مولانا حامد الحق حقانی کے جنازے میں ہزاروں افراد کی شرکت
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 مارچ 2025ء) پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں ہزاروں سوگوراوں نے آج یکم مارچ بروز ہفتہ دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ مولانا حامد الحق حقانی کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ ضلع نوشہرہ کے علاقے اکوڑہ خٹک میں واقعہ مدرسہ حقانیہ کے سربراہ حامد الحق ان سات افراد میں شامل تھے، جو ایک روز قبل اس مدرسے کے احاطے کے اندر قائم مسجد میں کیے گئے ایک خودکش بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔
پولیس کے مطابق اس حملے کا ہدف حامد الحق ہی تھے۔ وہ مولانا سمیع الحق مرحوم کے بیٹے تھے، جنہیں طالبان کی افغان اور پاکستانی شاخوں کی بانی شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ اسی سبب مولانا سمیع الحق کو عالمی میڈیا میں 'فادر آف دی طالبان‘ کے نام سے بھی متعارف کرایا گیا تھا اور ان کے مدرسے دارالعلوم حقانیہ کو 'یونیورسٹی آف جہاد‘ بھی لکھا گیا تھا۔
(جاری ہے)
کئی افغان طالبان نے گزشتہ چند دہائیوں میں دارالعلوم حقانیہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔
جمعے کو ہونے والے حملے کی ذمہ داری ابھی تک کسی بھی عسکریت پسند گروپ نے قبول نہیں کی۔ حکام نے مبینہ خودکش حملہ آور کی تصویر جاری کی ہے اور عوام سے اس کی شناخت میں مدد کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس حملہ آور کے کوائف کے بارے میں معلومات مہیا کرنے پر پانچ لاکھ روپے یا 1,787 امریکی ڈالر کے برابر انعامی رقم دینے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
ہفتے کے روز حامد الحق کی نماز جنازہ کے موقع پر اس مدرسے کا مرکزی ہال سوگواروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، جبکہ کئی افراد نے مدرسے کے باہر سڑک پر کھڑے ہو کر نماز جنازہ ادا کی۔ پولیس کی بھاری نفری اور مدرسے کے طلبا کی جانب سے پنڈال کی حفاظت کے سبب نماز جنازہ کے لیے اجتماع بغیر کسی ناخوشگوار واقعے کے اپنے اختتام کو پہنچا۔ دارالعلوم حقانیہ میں بم دھماکہ پاکستان میں جمعے کے روز ہونے والے ان چار حملوں میں سے ایک تھا، جن میں سے دو حملے مساجد میں کیے گئے اور جو رمضان کے مقدس سمجھے جانے والے اسلامی مہینے کے آغاز سے عین قبل اپنی تعداد اور وقت دونوں حوالوں سے غیر معمولی تھے۔
ش ر⁄ م م (اے پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دارالعلوم حقانیہ حامد الحق
پڑھیں:
مودی حکومت نے اتراکھنڈ میں 170 مدارس بند کردیئے، ہزاروں طلبہ تعلیم سے محروم
دہرا دون: بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں مودی حکومت کے تحت 170 سے زائد مسلم مدارس کو غیر قانونی قرار دے کر بند کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے 129 مدارس میں تدریس کا سلسلہ فوری طور پر معطل کر دیا گیا ہے، جس کے باعث ہزاروں طلبہ تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں۔
یہ کارروائی خاص طور پر اودھم سنگھ نگر، دہرہ دون، نینی تال اور ہلدوانی جیسے علاقوں میں کی گئی ہے۔ ہلدوانی کے بنبھول پورہ علاقے میں 7 مدارس بغیر کسی پیشگی نوٹس کے سیل کر دیے گئے، جس سے مقامی مسلم برادری میں شدید خوف اور غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔
ریاستی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ مدارس غیر رجسٹرڈ اور "شدت پسندی" کے مراکز ہیں، جبکہ مسلم رہنماؤں اور سول رائٹس تنظیموں نے اس اقدام کو بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کا حصہ قرار دیا ہے۔
مشہور عالم دین مفتی شمون قاسمی کا کہنا ہے: "اگر کوئی ادارہ غیر قانونی ہے تو کارروائی ضرور ہو، مگر مدارس کو نشانہ بنا کر دینی تعلیم کو دہشتگردی سے جوڑنا انتہائی افسوسناک ہے۔"
کانگریس رہنماؤں اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مدارس کی بندش کے پیچھے اصل مقصد مودی حکومت کے ہندوتوا ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے۔