کراچی میں سیاسی بدنظمی اور قتل و غارت گزرے سالوں میں عام تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس قسم کے سانحات کو جیسے بریک لگ گیا، لیکن اخلاقی تنزلی اور انسان کی وحشیانہ حرکات و سکنات نے معاشرے کا رہا سہا امن و سکون بھی غارت کر دیا۔
پنجاب میں ایسے حالات و واقعات ہر دور میں جنم لیتے رہے اور حویلیوں کے کمروں اور کوٹھریوں میں دل خراش حقائق نے عام لوگوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا۔ گاؤں کے وڈیرے اور سردار معصوم ہاریوں کا خون کرنے کے باوجود قید و بند کی صعوبتوں سے آزاد رہے، زمینیں، باغات، کھیت ان کی اپنی ملکیت تھی، وہاں کے باسی بھی زمین دار کے حکم کے تابع تھے اور ہیں۔
نجی جیلوں سے ایسے انسانی پنجر برآمد ہوتے جنھیں سالہا سال قید رکھا گیا تھا ان میں مردہ اور نیم مردہ شامل تھے، جو مر گیا اسے جلد سے جلد ٹھکانے لگا دیا گیا اور جو زندہ بچے وہ آخری سانس لینے پر مجبور تھے اور ہیں۔ بے بسی و غربت اور آبرو ریزی کی کہانیاں انصاف کے کٹہروں اور بادشاہوں کے محلوں تک پہنچیں لیکن انصاف کا دروازہ کمزور اور بے بس لوگوں کے لیے بند ہی رہا اور بادشاہوں نے سنی ان سنی کر دی لہٰذا انسانیت کا جنازہ بڑے دھوم سے نکلا سب نے بانکپن دیکھا، عبرت اور درندگی کی داستانیں سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
اب کراچی میں بھی ہر روزجرائم کا ایک نیا قصہ سامنے آ جاتا ہے، ہواؤں میں اڑتی خون کی بو پھیلاتی کہانی کراچی کی شناخت میں انسانیت سوز اضافہ کررہی ہے، کہانی کار بھی مطمئن ہے کہ اس نے جوکیا اچھا کیا، وہ درندگی کا مظاہرہ کر کے ندامت کے آنسوؤں سے محروم ہے، دل پر گناہوں کے وزنی پتھر نے بھی اپنی جگہ بنائی اور رہا ضمیر وہ حرام لقمہ کھا کر مردہ ہو چکا ہے۔اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے حلال رزق پر زور دیا ہے تاکہ بڑھاپے کی لاٹھی میں دیمک نہ لگے، مضبوط اور توانا رہے۔
ہماری عدالتوں سے انصاف کی جگہ بے انصافی اور بددیانتی نے لے لی ہے روپے پیسے کی چمک نے آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے۔ اسی وجہ سے تو آج کئی گھرانے برباد اور بدنام ہو چکے ہیں ۔ عامر مصطفیٰ کے قتل کا واقعہ کس قدر اذیت ناک اور الم ناک ہے۔
اس سفاکیت کے واقعے میں ایک سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کیا والدین کو اپنے بیٹوں کی سرگرمیاں معلوم نہیں تھیں؟ یوں لگتا ہے کہ والدین خصوصاً والد نے اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں آگ میں جھونکا ہے اور دوزخ میں دھکیلا ہے۔
شہر میں منظم طریقے سے نائٹ کلب چل رہے ہیں جہاں لڑکے لڑکیاں نشہ کرکے دنیا ومافیہا سے بے خبر ہوجاتیہیں تو ایسی صورت حال میں پولیس کی غفلت اور برابر کا جرم سامنے آتا ہے، ہمارے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں کالی بھیڑوں کی کمی نہیں ہے جو رشوت لے کر مادر پدر آزادی بخش دیتے ہیں یہ نہیں سوچتے یہ نوجوان، جو ان کے دل کا ٹکڑا اور چین و سکون ہیں وہ دوسروں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں اور بے شمار گھرانوں کو برباد کر رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی آہیں اور سسکیاں، بددعاؤں کی شکل میں ان کی اولاد کا پیچھا نہ کریں، یہ بات کسی نے نہیں سوچی؟ بس پیسہ آ رہا ہوتا ہے اور لگژری زندگیوں کے مزے لوٹے جاتے ہیں۔
اسلام سے دوری نے ہر شخص کو بھٹکا دیا ہے، حال ہی میں ایک باپ نے اپنی زندہ بیٹی کو زمین میں گاڑ دیا، بچی کی قسمت میں زندگی تھی سو پولیس اہلکاروں نے اسے قبر سے نکال لیا، کچھ باپ ایسے بھی ہیں جو لڑکیوں سے شدید نفرت کرتے ہیں اور بیویاں بھی ان کے مظالم سے محفوظ نہیں۔
وہ بچیوں کے پیدا ہوتے ہی ان پر چیل کی طرح جھپٹتے ہیں اور ان کا گلا دبا دیتے ہیں، نہر میں پھینک دیتے ہیں، ہمارے ملک میں آگاہی پروگراموں کا انعقاد نہیں ہوتا ہے اسی لیے گناہ اور ثواب، جنت، جہنم کے عذاب و ثواب سے ناواقف ہوتے ہیں۔
یورپ اور امریکا میں اسلامی تعلیمات پر باقاعدگی کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے بچے کی تعلیم و تربیت صفائی ستھرائی، سچ بولنا، والدین کی خدمت شامل ہے چھوٹا سا بچہ Thank You اور Sorryموقع کی مناسبت سے ضرور کہتا ہے وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا، وہ جھوٹ نہیں بولتا، منافقت سے دور رہتا ہے، اپنے والدین کے ہرکام میں مددگار ہوتا ہے، محنت پر یقین رکھتا ہے، رزق حلال کھاتا ہے، دوسرے کے منہ سے نوالہ نہیں چھینتا، خود بھی جیتا ہے، دوسروں کو بھی جینے کا موقعہ دیتا ہے، وہ حقوق بھی ادا کرتا ہے اس کے پڑوسی کسی بھی ذات اور نسل کے ہوں، وہ ان کا خیال کرتا ہے۔
ذخیرہ اندوزی نہیں کرتا، اپنے تہواروں پر چیزیں سستی کر دیتا ہے تاکہ ہر شخص اپنے حصے کی خوشیاں حاصل کرسکے، یہ سب کام اسلامی تعلیم کا حصہ ہے۔ اگر وہ کلمہ پڑھ لیتا اور مادر پدر آزادی کو پروان چڑھانے کا مخالف ہوتا، حیا کرتا اور اس کا پرچار کرتا، تو پھر تو جنتی وہی تھا، ہمارے ملک میں سارے ہی کام اسلام کے خلاف ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں؟ نماز ہی تو کافر اور مسلمان میں تفریق کا باعث ہے۔
آج جو قتل و غارت کا ماحول سامنے آیا ہے، اس کی وجہ نماز سے دوری ہے۔ والدین کی ذمے داری ہے کہ اپنے بچوں کو دین کا علم ضرور سکھائیں، حلال رزق کھانے اور کھلانے کا درس دیں۔ صحابہ کرام کے واقعات سنائیں کہ کیسا ان کا اخلاق تھا، خود دار اور حیا دار تھے۔
اللہ کے احکام بجا لاتے تھے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرشتے بھی حیا کرتے تھے۔ وہ صاحب ثروت تھے خلیفہ وقت تھے لیکن ان کی زندگی دوسروں کی مدد کرتے ہوئے گزری۔حکومت کا اولین فرض ہے کہ وہ خود بھی اسلامی تعلیم سے مستفید ہو اور نصاب میں بھی خلفا راشدین کی زندگی کے واقعات کو شامل کریں تاکہ یہ بچے مستقبل کے بھیڑیے بننے کے بجائے اچھا انسان بن سکیں جن کی مثبت سوچ اور اعلیٰ فکر ہو۔حکومت آج کل بہت مصروف ہے۔
بقول ان کے ملک ترقی کی راہوں پر چل نکلا ہے اور بہت جلد ترقی یافتہ ممالک میں اس کا شمار ہوگا، لیکن اسی ملک میں ہر روز حادثات ہو رہے ہیں ٹرالر اموات لے کر گھوم رہے ہیں اور میاں بیوی، بھائی بہن کچلے جاتے، گھر برباد ہو جاتے ہیں، غم کی فضا گلی کوچوں میں گردش کر رہی ہے، سڑکیں بے قصوروں کے خون سے رنگ گئی ہیں لیکن ہیوی ٹریفک کے ڈرائیوروں کو مکمل آزادی ہے کہ انھیں سات خون معاف ہیں۔ معاشرے سے جرائم کو ختم کرنے کے لیے ہر ادارے کو تعاون کرنا ہوگا جن میں محلے دار، مساجد کے منتظمین، خطیب وغیرہ تبلیغی جماعتیں، اساتذہ بھی اپنے فرائض منصبی سے غافل نہ ہوں، تاکہ معاشرے سے درندگی اور جہالت کا خاتمہ ہو۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
اسٹیبلشمنٹ نے زبردستی لوگوں کو اٹھا کر حکومتیں بنانی شروع کر دیں،علی امین گنڈا پور
یہ جوتے پالش کرنے والے لوگ چاہتے ہیں، ایسے چلتا رہا تو ہم غلام ہی رہیں گے
عمران خان کا مسئلہ کرسی نہیں، بلکہ وہ پاکستان کو آزاد، خودمحتار بنانا چاہتا ہے ، خطاب
وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے وکلا سے خطاب کرتے کہا ہے اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے زبردستی لوگوں کو اٹھا کر حکومتیں بنانی شروع کر دیں، یہ جوتے پالش کرنے والے لوگ چاہتے ہیں، ایسے چلتا رہا تو ہم غلام ہی رہیں گے ۔لاہور ہائی کورٹ جنرل ہاؤس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں آپ لوگوں سے نہایت اہم بات کرنے لگا ہوں، مدینہ کی ریاست کیا تھی مدینہ کی ریاست انصاف پر مبنی تھی، آج ہمارے ملک میں ایسا کچھ نہیں نظر آتا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے بڑوں نے بہت کچھ کیا، اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے زبردستی لوگوں کو اٹھا کر حکومتیں بنانی شروع کر دیں، انہوں نے مارشل لا لگا دیے ، پاکستان کی تاریح گواہ ہے ، پہلے بھٹو کو پھانسی دی، اب بھٹو کو ایوارڈ دیا گیا، اس طرح اپنے لوگوں کو لانے کے لیے بہت کچھ کیا۔علی امین نے کہا کہ آج پاکستان قرض میں ڈوب گیا، اب پاکستان خود محتار ہی نہیں رہا، ہم غلام بن گئے ، کیبنٹ، ہمارے لیڈر سب غلام بن گئے ہیں، پاکستان میں جمہوریت ہے لیکن دھاندلی کی گئی، تم لوگوں کو سیلکٹو لوگ نہیں چاہئیں۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے کہا کہ آپ لوگ وکیل بھی خود ہو، مدعی بھی خود ہو، عمران مسلمان کی بات کرتا ہے ، وہ ناموس رسالت پر بات کرتا ہے ، وہ بے گناہ جیل میں ہے ، ان کو اس سے خطرہ یہ ہے کہ وہ رول آف لا کی بات کرتا ہے ، وہ پاکستان کی خود محتاری کی بات کرتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ جوتے پالش کرنے والے لوگ چاہتے ہیں، ایسے چلتا رہا تو ہم غلام ہی رہیں گے ، عمران خان کا مسئلہ کرسی نہیں، بلکہ وہ پاکستان کو آزاد، خودمحتار بنانا چاہتا ہے ، آج 24 کڑور عوام کی آواز، اسٹبلشمنٹ تک نہیں جارہی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ورکز جیل میں، قیادت جیل میں، اس کی بیوی جیل میں ہے ، ان لوگوں نے ہمارے کارکنان کو گولیاں ماری، کیا آپ لوگ جنگ چاہتے ہیں، کیا آپ لوگ اپنے لوگوں سے جنگ چاہتے ہیں۔علی امین گنڈاپور نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا رہا تو لوگ یہاں سے نکل جائیں گے ، آپ وعدہ کریں کہ آپ لوگ عمران خان کا ساتھ دیں گے ، آگے بڑھیں، متحد ہوجائیں، بہت جلد عمران خان ہمارے درمیان ہوگا۔وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ ہمارے پاس بہت پیسہ ہے ، ہمارا صوبہ امیر ترین ہے ، میں لاہور ہائی کورٹ بار کے لیے 5کڑور روپے گرانٹ دینے کا اعلان کرتا ہوں۔