ایف آئی اے نے مصطفیٰ عامر کے قتل کے مقدمے میں گرفتار ملزم ارمغان کی منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے حوالے سے بھی تحقیقات کا آغاز کر دیا۔

ایف آئی اے نے مصطفیٰ عامر کے قتل کے مقدمے میں گرفتار ملزم ارمغان کی منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے حوالے سے ایف آئی اے تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ اینٹی منی لانڈرنگ سرکل اور سائبر کرائم سرکل کے افسران مشترکہ تفتیش کر رہے ہیں۔

ارمغان کے تمام اکاؤنٹس، منققولہ اور غیر منقولہ پراپرٹیزکو90 دن  کے لیے منجمد کر رہے ہیں، ارمغان نے اپنے اکاؤنٹس سے جن افراد کے ساتھ  ڈیلنگ کی ہے، ان تمام افراد کو بھی شامل تفتیش کیا جائے گا۔

حکام کے مطابق ارمغان کے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے حوالے سے شواہد دینے کیلئے سی آئی اے کو خط لکھ دیا گیا ہے۔

ارمغان کے سائبر کرائم میں ملوث ہونے کے حوالے سے شواہد کا فارنزک کروائیں گے، تحقیقات مکمل کر کے اعلیٰ حکام کو آگاہ کیا جائے گا اور ایف آئی اے میں اگر مقدمہ درج کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اعلیٰ حکام کے احکامات کی روشنی میں کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ارمغان کے

پڑھیں:

مصطفیٰ عامر قتل کیس: عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں پولیس کے اہم انکشافات

مصطفیٰ عامر قتل کیس: عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں پولیس کے اہم انکشافات WhatsAppFacebookTwitter 0 27 February, 2025 سب نیوز


کراچی کے علاقے ڈیفنس سے اغوا کے بعد قتل ہونے والے مصطفیٰ عامر کے کیس میں پولیس نے ملزم ارمغان کی فرد گرفتاری اور اسلحہ برآمدگی کی رپورٹ عدالت میں جمع کرادی، جس میں بتایا گیا کہ پولیس چھاپے کے دوران ملزم نے جدید اسلحہ سے فائرنگ کی۔
تفصیلات کے مطابق کراچی کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں مصطفیٰ عامر قتل کیس میں پولیس کی جانب سے ملزم ارمغان کی فرد گرفتاری اور اسلحہ برآمدگی کی رپورٹ عدالت میں جمع کرادی گئی۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پولیس چھاپے کے دوران ملزم نے جدید اسلحہ سے فائرنگ کی، مصطفیٰ کی بازیابی کے لیے ارمغان کے گھر پر چھاپا مارا گیا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پولیس ملزم کے بنگلے پر پہنچی تو اندر موجود شخص نے دروازہ نہیں کھولا، سرکاری موبائل کی ٹکر سے گیٹ کھولا گیا اور پولیس بنگلے میں داخل ہوئی، پولیس پر جان سے مارنے کی نیت سے جدید اسلحہ سے فائرنگ ہوئی، فائرنگ سے ڈی ایس پی احسن ذوالفقار اور کانسٹیبل اقبال زخمی ہوئے۔
پولیس کی جانب رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ملزم کو بلند آواز میں سرینڈر کرنے کے لیے کہا جاتا رہا مگر وہ وقفے وقفے سے فائرنگ کرتا رہا، ملزم باز نہیں آیا اور کافی دیر تک پولیس پر فائرنگ کرتا رہا، پولیس نے پیش قدمی کرتے ہوئے ملزم کو گھیرے میں لے کر گرفتار کیا، ملزم سے جدید اسلحہ بھی برآمد کیا گیا تھا۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔
بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔
ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔
ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔

ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔

کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔

بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔

دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔

تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔

پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مصطفیٰ قتل کیس: تحقیقات میں مدد کیلئے ڈی جی اینٹی نارکوٹکس کو خط لکھنے کا فیصلہ
  • مصطفیٰ عامر قتل کیس: ساجد حسن نے بیٹے کے ملوث ہونے پر کیا کہا؟
  • مصطفیٰ قتل کیس: گواہ نے ملزم ارمغان اور شیراز کو شناخت کر لیا
  • مصطفیٰ عامر قتل کیس: ملزمان ارمغان اور شیراز کے ریمانڈ میں 5 روز کی توسیع
  • مصطفیٰ عامر قتل کیس؛ بیٹے کے ملوث ہونے پر اداکار ساجد حسن کا بیان سامنے آگیا
  • مصطفیٰ عامر قتل کیس؛ بیٹے کے ملوث ہونے پر اداکار ساجد حسن کا بیان سامنے آگیا
  • مصطفی عامر قتل کیس؛ پولیس کی درخواست منظور، ملزم کی خواہش پوری نہیں ہو سکی
  • مصطفی قتل کیس؛ پولیس نے پیشی پر ملزم ارمغان کی والدہ کو کس چیز سے روکا؟
  • مصطفیٰ عامر قتل کیس: عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں پولیس کے اہم انکشافات