Express News:
2025-03-02@21:45:42 GMT

ہم کون ہیں اور ہمیں کیا کرنا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT

زندگی ایک راز ہے، ایک معمہ، ایک مسافرت، جو ہمیں ایک منزل کی طرف لے جا رہی ہے۔ ہم آنکھ کھولتے ہیں،کچھ پل جیتے ہیں، خوشی اور غم کے تجربات سمیٹتے ہیں اور پھر ایک دن خاموشی سے نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں، لیکن دنیا میں آنے والا ہر انسان ایک سوالیہ نشان ہوتا ہے۔ ’’ میں کون ہوں؟ کہاں سے آیا؟ کیوں آیا؟ کہاں جانا ہے؟‘‘ کیا زندگی صرف کمانے، کھانے، بچے پیدا کرنے اور ایک خاص وقت کے بعد دنیا سے چلے جانے کا نام ہے، یا اس سے بھی آگے کچھ ہے؟

یہ سوالات ہمیں اپنی حقیقت کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور یہ سوالات ہر باشعور انسان کے ذہن میں اٹھتے ہیں اور جب تک ان کے جوابات نہ مل جائیں، زندگی بے معنی معلوم ہوتی ہے۔ انسان محض گوشت پوست کا بنا ہوا ایک جاندار نہیں، بلکہ ایک شعور رکھنے والی مخلوق ہے، جسے خالقِ کائنات نے کسی خاص مقصد کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہے۔ یہ کائنات کوئی بے مقصد تماشا نہیں اور نہ ہی انسان کی تخلیق محض کھانے، پینے اور افزائشِ نسل کے لیے ہوئی ہے۔ انسان وہ مخلوق ہے جسے زمین پر خلافت عطا کی گئی، جو عقل، شعور، علم اور بصیرت سے آراستہ ہے۔ ہماری زندگی کا مقصد بہت بڑا اور عظیم ہے۔

 ہم صرف گوشت اور ہڈیوں کا مجموعہ نہیں، نہ ہی صرف ایک جسمانی مشین ہیں جو کھانے، سونے،کام کرنے اور مرنے کے لیے بنی ہو۔ ہمارے اندر ایک روح ہے، ایک شعور ہے، ایک احساس ہے، جو ہمیں کائنات کی دیگر مخلوقات سے ممتازکرتا ہے۔

ہماری شناخت کسی عارضی چیز میں محدود نہیں ہو سکتی۔ ہم اپنی قوم، زبان، رنگ، نسل، علاقے، یا خاندان سے پہچانے جا سکتے ہیں، لیکن ہماری اصل پہچان یہ نہیں۔ ہماری حقیقی شناخت ہمارے اعمال، ہماری سوچ اور ہمارے مقصد سے ہے۔ ہم وہی ہیں جو ہم سوچتے ہیں، ہم وہی ہیں، جو ہم کرتے ہیں۔

ہماری حقیقت یہ ہے کہ ہم امانت دار ہیں، جنھیں زمین پر ایک خاص ذمے داری سونپی گئی ہے۔ ہم مسافر ہیں، جنھیں ایک منزل کی طرف بڑھنا ہے۔ ہم خلیفہ ہیں، جنھیں دنیا میں نیکی، انصاف اور سچائی کو فروغ دینا ہے۔

 زندگی کا مقصد صرف جینا، کھانا،کمانا اور مر جانا نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ زندگی ایک امتحان ہے، ایک موقع ہے، ایک موقع اپنے آپ کو ثابت کرنے کا اور اس کائنات میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کا ہے۔

دنیا کی ہر چیز ایک خاص ترتیب کے تحت چل رہی ہے،کوئی چیز بے مقصد نہیں تو پھر انسان کیسے بے مقصد ہو سکتا ہے؟ ہم ایک مشن کے تحت دنیا میں آئے ہیں اور اگر ہم نے اپنی ذمے داریوں کو پہچان کر ان پر عمل کیا تو ہماری زندگی بامقصد بن سکتی ہے۔ انسان محض مٹی کا پتلا نہیں، نہ ہی ایک حیوان کی طرح صرف اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے آیا ہے۔

وہ شعور و ادراک، عقل و فہم اور جذبات و احساسات کا مجموعہ ہے۔ اس کے اندر سوچنے، پرکھنے، جانچنے اور فیصلہ کرنے کی طاقت ہے، جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ انسان اس دنیا میں اللہ کا نائب ہے اور اس کی ذمے داری ہے کہ وہ انصاف، علم، خیر اور بھلائی کا نظام قائم کرے۔

اگر دنیا میں ہمیں ایک خاص مقصد کے تحت بھیجا گیا ہے تو ہماری کچھ ذمے داریاں بھی ہیں۔ سب سے پہلی ذمے داری اپنی پہچان کرنا ہے کہ ہم کون ہوں، ہماری صلاحیتیں کیا ہیں، ہماری کمزوریاں کیا ہیں اور ہم کس طرح ایک بہتر انسان بن سکتے ہیں؟ ہمیں اپنی عقل، اپنے جذبات اور اپنے خیالات کو کسی بڑے مقصد کے لیے بروئے کار لانا چاہیے۔ ہم دنیا میں اکیلے نہیں، بلکہ ایک سماج کا حصہ ہیں۔

ہمارا جینا صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ دوسروں کے لیے بھی ہونا چاہیے، اگر ہماری زندگی کسی کے لیے آسانی، روشنی، یا خوشی کا سبب نہیں بن رہی تو ہم ایک بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم دنیا میں ایک خالق کے حکم سے آئے ہیں، جو ہمیں تخلیق کرنے والا اور پالنے والا ہے۔ یہ زندگی آزمائش کے لیے ہے، جہاں ہمارے اعمال کا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے اور ہمیں آخرت میں اس کا حساب دینا ہوگا۔

زندگی ایک امتحان ہے۔ ایک بڑی حکمت کے تحت انسان کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فکری، سماجی، اخلاقی اور روحانی ذمے داریاں سونپی ہیں، تاکہ ہم اپنی ذات کی بہتری کے ساتھ ساتھ دنیا میں بہتری کے لیے بھی کام کریں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارا یہاں آنا ایک مشن ہے اور ہمیں اس مشن کو پورا کرنے کے لیے اپنی بہترین کوشش کرنا ہوگی۔ دنیا میں بہتری لانا ہمارا فرض ہے اور خاص طور پر باشعور اور باصلاحیت انسانوں پر یہ ذمے داری مزید بڑھ جاتی ہے۔

ہم اس دنیا میں ایک بڑے مقصد کے لیے آئے ہیں۔ ایک اچھا انسان وہ نہیں جو صرف خود اچھا ہو، بلکہ وہ ہے جو دوسروں کے لیے بھی بھلائی چاہے اور عملی طور پر بہتری کے لیے کام کرے۔کسی بھی بڑی تبدیلی کا آغاز خود سے ہوتا ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا بہتر ہو تو ہمیں سب سے پہلے خود کو بہتر بنانا ہوگا۔

اپنی ذات کی پہچان، اپنی کمزوریوں کو دورکرنا اور اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر انھیں مثبت انداز میں استعمال کرنا ہماری پہلی ذمے داری ہے۔ اگر ہر شخص صرف اپنی اصلاح پر کام کر لے تو آدھا معاشرتی مسئلہ خودبخود حل ہو جائے۔ اخلاق کسی بھی معاشرے کی روح ہوتے ہیں۔

اگر ہمارا کردار مضبوط ہوگا، اگر ہم دیانت دار، سچائی پر قائم اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والے ہیں تو ہمارا وجود دنیا کے لیے ایک مثبت قوت بنے گا۔ جھوٹ نہ بولیں، دھوکا نہ دیں، وقت کی پابندی کریں، دوسروں کی مدد کریں اور خود کو بہتر بنائیں۔

تعلیم ہی وہ واحد راستہ ہے جو جہالت، غربت اور بدعنوانی کو ختم کر سکتا ہے، اگر ہمارے پاس وسائل ہیں تو ہم کسی بچے کی تعلیم میں مدد کریں۔ اگر وسائل نہیں تو ہم اپنے علم کو دوسروں تک پہنچائیں، کتابیں پڑھائیں اور شعور پیدا کریں۔ ہماری زندگی کا ہر پہلو سچائی پر مبنی ہونا چاہیے۔ جھوٹ، دھوکہ اور بے ایمانی ہمیں بظاہر وقتی فائدہ دے سکتے ہیں، لیکن ہماری حقیقی شناخت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

زندگی رکنے کا نہیں، سیکھنے اور آگے بڑھنے کا نام ہے۔ ہم جہاں بھی ہوں، جو بھی کر رہے ہوں، ہمیں ہر روز کچھ نیا سیکھنا چاہیے اور اپنی فکری سطح کو بلند کرنا چاہیے۔ زندگی میں مشکلات آئیں گی، ناکامیاں ملیں گی، لوگ تکلیف بھی دیں گے، لیکن ہمیں ہمیشہ صبر اور نرمی سے کام لینا چاہیے۔

سخت رویہ مسائل کو بڑھاتا ہے، جب کہ نرمی دلوں کو جیتتی ہے۔ اگر ہم ہر لمحے کو بامقصد گزاریں، وقت کی قدر کریں اور اپنے کاموں میں سنجیدگی اور محنت کو شامل کریں تو ہماری زندگی نہ صرف ہمارے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی مفید ثابت ہوگی۔

اگر ہم کسی کے لیے آسانی پیدا کر سکتے ہیں، کسی کی مدد کر سکتے ہیں، کسی کے چہرے پر خوشی لا سکتے ہیں تو مجھے ضرور ایسا کرنا چاہیے۔ زندگی کا سب سے بڑا حسن دوسروں کی زندگی میں مثبت تبدیلی لانا ہے۔ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے بڑی بڑی تبدیلیاں ضروری نہیں، چھوٹے چھوٹے نیک اعمال بھی ایک بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دوسروں کے لیے ہماری زندگی دنیا میں ا کے لیے بھی زندگی کا سکتے ہیں کے لیے ا پیدا کر مقصد کے ایک خاص ہیں اور زندگی ا میں ایک ہیں تو اگر ہم کام کر اور ہم ہے اور کے تحت

پڑھیں:

ہم نے کانفرنس کرنے دی، ان کو شکریہ ادا کرنا چاہیے، رانا احسان

اسلام آباد:

رہنما مسلم لیگ (ن) رانا احسان افضل کا کہنا ہے کہ اگرحکومت یہ کانفرنس نہ ہونے دینا چاہتی تو یہ کانفرنس نہ ہوتی، کانفرنس ہو گئی، حکومت کے پاس اتنی زور وطاقت ہے وہ نہیں استعمال کی، ہوٹل کے اندر جو بے ضابطگیاں تھیں اس وجہ سے ہوٹل کو بند کیا گیا۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آن دی لائٹر نوٹ چھوٹی موٹی پھلجھڑیاں تو چلتی رہتی ہیں ان کو ہم نے کانفرنس کرنے دی، میں سمجھتا ہوں کہ ان کو شکریہ ادا کرنا چاہیے حکومت کا کہ ان کے پاس اور تو کوئی بیانیہ تھا نہیں۔

رہنما تحریک انصاف فیصل چوہدری نے کہا ہماری ایک لوک کہانی ہے ایک ڈھیٹ آدمی تھا اس کی کمر پر کوئی درخت اگ آیا، بجائے اس کے کاٹنے کہ اس نے کہا کہ اچھا ہے اس کی چھائوں میں بیٹھیں گے، ایشو یہ ہے کہ اب اس میں شرم کی کمی ہے، ایک آپ اپوزیشن کو جگہ نہیں دے رہے، انھیں کبھی بھی جمہوری حیثیت حاصل نہیں تھی، میں نے تو بارہا کہا ہے کہ یہ لوگ کبھی بھی جمہوری نہیں تھے،آپ ہی ان کو زور زبردستی جمہوری قرار دیتے تھے۔

رہنما جے یو آئی (ف) حافظ حمد اللہ نے کہا سیمینار تحریک تحفظ آئین پاکستان کی طرف سے تھا جس میں جمیعت علماء اسلام کو بھی دعوت دی گئی تھی، دعوت انھوں نے قبول کی تھی تو جب دعوت قبول کی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ جمعیت علماء اسلام دعوت قبول کر کے تحریک تحفظ آئین پاکستان کا حصہ گئی ہے تو لہذا تحریک تحفظ آئین پاکستان کا حصہ نہیں، ایک مندوب کے حیثیت سے وہاں گئے تو اس الائنس کا وہ اتحادی نہیں ہے تو لہذا جب جمعیت علماء اسلام اس الائنس کی اتحادی نہیں ہے اس کا حصہ نہیں ہے، ہم گئے بطور مندوب، دستخط نہیںکیے کہ ہم الائنس کا حصہ نہیں ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • دہشت گردی کے پیچھے ایک منظم غیر قانونی اسپیکٹرم ہے، آرمی چیف
  • ’’ تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے‘‘
  • رمضان میں غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنا بہت بڑی عبادت ہے،وزیراعظم
  • ٹرمپ اور یوکرینی صدر کے مابین تلخ کلامی:’ہمیں ٹرمپ کی کال آئے تو کہنا اعتکاف میں بیٹھے ہیں‘
  • مصطفیٰ عامر قتل کیس: ملزم ارمغان کے 2 ملازمین کے 164 کے مکمل بیانات کی تفصیل سامنے آگئی
  • ہماری زندگی کا سب سے بڑا تحفہ؛ کیارا اور سدھارتھ خوشی سے نہال
  • شهید سید حسن نصر الله کی نماز جنازہ میں کثیر عوامی شرکت نے دنیا کو حیران کردیا
  • ہمیں فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا جا رہا: عالیہ حمزہ
  • ہم نے کانفرنس کرنے دی، ان کو شکریہ ادا کرنا چاہیے، رانا احسان