Islam Times:
2025-04-16@15:24:25 GMT

نیتن یاہو اور شام کا جنوبی علاقہ

اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT

نیتن یاہو اور شام کا جنوبی علاقہ

اسلام ٹائمز: بینجمن نیتن یاہو نے حال ہی میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ گولان کی پہاڑیوں کیساتھ واقع شام کا سابقہ ​​علاقہ، جسے 1974ء سے غیر فوجی زون قرار دیا گیا تھا، اب ہمیشہ کیلئے اسرائیل کا حصہ رہے گا۔ صیہونی وزیر خارجہ گیڈون سار نے بھی دمشق پر حملوں کا دفاع کیا ہے۔ اس صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ صیہونی فوجی جنوبی شام پر قبضے کیلئے پرعزم ہیں اور اگر شامی حکومت نے سنجیدہ اقدام نہ کیا تو قابض صہیونی افواج کا جنوبی شام کے اس حصے پر غیر معینہ مدت تک قبضہ ہونے کا امکان بڑھ جائیگا۔ تل ابیب نے ابھی تک ایسا کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ اسرائیلی فوج شام سے انخلاء کا ارادہ رکھتی ہے۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی

شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد صیہونی حکومت نے شام کی سرزمین پر متعدد جارحیتیں کی ہیں۔ حال ہی میں اسرائیلی جنگی طیاروں نے یکے بعد دیگرے چار حملوں میں دمشق کے جنوب مغرب میں واقع ایک فوجی اڈے اور جنوبی شام کے صوبہ درعا کے شہر "ازرع" میں ایک فوجی ہیڈ کوارٹر پر بمباری کی۔ شامی ٹیلی ویژن، مقامی رہائشیوں اور ایک سکیورٹی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے گذشتہ ہفتے شام کے دارالحکومت کے جنوبی علاقے کے ساتھ ساتھ جنوبی صوبے درعا کو بھی نشانہ بنایا، جس میں کم از کم دو افراد جابحق ہوئے۔

نیتن یاہو کے خلاف مظاہروں کے بعد شام پر حملہ
گذشتہ ہفتے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے بیانات کے خلاف شام کے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ مظاہروں کے چند گھنٹے بعد جنوبی شام پر اسرائیلی فضائی حملے کئے گئے۔ یاد رہے کہ نیتن یاہو کے بیان میں کہا گیا تھا کہ تل ابیب نئی حکومت کی افواج کو دمشق کے جنوب میں ہرگز تعینات نہیں ہونے دے گا۔اسی تناظر میں گذشتہ دنوں درعا، قنیطرہ اور سویدا کے صوبوں کے مختلف علاقوں میں اسرائیلی فوج کی جارحیت کے خلاف شامی عوام کی احتجاجی ریلیاں دیکھنے میں آئیں۔ صیہونی جارحیت کی وجہ سے شامی عوام کے غم و غصے میں اضافہ ہوا ہے اور شام کے مختلف علاقوں میں اسرائیل کے خلاف مظاہروں کی متعدد رپورٹیں شائع ہوئی ہیں۔

مظاہرین شام کی حکومت، بین الاقوامی اداروں اور عالمی برادری سے جنوبی شام میں اسرائیلی فوج کی جارحیت کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے اور شام کے اتحاد کی حمایت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دمشق میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے صیہونیوں نے شام پر 400 سے زائد بار حملہ کیا ہے اور اقوام متحدہ کے احتجاج کے باوجود 1974ء سے شام اور فلسطین کو الگ کرنے والے بفر زون پر فوجی حملہ کیا۔ دوسری جانب صیہونی برسوں سے ایرانی فوجی اہداف کو تباہ کرنے کے دعوے اور بہانے سے شام پر اپنے حملوں اور جارحیت کو جواز بنا رہے ہیں۔ تاہم شام کی موجودہ حکومت اور ایرانی حکام دونوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام میں فی الحال کوئی ایرانی فوجی دستے موجود نہیں ہیں۔
 
اسرائیلی فوجی حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کی توجہ شام کے فوجی ڈھانچے کو تباہ کرنے پر ہے۔ تل ابیب کا دعویٰ ہے کہ وہ "شدت پسندوں" کو شامی فوج کے ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم یہ عذر زیادہ قابل اعتبار نہیں لگتا، کیونکہ اس بات کے کافی شواہد اور دستاویزات موجود ہیں کہ اسرائیل نے گذشتہ برسوں میں بشار الاسد کی حکومت کے دور میں انتہاء پسند اور باغی مسلح گروہوں کو نمایاں مدد فراہم کی تھی۔ بشار الاسد حکومت کے دوران اسرائیلی اسپتالوں اور طبی مراکز میں شامی دہشت گردوں کا باقاعدہ علاج معالجہ ہوتا تھا۔ ان انتہاء پسند اور بنیاد پرست گروہوں کے ارکان کے علاج اور دیکھ بھال کی کچھ تصاویر بھی منظر عام پر آئی تھیں۔ تل ابیب شام کے مسلح باغی گروپوں کی حمایت میں بڑی سنجیدگی سے کوشش کرتا رہا ہے۔ لہذا شام میں باغی گروپوں کو ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کی کوشش کے بارے میں اسرائیلی حکام کا دعویٰ حقیقت سے زیادہ مطابقت نہیں رکھتا۔

شام کے کن کن علاقوں پر قبضہ ہے اور کن علاقوں پر بمباری کی جاتی ہے؟
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے، جن میں ہتھیاروں کے ڈپو، گولہ بارود کے ڈپو، ہوائی اڈے، بحری اڈے اور شامی فوجی تحقیقی مراکز شامل ہیں۔ اسرائیلی حکومت نے شام اور مقبوضہ فلسطین کو الگ کرنے والے گولان کی پہاڑیوں کے ساتھ بفر زون میں بھی فوجی یونٹ تعینات کر رکھے ہیں۔ اس علاقے کو 1974ء میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے میں باضابطہ طور پر غیر فوجی زون کا نام دیا گیا تھا۔ صیہونیوں نے اب گولان کی پہاڑیوں کے تقریباً دو تہائی حصے پر قبضہ کر رکھا ہے اور اقوام متحدہ کے زیرانتظام ایک تنگ پٹی میں 400 مربع کلومیٹر (154 مربع میل) کو اپنے دیگر مقبوضہ علاقوں میں شامل کر لیا ہے۔

شامی سکیورٹی فورسز نے اسرائیلی ٹینکوں کی گولان کی پہاڑیوں سے قطنا کی طرف پیش قدمی کی بھی اطلاع دی، جو شامی علاقے میں 10 کلومیٹر (چھ میل) اندر اور شامی دارالحکومت کے کافی قریب ہے۔ دمشق پر 100 سے زائد حملوں کے علاوہ، صہیونیوں کی جانب سے مشرق میں المیادین، شمال مغرب میں طرطوس اور مسیاف، لبنان کے ساتھ واقع قصیر کراسنگ اور جنوب میں خلخالہ فوجی ہوائی اڈے پر  بھی حملے کیے گئے۔ دوسری طرف شامی حکومت کا ان حملوں پر ردعمل اب تک صرف زبانی مذمت تک محدود رہا ہے اور دمشق میں برسراقتدار جولانی حکومت نے جنوبی شام کے خلاف صیہونی جارحیت کے تسلسل کو روکنے کے لیے ابھی تک کوئی موثر کارروائی نہیں کی ہے۔

شام پر قبضہ کرنا تل ابیب کا اصل ہدف ہے
بینجمن نیتن یاہو نے حال ہی میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ گولان کی پہاڑیوں کے ساتھ واقع شام کا سابقہ ​​علاقہ، جسے 1974ء سے غیر فوجی زون قرار دیا گیا تھا، اب ہمیشہ کے لیے اسرائیل کا حصہ رہے گا۔ صیہونی وزیر خارجہ گیڈون سار نے بھی دمشق پر حملوں کا دفاع کیا ہے۔ اس صورت حال میں ایسا لگتا ہے کہ صیہونی فوجی جنوبی شام پر قبضے کے لیے پرعزم ہیں اور اگر شامی حکومت نے سنجیدہ اقدام نہ کیا تو قابض صہیونی افواج کا جنوبی شام کے اس حصے پر غیر معینہ مدت تک قبضہ ہونے کا امکان بڑھ جائیگا۔ تل ابیب نے ابھی تک ایسا کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ اسرائیلی فوج شام سے انخلاء کا ارادہ رکھتی ہے۔

حتیٰ کہ بعض اسرائیلی حکام نے تو ایسے دعوے کیے ہیں، جو صہیونیوں کے جنوبی شام پر قبضے کے بارے میں ان کے ارادوں اور نیتوں کو واضح کرتے ہیں۔ ایک اہم اسرائیلی سیاست دان بینی گینٹز نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ جنوبی شام میں اسرائیل کی فوجی موجودگی اسرائیل کے لیے ایک تاریخی موقع ہے۔ انہوں نے کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) میں اپنے ساتھیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ "شام میں دروز، کردوں اور دیگر گروہوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دیں۔" ٹائمز آف اسرائیل نے اسرائیلی فوج کے ایک سابق رکن کا انٹرویو کیا ہے، جس میں اسرائیلی فوجی نے شام کو چھاؤنیوں کی ایک سیریز میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی۔

اسرائیلی فوجی اہلکار کا یہ حوالہ واضح طور پر شام کی تقسیم پر زور دیتا ہے اور اس صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ جنوبی شام پر قبضے کے لیے صیہونیوں کا پہلا قدم ملک کے جنوب میں واقع دروز آبادی والے علاقے کو تقسیم کرنے کی کوشش ہے، تاکہ اگلے مرحلے میں ان علاقوں کو دوسرے علاقوں سے الحاق کرنے کی تیاریاں کی جا سکیں۔ بہرحال جنوبی شام میں مقبول اپوزیشن کے ساتھ ساتھ جنوبی شام میں اسرائیلی حکومت کی موجودگی پر عالمی برادری کی مخالفت ممکن ہے، اس علاقے میں صیہونیوں کے مزموم مقاصد کے حصول میں رکاوٹ بن سکے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج میں اسرائیلی جنوبی شام کے میں اسرائیل کے خاتمے کے کہ اسرائیل بشار الاسد نیتن یاہو حکومت کے حکومت نے کی حکومت گیا تھا اور شام کے خلاف تل ابیب کے ساتھ کے جنوب کے بعد کے لیے کیا ہے شام کی ہے اور

پڑھیں:

شامی ڈاکٹر وطن میں مفت علاج کرنے کے لیے جرمنی سے جانے لگے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اپریل 2025ء) جرمنی کے ایک حالیہ طبی مشن نے شام میں محمد قنبت کی جان بچائی، جن کا تعلق شام کے شہر حما سے ہے۔ اس وقت 55 سالہ قنبت کی اپریل میں اوپن ہارٹ سرجری ہوئی تھی۔ یہ علاج کا ایک ایسا طریقہ ہے، جو شام میں ان دنوں شاذ و نادر ہی کیا جاتا ہے کیونکہ ملک کی 14 سالہ خانہ جنگی کے دوران صحت کا نظام بری طرح تباہ ہو چکا ہے اور یہ بہت مہنگا بھی ہو گیا ہے۔

لیکن حال ہی میں جرمنی سے آنے والے شامی ڈاکٹروں نے قنبت کو اپنے انتہائی ضرورت مند مریضوں کی فہرست میں شامل کر لیا۔

قنبت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں بیان نہیں کر سکتا کہ میں کتنا خوش اور شکر گزار ہوں۔‘‘

انہوں نے اس حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے کہ بہت سے شامی جنگ کے دوران اپنے ملک سے رخصت ہو گئے تھے، کہا، ’’اس کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

ہم نے اپنے بچوں کے آنے اور ہماری مدد کرنے کا بہت انتظار کیا۔ لیکن وہ ہمیں بھولے بھی نہیں۔ وہ ہماری مدد کے لیے واپس آئے ہیں۔‘‘

جرمنی سے مہاجرین کی عجلت میں واپسی غیر ضروری، شامی وزیر خارجہ

ابھی تک یہ واضح نہیں کہ جنگ کے دوران کتنے شامی ڈاکٹروں نے ملک چھوڑا تھا۔ تاہم ورلڈ بینک کے مطابق ان عوامی مظاہروں سے ایک سال قبل جو خانہ جنگی کا باعث بنے، سن 2010 میں 30,000 کے قریب ڈاکٹروں نے شامی آبادی کی خدمت کی تھی۔

اقوام متحدہ نے اس دوران 2020 میں پہلی بار جو ڈیٹا اکٹھا کیا تھا، اس کے مطابق ملک میں 16,000 سے بھی کم ڈاکٹر رہ گئے تھے اور بہت سی نرسیں، فارماسسٹ اور ڈینٹسٹ اور دیگر طبی کارکن ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔

ان میں سے بہت سے ڈاکٹروں نے جرمنی میں پناہ لے لی تھی اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 6,000 شامی ڈاکٹر جرمنی کے مختلف ہسپتالوں میں کام کرتے ہیں۔

تاہم یہ صرف وہی ڈاکٹر ہیں، جن کے پاس شامی پاسپورٹ ہیں۔ اصل میں جرمنی میں 10,000 سے زیادہ شامی ڈاکٹر ہو سکتے ہیں، کیونکہ اب بہت سے ایسے لوگوں کے پاس جرمن پاسپورٹ ہیں، اس لیے انہیں غیر ملکی عملے کے طور پر شمار نہیں کیا جاتا۔ شام میں پہلا طبی مشن

گزشتہ برس دسمبر کے اوائل میں شامی آمر بشار الاسد کی معزولی کے بعد جرمنی میں مقیم شامی ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد نے شامی جرمن میڈیکل ایسوسی ایشن (ایس جی ایم اے) کی بنیاد رکھی۔

جرمنی کے شہر کریفیلڈ کے ہیلیوس ہسپتال میں کام کرنے والے ایک سینیئر فزیشن نور حضوری نے بتایا کہ یہ سب ڈاکٹروں کے ایک چھوٹے سے واٹس ایپ گروپ کے ساتھ شروع ہوا، جو یہ سوچ رہے تھے کہ آخر وہ کس طرح اپنے ہم وطن لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں۔

شامی باشندے اب جرمنی سے واپس جائیں، سابق جرمن وزیر خزانہ

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ پھر واٹس ایپ گروپ ایک فیس بک پیج میں تبدیل ہوا اور پھر جنوری کے وسط میں ایس جی ایم اے کی باضابطہ بنیاد رکھی گئی۔

اب اس کے ارکان کی تعداد 500 کے قریب ہے۔ ’’ہم سب خود بھی واقعی حیران ہوئے کہ یہ سب کچھ کتنی تیزی سے بڑھتا گیا۔‘‘

ایس جی ایم اے کے اراکین نے اپنا پہلا ہوم مشن اپریل کے اوائل سے شروع کیا اور فی الوقت تقریباً 85 شامی ڈاکٹر شام میں تعلیم کے حوالے سے لیکچر دے رہے ہیں۔ وہ شام میں صحت عامہ کی دیکھ بھال کے نظام کی حالت کا جائزہ لے رہے ہیں اور ملک بھر میں طبی آپریشن کر رہے ہیں۔

ایک سینیئر فزیشن اور جرمن ریاست باویریا کے باڈ نوئے شٹڈ میں رون کلینک میں کام کرنے والے ماہر امراض قلب ایمن سودہ نے حما میں آپریشن تھیٹر سے نکلتے ہوئے الجزیرہ ٹی وی کو بتایا، ’’شام کے ہسپتالوں میں فی الوقت سب سے بڑا چیلنج طبی آلات کا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا، ’’یہ واضح ہے کہ گزشتہ 15 سالوں کے دوران کچھ بھی نیا نہیں کیا گیا۔

‘‘

جرمنی: انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف آپریشن، ایک سو سے زائد شامی باشندے بازیاب

واشنگٹن کے بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے مطابق جنگ سے پہلے تک شام ایک درمیانی آمدنی والا ملک تھا، جس میں صحت کا نسبتاً اچھا نظام تھا۔ لیکن جنگ کے دوران اسد حکومت اور اس کے روسی اتحادی نے صحت کی سہولیات کو باقاعدگی سے نشانہ بنایا۔ پھر پابندیوں اور بیمار معیشت کی وجہ سے صحت کا نظام مزید بگڑ گیا۔

شام کے دارالحکومت دمشق کے ایک ہال میں گزشتہ اتوار سے پہلے تک کوئی بھی اس کے بارے میں بات تک نہیں کر رہا تھا۔ تاہم اب اس میں تقریباً 300 لوگ، جن میں متجسس میڈیکل طلبا، مقامی حکام اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں شامل ہیں، ایس جی ایم اے کے وفد کی باتیں سننے کے لیے جمع ہوئے، جو بہت پر امید تھے۔

جرمنی کے شہیر بریمر ہافن کے ایک ہسپتال کے نیفرولوجی کے شعبے کے ایک سینیئر ڈاکٹر مصطفیٰ فہم نے دمشق میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں کافی پرجوش محسوس کر رہا ہوں۔

ہر شامی کے ذہن میں ایک خوف تھا، جو اسد کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ اب وہ خوف ختم ہو گیا ہے۔ اس لیے میں اچھا محسوس کر رہا ہوں اور میں یہاں دمشق میں آ کر خوش ہوں، جہاں میں شام کے صحت عامہ کے نظام کی مدد کرنے کے قابل ہوں۔‘‘

حضوری نے کہا، ’’اس حالیہ مشن کا خیال اس لیے آیا، کیونکہ بہت سے ڈاکٹر شام میں اپنے اہل خانہ سے ملنے جانا چاہتے تھے، جن میں سے کچھ نے تو اپنے اہل خانہ کو 14 برسوں سے نہیں دیکھا تھا۔

‘‘

اس مشن کا آغاز ایک آن لائن سوالنامے سے ہوا اور ایک ہفتے کے اندر ہی 80 سے زیادہ رضاکاروں نے سائن اپ کر لیا۔

حضوری نے تسلیم کیا کہ شام کے کچھ حصوں میں سکیورٹی اب بھی ایک مسئلہ ہے، اس لیے ڈاکٹر ہر جگہ کام نہیں کر سکتے۔ ’’لیکن حقیقت میں سب سے بڑا چیلنج اشیاء اور سامان کی قیمت تھی۔‘‘

انتیس سالہ شامی مہاجر جرمن گاؤں کا میئر منتخب

مددگار شراکتیں

حضوری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان شامی رضاکاروں نے سفر کی ادائیگی اور طبی آلات کے لیے رقم خود ہی جمع کی۔

وہ کہتے ہیں، ’’بہت سے لوگ اپنے کلینکوں سے عطیات لے کر آئے۔ اسی وقت ہم نے ایک آن لائن فنڈ جمع کرنے کی مہم بھی شروع کی، جس کے ذریعے ہم ایک ماہ کے اندر اندر تقریباً ایک لاکھ یورو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ رقم بھی زیادہ تر جرمنی میں شامی ڈاکٹروں نے مہیا کی جبکہ مقامی شامی این جی اوز نے بھی مادی عطیات میں ہماری مدد کی۔

‘‘

اس تنظیم کو ابھی تک جرمن حکومت کی طرف سے کوئی سرکاری مدد نہیں ملی۔ تاہم ایس جی ایم اے کے اراکین نے فروری کے وسط میں جرمن-شامی ہسپتال سے متعلق ایک کانفرنس میں شرکت کی تھی، جس سے ممکنہ شراکت داری کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔

شام میں ملکی وزارت صحت بھی مددگار رہی ہے، جس نے ایس جی ایم اے کے ڈاکٹروں کو کام کرنے کے اجازت نامے فراہم کیے۔

شام کے نئے وزیر صحت اور نیورو سرجن مصعب العلی بھی پہلے جرمنی میں کام کر چکے ہیں۔

جرمنی: شامی مہاجرین کی واپسی پر عائد پابندی ختم

گھر کا احساس کہاں ہوتا ہے شام یا جرمنی میں؟

ایس جی ایم اے کے زیادہ تر طبی رضاکار جرمنی میں اپنی ملازمتوں پر واپس جائیں گے۔ تاہم جرمنی میں سیریئن ایسوسی ایشن فار ڈاکٹرز اینڈ فارماسسٹس کے ایک حالیہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ اس کے 76 فیصد اراکین مستقل طور پر اپنے وطن شام واپس جانے پر غور کر رہے ہیں۔

جرمن میڈیا کے ساتھ حالیہ انٹرویوز میں شامی ڈاکٹر باقاعدگی سے انتہائی دائیں بازو اور امیگریشن مخالف رویوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

ان کے جانے سے جرمنی میں صحت کی خدمات پر نقصان دہ اثر پڑ سکتا ہے۔ اگرچہ شامی ڈاکٹر جرمنی میں تمام ڈاکٹروں میں سے صرف دو فیصد ہیں، لیکن وہ مشرقی جرمنی کے ہسپتالوں اور کلینکوں میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

بریمر ہافن کے ہسپتال کے ڈاکٹر فہم نے دمشق میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمیں جرمنی کا بھی خیال ہے اور یقیناً تمام ڈاکٹر ایک ساتھ نہیں جائیں گے۔ دوسری طرف ہم شام کے ساتھ اپنی وفاداری بھی محسوس کرتے ہیں۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ ہم کوئی ایسا منصوبہ بنا سکتے ہیں، جس کے تحت ہم یہاں مدد بھی کر سکتے ہوں اور جرمنی میں صحت کی دیکھ بھال کا احاطہ بھی کیا جا سکتا ہو۔

‘‘

مہاجرت سے کامیاب فوٹوگرافر بننے کا سفر

درحقیقت شام میں SGMA کے لیکچر صرف طبی اپ ڈیٹس پر نہیں تھے۔ کچھ مقررین طبی طالب علموں یا ڈاکٹروں کو بھی مشورہ دینا چاہتے تھے جو جرمنی میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات معاذ المعاروی نے کہی جو جرمن شہر گیلزن کرشن میں کام کرنے والے ایک ایسے ڈاکٹر ہیں، جو ایس جی ایم اے کی طرف سے دمشق میں تھے۔

ایس جی ایم اے سے وابستہ شامی ڈاکٹر معاذ المعاروی کہتے ہیں، ’’شام کو اپنے ہیلتھ سیکٹر کی تعمیر نو کے لیے اس وقت بہت مدد کی ضرورت ہے۔ لیکن جرمنی کو بھی شامی ڈاکٹروں اور طبی عملے کی ضرورت ہے۔ ہم شام اور جرمنی کے درمیان ایک ایسا پل بننا چاہتے ہیں، جس سے دونوں ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہوں۔‘‘

ص ز/ م م (عمر البام دمشق سے/ کیتھرین شائر)

متعلقہ مضامین

  • شامی ڈاکٹر وطن میں مفت علاج کرنے کے لیے جرمنی سے جانے لگے
  • اسرائیلی فوج فرار کے لیے تیار 
  • فرانسیسی صدر کا نیتن یاہو کو دو ٹوک پیغام: غزہ کی تباہی بند کرو، جنگ بندی ہی حل ہے
  • حافظ نعیم کا سفیرہنگری کو خط، نیتن یاہو کو دورہ کی دعوت پر احتجاج 
  • حافظ نعیم کا ہنگری کے سفیر کو خط، اسرائیلی وزیراعظم کو مدعو کرنے پر احتجاج
  • غزہ کے شہریوں کی تکالیف کا ’خاتمہ ہونا چاہیے،‘ فرانسیسی صدر
  • شامی تعمیرِ نو کے لیے مدد دینا چاہتے ہیں: یو اے ای صدر کا اعلان
  • الخلیل میں فلسطینی شخص نے گاڑی اسرائیلی فوجی پر چڑھا دی
  • جہاد کا فتوی، نیتن یاہو اینڈ کمپنی میں کہرام
  • مذاکرات کے باوجود شام میں اسرائیل اور ترکیہ کے درمیان تصادم کا خطرہ ، ترک تجزیہ نگار عبد اللہ چفتچی کا انکشاف