’ہمارے سب ارکان اسمبلی فارم 47 والے ہیں‘، پی پی رہنما ناصر شاہ کی زبان پھسل گئی
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے فارم 45 اور فارم 47 کا بہت چرچا ہے، جہاں پارلیمنٹ میں اس کا ذکر ہوتا ہے وہیں سیاسی کارکنان کی جانب سے بھی ایک دوسرے کو ایسے القابات دیے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں فارم 47 والے باہر جا کر مہنگائی کم ہونے کا کہیں تو انہیں جوتے پڑیں گے، عمر ایوب
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے سینیئر رہنما و سندھ کے وزیر توانائی سیّد ناصر شاہ نے بھی جوش خطابت میں اپنے ہی ارکان اسمبلی کو فارم 47 والا کہہ دیا۔
ٹنڈوجام میں خطاب کے دوران ناصر حسین شاہ نے کہاکہ آج کل فارم 45 اور فارم 47 کی بہت باتیں کی جاتی ہیں، لیکن الحمداللہ پیپلزپارٹی کے جتنے ارکان اسمبلی یہاں موجود ہیں سارے فارم 47 والے ہیں۔
بعد ازاں تقریب میں موجود صوبائی وزیر شرجیل میمن نے ناصر حسین شاہ کی غلطی کی وضاحت کردی۔
شرجیل انعام میمن نے کہاکہ اصل میں ناصر حسین شاہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ہمارے سارے لوگ فارم 45 والے ہیں۔
واضح رہے کہ فارم 45 وہ ہوتا ہے جو ہر پولنگ اسٹیشن پر ہر پولنگ ایجنٹ کو دیا جاتا ہے جس پر ووٹوں کی تفصیل درج ہوتی ہے، جبکہ فارم 47 تمام پولنگ اسٹیشنز کے نتائج کو جمع کرکے الیکشن کمیشن جاری کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں فارم 47 پر آنے والا وزیراعظم شرعی ہے یا غیر شرعی؟ حافظ نعیم الرحمان کا وی پی این فتوے پر استفسار
اپوزیشن کا الزام ہے کہ عام انتخابات کے روز الیکشن کمیشن نے فارم 47 میں ہیرا پھیری کرتے ہوئے مرضی کے نتائج جاری کیے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews ارکان اسمبلی پاکستان پیپلزپارٹی پی پی رہنما شرجیل انعام میمن عام انتخابات فارم 45 فارم 47 ناصر حسین شاہ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ارکان اسمبلی پاکستان پیپلزپارٹی پی پی رہنما شرجیل انعام میمن عام انتخابات فارم 45 فارم 47 ناصر حسین شاہ وی نیوز ناصر حسین شاہ ارکان اسمبلی فارم 45 فارم 47
پڑھیں:
پہلا پارلیمانی ، سال ، 47قوانین ، 26، قراردیں منظور :ارکان اسمبلی کی حاضری میں کو تاہی
اسلام آباد(خبرنگار)پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی(پلڈاٹ)نے 16ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کی کارکردگی کی سالانہ جائزہ رپورٹ میں اس بتایا ہے کہ موجودہ اسمبلی کے کام کا دورانیہ کام کے اوقات اور ایام کے حوالے سے گزشتہ اسمبلی کے مقابلے میں کم رہا حالانکہ ان ایام اور اوقات میں اہم قانون سازی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا جس میں سے زیادہ تر قوانین اور قانون سازی کے عمل کو بغیر کسی جانچ پڑتال اور غور و خوض کے منظور کیا گیا تھا موجودہ اسمبلی کا 29 فروری 2024 کو افتتاحی اجلاس منعقد ہوا اور پہلے پارلیمانی سال کی مدت 28 فروری 2025 کو ختم ہو رہا ہے16ویں قومی اسمبلی کے 93 اجلاس منعقد ہوئے اور موجودہ اسمبلی نے 212 گھنٹے کام کیا جبکہ اس کے مقابلے میں 15ویں قومی اسمبلی کے پہلے پارلیمانی سال کے دوران 96 اجلاس منعقد اور گذشتہ اسمبلی نے 297 گھنٹے کام کیا جو کہ ایک ریکارڈ ہے جبکہ موجودہ اسمبلی کی کارکردگی گذشتہ اسمبلی کے مقابلے میں واضح حد تک کم ہے۔ واضح رہے کہ سولہویں قومی اسمبلی کے پہلے سال میں ایک گھنٹے کام کرنے کی لاگت تقریبا 60.08 ملین روپے فی گھنٹہ آتی ہے جبکہ اس کے پہلے سال میں 16ویں قومی اسمبلی کے اجلاس پر اوسطا" 136.96 ملین روپے لاگت آئی تاہم 16 ویں قومی اسمبلی کی کارکردگی قانون سازی کے حوالے سے نمایاں طور پر گذشتہ اسمبلی سے بہتر رہی۔ اس کے پہلے سال میں 47 بل منظور کیے گئے جبکہ 15 ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کے دوران منظور کیے گئے بلوں کی تعداد صرف 10 ہے جو کہ گذشتہ اسمبلی کے مقابلے میں 370 فیصد زیادہ ہے۔ اس تیز تر قانون سازی کی سرگرمیوں میں اہم قوانین اور 26ویں آئینی ترمیم شامل ہے، جن میں سے زیادہ تر کو اسمبلی کی طرف سے مناسب وقت اور جانچ پڑتال کے بغیر فوری طور پر منظور کیا گیا۔ مزید برآں، متعدد قوانین بشمول 9 انتہائی اہم قوانین کو ممبران اسمبلی کی جانب سے نظرثانی کی پرواہ کیے بغیر اور متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھیجے بغیر منظوری کے لیے جلد بازی کی گئی ممبران اسمبلی کی حاضری بھی 16ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال میں اوسطا 66 فیصد تک کم ہو گئی ہے جو 15ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال میں 73 فیصد تھی۔ واضح رہے کہ 16ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کے دوران ٹیکس دہندگان کے لیے فی ممبر قومی اسمبلی پر 37.9 ملین روپے لاگت آئی۔ پلڈاٹ اس بات کی تگ و دو کر رہا ہے کہ ممبران اسمبلی کی حاضری ریکارڈ کرنے کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ نظام 5 منٹ تک اجلاس میں شریک ہونے والے ممبر اور 5 گھنٹے تک موجود دوسرے ممبر میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ حاضری کے نظام کے ساتھ ایک اور مسئلہ کورم کی نشاندہی اور کورم کی کمی کی وجہ سے ملتوی ہونے والی نشستوں کی تعداد سے ظاہر ہوتا ہے حالانکہ ان نشستوں میں موجود ممبران اسمبلی کی تعداد مطلوبہ کورم سے کہیں زیادہ ہے16ویں قومی اسمبلی نے ایجنڈا آئٹمز کی منصوبہ بندی اور نمٹانے کے معاملے میں نسبتا کمزور کارکردگی دکھائی ہے، اس کے پہلے سال کے دوران طے شدہ ایجنڈا آئٹمز کا 49.18 فیصد باقی رہ گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ مقرر کردہ کارروائی کا اہم حصہ قومی اسمبلی میں نامکمل ہے16ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کے دوران، وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کل 93 اجلاسوں میں سے صرف 17اجلاسوں میں شرکت کی یا کل اجلاسوں کے صرف 18 فیصد میں شامل ہوئے جو کہ انتہائی افسوسناک ہے اور وزیر اعظم کی حاضری کا یہ کمزور ریکارڈ افسوسناک طور پر سابق وزیر اعظم عمران خان کی حاضری سے مطابقت رکھتا ہے جنہوں نے 15 ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال میں 96 میں سے صرف 18 یا 19 فیصد اجلاسوں میں شرکت کی تھی جبکہ ان کے پیشرو وزیر اعظم نواز شریف نے 14ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کے 103 میں سے صرف سات اجلاسوں میں شرکت کی تھی ان کے مقابلے میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے سال میں 62 اجلاسوں میں شرکت کی جو کہ گزشتہ اسمبلی کے پہلے سال میں قائد حزب اختلاف محمد شہباز شریف نے 53 اجلاسوں میں اپنی حاضری یقینی بنائی تھی۔ عمر ایوب خان نے 16 ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کے دوران 13 گھنٹے اور 28 منٹ کے ریکارڈ شدہ ٹاک ٹائم کے ساتھ سب سے زیادہ بولنے والے ممبر اسمبلی بھی ہیں16ویں قومی اسمبلی نے بھی قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل سے متعلق اپنے اصول کو نظرانداز کیا اور اس کی خلاف ورزی کی۔ قومی اسمبلی میں قواعد و ضوابط اور طرز عمل کا قاعدہ 200 یہ حکم دیتا ہے کہ محکمہ جاتی قائمہ کمیٹیوں کے ارکان کا انتخاب اسمبلی کے ذریعہ قائد ایوان کے انتخاب کے بعد تیس دنوں کے اندر کیا جانا چاہیے، جس نے ایسا کرنے کی آخری تاریخ 3 اپریل 2024 کو مقرر کی تھی۔ تاہم 17 مئی 2024 تک کمیٹیوں کو فعال نہیں کیا گیا اور کمیٹیوں کے چیئرمینوں کے انتخاب میں مزید تاخیر ہوئی