زمانہ طالب علمی سے ہی مجھے شہر میں ہونے والے ادبی، سیاسی اور مذہبی مذاکروں، سیمینار اور اجتماعات میں شرکت کا شوق رہا ہے اور آج بھی ہے، اگر معاشی اور نجی مصروفیات کے باعث وقت کی کمی کا مسئلہ درپیش نہ ہو تو میں ان مختلف ادبی، سیاسی اور مذہبی تنظیموں کے پروگراموں میں لازمی شرکت کرتا ہوں۔
ان پروگراموں میں شرکت کی بدولت نہ صرف میرے سماجی شعور میں اضافہ ہوا ہے بلکہ یہ پروگرام میری کردار سازی میں بھی معاون ثابت ہوئے ہیں۔ میں کیونکہ تجسس کا مارا آزاد سوچ کا حامل ہوں، اس لیے مجھے ہر مکتب فکر اور مختلف نظریات کی حامل تنظیموں کے پروگراموں میں شرکت کا موقعہ ملا۔
میں گزشتہ 30 سال سے سیکڑوں مذہبی، سیاسی اور ادبی پروگراموں میں شرکت کر چکا ہوں، میرا یہ ذاتی مشاہدہ ہے کہ ان پروگراموں میں بہت کم یا چند ہی مقررین ایسے ہوتے ہیں جو موضوع کے مرکزی خیال کے اندر رہتے ہوئے تقاریر کرتے ہیں، اکثریت مقررین کی ایسی ہوتی ہے جو پروگراموں میں محض اپنی موجودگی کا احساس دلانے شریک ہوتے ہیں تاکہ ان کے سماجی رتبے میں اضافہ ہو سکے۔
ان پروگراموں اور اجتماعات عام کا مقصد معاشرے میں معاشرے کی رہنمائی کرکے مثبت تبدیلی لانا ہوتا ہے۔ ان افراد کے اس طرز عمل کی بدولت یہ تمام سرگرمیاں اپنی افادیت کھو دیتی ہیں یہ پروگرام علمی بانجھ پن کا شکار ہو کر غیر موثر ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مرکزی خیال کے اندر رہتے ہوئے تقاریرکیسے تحریرکی جائیں۔
میری ذاتی رائے میں تقاریر میں سب سے پہلے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ آپ کا موضوع کیا ہے اور آپ اس موضوع کے متعلق کیا معلومات رکھتے ہیں۔ یہ بات واضح ہونے کے بعد آپ اپنے ذہن میں موضوع سے متعلق سوالات کا ایک خاکہ مرتب کریں۔
دراصل معلومات حاصل کرنے کے لیے ہم سوال کرتے ہیں، سوال کا جواب ملنے پرکئی سوال نکلتے چلے جاتے ہیں۔ سوالات کے 6 زاویے ہوتے ہیں کیا، کون، کب، کہاں، کیسے اورکیوں۔ ان سوالات کی بدولت ہم نامعلوم سے معلوم کی طرف جاتے ہیں، یہ سوالات ابتدائی شعور سے آفاقی شعور تک پہنچاتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ مرکزی خیال کو سامنے رکھ کر ایسے سوالات میں تبدیل کر دیں جن کا جواب دینا ضروری ہے۔
سوالات واضح اور جامع ہوں اور ان کا تعلق موضوع سے ہونا چاہیے جو زیر بحث ہے۔ غیر متعلقہ سوال آپ کو موضوع کے مرکزی خیال سے باہر کر سکتا ہے۔ خیال رہے سوالات کھلے ذہن یعنی آزادی فکر کے ساتھ ہوں اور مفروضوں پر مبنی نہ ہوں۔
سوالات کی ترتیب منطقی ہو، سوالات کی منطقی ترتیب تقریر کو باہم ربط میں لا کر قابل فہم مقدمے میں تبدیل کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کا موضوع ہے ’’ کیا پاکستان میں اسلام کا سیاسی نظام ممکن ہے؟‘‘ اس موضوع کی تیاری کے لیے آپ درج ذیل سوالات کا ایک ذہنی خاکہ تیار کر سکتے ہیں۔
مثلاً سیاست کا مفہوم کیا ہے، نظام کسے کہتے ہیں، دنیا میں کتنے سیاسی نظام رائج ہیں، اسلام کے سیاسی نظام سے کیا مراد ہے، ہمارا انتخاب اسلام کا سیاسی نظام ہی کیوں؟ ہم دنیا میں رائج دیگر سیاسی نظاموں کو کیوں مسترد کرتے ہیں، اسلام کا سیاسی نظام کیوں ضروری ہے۔ مخالفین اس حوالے سے کیا نقطہ نظر رکھتے ہیں، ہمارے پاس ان اعتراضات کے کیا جوابات ہیں۔
اسلام کے نفاذ کے حوالے سے پاکستان میں اس کے نفاذ کی کیا کوششیں ہوئی ہیں یہ کوششیں کامیابی سے ہم کنار کیوں نہ ہو سکیں؟ نفاذ اسلام کی راہ میں کیا مشکلات اور رکاوٹیں ہیں۔ ان کے تدارک کے لیے ہمارا کیا لائحہ عمل ہے۔
اس لائحہ عمل کی کامیابی کس طرح یقینی ہے۔ کیا پاکستان میں اسلام کا نفاذ ممکن ہے؟ یہ سوالات ایک خاص ترتیب ہے، ان سوالات کو سامنے رکھتے ہوئے تمام سوالات کے بہت مختصراً اور مرکزی موضوع اور اس سے متعلقہ سوالات کے جوابات تفصیلی وضاحت کے ساتھ واضح اور جامع انداز میں بیان کریں۔
اسی طرح فرض کریں آپ کا موضوع ہے ’’ کیا مسئلہ فلسطین کا حل ممکن ہے؟‘‘ اس موضوع کی تیاری کے لیے بھی آپ درج ذیل سوالات کا ذہنی خاکہ تیار کر سکتے ہیں۔ مثلاً فلسطین کا تاریخی پس منظر کیا ہے، مسئلہ فلسطین کیا ہے، اس مسئلے کے حوالے سے فلسطینی عوام کیا موقف رکھتے ہیں، اس حوالے سے اسرائیل کا نقطہ نظر کیا ہے، اس مسئلے کو بین الاقوامی دنیا کس نظر سے دیکھتی ہے، امت مسلمہ کی کیا رائے ہے، کیا یہ مسئلہ سیاسی ہے، اگر یہ مسئلہ سیاسی ہے تو اس کے حل کے حوالے سے کیا سیاسی کوششیں کی گئی ہیں، کیا یہ مسئلہ مذہبی ہے، اگر یہ مسئلہ مذہبی ہے تو مذہبی تناظر میں اس کے حل کے لیے کیا کوششیں ہوئیں، مسئلہ فلسطین اب تک کیوں حل نہ ہو سکا۔
اس کے حل میں کیا مشکلات درپیش ہیں، ان مشکلات کے حل کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جانا چاہیے؟ اس لائحہ عمل کی کامیابی کس طرح یقینی ہے،کیا مسئلہ فلسطین کا حل ممکن ہے؟
اس خاکے میں بھی سوالات کی ترتیب ہے، تمام سوالات کے جوابات مختصراً اور مرکزی موضوع اور اس سے متعلقہ سوالات کے جوابات تفصیل سے بیان کریں، اگر آپ چاہیں تو اپنے سننے والوں کو اپنے مرتب کیے گئے سوالات کے خاکے سے ابتدا ہی میں آگاہ کر سکتے ہیں تاکہ آغاز سے اختتام تک سننے والے کی دلچسپی برقرار رہے۔
سوالات کے جوابات کی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو یہ بات معلوم ہوکہ مرکزی خیال کے کلیدی نکات کیا ہیں اور موضوع کے مختلف حصے کیسے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ سوالات کے جو بھی جوابات تیار کیے جائیں ان میں باہمی ربط ہونا ضروری ہے، اس کے علاوہ چند اہم نکات بھی ہیں جن کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔
سب سے پہلے یہ تعین کرلیں کہ آپ کے سامعین کون ہیں، کس گروہ یا طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، مواد کا معیار، الفاظ کا چناؤ اور اسلوب سامعین کی ذہنی سطح کو سامنے رکھ کرکریں، مواد جتنا زیادہ سہل اور آسان ہوگا آپ کی تقریر اتنی ہی متاثرکن ہوگی، تعارفی، پیراگراف پر خصوصی توجہ دیں، مضمون کا تعارفی پیراگراف ہمیشہ یہ سوچ کر لکھیں کہ اس کے ذریعے آپ نہ صرف قاری کو نفس مضمون سے آگاہ کر رہے ہیں بلکہ اسے سننے پر بھی آمادہ کر رہے ہیں۔
تحریر جامع اور مختصر ہو، جامع اور مختصر تقریر لکھنا ایک مشکل کام ہے، یہ کام سمندرکوکوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ ظاہر ہے جس کے پاس سمندر ہی نہیں وہ سمندر کو کوزے میں بند کیسے کرے گا، لہٰذا جامع اور مختصر تقاریر لکھنے کے لیے آپ کا وسیع مطالعہ ہونا ضروری ہے۔تحریر کو آزادی فکر، سچائی اور دلی جذبے کے تحت لکھا جائے، سچائی کے ساتھ، لکھی جانے والی تحریر نہ صرف دلکش ہوتی ہے بلکہ پُراثر بھی۔ لہٰذا تحریر کو سچائی کے ساتھ لکھا جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پروگراموں میں مسئلہ فلسطین سوالات کے جو مرکزی خیال سیاسی نظام سوالات کی لائحہ عمل رکھتے ہیں کو سامنے یہ مسئلہ میں شرکت ضروری ہے حوالے سے موضوع کے اسلام کا کے ساتھ ممکن ہے کے لیے کیا ہے
پڑھیں:
ہم چاہتے کیا ہیں؟
گزشتہ پانچ دہائیوں سے لے کر‘ ملک میں سیاسی ابتری اور سیاسی انجینئرنگ آج بھی ‘ قیامت خیز رفتار سے جاری ہے۔ اس سے پہلے کہ طالب علم ‘ اس نکتہ کو گہرائی سے سامنے رکھے۔
ذہن میں صرف اور صرف ایک سوال ہے کہ ہم اپنے ملک کو کس جانب لے جانا چاہتے ہیں اور ایسا سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ پوری دنیا میں پاکستان کے متعلق‘ محققین اور باخبر لوگوں نے ان گنت کتابیں لکھی ہیں۔ مگر ہم سب کچھ جانتے ہوئے ‘ سمجھتے بوجھتے ہوئے‘ ایک ایسے المناک عملی جمود میں جا چکے ہیں جس سے کوئی بھی خیر برآمد ہونی مکمل طور پر ناممکن ہے۔ کہا تو یہی جاتا ہے کہ مایوسی کفر ہے مگر انسان کی شعوری جبلت کا انحصار‘ اردگرد کے حالات سے جڑا ہوتا ہے۔ جب ملک میں اس قدر مایوسی کا راج ہو ‘ تو کون سا ذی شعور شخص ہے جو جزوی یا مکمل طور پر مایوس نہیں ہو گا۔ یہ معاملہ آج کا نہیں ہے۔ پاکستان کے اوائل کے معاملات سے‘ آج تک سیاسی تنزلی کا سفر جاری و ساری ہے۔
یہ معاملہ کسی طرح بھی رکتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ ایسے معلوم پڑتا ہے کہ ادنیٰ دائروں کا ایک سفر ہے جو تسلسل سے جاری ہے۔ اور یہ ملک کو نیچے کی طرف کھینچتا چلا جا رہا ہے۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ حالات اب زیادہ خراب ہیں۔ غیر متعصب طریقے سے پرکھا جائے تو بدحالی کا یہ سفر‘ بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ مگر نہ ان سیاسی شخصیات کو کٹہرے میں لایا گیا‘ جنھوں نے یہ سب کچھ کیا یا اس کھیل میں شامل رہے۔ اور نہ ہی کبھی معاملات کی تصحیح کی طرف کوئی ٹھوس قدم اٹھایا گیا۔ ایسا سب کچھ کیوں ہے۔ اب سب کو سمجھ آ رہا ہے۔ کون سی غیر سیاسی شخصیات اس کھیل میں شامل تھیں اور آج بھی اسی چلن کی حامل ہیں‘یہ سب کچھ اب ہر خاص و عام کے سامنے کھل کر آ چکا ہے۔
نازک سیاسی معاملات‘ جن کا تعلق ملک کی بقا سے ہو۔ ان پر تجزیہ مکمل طور پر بے لاگ ہونا چاہیے۔ لکھا ری کے قلم کا زاویہ صرف اور صرف سچ کی طرف جھکا رہنا چاہے۔ اس لیے کہ قلم کی طاقت میں اگر کسی بھی وجہ سے سقم آ جائے تو تمام ماحول‘ گدلا ہو جاتا ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ اور سوشل میڈیا وہ دیو ہے جو ہر جھوٹ کو مزید جھوٹ اور سچ کو بھرپور سچ بنانے کی قوت رکھتا ہے۔
نتیجہ یہ کہ اب اہم معاملات کو چھپانا ممکن نہیں رہا۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ حکومت اور اس کے مخالفین کے اپنے اپنے سچ ہیں۔ بہر حال میں اصل نکتہ کی طرف آتا ہوں۔جنرل ایوب وہ پہلا شخص تھا ‘ جو سیاست دانوں کی کمزوریوں اور قباحتوں سے واقف ہوا۔ وہ سیاست دانوں کے بلند بانگ دعوؤں کی اصلیت کو بھی سمجھ چکا تھا۔ غلام محمد اور سکندر مرزا ‘ اس قد کاٹھ کے لوگ نہیں تھے جو ملک کو توانا قیادت دے پاتے۔ وہ بذات خود ‘ حد درجہ کمزور کردار کے مالک تھے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی المیہ تھا کہ قائداعظم کے قریبی ساتھیوں کو سوچی سمجھی اسکیم کے تحت بے توقیر کر دیا گیا تھا۔ ملک کو اس وقت حد درجہ سنجیدہ مسائل کا سامنا تھا۔ مگر اس وقت بھی درباری سازشوں اور ذاتی فوائد کا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔
اس صورت حال کے بالکل متضاد‘ ہندوستان میں اقتدار ان سیاست دانوں کے پاس تھا۔ جنھوں نے ذاتی طور پر برطانوی تسلط کے خلاف سیاسی جدوجہد کی تھی۔ دہائیاں جیلوں میں گزاری تھیں۔ ان کی قیادت سادہ رہن سہن کی عادی تھی۔ انھوں نے ستر برس پہلے ہندوستان کی اساس پختہ بنیادوں پر رکھی۔ مگر ہمارا معاملہ بالکل الٹ تھا۔ ایوب خان کے سیاسی مقاصد سب کو معلوم تھے۔ مگر اس کی بیخ کنی کے بجائے‘ اسے بھرپور طور پر پھلنے پھولنے دیا گیا۔ درباری ریشہ دوانیوںسے تنگ ‘ عوام نے یہ سمجھا ‘ کہ مارشل لاء وہ امرت دھارا ہے‘ جس سے ان کے حالات بہتر ہو جائیںگے۔
ویسے جزوی طور پر یہ ہوا بھی۔ اگر طویل المدت تناسب سے دیکھا جائے تو ملک کے اندر عدم استحکام کی بنیاد اسی جعلی طور پر مستحکم نظام ہی سے برآمد ہوئی۔ ویسے تو مشرقی پاکستان کے سانحہ کو یحییٰ ‘ بھٹو اور مجیب سے منسوب کیا جاتا ہے اور اس میں حقیقت کا عنصر بھی ہے۔ مگر تنقیدی نظر سے دیکھا جائے تو یہ معاملہ ایوب خان کے دور سے ہی جڑا ہوا ہے۔ ایوب خان نے کبھی مشرقی پاکستان کی عوامی سیاسی قیادت کی عزت نہیں کی بلکہ کٹھ پتلی قسم کے گماشتوں سے مشرقی حصہ کو ایک کالونی کی طرح چلانے کی کوشش کی۔ بہرحال ملک تو دو لخت ہو گیا ۔مگر قیامت یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی اور غیر سیاسی عنصر نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
یحییٰ خان کا اقتدار‘ ابتلا کا وہ دور ہے جس سے ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ مگر اس کے ساتھی کون تھے؟ بھٹو اور مذہبی جماعتیں۔ انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بہر حال‘ پاکستان کو مکمل طور پر برباد کرنے کے باوجود بھی کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی۔ بھٹو کا اقتدار مکمل طور پر غیر آئینی تھا۔
کیونکہ ان کے پاس پاکستان پر حکومت کرنے کا مینڈیٹ تھا ہی نہیں۔ حق حکمرانی تو شیخ مجیب کے پاس تھا۔ مگر اسے حکومت نہ دی گئی ملک کا بٹوارہ قبول کر لیا گیا۔ میرا مقصد قطعاً یہ نہیں ہے کہ وہ حقائق آپ کے سامنے رکھوں جو تقریباً ہر ایک کے علم میں ہیں۔ مگر میرا سوال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ ہم تیس چالیس برس پہلے کیا چاہتے تھے اور آج کیا چاہتے ہیں؟ مجھے اپنے اس سوال کا کسی قسم کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ جتنا مرضی مطالعہ کروں‘ کچھ بھی پلے نہیں پڑتا کہ مقتدرہ دراصل چاہتی کیا ہے؟
تھوڑا سا آگے چلیے تو آپ کو ضیاء الحق جیسا کردار ملک کے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔ دراصل‘ ہمارا آج کا پورا نظام‘ ضیاء الحق کے پیروکاروں کے قبضے میں معلوم پڑتا ہے۔ پنجاب میں ایک ایسے کاروباری خانوادے کو بڑھاوا دیا گیا جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پنجاب کی حد تک تو مجھے یہ نکتہ صائب نظر آتا ہے کہ ایک ایسی قیادت کو تخلیق کیا گیا جو اس کی میرٹ پر اہل نہیں تھی۔ اس پر دو آراء ہو سکتی ہیں۔ اب اس حقیقت کو بیان کرنا بھی مشکل ہے کیونکہ پنجاب جو کہ اقتدار کا اصل مرکز ہے وہاں اقتدار‘ اسی خانوادے کی دوسری پیڑھی کو سونپ دیا گیا ہے۔
معاملہ جو پہلے تھا‘ وہ جوں کا توں آج بھی ہے۔ پرویز مشرف نے بھی سیاسی نظام کو بے حد نقصان پہنچایا اور اس کے دور میں بھی سیاست دانوں کو بے وجہ تذلیل کا نشانہ بنایا گیا۔ ستر سال کے منفی معاملات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ چہرے بدل جاتے ہیں مگر مکروہ کھیل ویسے ہی جاری و ساری رہتا ہے۔
دراصل سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لیڈر یا قائد‘ مصنوعی طور پر پیدا نہیں کیے جا سکتے ۔ جعلی نرسری میں لیڈر ٹائپ مخلوق کی نمو تو ہو سکتی ہے مگر جمہوری نظام کو مضبوط کر کے‘ اصل عوامی قیادت ہی مہیب مسائل کا حل ہے ۔ بلکہ یہ واحد حل ہے۔ اندازہ ہے کہ میری اس بات یا تجویز کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ریاستی اداروں اور عام لوگوں کے درمیان ذہنی خلیج بڑھتی چلی جا رہی ہے، اسے مصنوعی طریقوں سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ بین الاقوامی سطح پر معاملہ اور بھی سنگین ہے۔
امریکا کی نئی انتظامیہ ہمارے ملک کے متعلق کس سوچ کی حامل ہے یہ سب کو معلوم ہے۔ اور اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ امریکا سے جو فکر اور سوچ‘ ہمارے متعلق برملا ظاہر کی جا رہی ہے اس کا جواب بالکل نہیں دیا جا رہا، آنے والے دنوں میں یہ معاملہ مزید بگاڑکی طرف جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ بین الاقوامی دباؤ ‘ حد درجہ نقصان پہنچا دے۔ ہمیں خود ‘ نازک ترین معاملات پر‘ افہام و تفہیم سے کسی منطقی حل کی طرف جانا چاہیے۔ ہمارے ہمسایہ ملک اندرونی خلفشار کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ قرائن بھی یہی ہیں کہ ہندوستان اور ٹی ٹی پی ہمارے خلاف متحد نظر آتے ہیں۔ حل صرف اور صرف ریاستی اداروں کے پاس ہے۔ بہت زیادہ وقت گزر چکا ہے۔ گھاؤ بہت گہرے ہیں ان پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔ معاملہ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اس کا فیصلہ‘ آنے والا وقت ہی کرے گا!