’رمضان کے حقیقی جذبے کے تحت ضرورت مندوں کی مدد کریں‘ بلاول بھٹو کی قوم سے اپیل
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
سٹی 42 : پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے رمضان المبارک کے موقع پر پیغام میں کہا کہ رمضان محض روزے رکھنے کا نام نہیں، بلکہ یہ خود احتسابی، روحانی ترقی اور تجدیدِ عقیدت کا مہینہ ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے رمضان المبارک کے آغاز پر پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو دلی مبارکباد پیش کی ہے۔ انہوں نے دعا کی کہ یہ مقدس مہینہ سب کے لیے امن، خوشحالی اور بے شمار برکتیں لے کر آئے۔
لاہور داتا دربار جانیوالوں کی مشکلات میں اضافہ، متعلقہ انتظامیہ خاموش
چیئرمین بلاول بھٹو نے اس بات پر زور دیا کہ رمضان محض روزے رکھنے کا نام نہیں، بلکہ یہ خود احتسابی، روحانی ترقی اور تجدیدِ عقیدت کا مہینہ ہے۔ یہ صبر، عاجزی اور ہمدردی کی قدریں سکھاتا ہے اور ہمیں اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ ہم کمزور اور ضرورت مند افراد کا خیال رکھیں اور عدل، رواداری اور اتحاد کے اصولوں کو اپنائیں۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تمام پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ رمضان کے حقیقی جذبے کے تحت ضرورت مندوں کی مدد کریں، ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی کا برتاؤ کریں اور ایک ایسا ماحول پیدا کریں جہاں سب کو مساوی حیثیت حاصل ہو اور سب کے ساتھ احترام اور محبت کا سلوک کیا جائے۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی اور ایک ترقی پسند، جمہوری اور منصفانہ معاشرے کے قیام کے اپنے وژن پر قائم رہے گی، جہاں سب کو بنیادی سہولتوں اور مواقع تک مساوی رسائی حاصل ہو۔
رمضان المبارک کی آمد، چینی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگیا
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملک اور پوری مسلم امہ کی سلامتی اور بھلائی کے لیے دعا کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ مہینہ بھائی چارے کے رشتوں کو مزید مضبوط کرے گا اور امن و ہم آہنگی کے اصولوں کو فروغ دے گا۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ رمضان کی اصل روح کو اپناتے ہوئے اتحاد، درگزر اور باہمی احترام کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: بلاول بھٹو زرداری نے چیئرمین بلاول بھٹو
پڑھیں:
ماہ ایثار و ہم دردی رمضان میں کرنے کے کام
رمضان کا مہینہ کس قدر با برکت ہے، اس کا اندازہ کرنا ہوتو سرکار دو عالم ﷺ کا یہ خطبہ ملاحظہ کیجیے جو آپ ﷺ نے شعبان کی آخری تاریخ کو ارشاد فرمایا۔
حضرت سلمان فارسیؓ روایت کرتے ہیں کہ شعبان کے آخری دن سرکار دو عالم ﷺ منبر پر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا، مفہوم: اے لوگو! تمہارے اوپر ایک عظیم اور بابرکت مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، اس مہینہ کی ایک رات ہزار مہینوں سے افضل ہے، اﷲ تعالیٰ نے اس مہینہ کے روزے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں قیام کو نفلی عبادت قرار دیا ہے، جو شخص اس مہینہ میں نفلی عبادت کے ذریعے تقرب اِلٰہی کا طلب گار ہوگا، اُس کو رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں کے فرض کے برابر ثواب ملے گا اور جو شخص اس مہینہ میں فرض عبادت ادا کرے گا اس کو دوسرے دنوں کی ستّر فرض عبادتوں کا ثواب ملے گا، یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔
یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، جو شخص اس مہینہ میں کسی کو روزہ افطار کرائے گا، اُس کا یہ عمل اس کے گناہوں کی مغفرت کا سبب اور دوزخ کی آگ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزے دار کے ثواب میں کمی کیے بغیر روزے دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔
صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! ہم میں سے ہر شخص کے اندر افطار کرانے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ اس کو بھی یہ ثواب عطا فرمائے گا جو کسی روزہ دار کو ایک کھجور، پانی کے ایک گھونٹ یا تھوڑی سی لسّی سے افطار کرا دے، یہ ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ دوزخ سے نجات ہے، جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام (خادم، ملازم) کے کام میں کمی کرے گا، اﷲ اس کی مغفرت فرمائے گا اور اسے دوزخ سے آزادی عطا کرے گا۔‘‘ (البیہقی)
یہ حدیث طویل ہے، ہم نے یہاں مختصر نقل کی ہے، یہ ایک جامع خطبہ ہے اور اس میں گویا رمضان کی تمام خصوصیات بل کہ اگر یہ کہا جائے کہ اس مہینہ میں کیے جانے والے تمام اعمال کا خلاصہ آگیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ جہاں تک رمضان کے روزوں کی فضیلت کا معاملہ ہے ہر مسلمان اس سے اچھی طرح واقف ہے، لیکن اس حدیث میں رمضان کی کچھ اور خصوصیتوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، سب سے پہلے تو اس مہینہ کو رمضان کا مہینہ کہہ کر اس کی عبادتوں کا ذکر کیا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ کس طرح کی عبادتوں پر کس طرح کا اجر ہے، پھر اسے ماہِ صبر قرار دیا گیا ہے، صبر صرف یہی نہیں ہے کہ انسان بھوک پیاس کے باوجود کھانے پینے سے رکا رہے، بل کہ صبر یہ بھی ہے کہ دوسروں کی اذیتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے، طبیعت کے تقاضے کے باوجود کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے کسی کو تکلیف پہنچے۔
کان، آنکھ، زبان تمام اعضاء کو ایسے کاموں سے روکے جن میں اگرچہ بڑا مزہ ہے، بڑی لذت ہے مگر وہ اﷲ کو پسند نہیں ہیں۔ یہی صبر ہے اور اسی پر جنت کا وعدہ کیا گیا ہے، اس مہینہ کو ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ بھی قرار دیا گیا ہے اور اس میں مومن کے رزق میں برکت بھی دے دی جاتی ہے۔ حدیث شریف میں مواسات کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں ایک دوسرے کے ساتھ ہم دردی سے پیش آنا اور دوسرے کی غم خواری کرنا، ہم مواسات کس طرح کریں، مذکورہ بالا حدیث میں اس کی دو مثالیں اور دو کیفیتیں بھی بیان کردی گئی ہیں، ایک تو یہ کہ ہم خود ہی روزہ افطار نہ کریں بلکہ ہو سکے تو دوسروں کو بھی افطار کرادیں، اس کی ہمت نہ ہوتو لسّی کے چند گھونٹ ہی پلادیں، یہ بھی ممکن نہ ہو تو پانی سے افطار کرادیں، حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خود تو ہر طرح کی نعمتوں سے روزہ افطار کریں اور جو لوگ ضرورت مند ہیں ان کو ایک کھجور کھلا کر اور ایک گلاس پانی پلا کر یہ سوچیں کہ ہم نے روزہ افطار کراکے بڑا ثواب کما لیا ہے۔
دوسرا سبق یہ دیا گیا ہے کہ اپنے ماتحتوں، ملازموں اور نوکروں سے عام دنوں کے مقابلے میں کام کم لیں آخر وہ بھی روزہ سے ہیں، روزہ کی حالت میں ہمتیں جواب دے جاتی ہیں، بھوک پیاس کے احساس کے ساتھ کام سے طبیعت اُچاٹ ہوجاتی ہے، اگر ان کے ساتھ ہم دردی کی جائے اور ان کی مفوضہ ذمہ داریوں میں تخفیف کردی جائے تو یہ بڑے اجر و ثواب کا کام ہے۔ مومن کے رزق میں اضافہ کی مصلحت بھی یہی ہو سکتی ہے کہ و ہ خود بھی کھائے، اپنے اہل و عیال کے لیے بھی دسترخوان کو وسعت دے اور ضرورت مند رشتہ داروں، دوستوں اور پڑوسیوں کا بھی خیال رکھے۔
چناں چہ ایک روایت میں ہے کہ تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آچکا ہے تم اس کے لیے نیت پہلے ہی درست کر لو، اس مہینہ میں (اپنے اور اپنے اہل و عیال کے) نان نفقہ میں فراخی کرو۔ (کنز العمال) ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ رمضان کے مہینہ میں نان نفقہ کے متعلق وسعت سے کام لو کیوں کہ اس مہینہ میں (اپنی ذات پر اور اہل و عیال پر) خرچ کرنا ایسا ہے جیسے اﷲ کی راہ میں خرچ کرنا۔ (الجامع الصغیر)
رمضان کو مواسات، ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ قرار دینا، اپنے آپ میں ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ روایات میں ہے کہ سرکارِ دو عالم ﷺ رمضان کے مہینہ میں قیدیوں کو چھوڑ دیا کرتے تھے اور ہر مانگنے والے کو دیا کرتے تھے۔(بیہقی شعب الایمان)
حضرت عبد اﷲ ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان المبارک میں جب حضرت جبرئیل علیہ السلام آپؐ سے ملاقات کرتے تھے تو آپؐ اور زیادہ سخی اور فیاض ہوجاتے تھے۔ آپ ﷺ بھلائی اور خیر کے کاموں میں تیز ہوا سے بھی زیادہ فیاضی اور سخاوت فرماتے تھے۔ (بخاری)
ہم میں سے بہت سے لوگ رمضان کے اس پہلو سے واقف ہی نہیں ہیں کہ یہ ہم دردی کا مہینہ ہے، ہم روزے بھی رکھتے ہیں ، نمازیں بھی پڑھتے ہیں، تراویح کی نماز بھی مستعدی کے ساتھ ادا کرتے ہیں، قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتے ہیں، لیکن اس مہینہ کا جو پیغام ہے اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، یقیناً یہ تمام کام اجر و ثواب کے ہیں اور ہر ایک عمل پر ہمیں ستّر گنا ثواب ملنے والا ہے، لیکن یہ ثواب تو صرف ہمیں ملے گا ہمارے ذریعہ دوسروں کو اس ماہ مبارک میں کتنا فائدہ پہنچا، ہم نے رمضان کی مقدس ساعتوں میں کبھی اس سوال پر غور کیا۔۔۔ ؟
اس مہینہ میں اﷲ کی رحمتوں کی وجہ سے اور عبادتوں کے تسلسل کے باعث ہمارے دلوں میں نرمی پیدا ہوجاتی ہے، طبیعت خیر کے کاموں کی طرف مائل ہونے لگتی ہے، ہمیں اپنے دلوں کی اس نرمی اور خیر کی طرف طبیعتوں کے اس میلان سے اس ماہ مقدس میں پورا فائدہ اٹھانا چاہیے، اور فائدہ اٹھانے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں ہمارے عزیز و اقارب میں، اپنے حلقہ تعارف میں اور پاس پڑوس کے مکانوں میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو اپنی کم آمدنی کے باعث اس مہینہ کی ظاہری نعمتوں سے مستفید نہیں ہوسکتے، کیا یہ اچھا لگتا ہے کہ ہمارے دسترخوان پر ہمہ اقسام کی نعمتیں سجی ہوئی ہوں اور انواع و اقسام کے کھانے رکھے ہوئے ہوں دوسری طرف ہمارے قریب کے کچھ لوگ نان جویں کو بھی محتاج ہوں یا روکھا سوکھا کھا کر پیٹ بھر رہے ہوں۔
اس کے بعد عید سرپر ہے ہماری ذمہ داری ہے کہ عید کی مسرتوں میں ان لوگوں کو بھی شریک کرلیں جو اپنی تنگ دستی کے سبب اس دن بھی روز کی طرح نظر آنے والے ہیں اور رمضان کو ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ بلاوجہ قرار نہیں دیا گیا، اس میں صاحب حیثیت مسلمانوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ ضرورت مند انسانیت کے ساتھ ہم دردی اور غم خواری بھی اس ما ہ مبارک کی ایسی ہی عبادت ہے جس پر ستّر گنا اجر و ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔