کا ابھرتا شاعر، نور الحسن نورؔ

اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT

پاکستان اورہندوستان دنیا میں دو ایسے بڑے ملک ہیں جن میں نہ صرف اُردو زبان کا چلن عام ہے بلکہ اِن دونوں ممالک میں اُردو ادبِ عالیہ بھی مسلسل و تواتر سے تخلیق پارہا ہے۔ بلامبالغہ ایسی شخصیات میں ایک نام ہندوستان فتح پورہسوہ سے تعلق رکھنے والے شاعر(جو آج کل ممبئی، مہاراشٹر، ہندوستان میں رہائش پذیر ہیں)، سید نور الحسن نورؔ کا بھی ہوگا جن کی حمد و نعت نگاری اور غزل گوئی کا ایک عالم ابھی سے گرویدہ ہے اور روز بہ روز اُن کے اچھے کلام کے سبب اُن کی شہرت میں اضافہ ہورہا ہے اور اُن کے قارئین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

اِس کا ایک سبب یہ بھی نظر آتا ہے کہ اُن کے مجموعہ ہائے حمد و نعت اور غزل تسلسل و تواتر سے شایع ہو رہے ہیں اور وہ اُردو ادب سے تعلق رکھنے والے قارئین، شائقین، ناقدین اور مشاہیر کے ہاتھوں میں پہنچ رہے ہیں اور توجہ سے پڑھے جارہے ہیں، جس سے نور الحسن نورؔ کے کلام کی خوبیاں اُجاگر ہو رہی ہیں اور اُن کی شاعری کے اوصاف سامنے آرہے ہیں، جن کے باعث شاعرِ موصوف کا نام بحیثیت عبقری شاعر اُبھر رہا ہے اور اُردو ادب میں اُن کا مقام بن رہا ہے۔

نور الحسن نور کے اب تک مندرجہ ذیل شعری مجموعے عمدہ طباعت سے آراستہ ہو کر منظرِ عام پر آچکے ہیں: شاخِ نوا (غزل)، برگِ سحر (غزل)، ساحلِ توجہ پر (غزل)، تحرک (غزل)، تفرید (غزل)، لمحوں کا سفر (غزل)، سبز حروف (غزل)، دستِ منظر (غزل)، روزن  (غزل)، سورج نکلا ہے (ہائیکو)، سخن زارِ غزلیات (غزل)، رباعیاتِ نور (رباعی)، میزابِ سخن (انتخابِ غزل)

نور الحسن نورؔ کی شاعری تخلیقی جوہر سے مزین ہے۔ وہ ایک بڑے شاعر کے روپ میں اُبھر رہے ہیں، جو شعری اُصولوں اور روایتوں کے امین بھی ہیں اور دینی و دنیاوی علوم سے آشنا بھی۔ وہ شعر وسخن کا مکمل ادراک رکھنے والے مفکر بھی ہیں اور عالمی ادب سے باخبر بھی ہیں۔

وہ اُردو کے سیکولر مزاج کے حامل بھی ہیں اور اُس کی تہذیبی و ثقافتی اقدار کی نمایاں علامات کے علمبردار بھی۔ آسمانِ ادب کے اِس روشن ستارے پر ہندوستان میں بھی لکھا گیا ہے جس کا ثبوت ہمیں اُن کے شعری مجموعوں پر لکھے گئے پیش لفظ اور دیباچوں سے ملتا ہے۔

معروف شاعر و ادیب، شاعر علی شاعرؔ نے اُن کی غزلیہ شاعری پر ’’سکہ رائج الوقت شاعری ‘‘ کے عنوان سے ایک تنقیدی کتاب لکھی ہے جس میں اُن کے پانچ شعری مجموعے ’’شاخِ نوا، برگِ سحر، ساحلِ توجہ پر، تحرک اور ’’تفرید‘‘ پر تنقید شامل ہے۔

اِس کتاب کے مطالعے ہی سے میںنے نور الحسن نور کی شعری خوبیوںکو جانا ہے اور اب اُن کے عنقریب شایع ہونے والے تازہ شعری مجموعے ’’روزن‘‘ کا مسودہ ملا تو اُن کے کلام سے مزید متاثر ہوا اور لکھنے کی طرف طبیعت مائل ہوئی۔

نور الحسن نورؔ کے تازہ شعری مجموعے ’’روزن‘‘ میں شامل غزلیات پڑھنے کے بعد میں یہ بات پورے وثوق سے لکھ رہا ہوں کہ غزل ونعت کی آیندہ مسافت و پرداخت اور سمت و اُفتاد کے تعین میں نور الحسن نورؔ کا بڑا حصہ ہوگا اور اُن کے سرمایۂ سخن اُردو ادبِ عالیہ قرار پائے گا جو اُن کے ملک ہندوستان کے لیے خصوصاً اور تمام اُردو کی نئی بستیوں کے لیے عموماً باعثِ فخر ہوگا۔ نور الحسن نورؔ کے تازہ شعری مجموعے ’’روزن‘‘ سے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں:

اسرار کھل رہے ہیں دیارِ جمال کے

روزن کھلا ہُوا ہے حریمِ خیال کا

…٭…

تاجر اُسی کو روشنیوں کا کہا گیا

جس نے کوئی چراغ جلایا نہیں کبھی

…٭…

رواں ہوں گے تو رُکنے کے نہیں ہیں

چھپے ہیں آبشار اِس چشمِ نم میں

…٭…

فرشتے ششدر و حیراں ہیں دیکھ کر عظمت

ملی ہیں خاک کے پتلے کو شہرتیں کیا کیا

…٭…

آج ساقی کے لیے ہے بڑی مشکل درپیش

جس کو دیکھو وہی کہتا ہے اِدھر سے پہلے

نور الحسن نورؔ کی شاعری میں خارجی اور داخلی دونوں رویے نظر آتے ہیں۔ داخلی طور پر وہ تحلیلِ نفسی کے اثر میں ہیں اور خارجی طور پر وہ سماجی اور معاشی نظریات کو قبول کرتے ہیں اور شعرکو زندگی کی تنقید خیال کرتے ہیں جس کی روشنی میں وہ زندگی اور اُس کے نشیب و فراز کو اپنی شاعری کا حصہ بناتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی شاعری میں انسانیت کی جو تصویر پیش کرتے ہیں اُس میں رنج و الم اور درد و کرب ایک مسلسل غم زدگی کی کیفیت میں ہے جو قارئین کو متاثرکیے بغیر نہیں رہنے دیتی۔ اُن کے یہاں ایسے تجربات کثرت سے پائے جاتے ہیں جن میں تینوں زمانے ماضی، حال اور مستقبل کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔

اُن کی شاعری میں روایتی تصورات کے پیکر میں جدید اندازِ خیال کے پیکر نظر آتے ہیں اور اجتماعی لاشعور کی تصویریں بھی ملتی ہیں۔ اُن کو ہونے والے تجربات کو اُن کی شاعری سے جانا جاسکتا ہے اور اُن کے عمیق مشاہدات کو بھی اُن کے کلام سے دیکھا جاسکتا ہے۔

اُن کی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات اور وارداتوں کا سایہ بھی اُن کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ نور الحسن نورؔ کی غزل گوئی کی انفرادیت نے اُن کو اُن کے ہم عصر شعرائے اُردو میں معتبر کر رکھا ہے اور اُنہوں نے اُن شعراء کی موجودگی میں اپنی آوازبھی اونچی، الگ اور بلند آہنگ رکھی ہے۔

اُن کے تابناک اُسلوب نے اُنہیں اُردو شاعری میں یہ رتبہ اور اُردو سخن دانوںمیں اعتبار بخشا ہے۔ اِن تمام باتوں کا ثبوت ناقدین او رمشاہیرِ اُردو ادب کو اُن کے تازہ شعری مجموعہ ’’روزن‘‘ میں مل جائے گا۔ ’’روزن‘‘ سے چند اشعار مزید پیشِ خدمت ہیں تاکہ قارئین اُن کی شاعری سے بھی حظ اُٹھاتے رہیں:

ہم ترے عشق کو دے دیں گے کوئی شکل نئی

تیرے جذبات کی تحقیر نہ ہونے دیں گے

…٭…

معلوم ہے مجھے نہ یقیں آئے گا اُسے

رکھ دوں اگر میں قدموں پہ سر بھی اُتار کے

…٭…

حق کے اعلان میں یہ جان جو جاتی ہے تو جائے

کیوں کہ چپ رہنے سے ظالم کی مدد ہوتی ہے

…٭…

ایسے رکھوالوں سے گلشن کو بچا کر رکھنا

جن سے شاخوں پہ گلِ تر نہیں دیکھے جاتے

…٭…

میں نے لفظوں کی نزاکت کو پڑھا ہے برسوں

اہلِ فن اِس لیے فنکار سمجھتے ہیں مجھے

 اُن کی شاعری میں عاشق انتہائی خود دار اور معشوق دل نواز ہے۔ اُن کی شاعری میں معاملاتِ حسن و عشق زمانۂ قدیم والے نہیں بلکہ اُنہوں نے معاملاتِ حسن و عشق کو بھی فی زمانہ دستورِ عشق اور نازِ حسن سے ہم آہنگ کیا ہے۔

شاعر علی شاعرؔ کی تنقیدی کتاب ’’ سکہ رائج الوقت شاعری‘‘ (جو نور الحسن نورؔ کی غزلیہ شاعری کا احاطہ کرتی ہے) سے پاکستان کے تمام شعرائے اُردو اُن سے اور اُن کی شاعری سے اچھی طرح واقف ہوگئے ہیں، مگر اُن کی شاعری کی کتابیں پاکستان میں دستیاب نہیں ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ شاعرِ موصوف اِس طرف بھی توجہ دیں اور اگر علیحدہ علیحدہ مجموعوں کے پاکستانی ایڈیشن شایع نہ کراسکیں تو تین تین مجموعوں کو ایک ایک جلد میں شامل کرکے کلیاتِ اوّل، دوم اور سوم شایع کرا کے منصہ شہود پر لاسکتے ہیں جن سے اُن کا تمام غزلیہ کلام یکجا بھی ہوتا رہے گا اور پاکستان میں عام قارئین کی دسترس میں آتا بھی رہے گا۔

نور الحسن نورؔ کی نظر نہ صرف اپنے ماحول، معاشرے، ملکی حالات پر ہیں بلکہ وہ بہ نظرِ غائر عالمی ادب کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ خصوصی طور پر جو دنیا کی نئی بستیوں میں اُردو غزل اور حمد و نعت لکھی جا رہی ہے، وہ تمام اُن کے مطالعے میں ہے۔

وہ اکیسویں صدی کے ابتدائی چوبیس برسوں میں برپا ہونے والے مختلف سیاسی، سماجی، اقتصادی، عمرانی، تعلیمی، معاشی اور ادبی انقلابات کے چشم دید گواہ بھی ہیں اور اُس کے شاہد بھی۔ میں اگر یہ لکھوں تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ شاعری کی صورت میں اپنے دورکی تاریخ لکھ رہے ہیں اور اپنے عصر کے حالات و واقعات مرتب کر رہے ہیں۔ وہ آنے والی نسل کو اپنے زمانے کی تاریخ بھی دے جائیں گے اور اُردو ادب کا وقیع سرمایہ بھی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ا ن کی شاعری میں نور الحسن نور بھی ہیں اور ہونے والے تازہ شعری ہیں اور ا ہے اور ا رہے ہیں اور ا ن یہ بھی

پڑھیں:

یورپی یونین کی سربراہ ارسلا وان ڈیر لیین دہلی پہنچیں، نریندر مودی سے اہم بات چیت

وان ڈیر لیین نے اپنے دورے کے دوران نریندر مودی سے ملاقات سے قبل ایک بیان میں کہا کہ ہندوستان یورپ کیلئے ایک قابل اعتماد دوست اور اسٹریٹجک پارٹنر ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے آج دہلی میں یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیین سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا اہتمام دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور تزویراتی تعاون کو مزید بڑھانے کے مقصد سے کیا گیا تھا۔ ارسلا وان ڈیر لیین کا دورہ ہندوستان یورپی یونین کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانے کی سمت میں ایک اہم قدم ثابت ہوسکتا ہے۔ عہدیداروں نے بتایا کہ ہندوستان ۔ یورپی یونین وفود کی سطح کی بات چیت آج ہو رہی ہے، یہ شاید دونوں اطراف کا سب سے بڑا وفد ہے، جو بات چیت اور تعاون کی وسعت کو ظاہر کرتا ہے۔ وان ڈیر لیین نے اپنے دورے کے دوران نریندر مودی سے ملاقات سے قبل ایک بیان میں کہا کہ ہندوستان یورپ کے لئے ایک قابل اعتماد دوست اور اسٹریٹجک پارٹنر ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ موجودہ عالمی تناظر میں جہاں تنازعات اور مسابقت شدت اختیار کر رہی ہے، وہیں ہندوستان اور یورپ کے تعلقات کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ وہ ہندوستان اور یوروپی یونین کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری کو اگلی سطح پر لے جانے کے بارے میں مودی کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے والی تھیں۔

وان ڈیر لیین نے اپنے دورے کا آغاز مہاتما گاندھی کے وقف کی جگہ راج گھاٹ پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کیا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ اس دوران وان ڈیر لیین نے مہاتما گاندھی کے عالمگیر امن کے پیغام کو یاد کیا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار کے مطابق یورپی کمیشن کا یہ پہلا دورہ بھارت میں دوطرفہ تعاون کو وسعت دینے کی جانب مثبت اشارہ دیتا ہے۔ ہندوستان اور یورپی یونین کے درمیان تجارت اس وقت تقریباً 160 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ یورپ میں تقریباً 50 لاکھ ہندوستانی آباد ہیں اور یہاں تک کہ ہندوستانی پیشہ ور افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس تناظر میں یورپی یونین کی "بلیو کارڈ" ویزا اسکیم کا تقریباً 20 فیصد حصہ ہندوستانی شہریوں کا ہے، جسے ہنرمند غیر ملکی کارکنوں کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

اس میٹنگ میں ہندوستان اور یوروپی یونین کے درمیان زیر التواء آزاد تجارتی معاہدہ (FTA) پر تبادلہ خیال ہونے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ دونوں فریق بیرونی خلا، دفاع، پانی کے انتظام اور قابل تجدید توانائی جیسے اہم شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے وان ڈیر لیین کے خیالات کی تعریف کی اور کہا کہ اس دورے کے دوران ہندوستانی وزراء اور یورپی کمیشن کے ارکان کی وسیع شرکت اس بات کا اشارہ ہے کہ ہندوستان اور یورپی یونین کے تعلقات مزید گہرے اور وسیع تر طریقے سے مضبوط ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں کام کرنے والی یورپی کمپنیوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جو دونوں ممالک کی اقتصادی ترقی میں معاون ہے۔

متعلقہ مضامین

  • صاحب اسلوب شاعر ناصر کاظمی کو بچھڑے 53 برس بیت گئے
  • یورپی یونین کی سربراہ ارسلا وان ڈیر لیین دہلی پہنچیں، نریندر مودی سے اہم بات چیت