واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔یکم مارچ ۔2025 )یوکرینی صدرزیلنسکی نے صدرٹرمپ کے ساتھ وائٹ ہاﺅس میں ہونے والی ملاقات کے دوران ہونے والی تلخ کلامی پر معافی مانگنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ٹرمپ سے کسی قسم کی معافی کے پابندنہیں ہے خاص طور پر اس لیے کہ انہوں نے کوئی ایسی غلطی نہیں کی جس کی وجہ سے انہیں معافی مانگنی پڑے امریکی نشریاتی ادارے” فاکس نیوز“ سے انٹرویومیں انہوں نے کہا کہ وہ صدر اور امریکی عوام کا احترام کرتے ہیں اور یوکرین ان کی حمایت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا امریکہ کے ساتھ کیف کے تعلقات کو یقیناً بچایا جا سکتا ہے خاص طور پر چونکہ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو دو صدور سے آگے ہے کیونکہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک مضبوط اور تاریخی رشتہ ہے.

انہوں نے کہا کہ وہ ایک پارٹنر کے طور پر امریکہ کو کھونا نہیں چاہتے اور وہ چاہتے ہیں کہ ٹرمپ تنازعہ کے خاتمے کے لیے مذاکرات میں زیادہ ان کی طرف ہوں انہوں نے کہا کہ وہ حفاظتی ضمانتوں کی جانب پہلے قدم کے طور پر معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہیں تاہم انہوں نے زور دیا کہ یوکرین اس وقت تک روس کے ساتھ امن مذاکرات میں داخل نہیں ہو گا جب تک اسے دوسرے حملے کے خلاف حفاظتی ضمانتیں نہیں مل جاتیں انہوں نے کہا کہ یوکرین امن چاہتا ہے، اس لیے اسے مذاکرات کی میز پر مضبوط ہونا چاہیے.

یوکرینی صدر نے واضح کیا کہ طے شدہ مذاکرات میں یورپ اور امریکہ شرکت کریں گے انہوں نے کہاکہ کاش ان جملوں کا تبادلہ صحافیوں کے سامنے نہ ہوتا انٹرویو میں جب زیلنسکی سے پوچھا گیا کہ کیا ٹرمپ کے ساتھ تعلقات کو بحال کیا جا سکتا ہے تو انہوں نے کہا کہ یقینا. انہوں نے کہا کہ امریکا اور یوکرین کے تعلقات دو سے زیادہ صدور کے بارے میں ہیں یوکرین کو روس کی کہیں زیادہ بڑی اور بہتر مسلح فوج کے خلاف لڑائی میں واشنگٹن کی مدد کی اشد ضرورت ہے زیلنسکی نے کہا کہ آپ کی حمایت کے بغیر یہ مشکل ہوگا زیلنسکی کا یہ انٹرویو اوول آفس کے غیر معمولی منظر نامے کے چند گھنٹوں بعد سامنے آیا جہاں روسی حملے کے خلاف یوکرین کی لڑائی کے لیے بڑے پیمانے پر حمایت کی ملاقات کے دوران سالہا سال پرانی امریکی پالیسی تلخ اور سخت جملوں میں بدل گئی.

اس تنازع کے بعد یورپی راہنماﺅں نے یوکرین کی حمایت میں آواز بلند کرنے کی کوشش کی امریکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے سامنے ہونے والی جھڑپ کے دوران ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس نے زیلنسکی سے کہا کہ وہ یوکرین کو ملنے والی امریکی امداد اور حمایت پر شکر گزار نہیں انہوں نے یوکرینی صدر پرجنگ بندی کی مجوزہ شرائط کو قبول کرنے سے انکار کرنے کا الزام عائد کیا.

صدرٹرمپ نے کہا کہ آپ کے پاس اب کوئی کارڈ نہیں، آپ یا تو کوئی معاہدہ کیں یا ہم اس معاملے سے باہر ہوجائیں گے اور اگر ہم باہر ہوئے تو آپ روس سے لڑیں گے اور مجھے نہیں لگتا کہ یہ اچھا ہوگا امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق زیلنسکی کو ٹرمپ کے سینئر حکام نے ملک چھوڑنے کے لیے کہا ہے امریکی صدر نے صحافیوں کو بتایا کہ زیلنسکی اپنا ہاتھ بڑھا رہے ہیں اور انہیں فوری طور پر لڑائی ختم کرنے پر رضامند ہونا چاہیے یورپ میں امریکا کے اتحادی پہلے ہی پریشان ہیں کہ ٹرمپ یوکرین کو موثر طریقے سے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو فتح سونپنے پر مجبور کر سکتے ہیں دونوں صدور کے درمیان تلخ کلامی کے بعد یورپ زیلنسکی کی حمایت کے لیے میدان میں کود پڑاپولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے زیلنسکی کے لیے کہا کہ آپ اکیلے نہیں ہیں.

برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ جھڑپ کے بعد ٹرمپ اور زیلنسکی دونوں سے فون پر بات کی اور کیف کے لیے غیر متزلزل حمایت کا عہد کیا انتہائی دائیں بازو کے اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے یوکرین کے معاملے پر امریکا، یورپ اور ان کے اتحادیوں کے درمیان بغیر کسی تاخیر کے سربراہ اجلاس کا مطالبہ کیا ہے. کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانیا جولی نے کہا کہ انہوں نے اپنے یوکرینی ہم منصب سے بات کی اور یوکرین کی سلامتی، خودمختاری اور لچک کو یقینی بنانے کے لئے ضروری مدد فراہم کرنے کے کینیڈا کے عزم کا اعادہ کیا امریکی سینیٹ کے سینئر ڈیموکریٹ چک شومر نے کہا کہ ٹرمپ اور وینس پیوٹن کا گندا کام کر رہے ہیں سینیٹ ڈیموکریٹس آزادی اور جمہوریت کے لیے لڑنا کبھی نہیں چھوڑیں گے ادھر روس کے سابق صدر دمتری میدویدیف نے زیلینسکی کو بے حس قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اوول آفس میں مناسب تھپڑ مارا گیا یوکرین نے کہا ہے کہ وہ صدر زیلنسکی کی حمایت میں متحد ہے وزیر خارجہ نے صدر کی بہادری کی تعریف کی جبکہ یوکرینی فوج کے سربراہ نے کہا کہ وہ صدر کے ساتھ کھڑے ہیں یہ بحران اس وقت سامنے آیا جب ٹرمپ نے کہا کہ یوکرین کو روس کے ساتھ جنگ بندی میں سمجھوتہ کرنا پڑے گا جس کے جواب میںزیلنسکی نے کہا کہ ہمارے علاقے میں قاتل کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے.

ملاقات کے دوران انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ مغربی حمایت یافتہ امن کی سابقہ کوششیں روسی جارحیت کو روکنے میں ناکام رہی ہیں تو وینس نے اس میں مداخلت کی اور انہیں توہین آمیز قرار دیا اس کے بعد اجلاس میں ٹرمپ اور وینس نے زور زور سے یوکرین کے رہنما کو تنقید کا نشانہ بنایا جب اس کے میزبان اس کے بارے میں بات کر رہے تھے تو وہ واضح بے چینی میں بیٹھا تھا ٹرمپ نے کیف اور یورپی اتحادیوں کو امریکی پالیسی میں اچانک یوٹرن لے کر پریشان کر دیا ہے اور خود کو پوٹن اور زیلنسکی کے درمیان ثالث کے طور پر پیش کیا ہے اور روسی حملے کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ہے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ یوکرینی صدر نے کہا کہ وہ کے درمیان کہ یوکرین یوکرین کو نے یوکرین سے انکار کی حمایت کے دوران ٹرمپ اور کے ساتھ کی اور کے لیے کے بعد کہا ہے

پڑھیں:

ڈانٹ ڈپٹ کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے یوکرینی صدر کو وائٹ ہاؤس سے چلتا کر دیا

ڈانٹ ڈپٹ کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے یوکرینی صدر کو وائٹ ہاؤس سے چلتا کر دیا WhatsAppFacebookTwitter 0 1 March, 2025 سب نیوز

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب امریکی صدر جے ڈی وینس کی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد یوکرین کے صدر زیلنسکی وائٹ ہاؤس کے کہنے پر وہاں سے روانہ ہوگئے۔

وائٹ ہاؤس میں عالمی سفارتی تاریخ کا انوکھا واقعہ پیش آیا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب امریکی صدر جے ڈی وینس کی یوکرینی صدر سے انتہائی سخت لہجے میں گفتگو ہوئی، دونوں نے یوکرینی صدر کو ڈانٹ دیا۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے جمعہ کو وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی، اس موقع پر میڈیا نمائندوں کے سامنے یوکرینی صدر کی امریکی صدر اور نائب سے تکرار ہوتی رہی جس کی ویڈیو کیمروں میں محفوظ ہوگئی۔

وینس نے کہا کہ زیلنسکی نے ابھی تک صدر ٹرمپ کا شکریہ کیوں ادا نہیں کیا۔ ٹرمپ نے ایک موقعے پر کہا کہ زیلنسکی آپ اس پوزیشن میں نہیں کہ امریکا کو احکامات دے سکیں۔ آپ بہت زیادہ بولتےہیں۔

ٹرمپ نے کہا کہ آپ کی وجہ سے جنگ بندی نہیں ہورہی۔آپ تیسری عالمی جنگ کیلئے جوا کھیل رہے ہیں، میں صدر ہوتا تو روس یوکرین جنگ ہوتی ہی نہیں۔روس، یوکرین اور امریکا کے درمیان سہ فریقی اجلاس لو میچ نہیں بلکہ مشکل مذاکرات ہوں گے۔

اس دوران یوکرینی صدر متعدد مرتبہ امریکی صدر کی بات کا جواب دینے کی کوشش کرتے رہے لیکن ٹرمپ نے یوکرینی صدر کو بولنے نہیں دیا۔

امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ یوکرین کو سکیورٹی ضمانت امریکا نہیں یورپ کی ذمہ داری ہے ، چاہتے ہیں امریکا یوکرین کی مدد بند نہ کرے۔امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے یوکرینی صدر کو کہا گیا کہ آپ بہت زیادہ بولتےہیں۔

اس گفتگو کے بعد امریکا اوریوکرین کے صدور کی مشترکہ پریس کانفرنس اور معدنی ڈیل پر دستخط کی تقریب بھی منسوخ کردی گئی۔

غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدرکی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد یوکرینی صدر زیلنسکی کو وائٹ ہاؤس سے جانے کا کہا گیا جس کے بعد وہ وہاں سے روانہ ہوگئے۔

ڈونلڈٹرمپ کا کہنا ہے کہ جب زیلنسکی امن کیلئے تیارہوں تو وہ واپس آسکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اوول آفس میں تلخی پر یوکرینی صدر کو معافی مانگنی چاہیے: امریکی وزیرِ خارجہ
  • یوکرینی صدر زیلنسکی کو اوول آفس میں ہونے والی تلخی پر معافی مانگنی چاہیے.مارکوروبیو
  • ٹرمپ زیلنسکی جھگڑے کے دوران یوکرینی سفارتکار کا ردعمل وائرل
  • ٹرمپ اور زیلنسکی کی شدید تلخ کلامی‘ وائٹ ہاؤس سے چلتا کردیا، یوکرینی صدرکا معافی مانگنے سے انکار
  • یوکرینی صدر کا ٹرمپ سے تلخ کلامی کے بعد معافی مانگنے سے انکار
  • ڈونلڈ ٹرمپ سے تلخ کلامی کے بعد یوکرینی صدر کا بیان آگیا، معافی مانگنے سے انکار
  • ڈانٹ ڈپٹ کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے یوکرینی صدر کو وائٹ ہاؤس سے چلتا کر دیا
  • زیلنسکی کا ٹرمپ سے تلخ کلامی پر معافی سے انکار، تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ
  • تلخ کلامی کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے یوکرینی صدر کو وائٹ ہاؤس سے چلتا کر دیا