جرمنی کے حالیہ انتخابات کے نتائج: تارکین وطن برادری کی تشویش میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 مارچ 2025ء) جرمنی کے حالیہ پارلیمانی انتخاباتکے نتائج سے ظاہر ہو رہا ہے کہ یورپ کے قلب میں واقع اس ملک میں تارکین وطن مخالف سیاسی جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی ( اے ایف ڈی) کی حمایت میں تاریخی اضافہ ہوا ہے۔ جرمنی میں آباد تارکین وطن اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش کا شکار نظر آ رہے ہیں۔
57 سالہ شامی نژاد باشندے محمد آموز نے اس بار کے پارلیمانی الیکشن میں پہلی بار اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
اے ایف ڈی کی کامیابی پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے محمد آموز کا کہنا تھا،''یہ نفرت کیوں؟ ہم کام کرتے ہیں، خود اس معاشرے میں اپنی جگہ بناتے ہیں، ہم معاشرے پر بوجھ نہیں تو یہ نفرت کیوں؟ ہم جرمن باشندوں سے محبت کرتے ہیں۔(جاری ہے)
‘‘
جرمن الیکشن میں قدامت پسندوں کی جیت، اے ایف ڈی دوسرے نمبر پر
آموز نے اس بار جرمنی کے پارلیمانی الیکشن میں اپنا ووٹ انتہائی بائیں بازو کی پارٹی ڈی لنکے کو دیا۔
یہ وہ پارٹی ہے، جس کی انتخابی مہم میں سماجی انصاف کے فروغ کو مرکزی اہمیت حاصل تھی۔ ڈی لنکے کا وعدہ تھا کہ وہ الیکشن میں کامیاب ہوئی تو کم آمدنی والے گھرانوں کی اور زیادہ مدد کی جائے گی۔محمد آموز سابق چانسلر انگیلا میرکل کے دور کو یاد کرتے ہوئے حسرت سے کہتے ہیں،''اب ہمیں وہ دن یاد آتے ہیں، جب مسز میرکل حکومت کی کرتا دھرتا تھیں۔
اب سب کچھ مہنگا ہے ... ایسا لگتا ہے جیسے بس ایک دوڑ مسلسل جاری ہے جو کبھی منزل تک نہیں پہنچنے والی ہے۔‘‘
غیر ملکی اپنی مالی صورتحال سے زیادہ پریشان
جرمن سینٹر فار انٹیگریشن اینڈ مائیگریشن ریسرچ DeZIM کے ایک حالیہ مطالعے میں کہا گیا ہے کہ جرمنی میں تارکین وطن کے پس منظر رکھنے والے باشندے ملک کی معاشی بدحالی کے درمیان دیگر باشندوں کے مقابلے میں اپنی مالی صورتحال کے بارے میں زیادہ فکر مند ہیں۔
جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کی رہنما ہنگری کے دورے پرمذکورہ مطالعے کی رپورٹ کے مطابق جرمنی میں آباد 63.4 فیصد تارکین وطن اپنی مالی صورتحال کے بارے میں فکر مند ہیں اور اس سلسلے میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں جبکہ اس بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرنے والے غیر تارکین وطن کی شرح 46.7 فیصد ہے۔
جرمنی میں تارکین وطن کی آبادی
جرمنی میں مہاجرین کی تعداد حالیہ وقتوں کے مقابلے میں کبھی اتنی زیادہ نہیں تھی۔
یہی وجہ ہے کہ اس بار کے پارلیمانی انتخابات میں تارکین وطن کے پس منظر والے سات ملین سے زیادہ باشندے ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔ ان میں سے ہزاروں ماضی میں پناہ گزین رہ چکے ہیں۔ ووٹ کا حق نہ رکھنے والے دیگر مہاجرین نے بھی جرمن ریاست کے بارے میں اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا۔مہاجر برادری کی غلطیوں کا اعتراف
اردن سے تعلق رکھنے والے ایک حجام محمد کو رائے دہی کا حق حاصل نہیں ہے۔
ان کے خیال میں تارکین وطن مخالف سیاسی جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی ( اے ایف ڈی) کا عروج جرمنی میں چند امور کو اجاگر کرنے کا ایک موقع فراہم کرنے کا سبب ہے۔جرمن قانون ساز متنازعہ امیگریشن قانون پر آج ووٹ ڈالیں گے
یہ بھی اس سوچ کے حامل ہیں کہ جرمنی کو اپنی سرحدوں اور آبادی کی حفاظت کا حق حاصل ہے۔ اردنی باشندے محمد نے جرمنی کی مہاجر برادری کی چند غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ تشدد پسند مجرموں کے بارے میں سخت موقف اور پناہ گزینوں کے خاندانوں کے دوبارہ اتحاد پر پابندیوں کی حمایت کرتے ہیں۔
ان کے بقول،''اگر میرے ملک میں AfD پارٹی ہوتی تو میں اسے ووٹ دیتا۔‘‘تارکین وطن برادری میں مقبول سوشل ڈیموکریٹس کی تاریخی ناکامی
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی تارکین وطن برادری میں مزدوروں کے حقوق کی وکالت کے ساتھ ساتھ تارکین وطن کے سماجی بہبود اور انضمام کی کوششوں کے تناظر میں سب سے مقبول پارٹی تھی۔
جرمن دارلحکومت برلن کے مضافاتی علاقے '' لوڈویگس فیلڈے‘‘ میں بطور پلانٹ آپریٹر کام کرنے والے شامی باشندے علاء الدین مہنا نے 2021ء میں سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی SPD کو ووٹ دیا تھا لیکن اس بارایس پی ڈی حکمرانوں کی یوکرین نواز پالیسی نے انہیں اس پارٹی کو ووٹ دینے سے سے روک دیا۔
جرمنی میں نسل پرست عسکریت پسند گروپ کے آٹھ ارکان گرفتار
ان کا کہنا ہے کہ یوکرین نواز پالیسی نے جرمن معیشت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔
علاء الدین مہنا کا کہنا تھا،''کوئی پارٹی صحیح معنوں میں میری نمائندگی نہیں کرتی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس بار کے الیکشن میں جرمنی کی گرتی ہوئی معیشت ان کی اولین پریشانی تھی جو ان کے بقول اے ایف ڈی کے عروج کی وجہ بنی۔علاء الدین نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا،''میں بے چین ہوں۔ یقیناً قدامت پسند اے ایف ڈی کے ساتھ اتحاد کے زریعے حکومت کی تشکیل نہیں کریں گے۔
لیکن اپوزیشن کے طور پر اے ایف ڈی کا ایک بڑا نام ہوگا جس سے میں اور زیادہ فکر مند ہوں۔‘‘فریڈرش میرس سے وابستہ توقعات
شامی نژاد محمد آموز کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ جرمنی کے اگلے چانسلر فریڈرش میرس ملک کو خوشحالی کی طرف لے جائیں گے۔ انہوں نے کہا،''ہمیں امید ہے کہ جس پارٹی نے اقتدار سنبھالا ہے وہ عوام پر رحم کرے گی۔ نہ صرف مہاجرین، بلکہ تمام جرمن شہریوں پر۔‘‘
ک م/ ش ر(روئٹرز)
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں تارکین وطن کے بارے میں الیکشن میں کرتے ہوئے اے ایف ڈی کا اظہار کرتے ہیں جرمنی کے کا کہنا
پڑھیں:
وزیرِ خارجہ سے اپیل
کراچی کے مزدوروں کے لیے 11 ستمبر 2012 ایک سیاہ دن تھا۔ بلدیہ ٹاؤن کی علی انٹرپرائز میں اس دن خوفناک آگ بھڑک اٹھی۔ اس آگ میں 289 کارکن جن میں خواتین بھی شامل تھیں جل کر مرگئے۔ اس آتشزدگی کے نتیجے میں سیکڑوں کارکن شدید زخمی ہوئے۔ یہ آگ 12گھنٹے سے زیادہ عرصے تک جاری رہی۔ بلدیہ کراچی کے علاوہ دیگر اداروں کے فائر ڈپارٹمنٹس کی ناقص کارکردگی کی بناء پر فیکٹری کے مختلف فلور میں موجود کئی افراد مدد کے لیے پکارتے رہے۔
فیکٹری کی عمارت کی کھڑکیوں کو لوہے کی سلاخوں سے بند کردیا گیا تھا، یوں بلدیہ ٹاؤن کے سیکڑوں افراد فیکٹری کی عمارت میں پھنسے کارکنوں کی آوازیں سنتے رہے مگر کوئی ان مظلوموں کی مدد کو نہیں پہنچ سکا۔ ایک اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بلدیہ گارمنٹس فیکٹری میں مرنے والے کارکنوں کے لواحقین آج بھی اپنے کلیمز کی ادائیگی کے لیے جلسے اور جلوسوں پر مجبور ہیں۔ جب یہ حادثہ ہوا تھا تو اس وقت سید قائم علی شاہ سندھ کے وزیر اعلیٰ، یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم اور آصف علی زرداری ملک کے صدرکے فرائض انجام دے رہے تھے ۔ وفاقی حکومت کے علاوہ سندھ کی حکومت نے لواحقین کو معاوضہ ادا کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس وقت میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اس وقت میاں نواز شریف نے مسلم لیگ ن کی قیادت دوبارہ سنبھال لی تھی، وہ خاص طور پر کراچی آئے اور بلدیہ ٹاؤن میں ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے لواحقین کے لیے مدد کا اعلان کیا تھا مگر لواحقین کہتے ہیں کہ ان میں سے بیشتر اعلان کردہ رقم انھیں نہیں ملی۔ حکومت سندھ نے سندھ ہائی کورٹ کا ایک رکنی ٹریبونل قائم کیا تھا مگر طویل تحقیقات کے باوجود کوئی واضح رپورٹ پیش نہ ہوئی۔
انسانی حقوق کی پاسداری کی تحریک میں فعال کردار ادا کرنے والے وکلاء نے بلدیہ فیکٹری میں آتشزدگی اور لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں مقدمات دائرکیے۔ کچھ عرصے بعد پولیس کی تحقیقات سے ظاہر ہوا کہ ایم کیو ایم الطاف گروپ کے جنگجوؤں نے فیکٹری کے مالک سے بھتہ کی عدم ادائیگی کی بناء پر ایک خطرناک کیمیکل چھڑک کر فیکٹری کو آگ لگا دی تھی۔ فیکٹری میں آگ بجھانے والے معیاری نظام کی عدم موجودگی اور مختلف منزلوں سے متبادل راستہ نہ ہونے سے آگ نے خوفناک تباہی مچائی تھی۔
کراچی میں فائر بریگیڈ کی ناقص کارکردگی کی بناء پر ریسکیو آپریشن میں بہت دیر لگی تھی۔ مزدوروں کے حقوق کے لیے سرگرداں نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن اور پائلر ناصر منصور، زہرہ خان اور پائلر کے سربراہ کرامت علی نے ان لواحقین سے مل کر قانونی بنیاد پر ایک جدوجہد منظم کی۔ ناصر منصور اور زہرہ خان وغیرہ نے معاوضوں کی ادائیگی کے لیے محکمہ محنت اور دیگر اداروں کے دروازے کھٹکھٹائے۔ ان لوگوں کی کوششوں سے سانحہ بلدیہ متاثرین کی ایسوسی ایشن قائم ہوئی۔
بلدیہ فیکٹری میں آگ میں اپنا بیٹا کھونے والی سعیدہ خاتون نے اس ایسوسی ایشن کی قیادت سنبھال لی مگر وہ کینسر کے ہاتھوں اپنی زندگی ہارگئیں۔ اس حادثے میں اپنے شوہرکو کھونے والی حسینہ خاتون اب ایسوسی ایشن کی قیادت کر رہی ہیں۔ اب لواحقین کی ایسوسی ایشن نے سرکاری محکموں کے علاوہ اعلیٰ عدالتوں میں عرض داشتیں دائرکیں۔ کراچی شہر کی سڑکوں پر مظاہرے کیے گئے اور مزدوروں کے جلسوں میں بلدیہ فیکٹری کے مظلومین کے لیے آواز بلند کی گئی۔
ناصر منصور لیبر سے متعلق بین الاقوامی قوانین سے مکمل واقفیت رکھتے ہیں۔ انھیں خاص طور پر یورپ کی مزدور تنظیموں کے اجلاسوں کے علاوہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (I.L.O) کے اجلاسوں میں شرکت کا موقع ملتا رہا ہے۔ ناصر منصور نے اس جدوجہد کے دوران اس نکتے پر زور دیا کہ ایک جرمن گارمنٹس برانڈ کمپنی اس فیکٹری کی تیارکردہ مصنوعات خریدتی ہے، یوں یہ طے ہوا کہ اس کمپنی کے خلاف جرمنی میں مقدمہ کیا جائے۔
اس کمپنی کا ہیڈ کوارٹر جرمنی کے شہر Dortmund میں ہے۔ اس بناء پر لواحقین کے چار افراد نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن اور جرمنی کی انسانی حقوق کی تنظیم ECHHR نے Dortmund میں مقدمہ دائر کیا، مگر جرمن عدالت نے یہ مقدمہ اس بنیاد پر خارج کردیا کہ جرمنی میں ایسا قانون نہیں ہے کہ جرمنی کی فرم کسی اور ملک میں کوئی غیر قانونی اقدام کرے تو اس کے خلاف جرمنی میں مقدمہ ہوسکے، مگر بلدیہ فیکٹری کی آتشزدگی کے معاملے کی جرمنی میں اتنا زیادہ تشہیر ہوئی کہ جرمنی کی تمام سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاج کیا کہ کمپنی کو لواحقین کو معاوضہ ادا کرنا چاہیے، یوں جرمن فرم نے 6.1 ملین یورو معاوضے کے طور پر دینے کا اعلان کیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ یہ رقم متاثرین کو تاحیات پنشن کی صورت میں ملے گی، جرمن فرم اور متاثرین کے درمیان معاہدے کی نگرانی آئی ایل او نے کی۔
یہ رقم پھر سوئٹزرلینڈ سے پاکستان منتقل ہوئی۔ ایک نگراں کمیٹی قائم ہوئی جس میں آئی ایل او نمایندے کے علاوہ حکومتِ سندھ کے محکمہ لیبر کے سیکریٹری، لواحقین کے نمایندوں اور مزدور تنظیموں پر مشتمل ہے۔ اس طرح ہر تین ماہ بعد گرانٹ آتی اور اس نگراں کمیٹی کے تحت سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن پنشن کی رقم لواحقین میں تقسیم کر رہی تھی۔ یہ رقم 2016میں پاکستان میں منتقل ہوئی اور 2021 سے اس کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ مزدوروں کو منظم کرنے کی تحریک کے روحِ رواں ناصر منصور کا کہنا ہے کہ بلدیہ فیکٹری کا معاملہ جرمنی میں اتنا زیادہ اجاگر ہوا کہ پھر جرمن پارلیمنٹ نے قانون بنایا کہ اگر کوئی جرمن فرم بیرونی ملک غیر قانونی پریکٹس کرے گی تو جرمنی میں اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔
لواحقین یہ الزام لگا رہے ہیں کہ آئی ایل او نے کسی خفیہ معاہدے کے تحت یہ رقم کسی انشورنس کمپنی کو منتقل کردی۔ ایک اور ظلم یہ ہوا کہ آجروں نے سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن کو اپنے حصے کی ادائیگی نہیں کی، جس پر سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن نے لواحقین کی پنشن روک دی۔ بلدیہ فیکٹری کے متاثرین کی ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل محمد صدیق کا بیٹا ان 283 کارکنوں میں شامل تھا جو فیکٹری میں کام پرگیا اور پھر اس کی جلی ہوئی لاش گھر آئی۔ محمد صدیق گزشتہ 13 برسوں سے فیکٹری میں آتش زدگی سے متاثرین کے لواحقین کو معاوضوں کی ادائیگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ طویل مدتی معاوضے کے متعلق درپیش مسائل کے حل کے لیے کوئی طریقہ کار واضح نہ ہونے کی بناء پر لواحقین جن میں بوڑھی عورتیں، بیوائیں اور بچے شامل ہیں، مسلسل اذیت کا شکار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آئی ایل او کو جرمن برانڈ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی شرائط کو عام کرنا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ جب تک نگران کمیٹی قائم تھی لواحقین کو کچھ نہ کچھ معلومات مل جاتی تھیں مگر اب کمیٹی کے خاتمے کے بعد کوئی اطلاع فراہم نہیں کی جاتی۔ آئی ایل او کا دفتر اسلام آباد میں ہے اور غریب بوڑھے متاثرین کے لیے اسلام آباد جانا ہزاروں روپوں کا مسئلہ ہے۔ لواحقین نے وزیر خارجہ ، سیکریٹری خارجہ اور لیبر سندھ کے وزیر سے اپیل کی ہے کہ آئی ایل او کو اس معاہدے کو افشا کرنے کے لیے رابطے کیے جائیں۔ بلدیہ فیکٹری کے لواحقین اب سڑکوں پر مظاہرے کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ لواحقین کے گھروں میں اب فاتوں تک کی نوبت آگئی ہے۔ لواحقین کی ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ اسلام آباد تک لانگ مارچ کریں اور لانگ مارچ کرنے والے لواحقین اگر اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں تو آئی ایل او کے دفتر کے سامنے دھرنا دیں۔
اگر سندھ کا محکمہ محنت متحرک ہوتا تو لیبر اینڈ سیفٹی کے قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ فائر بریگیڈ کا شعبہ جدید خطوط پر استوار ہوتا تو جانی نقصان کم ہوتا۔ سندھ کی حکومت سنجیدگی سے اس معاملے میں دلچسپی لیتی تو لواحقین کو سڑکوں پر نہ آنا پڑتا۔ وزیر خارجہ اسحق ڈارکو اس انسانی مسئلے پر فوراً توجہ دینی چاہیے۔