آئی وی ایف، بانجھ پن کے لئے دن بدن مقبول ہوتا علاج کا طریقہ کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
ویب ڈیسک —
آئی وی ایف ایک ایسا میڈیکل پروسیجر ہے جو کسی بھی عورت کو اس وقت ایک ممکنہ حل فراہم کرتا ہے جب اسے حمل ٹھہرنے میں دشواری کا سامنا ہو رہا ہوا۔ امریکہ میں تو اس کے بہت سے کلینک ہیں لیکن اب یہ جنوبی ایشیا سمیت دنیا کے بہت سے ملکوں میں مقبول ہو رہا ہے۔
پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سمیت پورے جنوبی ایشیا میں یہ علاج برسوں سے دستیاب ہے، جن میں سے ایک تؐصویر آپ اوپر دیکھ رہے ہیں۔ 2016 میں منجیت کور نے شمالی بھارت میں ایک IVF کلینک کی مدد سے 58 سال کی عمر میں اپنی بیٹی کو جنم دیا تھا۔لیکن دنیا کے ہر ملک میں یہ علاج مہنگا ہےجن میں امریکہ بھی شامل ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فروری میں ہی ایک ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کئے ہیں جس کا مقصد بانجھ پن کے علاج کے لئے ان وٹرو فرٹلائزیشن یا آئی وی ایف کا طریقہ استعمال کرنےوالے خاندانوں کے لئے علاج کے اخراجات کوکم کرنا ہے۔
آئی وی ایف ایک ایسا میڈیکل پروسیجر (طریقہ کار)ہے جس کی مدد سے بانجھ پن کا سامنا کرنے والے خاندانوں کو اپنے خاندان تشکیل دینے میں مدد کی جاتی ہے۔
حکم نامےمیں کہا گیا ہے کہ ،’’ امریکیوں کو آئی وی ایف تک مستند رسائی اور مزید سستے علاج کے طریقوں کی ضرورت ہے کیوں کہ ایک مکمل پروسیجر کرانے میں12ہزار ڈالر سے 25ہزار ڈالر تک خرچ ہوتے ہیں ‘‘۔حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ بانجھ پن کے سستے علاج ، ، ان کے بارے میں آگاہی اور ان تک رسائی میں مالی معاونت فراہم کرکے ان خاندانوں کو امید اور اعتماد کے ساتھ والدین بننے میں مدد کی جاسکتی ہے۔
بانجھ پن کے علاج کے لئے دن بدن بڑھتے ہوئے اس مہنگے طریقے کے بارے میں کچھ معلومات پیش ہیں ۔
فائل فوٹو
آئی وی ایف کیا ہے؟
یہ میڈیکل پروسیجر کسی بھی عورت کو اس وقت ایک ممکنہ حل فراہم کرتا ہے جب اسے حمل ٹھہرنے میں دشواری کا سامنا ہو رہا ہواور عام طور پر اسے اس وقت اپنانے کی کوشش کی جاتی ہے جب اولاد پیدا کرنے کے دوسرے سستے علاج ناکام ہو جائیں۔
اس علاج میں عورت کی بیضہ دانی یا بچےدانی سے بیضے نکالے جاتے ہیں اور انہیں لیبارٹری میں مرد کےا سپرم کے ساتھ فرٹیلائز کیا جاتا ہے۔ یہ فرٹیلائزڈ بیضہ جنین کہلاتا ہے جسے پھر عورت کی بچہ دانی میں منتقل کیا جاتا ہے اس امید کے ساتھ کہ وہ وہاں پروان چڑھے گا۔
آئی وی ایف مرحلہ وار کیا جاتا ہے اور ایک سے زیادہ بار بھی کیا جا سکتا ہے ۔ اس میڈیکل طریقہ کار میں جوڑے کے یا کسی ڈونر یا عطیہ دہندہ کے چند بیضے اورا سپرم لیے جا سکتے ہیں ۔
لند ن کے ایک فرٹیلٹی کلینک میں آئی وی ایف کے پروسیجر کا ایک مرحلہ، فائل فوٹو
کیا انشورنس کمپنیاں اس علاج کا احاطہ کرتی ہیں ۔
آئی وی ایف اور بانجھ پن کے دوسرے علاجوں کی انشورنس کوریج کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ مریض کو انشورنس کون فراہم کرتا ہے۔
اب ان بڑی کمپنیوں میں اضافہ ہورہا ہے جو کارکنوں کو مائل کرنے کے لیے اس علاج کی کوریج کی پیش کش کررہی ہیں۔بہت سی کاروباری کمپنیاں بانجھ پن کی تشخیص کی کوریج کو مزید توسیع دے رہی ہیں اور ایل جی بی ٹی کیو، ( ہم جنس پرست ) جوڑوں اور تنہا عورتوں کو بھی اس کی پیش کش کررہی ہیں ۔
سرکاری فنڈز سے چلنے والے پروگرام، مثلاً میڈی کیڈ زیادہ تر بانجھ پن کی کوریج کو محدود کرتے ہیں ۔ نسبتاً چھوٹی کمپنیوں میں یہ کوریج کم ہوتی ہے ۔
نقاد کہتے ہیں کہ بڑےپیمانے پر کوریج کا فقدان ایک تفریق پیدا کرتا ہے اور علاج کو خاص طور پر ان لوگوں تک محدود کردیتا ہے جو اپنی جیب سے ہزاروں ڈالر ادا کر سکتے ہوں۔
آئی وی ایف سے پیدا ہونے والے دو بچے اپنے والدین کے ساتھ ، فائل فوٹو
آئی وی ایف کی تاریخ کیا ہے؟
آئی وی ایف کے ذریعے پہلا بچہ 1978 میں انگلینڈ میں پیداہوا تھا ۔ لیکن امریکہ میں اس طریقے کی مدد سے پہلا بچہ 1981 میں نورفوک ، ورجینیا میں پیدا ہوا تھا اور وہ ایک بچی الیزبتھ کار تھی۔
ان کی والدہ جوڈتھ کار تین بار کچھ پیچیدگیوں کی وجہ سے حاملہ نہ ہوسکیں اور انہیں اپنی فیلو پین ٹیوبز نکلوا نی پڑیں جو سپرم کو عورت کے بیضے تک پہنچنے اور فرٹیلائز ڈ بیضے کو بچہ دانی میں منتقل کرتی ہیں ۔ اگر ان ٹیوبز میں کوئی رکاوٹ ہو یا کوئی دوسری اہم بے قاعدگی ہو تو عورت کو حاملہ ہونے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
نورفوک کلینک کو کھلنے سے پہلے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ جب اس نے 1979 میں ایک مطلوبہ ریاستی سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کی کوشش کی تو 600 سے زیادہ لوگوں نے ایک عوامی سماعت میں شرکت کی ۔ متعددخواتین نے آئی وی ایف کی حمایت میں آواز اٹھائی اور ایک خاندان شروع کرنے کی خواہش کے بارے میں گواہی دی ، جب کہ اسقاط حمل کے مخالف گروپس نےڈاکٹروں کی جانب سے انسانی تخلیق میں مداخلت اور جنین کو ضائع کیے جانے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا۔
کلینک کو روکنے کے ریاست کے مجوزہ قانون کے باوجود وہ 1980 میں یہ کلینک کھولا گیا اور اس کے فوراً بعد کیلی فورنیا، ٹینیسی اور ٹیکساس میں بھی ایسے کلینک کھل گئے ۔ 1988 تک 41 امریکی ریاستوں میں کم از کم 169 وٹرو سنٹرز کام کررہے تھے ۔
ہیوسٹن میں آئی وی ایف کی ایک لیبارٹری، فائل فوٹو
نیو جرسی کی رہگڑز یونیورسٹی میں تاریخ کی ایک پروفیسر مارگریٹ مارش کہتی ہیں کہ ،’ آئی وی ایف کا استعمال مسلسل بڑھتا رہا ، لیکن اسقاط حمل کی مخالف تحریک میں اس کے خلاف جذبات کبھی ختم نہیں ہوئے۔
انہوں نے کہاکہ ، اسقاط حمل کے بہت سے مخالفین کسی نہ کسی طور بانجھ پن کے علاج کے لیے ٹیکنالوجی کو قبول کرنے پر تیار ہو گئے لیکن 2022 میں اسقاط حمل کے حق سے متعلق قانون کی منسوخی کے بعد سے آئی وی ایف کی مخالفت زور پکڑ گئی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا،’’ اسقاط حمل کی مخالف تحریک میں شامل ہر شخص ان تولیدی ٹیکنالوجیز کی مخالفت نہیں کرتا۔، لیکن بہت سے کرتے ہیں۔
آئی وی ایف سے جنین کیسے بنتے ہیں؟
اس علاج میں اکثر بیضہ دانی کو متحرک کرنے کے لیے ہارمونز کا استعمال کیا جاتا ہے اس لیے عورت کی بیضہ دانی میں ایک سے زیادہ بیضے پیدا ہوتے ہیں اور ایک سوئی کے ذریعے ان کو بیضہ دانی سے نکال لیا جاتا ہے ۔
اس کے بعد لیبارٹری میں ان بیضوں کے ساتھ مرد کے سپرم کو شامل کر کے انہیں فرٹیلائز کیا جاتا ہے ۔ یا پھر ہر بیضے میں ایک سپرم داخل کیا جا سکتا ہے ۔
ہیوسٹن میں تولیدی اینڈو کرائنولوجسٹ ڈاکٹر جیسن گریفتھ کہتے ہیں کہ فرٹیلائزڈ بیضے کو ابتدائی جنین بنانے کے لیے پانچ یا چھ دن میں پروان چڑھایا جاتا ہے اس کے بعد اسے یا تو عورت کی بیضہ دانی میں منتقل کر دیا جاتا ہے یااسے مستقبل میں استعمال کے لئے محفوظ کر لیا جاتا ہے ۔
آئی وی ایف کے عمل کا ایک مرحلہ، فائل فوٹو
جنین کو کیسے منجمد اور اسٹور کیا جاتاہے؟
منجمد کیے ہوئے جنین کو مستقبل میں حمل ٹھہرانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اکثریت نارمل حالت میں لانے کے عمل میں بچ جاتی ہے ۔
منجمد جنین کو کسی اسپتال کی لیبارٹری میں یا کسی تولیدی میڈیسن سنٹر میں مائع نائٹروجن والے ٹینک میں اسٹور کیا جاتا ہے ۔ گریفتھ کہتے ہیں کہ انہیں صحت کی دیکھ بھال کے مرکز کے ساتھ معاہدے کے حامل مراکز میں بھی محفوظ کیا جا سکتا ہے ، خاص طور پر جب وہ کئی برس کے لیےاسٹور کیے جائیں۔ منجمد جنین کو دس سال یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے بحفاظت اسٹور کیا جاسکتا ہے۔
گریفتھ نے کہا کہ ان مراکز میں حالات کی نگرانی کی جاتی ہے اور بجلی کی بندش کی صورت میں ٹینکوں اور بیک اپ جنریٹرز کی حفاظت کے لیے فزیکل سیکیورٹی میکانزم موجود ہوتے ہیں ۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: آئی وی ایف کی کیا جاتا ہے کے بارے میں بانجھ پن کے سے زیادہ کا سامنا علاج کے جنین کو عورت کی کرتا ہے اس علاج کے ساتھ میں ایک جاتی ہے بہت سے میں یہ ہے اور ہیں کہ کیا جا کے لیے کے لئے
پڑھیں:
آٹزم پیدا ہونے کی وجہ اور اس کا جینیاتی راز کیا ہے؟
خیال کیا جاتا ہے کہ جینیاتی عوامل آٹزم کی نشوونما میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن کئی دہائیوں سے وہ سب مضحکہ خیز ثابت ہوئے ہیں اور اب سائنس دان ان رازوں سے پردہ اٹھانے لگے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’خصوصی افراد کو معاشرے کا کامیاب شہری بنانے کے لیے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے‘
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 1970 کی دہائی تک نفسیات میں مروجہ عقیدہ یہ تھا کہ آٹزم غیر مناسب جوڑوں یعنی والدین کا نتیجہ ہے۔ سنہ 1940 کی دہائی میں آسٹریا کے ماہر نفسیات لیو کینر نے متنازع ’ریفریجریٹر مدر‘ تھیوری وضع کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ آٹزم ابتدائی بچپن کے کسی ٹراما سے پیدا ہوتا ہے جو ان ماؤں کی طرف سے پیدا ہوتا ہے جو سرد مہری و بے پرواہی سے اپنے بچوں کو مسترد کرتی تھیں۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس میں نیورو سائنس اور جینیٹکس کے پروفیسر ڈینیل گیسچ وِنڈ کہتے ہیں کہ اب اسے بجا طور غلط تسلیم کیا گیا ہے لیکن کینر کی تھیوری کو ختم کرنے میں 3 دہائیاں لگ گئیں۔
سنہ 1977 میں نفسیاتی ماہرین کے ایک جوڑے نے ایک تاریخی مطالعہ کیا جس میں یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ آٹزم اکثر ایک جیسے جڑواں بچوں میں چلتا ہے۔
یہ سنہ 1977 کا مطالعہ پہلی بار تھا جب آٹزم کے جینیاتی جزو کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس کے بعد سے تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جب ایک جیسے جڑواں بچے آٹسٹک ہوتے ہیں تو دوسرے جڑواں کے بھی ہونے کا امکان 90 فیصد سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ دریں اثنا ایک ہی جنس کے برادرانہ جڑواں بچوں کے ہر ایک کے آٹزم کی تشخیص کے امکانات تقریباً 34 فیصد ہیں۔ یہ سطحیں 2.8 فیصد کے قریب وسیع آبادی کے درمیان ہونے کی عام شرح سے کافی زیادہ ہیں۔
اب یہ بڑے پیمانے پر قبول کیا جاتا ہے کہ آٹزم کا ایک مضبوط جینیاتی جزو ہے۔ لیکن کون سے جین اس میں شامل ہیں اور ان کا اظہار دوسرے عوامل سے کیسے متاثر ہوتا ہے اس کا ابھی ابھی انکشاف ہونا شروع ہو گیا ہے۔
ابتدائی ترقیآج جینیاتی تحقیق اس بات میں پیشرفت کر رہی ہے کہ کس طرح نیورو ڈیولپمنٹ آٹزم کا باعث بن سکتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بہت سے جین کارٹیکس کی تشکیل کے دوران فعال ہو جاتے ہیں۔ دماغ کی جھریوں والی بیرونی تہہ جو میموری، مسئلہ حل کرنے اور سوچنے سمیت بہت سے اعلیٰ درجے کے افعال کے لیے ذمہ دار ہے۔
دماغ کی نشوونما کا یہ اہم حصہ جنین میں اس وقت ہوتا ہے جب یہ رحم میں نشوونما پا رہا ہوتا ہے اور گیسچ وِنڈ کے مطابق، 12 سے 24 ہفتوں کے درمیان کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ گیسچ وِنڈ کہتے ہیں کہ آپ ان تغیرات کے بارے میں سوچ سکتے ہیں کہ وہ ترقی کے معمول کے نمونوں میں خلل ڈالتے ہیں اور ترقی کو اس کے عام راستے سے ہٹاتے ہیں تاکہ بات کرنے کے لیے اور ہو سکتا ہے کہ ترقی کے عام، نیورو ٹائپیکل پیٹرن کی بجائے، کسی اور معاون دریا پر چلے جائیں۔
چونکہ وہ اس طرح کی شدید معذوری کا سبب بنتے ہیں، ان جین تغیرات کے بارے میں معلومات نے والدین کو سپورٹ گروپس بنانے کے قابل بنایا ہے، مثال کے طور پر FamilieSCN2A فاؤنڈیشن جو آٹسٹک بچوں کے خاندانوں کے لیے ایک کمیونٹی کے طور پر کام کرتی ہے جہاں آٹزم کی تشخیص کو SCN2A جین میں جینیاتی تبدیلی سے جوڑا گیا ہے۔ مستقبل کے تولیدی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے لیے ایسی جینیاتی معلومات کو استعمال کرنے کے خیال کے بارے میں بھی بات چیت کی گئی ہے۔
گیسچ وِنڈ کہتے ہیں کہ اگر یہ ڈی نوو ویریئنٹ ہے تو آپ والدین کو بتا سکتے ہیں کہ خطرہ کم ہوگا کیونکہ وراثت میں ملنے والے عوامل کی طرف سے محدود شراکت ہے، اگر انہوں نے بعد میں بچے پیدا کرنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم خاندان کو اس بات کا احساس بھی دے سکتے ہیں کہ ان کا بچہ وقت کے ساتھ کس طرح ترقی کر سکتا ہے اور ایک 2 سالہ بچے کے والدین کے لیے جو کہ غیر زبانی ہے اور چلنے میں کچھ تاخیر ہوتی ہے، وہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا توقع کی جائے۔
مزید پڑھیے: ایبٹ آباد: بچوں کو اسکول سے نکالا گیا تو ماں نے اپنا اسکول کھول لیا
لیکن اگرچہ یہ ان خاندانوں کے لیے بہت زیادہ فوائد پیش کر سکتا ہے، جینیاتی تحقیق کے تصور کو آٹسٹک کمیونٹی میں عالمی مثبتیت کے ساتھ نہیں دیکھا جاتا۔ آٹزم ایک وسیع اسپیکٹرم ہے جس میں جسمانی اور ذہنی نشوونما میں شدید خرابی والے افراد سے لے کر انہیں کبھی بھی آزادانہ طور پر زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، بہت کم مدد کی ضرورت والے دوسروں تک جو اپنے آٹزم کو ایک شناخت اور ایڈوانٹج کے طور پر دیکھتے ہیں اور آٹزم کو ایک عارضے کے طور پر بیان کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔
دیگر تحقیقی مطالعات سے پتا چلا ہے کہ آٹزم سے وابستہ جین کی عام قسمیں ہمدردی یا سماجی رابطے کے ساتھ منفی طور پر منسلک ہوتی ہیں۔ لیکن وہ نظاموں کے تجزیہ اور تعمیر کے ساتھ ساتھ اصولوں اور معمولات کے ساتھ مثبت طور پر منسلک ہیں۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اکثر اعلیٰ تعلیمی حصول سے بھی منسلک ہوتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ زیادہ مقامی یا ریاضیاتی یا فنکارانہ صلاحیتوں سے بھی۔
گیسچ وِنڈ کا کہنا ہے کہ یہ شاید اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ یہ جینیاتی متغیرات، جو بہت دور دراز کے اجداد سے آتے ہیں، پوری انسانی تاریخ میں آبادی میں کیوں رہے ہیں۔
آٹزم کیا ہے؟بی بی سی میں ہی کچھ عرصہ قبل شائع ہونے والی ایک اور رپورٹ کے مطابق آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر یا اے ایس ڈی ساری عمر رہنے والی ایک ایسی بیماری ہے جس میں مریض کا لوگوں سے بات کرنا متاثر ہوتا ہے۔ انسان کی ذہنی استعداد کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے تاہم یہ مختلف افراد میں مختلف سطح پر ہوتا ہے کبھی یہ کم اور کبھی بہت زیادہ متاثر کرتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر 160 میں سے ایک بچہ آٹزم کا شکار ہوتا ہے لیکن اگر ہم اس مرض کی تشخیص کے حوالے سے دیکھیں تو اس میں مرد و خواتین میں تعداد کے اعتبار سے بہت فرق نظر آتا ہے۔
برطانیہ میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق تقریباً 7 لاکھ افراد آٹزم کا شکار ہیں، صنفی تناسب سے تقریباً ہر 10 مردوں کے مقابلے ایک خاتون اس کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں کی جانے والی دیگر تحقیقات کے مطابق یہ تناسب 1:16 ہے۔
آٹزم کی تشخیص اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس میں مبتلا اکثر لوگ بے چینی، ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور خود کو نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔
برطانیہ میں کی جانے والی ایک چھوٹی تحقیق کے مطابق بھوک کی کمی کی بیماری کا شکار ہو کر اسپتال میں داخل ہونے والی 23 فیصد خواتین آٹزم کے تشخیصی معیار پر پورا اترتی ہیں۔
لڑکیوں اور خواتین میں آٹزم کی علامات لڑکوں اور مردوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ شاید سب سے اہم بات یہ کہ وہ علامات بآسانی نظر انداز ہو سکتی ہیں، ایسا خاص طور پر تیزی سے کام کرتے ہوئے آٹزم کی صورت میں ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: خصوصی افراد کے لیے نادرا شناختی کارڈ میں اہم ترامیم کا فیصلہ
ایک اور مشکل جو محققین کو درپیش ہے وہ یہ کہ آٹزم کا شکار لڑکیوں کا رویہ اگر بہترین نہیں تو کم از کم قابل قبول ضرور ہوتا ہے کیونکہ لڑکوں کے مقابلے لڑکیاں کم گو، تنہائی کا شکار، دوسروں پر انحصار کرنے والی حتی کہ اداس رہتی ہیں۔
وہ آٹزم کا شکار لڑکوں کی طرح کئی شعبوں میں جذباتی اور غیر معمولی حد تک دلچسپی رکھ سکتی ہیں- لیکن وہ ٹیکنالوجی اور ریاضی کے شعبوں کی جانب جھکاؤ نہیں رکھتی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آٹزم آٹزم اور جینیات آٹزم کی وجوہات آٹزم کیا ہے