Islam Times:
2025-03-01@20:07:01 GMT

جنگ میں ناکامی، صیہونی فوج کی زبانی

اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT

جنگ میں ناکامی، صیہونی فوج کی زبانی

اسلام ٹائمز: زندہ بچ جانے والے صیہونیوں نے حملے کے بعد اپنے فوجیوں کے ذریعے بچائے جانے کا طویل انتظار کیا۔ اپنے کچھ ابتدائی نتائج شائع کرنے سے ایک دن قبل صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے، اسرائیلی فوجی حکام نے بتایا کہ یہ ناکامی حماس کی صلاحیتوں اور ارادوں کے بارے میں غلط مفروضوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ کچھ فوجی حکام نے اس ناکامی کا سبب درست انٹیلی جنس کا "نشہ" بتایا ہے، یہ ناکامی کیوجہ انٹیلیجنس کی کمی اور نقص تھا۔ حماس کے بارے میں غلط نظریہ اسرائیلی انٹیلی جنس حلقوں اور اعلیٰ فوجی کمان کے اندر بڑی حد تک چیلنج نہیں ہوسکا تھا اور اس کی وجہ سے ناکامیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔  تنظیم و ترتیب: علی احمدی

خبر رساں ادارے A.

B نے صیہونی عسکری ذرائع کو نقل کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی رہنما شہید یحییٰ سنوار نے 2016 یا 2017 سے ہی طوفان الاقصیٰ کی تیاری شروع کر دی تھی۔ صیہونی عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس حماس کے مجاہدین کی جانب سے 8 نقاط سے دراندازی کی اظلاع تھی، لیکن وہ 60 مقامات سے داخل ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے 7 اکتوبر 2023 کی زبردست فوجی اور انٹیلی جنس ناکامی کے بارے میں اپنی داخلی تحقیقات کے  نتائج پہلی بار جاری کئے ہیں۔ جن میں بتایا گیا کہ کس طرح سینئر افسران نے حماس کو بہت کمزور سمجھا اور پھر ابتدائی انتباہات کی غلط تشریح کی۔

فوج کہاں تھی؟
نیویارک ٹائمز کے مطابق فوج کی تحقیقاتی رپورٹ میں ان استفسارات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے، جنہوں نے اسرائیل کو اس دن سے پریشان کر رکھا ہے، جب حماس کے زیرقیادت ہزاروں بندوق برداروں نے اسرائیلی کیمونٹی، فوجی اڈوں اور ایک میوزک فیسٹیول پر دھاوا بول دیا تھا۔ حکام کے سامنے سوال یہ تھا کہ فوج کہاں تھی؟ اسرائیلی فوجی حکام کے مطابق انہوں نے فوج کے انٹیلی جنس جمع کرنے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے حملے کے ردعمل کی چھان بین میں دسیوں ہزار گھنٹے صرف کیے۔ یہ حملہ جس میں تقریباً 1200 افراد، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، ہلاک اور 250 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا، یہ ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں کے لیے سب سے خطرناک دن تھا۔

درست انٹیلی جنس کا نشہ
رپورٹ کے مطابق زندہ بچ جانے والے صیہونیوں نے حملے کے بعد اپنے فوجیوں کے ذریعے بچائے جانے کا طویل انتظار کیا۔ اپنے کچھ ابتدائی نتائج شائع کرنے سے ایک دن قبل صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے، اسرائیلی فوجی حکام نے بتایا کہ یہ ناکامی حماس کی صلاحیتوں اور ارادوں کے بارے میں غلط مفروضوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ کچھ فوجی حکام نے اس ناکامی کا سبب درست انٹیلی جنس کا "نشہ" بتایا ہے، ناکامی کیوجہ انٹیلیجنس کی کمی اور نقص ہی تھا۔ حماس کی طاقت کے بارے میں غلط اندازہ اسرائیلی انٹیلی جنس حلقوں اور اعلیٰ فوجی کمان کے اندر بڑی حد تک چیلنج نہیں ہوسکا تھا اور اس کی وجہ سے ناکامیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

خالص فوجی تحقیقات
اس انکوائری میں ناکامی کی وجوہات کا جائزہ لیا گیا ہے، ان اسباب میں حملے کے پہلے گھنٹوں میں ناگہان طور پر پیدا ہونیوالی افراتفری کا تاخیر سے دیا جانیوالا فوجی جواب بھی شامل تھا، جب حماس کی طرف سے غزہ کی سرحد پر تعینات فوجیوں کو تیزی سے مغلوب کیا گیا اور فوج کی جنوبی کمان اور غزہ ڈویژن کو زیر کر لیا گیا۔ فوجی اور انٹیلی جنس ناکامیوں کے نتائج بڑی حد تک مقامی اور بین الاقوامی نیوز میڈیا کی تفصیلی تحقیقات سے مماثل ہیں۔ اسرائیلی فوجی حکام نے کہا ہے کہ اب فوج احتساب کی خاطر ان واقعات کا اپنا ورژن پیش کر رہی ہے۔

صیہونی فوج نے اپنی تحقیقات کو دیگر اداروں کے ساتھ مربوط نہیں کیا، جیسے کہ شن بیٹ کی داخلی سلامتی ایجنسی، جو غزہ میں انٹیلی جنس جمع کرنے کے لیے بھی ذمہ دار ہے، یا پولیس وغیرہ۔ فوج نے برسوں کی حکومتی پالیسی اور فیصلہ سازی پر بھی توجہ نہیں دی، جس کی وجہ سے حملہ ہوا تھا۔ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایک آزاد کمیشن کے وسیع عوامی مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے بارہا کہا ہے کہ وہ جنگ کے بعد سخت سوالات کا جواب دیں گے، جس کے ذریعے ذاتی طور پر کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے۔ فوج کی اندرونی انکوائریوں کا مقصد انفرادی ذمہ داری کا پتہ لگانا نہیں تھا، یہ بعد میں اسرائیل کے نئے فوجی چیف آف اسٹاف، ایال ضمیر کے تحت ہوسکتا ہے، جو مارچ کے اوائل میں لیفٹیننٹ جنرل ہرزی حلوی کی جگہ لے رہے ہیں۔

حماس کی کامیاب رزاداری جنرل حلوی کا کہنا تھا کہ اصل مقصد شکست سے سبق سیکھنا ہے۔ جنرل حلوی نے اسرائیلیوں کی حفاظت میں اپنی کمان میں فوج کی ناکامی کی ذاتی طور پر ذمہ داری قبول کی ہے اور انہوں نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔ اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ ہارون حلیوا نے بھی 2024 میں اسرائیلی فوج کی غزہ بریگیڈ کے سربراہی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں مزید استعفے متوقع ہیں۔ فوج کے مطابق حماس حالیہ برسوں میں اسرائیل کو یہ باور کروا کر دھوکہ دینے میں کامیاب رہی کہ وہ غزہ میں پرسکون ہے اور صرف معاشی حالات کو بہتر بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
اس دھوکے میں رہتے ہوئے صیہونی فوج نے بنیادی طور پر اپنے وسائل ایران اور لبنانی عسکریت پسند گروپ حزب اللہ پر مرکوز کیے رکھے، جو دونوں ہی اسرائیل کے مضبوط دشمن ہیں۔ اسی غفلت کیوجہ سے حماس کے حملے کے بارے میں کچھ بھی پیشگی اقدام نہیں کیا گیا تھا۔ فوج نے ان رپورٹوں کو تسلیم کیا ہے کہ اسے 2022 تک حماس کے آپریشنل حملے کا منصوبہ مل گیا تھا جس کا کوڈ نام "جیریکو وال" تھا، جس کا آئیڈیا ابتدائی طور پر 2016 میں پیش کیا جا چکا تھا، حماس کو ضروری تیاری میں وقت لگا، جو اسرائیل کو معلوم نہیں تھا۔ تقریباً 40 صفحات پر مشتمل فوجی انکوائری کی دستاویز میں 7 اکتوبر کو ہونے والے تباہ کن حملے کی نوعیت کی نشاندہی کی گئی ہے۔

اہم نتائج کے تحریری خلاصے میں فوج نے کہا ہے کہ "7 اکتوبر سے پہلے معلومات کو عام طور پر ایک غیر حقیقی یا طوفان الاقصیٰ کو ناقابل عمل منصوبے کے طور پر غلط سمجھا گیا۔" فوج نے اندازہ لگایا تھا کہ حماس کی طرف سے لاحق خطرہ سرحد کے ساتھ 4 سے 8 پوائنٹس تک محدود تعداد میں چھاپوں کی حد تک ہے، یہ بھی اندازہ غلط تھا کہ حملے کے دوران ہزاروں نہیں درجنوں عسکریت پسند شامل ہوں گے۔ یہ بھی ایک غلط اسرائیلی مفروضہ تھا کہ حماس کسی بھی بڑی تبدیلی سے قبل ابتدائی انٹیلی جنس وارننگ دی گی، لیکن 7 اکتوبر کو کسی حملے کی منصوبہ بندی کی کوئی پیشگی انٹیلی جنس نہیں تھی اور نہ ہی کوئی انتباہ جاری کیا گیا تھا۔

نتیجتاً، سرحدی دفاع کے لیے صرف باقاعدہ فوجیں تعینات کی گئی تھیں، ہمیشہ کی طرح ہفتے کے روز جب یہودیوں کی چھٹی بھی تھی۔ 6 اور 7 اکتوبر کی درمیانی رات کو غزہ میں کچھ ہلچل کے ابتدائی اشارے موصول ہوئے تھے۔ جیسے اسرائیلی سم کارڈوں سے لیس درجنوں سیل فونز کا چالو ہونا وغیرہ، لیکن اسرائیلی حکام نے حماس کی صلاحیتوں کے بارے میں پیشگی اقدامات کو اٹھانے کے لیے کافی یقین دہانی کرائی تھی۔ (ابتدائی خلاصے میں خاص طور پر 7 اکتوبر کے حملے سے پہلے کچھ مہینوں تک نچلے رینکس کی انتباہات پر توجہ نہیں دی گئی تھی، بلکہ انہیں خارج از امکان قرار دیا گیا تھا۔) 

حملوں کے تین مراحل
فوجی انکوائری کے مطابق آپریشن تین مرحلوں پر مشتمل تھا۔ پہلے ابتدائی آدھے گھنٹے میں حماس کے تقریباً 1200 کمانڈوز شامل تھے۔ دوسرا حملہ تقریباً صبح 7 بجے سے صبح 9 بجے تک ہوا، جو تقریباً 2,000 مزید کمانڈوز اور دیگر مسلح تنظیموں کے بندوق برداروں پر مشتمل تھا۔ تیسرا مرحلہ زیادہ تر ایک سویلین ہجوم پر مشتمل تھا جس پر حماس کے فوجی کمانڈروں نے بظاہر زور دیا تھا۔ اسرائیلی فوجی ہیڈکوارٹر اور زمینی کمانڈر حملے کی مجموعی تصویر بنانے میں کامیاب نہیں سکے۔ مسلح شہری، افسر، سپاہی جو ابتدائی ردعمل کے لئے میں پہنچ گئے تھے، یہ ابتدائی چند گھنٹوں کے دھچکے کو ختم کرنے کے لیے ناکافی تھے۔ جس میں تین بریگیڈ کمانڈر، کئی بٹالین اور کمپنی کمانڈر مارے گئے۔

صیہونی کیمونٹی کا ردعمل
انکوائری کے مطابق 9 اکتوبر کی رات تک صیہونی فوج کو یہ اعلان کرنے میں اچھا خاصا وقت لگ گیا کہ اس نے سرحدی علاقوں کا آپریشنل کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔ فوج نے حالیہ دنوں میں ان کمیونٹیز کے رہائشیوں کے سامنے اپنے نتائج پیش کرنے کا آغاز کیا، جو حملے کی زد میں آئیں۔ ان کے جوابی ردعمل ملے جلے تھے، کچھ رہائشیوں کا کہنا تھا کہ ان کے گاؤں سے متعلق پوچھ گچھ نے جوابات سے زیادہ سوالات اٹھائے ہیں، اور کچھ نے کہا ہے کہ انہیں نئی ​​بصیرت حاصل ہوئی ہے۔ ایک اسرائیلی صحافی، گاؤں نہال اوز کے رہائشی امیر تبون نے فوج کی انکوائری کو "گہری اور سنجیدہ" رپورٹ قرار دیتے ہوئے سراہا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ اس میں کچھ زیادہ مشکل نکات اٹھائے گئے ہیں۔ لیکن انہوں نے مزید کہا کہ یہ بنیادی طور پر ایک ٹیکٹیکل رپورٹ تھی، جو ایک مکمل آزاد تحقیقاتی کمیشن کی ضرورت کی جگہ نہیں لے سکتی۔ 7 اکتوبر کو اپنے خاندان کی آزمائش پر مبنی لمحات اور وسیع تر اسرائیل فلسطین تنازعہ کے بارے میں کتاب "غزہ کے دروازے" کے مصنف مسٹر ٹیبون نے کہا ہے کہ فوجی انکوائری نے انھیں کچھ نئی تفصیلات فراہم کی ہیں، جسے انھوں نے "نہال اوز کے دفاع کے لیے بہادرانہ جنگ" کے طور پر بیان کیا ہے۔ اگرچہ یہ بہت زیادہ نہیں۔

اس نے کہا کہ حملہ آور تین مرحلوں میں اس کے گاؤں میں داخل ہوئے تھے، دو نہیں، جیسا کہ اس نے پہلے سوچا تھا، اور یہ کہ تیسرا مرحلہ صبح گیارہ بجے کے قریب تھا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج کو منظم ہونے اور ہمیں بچانے کے لیے ایک بڑی فورس بھیجنے میں کتنا زیادہ وقت لگا۔ حماس نے 15 ماہ کی تباہ کن جنگ کا آغاز کیا، جواب میں اسرائیل نے غزہ میں حماس کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کی۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، 48,000 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا گیا، جن میں اکثریت خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی تھی۔ جنگ نے غزہ کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں بدل دیا ہے اور تنازعہ ایک وسیع علاقائی تنازعہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسرائیلی فوجی حکام کے بارے میں غلط اسرائیلی فوج فوجی حکام نے میں اسرائیل نے کہا ہے کہ انٹیلی جنس ناکامی کی کی وجہ سے انہوں نے کے مطابق حملے کی حماس کی کیا گیا حماس کے گیا تھا حملے کے کیا ہے فوج نے فوج کی تھا کہ کے لیے نے فوج کے بعد

پڑھیں:

نیتن یاہو اور شام کا جنوبی علاقہ

اسلام ٹائمز: بینجمن نیتن یاہو نے حال ہی میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ گولان کی پہاڑیوں کیساتھ واقع شام کا سابقہ ​​علاقہ، جسے 1974ء سے غیر فوجی زون قرار دیا گیا تھا، اب ہمیشہ کیلئے اسرائیل کا حصہ رہے گا۔ صیہونی وزیر خارجہ گیڈون سار نے بھی دمشق پر حملوں کا دفاع کیا ہے۔ اس صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ صیہونی فوجی جنوبی شام پر قبضے کیلئے پرعزم ہیں اور اگر شامی حکومت نے سنجیدہ اقدام نہ کیا تو قابض صہیونی افواج کا جنوبی شام کے اس حصے پر غیر معینہ مدت تک قبضہ ہونے کا امکان بڑھ جائیگا۔ تل ابیب نے ابھی تک ایسا کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ اسرائیلی فوج شام سے انخلاء کا ارادہ رکھتی ہے۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی

شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد صیہونی حکومت نے شام کی سرزمین پر متعدد جارحیتیں کی ہیں۔ حال ہی میں اسرائیلی جنگی طیاروں نے یکے بعد دیگرے چار حملوں میں دمشق کے جنوب مغرب میں واقع ایک فوجی اڈے اور جنوبی شام کے صوبہ درعا کے شہر "ازرع" میں ایک فوجی ہیڈ کوارٹر پر بمباری کی۔ شامی ٹیلی ویژن، مقامی رہائشیوں اور ایک سکیورٹی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے گذشتہ ہفتے شام کے دارالحکومت کے جنوبی علاقے کے ساتھ ساتھ جنوبی صوبے درعا کو بھی نشانہ بنایا، جس میں کم از کم دو افراد جابحق ہوئے۔

نیتن یاہو کے خلاف مظاہروں کے بعد شام پر حملہ
گذشتہ ہفتے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے بیانات کے خلاف شام کے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ مظاہروں کے چند گھنٹے بعد جنوبی شام پر اسرائیلی فضائی حملے کئے گئے۔ یاد رہے کہ نیتن یاہو کے بیان میں کہا گیا تھا کہ تل ابیب نئی حکومت کی افواج کو دمشق کے جنوب میں ہرگز تعینات نہیں ہونے دے گا۔اسی تناظر میں گذشتہ دنوں درعا، قنیطرہ اور سویدا کے صوبوں کے مختلف علاقوں میں اسرائیلی فوج کی جارحیت کے خلاف شامی عوام کی احتجاجی ریلیاں دیکھنے میں آئیں۔ صیہونی جارحیت کی وجہ سے شامی عوام کے غم و غصے میں اضافہ ہوا ہے اور شام کے مختلف علاقوں میں اسرائیل کے خلاف مظاہروں کی متعدد رپورٹیں شائع ہوئی ہیں۔

مظاہرین شام کی حکومت، بین الاقوامی اداروں اور عالمی برادری سے جنوبی شام میں اسرائیلی فوج کی جارحیت کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے اور شام کے اتحاد کی حمایت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دمشق میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے صیہونیوں نے شام پر 400 سے زائد بار حملہ کیا ہے اور اقوام متحدہ کے احتجاج کے باوجود 1974ء سے شام اور فلسطین کو الگ کرنے والے بفر زون پر فوجی حملہ کیا۔ دوسری جانب صیہونی برسوں سے ایرانی فوجی اہداف کو تباہ کرنے کے دعوے اور بہانے سے شام پر اپنے حملوں اور جارحیت کو جواز بنا رہے ہیں۔ تاہم شام کی موجودہ حکومت اور ایرانی حکام دونوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام میں فی الحال کوئی ایرانی فوجی دستے موجود نہیں ہیں۔
 
اسرائیلی فوجی حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کی توجہ شام کے فوجی ڈھانچے کو تباہ کرنے پر ہے۔ تل ابیب کا دعویٰ ہے کہ وہ "شدت پسندوں" کو شامی فوج کے ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم یہ عذر زیادہ قابل اعتبار نہیں لگتا، کیونکہ اس بات کے کافی شواہد اور دستاویزات موجود ہیں کہ اسرائیل نے گذشتہ برسوں میں بشار الاسد کی حکومت کے دور میں انتہاء پسند اور باغی مسلح گروہوں کو نمایاں مدد فراہم کی تھی۔ بشار الاسد حکومت کے دوران اسرائیلی اسپتالوں اور طبی مراکز میں شامی دہشت گردوں کا باقاعدہ علاج معالجہ ہوتا تھا۔ ان انتہاء پسند اور بنیاد پرست گروہوں کے ارکان کے علاج اور دیکھ بھال کی کچھ تصاویر بھی منظر عام پر آئی تھیں۔ تل ابیب شام کے مسلح باغی گروپوں کی حمایت میں بڑی سنجیدگی سے کوشش کرتا رہا ہے۔ لہذا شام میں باغی گروپوں کو ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کی کوشش کے بارے میں اسرائیلی حکام کا دعویٰ حقیقت سے زیادہ مطابقت نہیں رکھتا۔

شام کے کن کن علاقوں پر قبضہ ہے اور کن علاقوں پر بمباری کی جاتی ہے؟
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے، جن میں ہتھیاروں کے ڈپو، گولہ بارود کے ڈپو، ہوائی اڈے، بحری اڈے اور شامی فوجی تحقیقی مراکز شامل ہیں۔ اسرائیلی حکومت نے شام اور مقبوضہ فلسطین کو الگ کرنے والے گولان کی پہاڑیوں کے ساتھ بفر زون میں بھی فوجی یونٹ تعینات کر رکھے ہیں۔ اس علاقے کو 1974ء میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے میں باضابطہ طور پر غیر فوجی زون کا نام دیا گیا تھا۔ صیہونیوں نے اب گولان کی پہاڑیوں کے تقریباً دو تہائی حصے پر قبضہ کر رکھا ہے اور اقوام متحدہ کے زیرانتظام ایک تنگ پٹی میں 400 مربع کلومیٹر (154 مربع میل) کو اپنے دیگر مقبوضہ علاقوں میں شامل کر لیا ہے۔

شامی سکیورٹی فورسز نے اسرائیلی ٹینکوں کی گولان کی پہاڑیوں سے قطنا کی طرف پیش قدمی کی بھی اطلاع دی، جو شامی علاقے میں 10 کلومیٹر (چھ میل) اندر اور شامی دارالحکومت کے کافی قریب ہے۔ دمشق پر 100 سے زائد حملوں کے علاوہ، صہیونیوں کی جانب سے مشرق میں المیادین، شمال مغرب میں طرطوس اور مسیاف، لبنان کے ساتھ واقع قصیر کراسنگ اور جنوب میں خلخالہ فوجی ہوائی اڈے پر  بھی حملے کیے گئے۔ دوسری طرف شامی حکومت کا ان حملوں پر ردعمل اب تک صرف زبانی مذمت تک محدود رہا ہے اور دمشق میں برسراقتدار جولانی حکومت نے جنوبی شام کے خلاف صیہونی جارحیت کے تسلسل کو روکنے کے لیے ابھی تک کوئی موثر کارروائی نہیں کی ہے۔

شام پر قبضہ کرنا تل ابیب کا اصل ہدف ہے
بینجمن نیتن یاہو نے حال ہی میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ گولان کی پہاڑیوں کے ساتھ واقع شام کا سابقہ ​​علاقہ، جسے 1974ء سے غیر فوجی زون قرار دیا گیا تھا، اب ہمیشہ کے لیے اسرائیل کا حصہ رہے گا۔ صیہونی وزیر خارجہ گیڈون سار نے بھی دمشق پر حملوں کا دفاع کیا ہے۔ اس صورت حال میں ایسا لگتا ہے کہ صیہونی فوجی جنوبی شام پر قبضے کے لیے پرعزم ہیں اور اگر شامی حکومت نے سنجیدہ اقدام نہ کیا تو قابض صہیونی افواج کا جنوبی شام کے اس حصے پر غیر معینہ مدت تک قبضہ ہونے کا امکان بڑھ جائیگا۔ تل ابیب نے ابھی تک ایسا کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ اسرائیلی فوج شام سے انخلاء کا ارادہ رکھتی ہے۔

حتیٰ کہ بعض اسرائیلی حکام نے تو ایسے دعوے کیے ہیں، جو صہیونیوں کے جنوبی شام پر قبضے کے بارے میں ان کے ارادوں اور نیتوں کو واضح کرتے ہیں۔ ایک اہم اسرائیلی سیاست دان بینی گینٹز نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ جنوبی شام میں اسرائیل کی فوجی موجودگی اسرائیل کے لیے ایک تاریخی موقع ہے۔ انہوں نے کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) میں اپنے ساتھیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ "شام میں دروز، کردوں اور دیگر گروہوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دیں۔" ٹائمز آف اسرائیل نے اسرائیلی فوج کے ایک سابق رکن کا انٹرویو کیا ہے، جس میں اسرائیلی فوجی نے شام کو چھاؤنیوں کی ایک سیریز میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی۔

اسرائیلی فوجی اہلکار کا یہ حوالہ واضح طور پر شام کی تقسیم پر زور دیتا ہے اور اس صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ جنوبی شام پر قبضے کے لیے صیہونیوں کا پہلا قدم ملک کے جنوب میں واقع دروز آبادی والے علاقے کو تقسیم کرنے کی کوشش ہے، تاکہ اگلے مرحلے میں ان علاقوں کو دوسرے علاقوں سے الحاق کرنے کی تیاریاں کی جا سکیں۔ بہرحال جنوبی شام میں مقبول اپوزیشن کے ساتھ ساتھ جنوبی شام میں اسرائیلی حکومت کی موجودگی پر عالمی برادری کی مخالفت ممکن ہے، اس علاقے میں صیہونیوں کے مزموم مقاصد کے حصول میں رکاوٹ بن سکے۔

متعلقہ مضامین

  • نیتن یاہو اور شام کا جنوبی علاقہ
  • غزہ میں اسرائیلی فوجی موجودگی نہیں ہونی چاہیے، یو این سیکرٹری جنرل
  • حماس کیجانب سے غزہ جنگبندی کا دوسرا مرحلہ شروع کرنیکا مطالبہ
  • حماس کے خلاف 6 ناکام اسرائیلی تدابیر
  • حماس نے سات اکتوبر کو تین لہروں میں حملہ کیا تھا،اسرائیلی فوجی تحقیقات
  • 7 اکتوبر 2023 کو تقریبا 5 ہزار افراد دراندازی میں کامیاب ہوئے، صیہونی فوج کا اعتراف شکست
  • اسرائیلی فوج کا حماس کے خلاف 7 اکتوبر 2023 کو اپنی مکمل ناکامی کا اعتراف
  • حیفہ میں صیہونیت مخالف کارروائی، 11 اسرائیلی زخمی
  • فوج اہم غزہ راہداری سے پیچھے نہیں ہٹے گی، اسرائیلی اہلکار