UrduPoint:
2025-03-01@13:02:43 GMT

ٹرمپ اور زیلنسکی میں گرما گرمی، کس نے کس کو کیا کہا؟

اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT

ٹرمپ اور زیلنسکی میں گرما گرمی، کس نے کس کو کیا کہا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 مارچ 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے یوکرینی ہم منصب وولودیمیر زیلنسکی کے درمیان جمعے کے روز گرما گرم تکرار کے بعد ٹرمپ نے اس بات چیت کے سلسلے کی فوری بحالی کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔

دونوں صدور کے مابین یہ تکرار وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ان کی ایک ملاقات کے دوران ہوئی، جس کا ایک مقصد امریکہ کی یوکرین میں زمینی معدنیات تک رسائی کے لیے ایک معاہدے پر اتفاق کرنا بھی تھا۔

تاہم ٹرمپ اور زیلنسکی کی بحث کے باعث یہ معاہدہ طے نہ پا سکا اور یوکرینی صدر مقررہ وقت سے قبل ہی یہ ملاقات چھوڑ کر چلے گئے۔

بعد ازاں ٹرمپ نے کہا، ''وہ (زیلنسکی) اب واپس آنا چاہتے ہیں لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا۔‘‘

دریں اثنا امریکی ٹی وی چینل فوکس نیوز پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو کے دوران جب صدر زیلنسکی سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ٹرمپ سے معذرت کریں گے، تو انہوں نے کہا، ''نہیں۔

(جاری ہے)

میں (امریکی) صدر کا احترام کرتا ہوں، اور امریکی عوام کا بھی احترام کرتا ہوں ۔۔۔ اور میرا خیال ہے کہ ہمیں نہایت سچائی کے ساتھ کھل کر بات کرنا چاہیے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ باتیں بند درازوں کے پیچھے ہی ہونا چاہییں۔ وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں تکرار

ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان جمعے کو اوول آفس میں ہونے والی ملاقات کا بنیادی مقصد سکیورٹی اور باہمی اقتصادی تعاون تھا۔

تاہم ان کی تکرار کی وجہ سے یہ مقصد ادھورا ہی رہ گیا۔

اس ملاقات میں ٹرمپ نے زیلنسکی پر ''بے ادب‘‘ ہونے کا الزام لگایا۔ یوکرین اور روس کی جنگ کی بابت انہوں نے کییف کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا، ''آپ لاکھوں انسانی جانوں کا جوا کھیل رہے ہیں۔ آپ تیسری عالمی جنگ (کے خطرے) کا جوا کھیل رہے ہیں۔‘‘

صدر ٹرمپ نے زور دیا کہ اس تنازعے کا واحد حل روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ایک امن معاہدہ ہے۔

زیلنسکی پر اس حوالے سے سمجھوتہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہوئے امریکی صدر نے دھمکی دی کہ بصورت دیگر وہ یوکرین کے لیے امریکی امداد کی فراہمی روک دیں گے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا، ''آپ لوگ بہت بہادر ہیں لیکن آپ کو ڈیل بھی کرنا ہو گی ورنہ ہم (اس معاملے سے) علحیدہ ہو جائیں گے۔ اور اگر ہم علحیدہ ہو گئے تو آپ تنہا لڑ رہے ہوں گے۔ اور میرے خیال میں یہ اچھا نہیں ہو گا۔

‘‘

اس دوران یوکرینی صدر زیلنسکی جھنجھلائے ہوئے نظر آئے۔ ٹرمپ کے الزامات اور دھمکی کے جواب میں انہوں نے کہا، ''ہم کسی ایسے ملک کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کریں گے جس نے ہماری سر زمین پر قتل کیا ہو۔‘‘ انہوں نے ٹرمپ پر الزام لگایا کہ وہ یوکرین اور امریکہ کی سکیورٹی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

صدر زیلنسکی کا کہنا تھا، ''آپ کی مضبوط پوزیشن کی وجہ سے میں آپ پر بہت انحصار کرتا ہوں۔

مجھے امید ہے کہ ہم دونوں مل کر اسے (صدرپوٹن کو) روک پائیں گے۔ لیکن ہمارے لیے اپنے ملک، اقدار، آزادی اور جمہوریت کی حفاظت بھی بہت اہم ہے۔‘‘

اس پر ٹرمپ نے زیلنسکی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''آپ دیکھ رہے ہیں کہ پوٹن کے لیے ان میں کتنی نفرت ہے۔ ایسے میں میرا کسی بھی قسم کی ڈیل کرنا بہت مشکل ہے۔ ان میں بہت زیادہ نفرت ہے، اور مجھے (اس کی وجہ) بھی سمجھ آتی ہے، لیکن میں یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ دوسرے فریق بھی ان کی محبت میں مبتلا نہیں۔

‘‘

اس گرما گرمی کے بعد زیلنسکی یہ ملاقات ادھوری چھوڑ کر وائٹ ہاؤس سے چلے گئے۔

اس ملاقات کے بعد ٹرمپ اور زیلنسکی کی ایک مشترکہ پریس کانفرنس بھی ہونا تھی، جسے منسوخ کر دیا گیا۔

ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا کہ زیلنسکی کے رویے سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ ''امن چاہتے ہیں۔‘‘ جبکہ اپنے بارے میں ان کا کہنا تھا، ''میں اسی وقت سیزفائر چاہتا ہوں۔

‘‘

انہوں نے یہ بات بھی دہرائی کہ سمجھوتے سے انکار کی صورت میں یوکرین اس لڑائی میں تنہا رہ جائے گا۔

زیلنسکی کا سکیورٹی ضمانتوں کا مطالبہ

دوسری جانب صدر زیلنسکی نے فوکس نیوز پر نشر کیے گئے انٹرویو میں کہا کہ یوکرین کو فوری طور پر سکیورٹی کی ضمانتوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہمیں کوئی سرپرائز نہیں چاہیے‘‘ اور روس کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے صرف معدنیات کا معاہدہ ناکافی ہو گا۔

ان کے مطابق یہ معاہدہ ''سکیورٹی کی ضمانتیں دینے کی طرف پہلا قدم ہو گا لیکن (مذاکرات شروع کرنے کے لیے) یہ کافی نہیں۔‘‘ یوکرین کو یورپ کی حمایت حاصل

اس تمام قصے کے بعد کئی یورپی لیڈران نے یوکرین کی حمایت میں بیانات دیے۔ اس ہفتے وہ یوکرین کی صورتحال پر بات چیت کے لیے برطانیہ میں ایک اجلاس میں بھی شرکت کریں گے، جس میں یوکرین میں امن کے لیے ممکنہ مذاکرات پر بھی توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اسی طرح کا یورپی یونین کا ایک اجلاس چھ مارچ کو برسلز میں بھی ہونا ہے۔

م ا/ م م (ڈی پی اے، اے پی، اے ایف پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ٹرمپ اور زیلنسکی صدر زیلنسکی انہوں نے کہنا تھا رہے ہیں نے کہا کے لیے کے بعد

پڑھیں:

ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان جھڑپ وتلخ کلامی کی وجہ کیا بنی؟

ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان جھڑپ وتلخ کلامی کی وجہ کیا بنی؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 1 March, 2025 سب نیوز

نیویارک:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے یوکرین کے ہم منصب ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان جمعہ کی شام میڈیا اور دنیا بھر کے لاکھوں افراد کے سامنے ہونے والی عدیم المثال زبانی تکرار سے پہلے وائٹ ہاؤس کے دروازے پر ایک چھوٹے سے مذاق نے اس جھگڑے کی راہ ہموار کی۔
جب ٹرمپ اپنے مہمان کا استقبال کر رہے تھے انہوں نے اسے لے جانے والی کار سے باہر نکلتے ہی ان کا استقبال کیا، تاہم اس موقع پر انہوں نے طنزیہ لہجے میں کہا: “اسے تمام خوبصورتی سے دیکھو ، اچھے لباس میں” وہ زیلنسکی کے غیر رسمی ملبوس کا حوالہ دے رہے تھے جو انہوں نے اوول ہاوس کے دورے کے موقع پر زیب تن کر رکھا تھا۔ وہ ملک میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے زیادہ تر فوجی نوعیت کے لباس میں نظر آ رہے ہیں۔
یوکرین کے صدر سیاہ پینٹ اور ایک شرٹ میں نظر آئے جس پر ان کے ملک کا چھوٹا سا نشان تھا۔ جبکہ امریکی صدر نے ہمیشہ کی طرح سرخ ٹائی کے ساتھ ایک رسمی سوٹ پہنا۔

اشتعال انگیز سوال
لیکن بات یہیں نہیں رکی جب دونوں رہنما صحافیوں سے سوالات لینے بیٹھے تو ایک صحافی نے ان سے اشتعال انگیز لہجے میں پوچھا کہ “آپ سرکاری سوٹ کیوں نہیں پہنتے؟ کیا آپ کے پاس نہیں ہے؟ کوئی مہمان غیر رسمی لباس میں ملک کے اعلیٰ ترین مقام پر آتا ہے”۔

زیلنسکی نے جواب دیا کہ جب ان کے ملک میں جنگ ختم ہو جائے گی تو وہ سوٹ پہنیں گے، کیونکہ ان کے پاس پہلے ہی کافی مسائل ہیں۔ تاہم صحافی نے ہار نہیں مانی اور کہا کہ امریکیوں کو بھی مسائل ہیں، لیکن جب وہ اعلیٰ ترین سرکاری مقامات پر آتے ہیں تو وہ سوٹ پہنتے ہیں۔ پھر ٹرمپ لائن میں داخل ہوئے، ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دوبارہ کہا کہ ان کے مہمان کا لباس خوبصورت ہے اور وہ اسے پسند کرتے ہیں۔

تناؤ واضح تھا
اس موقع پر یہ واضح ہو گیا کہ دونوں صدور کے درمیان کشیدگی سے پہلے ہی ماحول میں تناؤ پھیلنا شروع ہو گیا تھا، صدر کے مشیر جے ڈی وینس نے جلتی پر تیل ڈالا اور متکبرانہ لہجے میں کہا کہ زیلنسکی کو ٹرمپ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ امریکہ یوکرین کو اب بھی مدد فراہم کر رہا ہے۔ جب کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے چہرے پر خاموشی اور مایوسی عیاں تھی۔ وہ اس موقعے پر ایک لفظ بھی کہے بغیر اٹھ گئے۔ ان کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔

عرب میڈیا کے مطابق اسی تناظر میں دو باخبر ذرائع نے تصدیق کی کہ ٹرمپ کو ناراض کرنے والے چھوٹے عوامل میں سے ایک حقیقت یہ تھی کہ زیلنسکی نے سوٹ نہیں پہنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے مشیروں نے کئی مواقع پر زیلنسکی کی ٹیم کو بتایا کہ وہ وائٹ ہاؤس کا دورہ کرتے وقت اپنی فوجی وردی اتارنے کو ترجیح دیں گے۔

لیکن بات یقینی طور پر اس سے آگے بڑھ گئی۔ حالیہ عرصے کے دوران واشنگٹن اور کیئف کے درمیان تعلقات نے ایک کشیدہ رخ اختیار کیا ہے۔ ٹرمپ اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتین کے درمیان فون کال اور دونوں ممالک کے وفود کی سعودی عرب میں 18 فروری کو سعودی عرب میں ہونے والی سربراہی کانفرنس کے بعد یوکرینی صدر سخت ناراض دکھائی دیتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • یوکرینی معدنیات پرٹرمپ زیلینسکی میٹنگ کسی معاہدہ کے بغیر ختم
  • اوول آفس میں تلخی پر یوکرینی صدر کو معافی مانگنی چاہیے: امریکی وزیرِ خارجہ
  • زلنسکی خاموشی سے بے عزتی سہنے کے بجائے ٹرمپ کے سامنے کھڑے ہوگئے، واشنگٹن پوسٹ
  • یوکرینی صدرزیلنسکی کا ٹرمپ سے ملاقات میں تلخ کلامی پر معافی مانگنے سے انکار
  • ٹرمپ زیلنسکی جھگڑے کے دوران یوکرینی سفارتکار کا ردعمل وائرل
  • ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان جھڑپ وتلخ کلامی کی وجہ کیا بنی؟
  • ڈانٹ ڈپٹ کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے یوکرینی صدر کو وائٹ ہاؤس سے چلتا کر دیا
  • ٹرمپ کا زیلنسکی کو جھٹکا: یوکرین کے لیے سیکیورٹی گارنٹی دینے سے انکار
  • زیلنسکی کا نیٹو رکنیت کا خواب چکنا چور، امریکہ کی ایک اور بے وفائی