اسلام آباد کی بارش اپنے اندر ایک رومانوی پہلو رکھتی ہے ،زاہد خشک بھی اس موسم میں سڑکیں ناپنے نکلنے کی ضد کرتے ہیں ، صاف نکھراموسم ، کھل کھلاتے پودے ، مٹی کی سوندھی خوشبو ، اجلا آسمان اور ہموار سڑکوں پر پانی کی طرح بہتی ٹریفک اور اسی روانی سے ذہنوں میں امڈتے پر لطف مضامین کے اشارے ،مگر ناس ہو ان بے ہنر صاحبان اختیار کا کہ ان کی نالائقی، کم فہمی اور کج روی نے یہ واحد عیاشی بھی نہ صرف چھین لی بلکہ بارش کے رومان پرور موسم کو مہنگائی کی طرح سوہان روح بنا ڈالا ۔ حیرت یہ ہے کہ اک شخص جو عوامی مزاج سے نا آشنا، شہروں اور معاشرت کے شعور سے بے بہرہ ، سیاست میں اجنبی ، انتظامی مہارت سے تہی دست امور سلطنت کی نزاکتوں کے علم سے عاری ہے، مگر اسے زمام کار تھمادی گئی اسلام آباد جیسے نازک اندام اور رومانوی مزاج شہر کی جو ملک کی شان ہے،دنیا میں ہماری شان ہے،جو دنیا کے خوبصورت دارالحکومتوں سے ایک ہونے کا اعزاز رکھتا ہے ۔ جاتے فروری کی بارش ملک بھر کے عوام کی دعائوں کا الوہی جواب تھی ۔ جس پرہر ایک جملہ شکر بجا لایا ، مگر افسوس کہ انتظامی صلاحیتوں سے بیر رکھنے والی انتظامیہ نے ایساپھوہڑ پن دکھایاکہ یہ دن اسلام آباد شہریوں کی یا دداشت میں اک عذاب بن کر محفوظ ہوگیا ۔ معمولی سی بارش ، اس جیسی بارشیں اس شہر میں کبھی معمول ہوا کرتی تھی ، مگر اس بار اس معمولی بارش کو بھی بد انتظامی اور بے تدبیری سے اسلام آبادیوں کے لئے اک عذاب میں بدل ڈالا گیا ، یہ ناقابل معافی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ کرکٹ ٹیموں کی سکیورٹی اور غیر ملکی مہمان کے پروٹو کول کی وجہ سے ٹریفک کا اژدھام پیدا ہوا ، جس نے شہر کو رات گئے تک مفلوج کردیا ، لیکن سوال یہ ہے کہ شہر اقتدار میں سکیورٹی پہلی بار دی جا رہی تھی یا کوئی غیر ملکی مہمان پہلی بار آیا تھا ، یا پروٹوکول اور روٹ کا معاملہ پپلی بار درپیش تھا ؟ اس شہر کی تو پہچان ہی یہ ہے ، اس شہر کا معمول ہی یہ ہے کہ ہر روز کوئی غیر ملکی مہمان رونق افروز ہوتا ہے ، ہر وقت شہر کے کسی نہ کسی حصے میں سکیورٹی کوریڈور بنایا جاتا ہے ۔ اس شہر کی شناخت ہی یہ ہے کہ حکمرانوں ،پروٹوکول اور سکیورٹی کا شہر، دنیا بھر کے سفارتی حلقے اس شہرکےحسن انتظام اورسکیورٹی سینس کی تعریف کرتےتھےمگر گزشتہ روز ؟؟ توبہ ۔ ایسی بد انتظامی ، ایسی بدنظمی ۔۔ ایسا توفتنہ انتشار کی یلغار کے وقت بھی نہ ہواتھا ، بچیاں یونیورسٹیوں سےچاربجے نکلیں اور شب 10 بجے تک سڑکوں پرخوار ہوتی رہیں ، ان کی والدین پر کیا گزری ہوگی ، یہ بچیاں ٹریفک کے اس اژدھام میں اجنبی کیب ڈرائیورز کی موجودگی میں کس اذیت اور ہراسانی سے گزری ہوں گی ؟ وہ خواتین حضرات جو دفاتر سےنکلے اور رات تک گھر نہ پہنچے ،ایک کولیگ کے گھر سے اطلاع آئی کی پانی گھر میں داخل ہوگیا ، گھر میں تنہا بیٹی کے باربار فون کرنے کےباوجود اسے سڑکوں پر خواری برداشت کرناپڑی اور رات گئے تک گھر پہنچنے کی نوبت نہ آئی ، یہ کوئی ایک معاملہ نہیں ، سڑکیں بھری پڑی تھیں ۔ حد تو یہ کہ ہر طرح کے حالات میں ٹریفک کو رواں رکھنے والی پولیس بھی سڑکوں سے غائب تھی ۔ سڑک بلاک کرنے اور راستہ روکنے میں جلدی کرنے والی پولیس سڑک کھولنے اور ٹریفک بحال کرنے کے وقت کہاں غائب تھی ۔ کوئی نہیں جانتا ؟ اسلام آباد کا انتظام وفاق کی ذمہ داری ہے ، وزیرداخلہ دیکھتے ہیں ، مگر وہ کہاں تھے؟ شائد کہ انہیں اس بات کا اب تک احساس ہی نہ ہو کہ ان کی بد تدبیری سے شہر پر کیا بیتی ؟ جس غیر ملکی مہمان کو خوش کرنا مقصود تھا ، کیا اس کا سفارتخانہ اس صورتحال سے بےخبر ہے، وہ بتائے گا نہیں کہ اس شہر پر کیا بیتی ؟ شرم کی بات یہ ہے کہ وہی سفارتی مجلسیں جہاں اس شہر کی خوبصورتی اور حسن انتظام کے چرچے تھے ، انہی محافل میں جمعرات کی شب پاکستان کا تمسخر اڑایا جا رہا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ جب ایک شخص اتنا بےہنر ہے کہ جس کام میں ہاتھ ڈالے ، اسے تمسخر بنا ڈالے ، وہ اقتدار کے لئے اس قدر لازم کیوں ہوگیا ؟ ان صاحب کی بے تدبیری میں کوئی شک باقی ہے کہ کرکٹ کا جنازہ نکال دیا گیا ، سکیورٹی کا ملک بھر میں بیڑا غرق ہے ، اب اسلام آباد رہ گیا تھا ، اسے بھی بے تدبیری اور بد انتظامی کا شاہکار بنا ڈالا گیا ۔ کوئی سیاسی ذہن کا مالک ہوتا ، کسی کو عوام کی جوابدہی کا خوف ہوتا تو جس وقت اسلام آباد کے شہری سڑکوں پرخوار تھے ، وہ خود بھی سڑکوں پر ہوتا ، کوئی اور ملک ہوتا تو اس انتظامی کا ذمہ دار اب تک مستعفی ہو چکا ہوتا ، یا کم ازکم شہریوں سے معافی ضرور مانگ لیتا ۔
کسی نے کہا تھا کہ زندگی دوسروں کے عیبوں کے پیچھے چھپ کر نہیں گزاری جا سکتی ، اپنے اندر بھی کوئی ہنر پیدا کرنا پڑتا ہے ، سوال یہ ہے کہ اس طرح کے بے ہنر اقتدار پرست اگر حسن انتظام سیکھ نہیں سکتے تو الگ کیوں نہیں ہوجاتے ، پہلے اس شہر کو فتنہ انتشار نے تباہ کیا ، اب وزیر بےتدبیر اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ، جناب وزیر اعظم اور ارباب بست وکشاد اس شہر پر رحم کریں، کم ازکم وزیر بدل لیں یا جن شعبوں کو موصوف کے دست ہنر سے سزا دی جاچکی ان کی سزا معاف کرکے کسی دوسرے کے سپرد کردیا جائے ، تاکہ بحالی کے اقدامات ممکن ہو سکیں ۔ بہر حال اسلام آباد کی بارش کے رومانس کا جو ستیاناس کیا گیا ہے ، اس کا مداوا تو ممکن نہیں ، لیکن نظیر اکبر آبادی کی طویل نظم برسات کے کچھ اشعار شائد زخموں پر مرہم کا کام کرسکیں ۔ ویسے اس بد انتظامی سے پہلے ہماری اسلام آباد کی برساتیں ایسی ہی دل کش اور روح پرور ہوا کرتی تھیں ۔ بقول نظیر اکبر آبادی ۔
ہیں اس ہوا میں کیا کیا برسات کی بہاریں
سبزوں کی لہلہاہٹ باغات کی بہاریں
بوندوں کی جھمجھماوٹ قطرات کی بہاریں
ہر بات کے تماشے ہر گھات کی بہاریں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
بادل ہوا کے اوپر ہو مست چھا رہے ہیں
جھڑیوں کی مستیوں سے دھومیں مچا رہے ہیں
پڑتے ہیں پانی ہر جا جل تھل بنا رہے ہیں
گلزار بھیگتے ہیں سبزے نہا رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
مارے ہیں موج ڈابر دریا ڈونڈ رہے ہیں
مور و پپہیے کوئل کیا کیا رمنڈ رہے ہیں
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: غیر ملکی مہمان اسلام ا باد کی بہاریں سڑکوں پر یہ ہے کہ کیا کیا رہے ہیں شہر کی
پڑھیں:
کوئی ایلون مسک سے ناخوش ہے؟ ،اگر ناخوش ہے تو ہم اسے یہاں سے نکال دیں گے. ٹرمپ
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔27 فروری ۔2025 )امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کابینہ کے پہلے اجلاس سے چند گھنٹے قبل اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اعلان کیا کہ گروپ ایلون مسک سے بہت خوش ہے نیویارک ٹائمز کے مطابق جب ٹرمپ کابینہ کا پہلا اجلاس شروع ہوا، تو ایسا لگ رہا تھا کہ کابینہ کے ارکان کا کام یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ واقعی ایلون سے خوش ہیں اپنے نام کے کارڈ کے ساتھ وزرا خاموشی سے بیٹھے ہوئے تھے، وہ خاموشی سے سنتے رہے جب دنیا کے امیر ترین شخص نے ان پر تنقید کی اور خسارے کے حجم پر سرزنش کی، ایبولا کی روک تھام کی کوشش کو عارضی طور پر منسوخ کرنے کا اعتراف کیا اور یہ دعوی کیا کہ وہ سب ان کے مشن کے لیے اہم ہیں.(جاری ہے)
ایلون مسک نے کہا کہ میں آپ سب کی حمایت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ایک رپورٹر نے اس معاملے کے بارے میں سوال کیا تو ٹرمپ یہ نے سوال اپنے وزرا سے کیا ٹرمپ نے سوال کیا کہ کوئی ایلون سے ناخوش ہے؟ اگر آپ ناخوش ہیں تو ہم اسے یہاں سے نکال دیں گے کیا کوئی ناخوش ہے؟کوئی بھی ناخوش نہیں تھا اس پر میز کے چاروں طرف لوگوں کا قہقہ گونج اٹھا. سیکرٹری آف کامرس ہاروڈ لوتنک مسکرائے اور آہستہ تالیاں بجائیں سمال بزنس ایڈمنسٹریٹر کیلی لوفلر نے بھی تالیاں بجائیں جبکہ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایک مرتبہ تالی بجائی اور مسک کی طرف مسکرا کر دیکھا یہ اجلاس شاید ایسا پہلا اجلاس تھا جس میں احترام کا مظاہرہ صدر کے لیے نہیں بلکہ ایک ٹیکنالوجی کمپنی کے ایک ایگزیکٹیو کے لیے کیا گیا تھا. ایلون مسک کابینہ کے وزیر نہیں ہیں وہ ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی (ڈوج) کے رسمی سربراہ بھی نہیں ہیں لیکن وہ اس اجلاس میں سب سے نمایاں شخصیت تھے اور یہ واضح ہو گیا کہ ٹرمپ اپنی کابینہ سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ مسک کی پیروی کریں. ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ احکامات پر عمل کریں گے اس موقع پر مسک نے اعلان کیا یہ گروپ اب تک بہترین کابینہ ہے اور پھر وفاقی ملازمین کے لیے اپنی ہدایت کے بارے میں وضاحت دینے لگے انہوں نے کہا کہ یہ ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے انہیں مزید جارحانہ ہونے کی ترغیب دی بحث کے آخر میں کابینہ کے وزیروں کے لیے پیغام واضح تھا کہ مسک کے حکم کو صدر کا حکم سمجھنا چاہیے اور سب کو اس پر خوش ہونا چاہیے. ایلون مسک اور ڈوج پر تقریبا 15 منٹ تک توجہ مرکوز کرنے کے بعد ٹرمپ نے کابینہ کی توجہ اپنی کامیابیوں پر دلائی جو انہوں نے گزشتہ چند ہفتوں میں حاصل کیں کابینہ تقریبا ایک گھنٹے سے زیادہ تک خاموشی سے بیٹھی رہی جبکہ ٹرمپ نے صحافیوں کے سوالات کے جواب بھی دئیے.