غزہ؛ بھوک سے نڈھال بے گھر فلسطینیوں کا رمضان کا والہانہ استقبال WhatsAppFacebookTwitter 0 1 March, 2025 سب نیوز

غزہ (سب نیوز )غزہ میں جنگ بندی کے بعد پہلا رمضان ہے،اسرائیلی بمباری جاری فلسطینیوں نے اپنے ٹوٹے ہوئے گھروں اور بوسیدہ کیمپوں میں رمضان کی آمد پر چراغاں کیا اور سجاوٹ کی۔غزہ میں لاکھوں بے گھر فلسطینیوں کا آج پہلا روزہ ہے۔ اس سال یہ ماہ مقدس جنگ بندی کے دوران آیا ہے تاہم اب بھی کہیں کہیں اسرائیلی بمباری کی گھن گھرج سنائی دیتی ہیں۔نومنتخب امریکی صدر غزہ کی تعمیر نو کے لیے پر امید ہیں لیکن لیکن اقوام متحدہ کے ادارے اونرا کا کہنا ہے کہ غزہ میں ہر طرف بھوک و افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

غزہ کے پناہ گزین کیمپ میں مقیم لاکھوں فلسطینیوں نے رمضان کا استقبال اس حال میں کیا کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں اور تن کو ڈھانپنے کے لیے مناسب لباس تک نہ نہیں ہے۔اس کے باوجود فلسطینیوں نے اپنے ٹوٹے ہوئے گھروں اور بوسیدہ کیمپوں میں دیے جلائے، چراغاں کیا اور سجاوٹ کرکے اس نعمت خداوندی کا شکر ادا کیا۔ غزہ کے ایک ایک فلسطینی شادماں ہے۔ اس سال جنگ بندی معاہدے کے تحت کئی فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں سے رہا ہوکر اپنے گھروں میں سحر و افطار کریں گے۔

ایک فلسطینی بچے نے غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ رمضان پچھلے رمضانوں سے یکسر مختلف ہے۔ ہم اپنے گھروں میں نہیں بلکہ کیمپوں میں رہ رہے ہیں اور سحر و افطار کے لیے راشن نہیں۔ یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے جاری غزہ پر اسرائیلی بمباری میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 44 ہزار کے قریب ہے جب کہ ایک لاکھ 11 ہزار زخمی ہیں۔ جن میں نصف تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

جنگ میں ناکامی، صیہونی فوج کی زبانی

اسلام ٹائمز: زندہ بچ جانے والے صیہونیوں نے حملے کے بعد اپنے فوجیوں کے ذریعے بچائے جانے کا طویل انتظار کیا۔ اپنے کچھ ابتدائی نتائج شائع کرنے سے ایک دن قبل صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے، اسرائیلی فوجی حکام نے بتایا کہ یہ ناکامی حماس کی صلاحیتوں اور ارادوں کے بارے میں غلط مفروضوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ کچھ فوجی حکام نے اس ناکامی کا سبب درست انٹیلی جنس کا "نشہ" بتایا ہے، یہ ناکامی کیوجہ انٹیلیجنس کی کمی اور نقص تھا۔ حماس کے بارے میں غلط نظریہ اسرائیلی انٹیلی جنس حلقوں اور اعلیٰ فوجی کمان کے اندر بڑی حد تک چیلنج نہیں ہوسکا تھا اور اس کی وجہ سے ناکامیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔  تنظیم و ترتیب: علی احمدی

خبر رساں ادارے A.B نے صیہونی عسکری ذرائع کو نقل کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی رہنما شہید یحییٰ سنوار نے 2016 یا 2017 سے ہی طوفان الاقصیٰ کی تیاری شروع کر دی تھی۔ صیہونی عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس حماس کے مجاہدین کی جانب سے 8 نقاط سے دراندازی کی اظلاع تھی، لیکن وہ 60 مقامات سے داخل ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے 7 اکتوبر 2023 کی زبردست فوجی اور انٹیلی جنس ناکامی کے بارے میں اپنی داخلی تحقیقات کے  نتائج پہلی بار جاری کئے ہیں۔ جن میں بتایا گیا کہ کس طرح سینئر افسران نے حماس کو بہت کمزور سمجھا اور پھر ابتدائی انتباہات کی غلط تشریح کی۔

فوج کہاں تھی؟
نیویارک ٹائمز کے مطابق فوج کی تحقیقاتی رپورٹ میں ان استفسارات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے، جنہوں نے اسرائیل کو اس دن سے پریشان کر رکھا ہے، جب حماس کے زیرقیادت ہزاروں بندوق برداروں نے اسرائیلی کیمونٹی، فوجی اڈوں اور ایک میوزک فیسٹیول پر دھاوا بول دیا تھا۔ حکام کے سامنے سوال یہ تھا کہ فوج کہاں تھی؟ اسرائیلی فوجی حکام کے مطابق انہوں نے فوج کے انٹیلی جنس جمع کرنے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے حملے کے ردعمل کی چھان بین میں دسیوں ہزار گھنٹے صرف کیے۔ یہ حملہ جس میں تقریباً 1200 افراد، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، ہلاک اور 250 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا، یہ ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں کے لیے سب سے خطرناک دن تھا۔

درست انٹیلی جنس کا نشہ
رپورٹ کے مطابق زندہ بچ جانے والے صیہونیوں نے حملے کے بعد اپنے فوجیوں کے ذریعے بچائے جانے کا طویل انتظار کیا۔ اپنے کچھ ابتدائی نتائج شائع کرنے سے ایک دن قبل صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے، اسرائیلی فوجی حکام نے بتایا کہ یہ ناکامی حماس کی صلاحیتوں اور ارادوں کے بارے میں غلط مفروضوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ کچھ فوجی حکام نے اس ناکامی کا سبب درست انٹیلی جنس کا "نشہ" بتایا ہے، ناکامی کیوجہ انٹیلیجنس کی کمی اور نقص ہی تھا۔ حماس کی طاقت کے بارے میں غلط اندازہ اسرائیلی انٹیلی جنس حلقوں اور اعلیٰ فوجی کمان کے اندر بڑی حد تک چیلنج نہیں ہوسکا تھا اور اس کی وجہ سے ناکامیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

خالص فوجی تحقیقات
اس انکوائری میں ناکامی کی وجوہات کا جائزہ لیا گیا ہے، ان اسباب میں حملے کے پہلے گھنٹوں میں ناگہان طور پر پیدا ہونیوالی افراتفری کا تاخیر سے دیا جانیوالا فوجی جواب بھی شامل تھا، جب حماس کی طرف سے غزہ کی سرحد پر تعینات فوجیوں کو تیزی سے مغلوب کیا گیا اور فوج کی جنوبی کمان اور غزہ ڈویژن کو زیر کر لیا گیا۔ فوجی اور انٹیلی جنس ناکامیوں کے نتائج بڑی حد تک مقامی اور بین الاقوامی نیوز میڈیا کی تفصیلی تحقیقات سے مماثل ہیں۔ اسرائیلی فوجی حکام نے کہا ہے کہ اب فوج احتساب کی خاطر ان واقعات کا اپنا ورژن پیش کر رہی ہے۔

صیہونی فوج نے اپنی تحقیقات کو دیگر اداروں کے ساتھ مربوط نہیں کیا، جیسے کہ شن بیٹ کی داخلی سلامتی ایجنسی، جو غزہ میں انٹیلی جنس جمع کرنے کے لیے بھی ذمہ دار ہے، یا پولیس وغیرہ۔ فوج نے برسوں کی حکومتی پالیسی اور فیصلہ سازی پر بھی توجہ نہیں دی، جس کی وجہ سے حملہ ہوا تھا۔ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایک آزاد کمیشن کے وسیع عوامی مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے بارہا کہا ہے کہ وہ جنگ کے بعد سخت سوالات کا جواب دیں گے، جس کے ذریعے ذاتی طور پر کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے۔ فوج کی اندرونی انکوائریوں کا مقصد انفرادی ذمہ داری کا پتہ لگانا نہیں تھا، یہ بعد میں اسرائیل کے نئے فوجی چیف آف اسٹاف، ایال ضمیر کے تحت ہوسکتا ہے، جو مارچ کے اوائل میں لیفٹیننٹ جنرل ہرزی حلوی کی جگہ لے رہے ہیں۔

حماس کی کامیاب رزاداری جنرل حلوی کا کہنا تھا کہ اصل مقصد شکست سے سبق سیکھنا ہے۔ جنرل حلوی نے اسرائیلیوں کی حفاظت میں اپنی کمان میں فوج کی ناکامی کی ذاتی طور پر ذمہ داری قبول کی ہے اور انہوں نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔ اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ ہارون حلیوا نے بھی 2024 میں اسرائیلی فوج کی غزہ بریگیڈ کے سربراہی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں مزید استعفے متوقع ہیں۔ فوج کے مطابق حماس حالیہ برسوں میں اسرائیل کو یہ باور کروا کر دھوکہ دینے میں کامیاب رہی کہ وہ غزہ میں پرسکون ہے اور صرف معاشی حالات کو بہتر بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
اس دھوکے میں رہتے ہوئے صیہونی فوج نے بنیادی طور پر اپنے وسائل ایران اور لبنانی عسکریت پسند گروپ حزب اللہ پر مرکوز کیے رکھے، جو دونوں ہی اسرائیل کے مضبوط دشمن ہیں۔ اسی غفلت کیوجہ سے حماس کے حملے کے بارے میں کچھ بھی پیشگی اقدام نہیں کیا گیا تھا۔ فوج نے ان رپورٹوں کو تسلیم کیا ہے کہ اسے 2022 تک حماس کے آپریشنل حملے کا منصوبہ مل گیا تھا جس کا کوڈ نام "جیریکو وال" تھا، جس کا آئیڈیا ابتدائی طور پر 2016 میں پیش کیا جا چکا تھا، حماس کو ضروری تیاری میں وقت لگا، جو اسرائیل کو معلوم نہیں تھا۔ تقریباً 40 صفحات پر مشتمل فوجی انکوائری کی دستاویز میں 7 اکتوبر کو ہونے والے تباہ کن حملے کی نوعیت کی نشاندہی کی گئی ہے۔

اہم نتائج کے تحریری خلاصے میں فوج نے کہا ہے کہ "7 اکتوبر سے پہلے معلومات کو عام طور پر ایک غیر حقیقی یا طوفان الاقصیٰ کو ناقابل عمل منصوبے کے طور پر غلط سمجھا گیا۔" فوج نے اندازہ لگایا تھا کہ حماس کی طرف سے لاحق خطرہ سرحد کے ساتھ 4 سے 8 پوائنٹس تک محدود تعداد میں چھاپوں کی حد تک ہے، یہ بھی اندازہ غلط تھا کہ حملے کے دوران ہزاروں نہیں درجنوں عسکریت پسند شامل ہوں گے۔ یہ بھی ایک غلط اسرائیلی مفروضہ تھا کہ حماس کسی بھی بڑی تبدیلی سے قبل ابتدائی انٹیلی جنس وارننگ دی گی، لیکن 7 اکتوبر کو کسی حملے کی منصوبہ بندی کی کوئی پیشگی انٹیلی جنس نہیں تھی اور نہ ہی کوئی انتباہ جاری کیا گیا تھا۔

نتیجتاً، سرحدی دفاع کے لیے صرف باقاعدہ فوجیں تعینات کی گئی تھیں، ہمیشہ کی طرح ہفتے کے روز جب یہودیوں کی چھٹی بھی تھی۔ 6 اور 7 اکتوبر کی درمیانی رات کو غزہ میں کچھ ہلچل کے ابتدائی اشارے موصول ہوئے تھے۔ جیسے اسرائیلی سم کارڈوں سے لیس درجنوں سیل فونز کا چالو ہونا وغیرہ، لیکن اسرائیلی حکام نے حماس کی صلاحیتوں کے بارے میں پیشگی اقدامات کو اٹھانے کے لیے کافی یقین دہانی کرائی تھی۔ (ابتدائی خلاصے میں خاص طور پر 7 اکتوبر کے حملے سے پہلے کچھ مہینوں تک نچلے رینکس کی انتباہات پر توجہ نہیں دی گئی تھی، بلکہ انہیں خارج از امکان قرار دیا گیا تھا۔) 

حملوں کے تین مراحل
فوجی انکوائری کے مطابق آپریشن تین مرحلوں پر مشتمل تھا۔ پہلے ابتدائی آدھے گھنٹے میں حماس کے تقریباً 1200 کمانڈوز شامل تھے۔ دوسرا حملہ تقریباً صبح 7 بجے سے صبح 9 بجے تک ہوا، جو تقریباً 2,000 مزید کمانڈوز اور دیگر مسلح تنظیموں کے بندوق برداروں پر مشتمل تھا۔ تیسرا مرحلہ زیادہ تر ایک سویلین ہجوم پر مشتمل تھا جس پر حماس کے فوجی کمانڈروں نے بظاہر زور دیا تھا۔ اسرائیلی فوجی ہیڈکوارٹر اور زمینی کمانڈر حملے کی مجموعی تصویر بنانے میں کامیاب نہیں سکے۔ مسلح شہری، افسر، سپاہی جو ابتدائی ردعمل کے لئے میں پہنچ گئے تھے، یہ ابتدائی چند گھنٹوں کے دھچکے کو ختم کرنے کے لیے ناکافی تھے۔ جس میں تین بریگیڈ کمانڈر، کئی بٹالین اور کمپنی کمانڈر مارے گئے۔

صیہونی کیمونٹی کا ردعمل
انکوائری کے مطابق 9 اکتوبر کی رات تک صیہونی فوج کو یہ اعلان کرنے میں اچھا خاصا وقت لگ گیا کہ اس نے سرحدی علاقوں کا آپریشنل کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔ فوج نے حالیہ دنوں میں ان کمیونٹیز کے رہائشیوں کے سامنے اپنے نتائج پیش کرنے کا آغاز کیا، جو حملے کی زد میں آئیں۔ ان کے جوابی ردعمل ملے جلے تھے، کچھ رہائشیوں کا کہنا تھا کہ ان کے گاؤں سے متعلق پوچھ گچھ نے جوابات سے زیادہ سوالات اٹھائے ہیں، اور کچھ نے کہا ہے کہ انہیں نئی ​​بصیرت حاصل ہوئی ہے۔ ایک اسرائیلی صحافی، گاؤں نہال اوز کے رہائشی امیر تبون نے فوج کی انکوائری کو "گہری اور سنجیدہ" رپورٹ قرار دیتے ہوئے سراہا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ اس میں کچھ زیادہ مشکل نکات اٹھائے گئے ہیں۔ لیکن انہوں نے مزید کہا کہ یہ بنیادی طور پر ایک ٹیکٹیکل رپورٹ تھی، جو ایک مکمل آزاد تحقیقاتی کمیشن کی ضرورت کی جگہ نہیں لے سکتی۔ 7 اکتوبر کو اپنے خاندان کی آزمائش پر مبنی لمحات اور وسیع تر اسرائیل فلسطین تنازعہ کے بارے میں کتاب "غزہ کے دروازے" کے مصنف مسٹر ٹیبون نے کہا ہے کہ فوجی انکوائری نے انھیں کچھ نئی تفصیلات فراہم کی ہیں، جسے انھوں نے "نہال اوز کے دفاع کے لیے بہادرانہ جنگ" کے طور پر بیان کیا ہے۔ اگرچہ یہ بہت زیادہ نہیں۔

اس نے کہا کہ حملہ آور تین مرحلوں میں اس کے گاؤں میں داخل ہوئے تھے، دو نہیں، جیسا کہ اس نے پہلے سوچا تھا، اور یہ کہ تیسرا مرحلہ صبح گیارہ بجے کے قریب تھا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج کو منظم ہونے اور ہمیں بچانے کے لیے ایک بڑی فورس بھیجنے میں کتنا زیادہ وقت لگا۔ حماس نے 15 ماہ کی تباہ کن جنگ کا آغاز کیا، جواب میں اسرائیل نے غزہ میں حماس کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کی۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، 48,000 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا گیا، جن میں اکثریت خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی تھی۔ جنگ نے غزہ کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں بدل دیا ہے اور تنازعہ ایک وسیع علاقائی تنازعہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جنگ میں ناکامی، صیہونی فوج کی زبانی
  • غزہ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ ختم، حماس نے رمضان کے لیے اسرائیلی تجویز مسترد کردی
  • ماہ صیام کا آغاز، مسجد اقصیٰ میں ہزاروں فلسطینیوں نے نماز تراویح ادا کی
  • انجمن شرعی شیعیان کے اہتمام سے استقبال ماہ رمضان کی تقریب منعقد
  • مسجد اقصیٰ میں نمازیوں کے داخلے پر پابندی ،اسرائیلی پولیس اہلکار تعینات
  • استقبال ماہ مبارک رمضان
  • استقبال رمضان۔۔۔روزے کی حقیقی روح
  • رمضان المبارک کا شان دار استقبال کیجیے
  • مصطفیٰ قتل کیس، والدین کا انصاف نہ ملنے پر بھوک ہڑتال کا عندیہ