قرآن کریم اور رمضان المبارک کی برکات
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
رمضان المبارک کا تعارف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قرآن ہی کے حوالے سے کرایا ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم اتارا گیا، اس لیے قرآن کریم اور رمضان المبارک آپس میں لازم ملزوم ہیں اور ان کا یہ جوڑ اس قدر مضبوط ہے کہ نہ صرف یہ کہ رمضان المبارک میں قرآن کریم اتارا گیا بلکہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی یہ مقدس کتاب پڑھی بھی سب سے زیادہ جاتی ہے۔ سال کے باقی گیارہ مہینوں میں قرآن کریم اتنا پڑھا اور سنا نہیں جاتا جتنا اس ماہ مبارک میں پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ آپ تراویح کے حوالے سے دیکھ لیں کہ تراویح میں روزانہ بیک وقت کتنی جگہوں پر قرآن کریم پڑھا اور سنا جاتا ہے اور پھر یہ بھی دیکھیں کہ تراویح کا وقت ساری دنیا میں ایک نہیں ہے۔ ہم جب سحری کھا رہے ہوتے ہیں اس وقت بھی دنیا میں کسی جگہ تراویح کا وقت ہوتا ہے، جب ہم صبح آرام سے فارغ ہو کر دفتر، دکان اور کام پر جا رہے ہوتے ہیں تب بھی کہیں تراویح ہو رہی ہوتی ہیں، اور جس وقت ہم روزہ افطار کرتے ہیں اس وقت بھی دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں ہزاروں مسلمان تراویح پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ گویا رمضان المبارک کے دوران شب و روز میں کوئی لمحہ ایسا نہیں ہوتا جب دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں تراویح ادا نہ کی جا رہی ہوں اور ہزاروں کی تعداد میں مسلمان نماز کی حالت میں کھڑے قرآن کریم نہ سن رہے ہوں۔
یہ قرآن کریم کا وہ اعجاز ہے جس کا ہم کھلی آنکھوں سے آج کے دور میں مشاہدہ کر رہے ہیں، بلکہ خود بھی اس میں شریک اور حصہ دار ہیں۔ ہمارا موجودہ دور تنزل کا دور ہے، ادبار کا دور ہے اور انحطاط کا دور ہے، لیکن معروضی صورتحال یہ ہے کہ زندگی کے باقی تمام شعبوں میں ہم سمٹ رہے ہیں، سکڑ رہے ہیں اور سہمے ہوئے ہیں، مگر قرآن کریم کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے اور اس کی وسعتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس میں قرآن کریم کے مدارس نہ ہوں، ہزاروں بچے جس میں حافظ قرآن نہ بن رہے ہوں اور مختلف عنوانات سے قرآن کریم پڑھنے اور سننے کا عمل جاری نہ ہو۔
میں اس سلسلہ میں اپنے ایک ذاتی مشاہدے اور تاثر کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ گزشتہ سال رمضان المبارک کا ابتدائی عشرہ میں نے امریکہ میں گزارا اور پہلی شب کی تراویح بالٹیمور (ریاست میری لینڈ) کی مسجد رحمت میں پڑھیں۔ پاکستان ہی سے تعلق رکھنے والے ایک قاری صاحب نے، جو میرے ہمنام ہیں، ڈیڑھ پارہ پڑھا، سینکڑوں مرد اور ان کے ساتھ سینکڑوں عورتیں ملحقہ ہال میں نماز تراویح ادا کر رہی تھیں۔ میں قاری زاہد صاحب کی اقتدا میں تراویح پڑھ رہا تھا کہ میرا ذہن اچانک اس سوال کی طرف گھوم گیا کہ امریکہ میں اس وقت نماز تراویح میں قرآن کریم سنانے والے حفاظ و قراء کی تعداد کیا ہو گی؟ میں چونکہ امریکہ بہت مرتبہ گیا ہوں اور اس کے متعدد شہروں میں گھوما پھرا ہوں، اس لیے اپنے اندازے سے سوال کا جواب یہ سوچا کہ امریکہ کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کو تراویح میں قرآن کریم سنانے والے حافظوں اور قاریوں کی تعداد یقیناً ہزاروں میں ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی دوسرا سوال ذہن میں آگیا کہ امریکہ کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب ایک فیصد اور دو فیصد کے درمیان بتایا جاتا ہے، جبکہ عیسائیوں کی آبادی پچانوے فیصد سے کسی طرح کم نہیں ہوگی اور امریکہ کے عیسائی یورپ کے عیسائیوں کی طرح لامذہب نہیں ہیں بلکہ مذہب اور اس کی عبادات و اقدار کے ساتھ لگاؤ رکھتے ہیں، لیکن کیا پچانوے فیصد آبادی رکھنے والے مسیحیوں کو ڈیڑھ فیصد آبادی رکھنے والے مسلمانوں کے ہزاروں حفاظ قرآن کریم کے مقابلے میں اپنی مذہبی کتاب کا ایک بھی ایسا حافظ مل جائے گا جو اسی طرح آگے کھڑا ہو کر بائبل کی کوئی کتاب زبانی پڑھ دے، جس طرح روانی اور تسلسل کے ساتھ حفاظ قرآن کریم سناتے ہیں؟ کافی سوچ و بچار کے بعد بھی مجھے اس سوال کا جواب اثبات میں نہ ملا۔
یہ قرآن کریم کے اعجاز کا وہ سدا بہار پہلو ہے جس کا ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں اور یہ پہلو ایسا ہے جس کے ساتھ مسلمان کا تعلق آج بھی قائم ہے، بلکہ یہ عرض کیا جائے تو مناسب ہوگا کہ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک میں دنیا بھر کے مسلمانوں کا تعلق قرآن کریم کے ساتھ ایک بار پھر تازہ کر دیتے ہیں۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر رمضان المبارک میں تراویح اور قیام اللیل کا یہ مربوط نظام نہ ہوتا اور ہر طرف قرآن کی قراءت اور سماع کی گہماگہمی نہ ہوتی تو کیا ہمارا قرآن کریم کے ساتھ یہ جوڑ باقی رہتا جو آج سب کو نظر آرہا اور دنیا بھر اسلام دشمن قوتوں کے لیے اضطراب اور بے چینی کا باعث بنا ہوا ہے؟ بلکہ قرآن کریم کے حفاظ اور قراء کرام، جو یقیناً دنیا میں ایک کروڑ کے لگ بھگ ضرور ہوں گے، کیا تراویح، شبینہ اور قیام اللیل کے اس سسٹم کے بغیر قرآن کریم حفظ کر لینے کے بعد اسے زندگی بھر یاد رکھنے میں کامیاب ہو پاتے؟
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: رمضان المبارک قرا ن کریم کے کہ امریکہ رہے ہیں کے ساتھ
پڑھیں:
سحر خیزی کی برکات و فضائل
سحر خیزی سے مراد صبح جلد بیدار ہونا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے انسانی زندگی کی بنیادی ضروریات میں نیند کو شامل کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے، مفہوم: ’’ہم نے نیند کو تمہارے لیے باعث آرام بنایا ہے۔‘‘ ایسے ہی دوسری جگہ ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’ اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ رات کو آرام کرو اور دن میں اس کا فضل (روزی) تلاش کرو تاکہ تم شکر گزار بنو۔‘‘
چناں چہ رات آرام کے لیے اور دن کام کاج کے لیے بنایا گیا ہے۔ رات کو دن سے پہلے ذکر کیا کیوں کہ دن کے تمام معاملات کی بہ حسن و خوبی انجام دہی کا دار و مدار رات کے صحیح آرام پر موقوف ہے۔
اسی لیے آپ ﷺ نماز عشاء سے پہلے سونے اور نماز کے بعد فضول گوئی کو ناپسند فرماتے تھے۔ (بخاری) کیوں کہ جو جلد سوئے گا وہی جلد بیدار ہوگا۔ سحر خیزی باعث برکت و رحمت ہے۔ مشہور کہاوت ہے: ’’جلدی سونا اور جلدی اُٹھنا آپ کو صحت مند، دولت مند اور عقل مند بناتا ہے۔‘‘ یہ وہ بابرکت خوبی ہے جس کی اﷲ تعالیٰ نے قسم کھائی۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’اور صبح کی قسم! جب وہ سانس لے۔‘‘ اور آپ ﷺ نے اﷲ تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے اس میں برکت کی خصوصی دعا مانگی، مفہوم :’’اے اﷲ! میر ی اُمت کی صبح کو بابرکت بنا دیجیے۔‘‘ (سنن ترمذی)
چناں چہ یہ دعائے برکت رحمتہ للعالمین ﷺ نے رب العالمین سے اپنی اُمت کے لیے مانگی ہے۔ اسی کا اثر ہے کہ سبھی انسان یہ جانتے اور محسوس کرتے ہیں کہ صبح کا وقت اپنی برکات و ثمرات میں دن کے تمام اوقات سے منفرد اور افضل ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس بابرکت وقت میں اہل ایمان کے اعمال و صفات کو ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے، مفہوم: ’’وہ راتوں کو کم ہی سوتے ہیں پھر وہ رات کے پچھلے پہروں میں اپنے گناہوں سے معافی مانگتے ہیں۔‘‘ (الذاریات)
جیسا کہ بندہ مومن اس وقت میں بیدار ہوتا ہے۔ ایسے کائنات کی ہر چیز میں نئی زندگی آتی ہے، سوئے ہوئے لوگ بیدار ہوتے ہیں، کلیاں چٹکتی ہیں، غنچے کھلتے ہیں، پھول مہکتے ہیں، پرندے جاگتے ہیں۔ سب اﷲ کی تسبیح و تحمید کرتے ہیں۔ دوسری جگہ مومنین کی صفات کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ’’صبر کرنے والے، سچ بولنے والے، عبادت کرنے والے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرنے والے اور سحر کے وقت میں معافی مانگنے والے۔‘‘ (آل عمران) ان دونوں آیات کے مفہوم میں وقت سحر اپنے گناہوں کی معافی مانگنا بندہ مومن کی صفت قرار دی گئی ہے۔ جیسا کہ اس وقت میں بیداری برکات کا سبب ہے اسی طرح اس وقت سونا باعث محرومی ہے۔ ایک روایت کا مفہوم ہے : ’’صبح کا سونا عمر کی برکت کو ختم کردیتا ہے۔‘‘ اسی لیے یحییٰ بن کثیر لکھتے ہیں: ’’صبح کا وقت غنیمت اور انعام کی تقسیم کا وقت ہے۔ یہ بہت بابرکت وقت ہے۔ اس وقت میں سونا سخت محرومی و نامرادی اور برکات سے محرومی کا سبب ہے۔ جو چاہے اس وقت جاگ کر غنیمت و انعام و برکات اور روزی و رضا کو حاصل کرلے اور جو چاہے اس قیمتی وقت کو سونے میں گزار کر خیر کثیر سے محروم ہوجائے۔‘‘
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ہمارا رب ہر رات جب آخری تہائی حصہّ رہ جاتا ہے تو آسمان دنیا پر اترتا ہے اور فرماتا ہے: کون! مجھ سے دعا کرتا ہے میں اس کی دعا کو قبول کروں ؟ کون ! مجھ سے کچھ مانگتا ہے کہ میں اس کو دوں؟ کون! مجھ سے گناہوں کی معافی چاہتا ہے کہ میں اس کے گناہ معاف کروں؟‘‘ (صحیح بخاری)
سحر خیزی کی ایک نعمت نماز تہجد ہے جس کے بارے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’فرض نمازوں کے بعد افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔‘‘ (صحیح مسلم) حقوق العباد اور نماز تہجد کا اجر آپ ﷺ نے یوں بیان فرمایا، مفہوم: ’’اے لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، رات کو نماز پڑھو جب لوگ سو رہے ہوں تو جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔‘‘ (سنن ترمذی)
اس بابرکت وقت کا ہر لمحہ نعمتوں کا ایک جہاں سموئے ہوئے ہے۔ سحر خیزی کا ایک انعام نماز فجر ہے۔ جس کی اﷲ تعالیٰ نے قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’قسم ہے فجر! کی اوردس راتوں کی۔‘‘ نماز فجر ادا کرنے کے بعد انسان اپنے آپ کو اﷲ تعالیٰ کی ضمانت میں دے دیتا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے صبح کی نماز ادا کی وہ اﷲ کی ضمانت میں ہے۔ اے ابن آدم! غور کر اﷲ تعالیٰ اپنی ضمانت کے بدلے تجھ سے کچھ نہیں مانگتے۔‘‘ (صحیح مسلم)
اس میں دن بھر کی آفات و بلیات سے حفاظت کے ساتھ الجھے معاملات کو سنوارنے کے لیے غیبی مدد و نصرت اور حصول برکات و ثواب کی جانب بھی اشارہ ہے۔ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے نماز فجر ادا کرنے والے کے لیے جنت کی بشارت ارشاد فرمائی ہے: ’’جس نے صبح کی دو ٹھنڈی رکعتیں پڑھیں وہ جنت میں داخل ہوگیا۔‘‘
(صحیح بخاری) دوسری حدیث میں جہنم سے آزادی کا وعدہ کیا گیا: ’’ جس نے سورج کے طلوع اور غروب ہونے سے قبل نماز پڑھی یعنی فجر اور عصر وہ ہرگز آگ میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم) ایک حدیث میں نماز فجر کی ادائی پر پوری رات کی عبادت کا ثواب بیان فرمایا ہے: ’’جس نے عشاء کی نماز باجماعت ادا کی گویا اس نے آدھی رات عبادت میں گزار دی اورجس نے فجر کی نماز باجماعت اد اکی تو گویا اُس نے پوری رات عبادت میں گزاری۔‘‘ (صحیح مسلم) حتیٰ کہ یہی وہ نماز ہے جس کی آذان میں سحر خیزی کا پیغام اور اعلان ہے اور مؤذن پکارتا ہے: ’’ نماز نیند سے بہتر ہے۔‘‘ جو نیند سے بیدار ہوکر برکات کو سمیٹنے کی دعوت ہے۔ ان برکات کی عظمت کی عکاسی حدیث مبارکہ کے یہ الفاظ کافی ہیں: ’’اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ عشاء اور فجر کی نماز کا ثواب کیا ہے تو لوگ اس ثواب کو حاصل کرنے کے لیے مسجدوں میں پہنچ جائیں، چاہے گھسٹ گھسٹ کر آنا پڑے۔‘‘(صحیح بخاری)
آپ ﷺ نے ایک حدیث میں سحر خیزی پہ نماز فجر ادا کرنے والے کو دیدار رب کریم کی نوید سنائی ہے۔ حضرت جریر بن عبداﷲ البجلیؓ سے روایت ہے کہ ہم چاند کی چودھویں رات کو رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ ﷺ نے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا: ’’تم اپنے رب کریم کو بغیر کسی رکاوٹ کے دیکھو گے جس طرح تم چاند کو دیکھتے ہو، اگر تم ایسا کرسکو تو ضرور ایسا کرو کہ طلوع آفتاب سے قبل اور غروب آفتاب سے قبل کی نماز سے عاجز و مغلوب ہوکر نہ رہ جاؤ (یعنی فجر اور عصر کی نماز کا ہر صورت اہتمام کرو) نیز سحر خیزی کی برکات کی حامل یہی وہ نماز ہے جس کی سنتوں کو نبی اکرم ﷺ نے دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے ا س سب سے افضل قرار دیا ہے۔ ارشاد رسول اکرم ﷺ کا مفہوم ہے: ’’مجھے فجر کی دو سنتیں دنیا و مافیھا سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘ دوسری روایت میں ہے: ’’فجر کی دو رکعتیں پوری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم)
یہ تمام برکات و انعامات یقیناً سحر خیزی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو دیگر نمازوں میں سے کسی نماز کی اتنی برکات و فضائل احادیث میں مذکور نہیں جس قدر نماز فجر کی فضیلت اور اس کی برکات مذکور ہیں۔ گویا کہ یہ تمام برکات و انوارات سحر خیزی سے وابستہ ہیں۔ اگر ان برکات کے ساتھ آپ ﷺ سے منقول بوقت صبح کے اوراد و اشغال اور مسنون اذکار و دعاؤں اور ان کے فضائل و برکات کو ذکر کیا جائے تو سحر خیزی سے وابستہ انوارات کا عالم کیا ہوگا۔
مختصراً سحر خیزی کی بہ دولت حاصل اس بابرکت وقت کا ثانی دن بھر کی کوئی گھڑی نہیں۔ دوسری جانب ہم اپنے مسلمان معاشرے میں پھیلتی بے راہ روی پہ نظر کریں تو ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ ان برکات سے محرومی کی جانب بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ رات کو بے خوابی اور دیر تک کیا صبحِ صادق تک جاگنے کی عادت شہری زندگی کا جزو لازم بنتی دکھائی دیتی ہے۔ اور ہم ہر لمحہ فطری زندگی سے دور جاتے نظر آتے ہیں۔ خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں دن کی روشنی میں کام کاج اور کاروباری مصروفیت کا سرانجام دینا۔ اور رات کے اوقات کو محض راحت و آرام میں صرف کرنا توانائی کے ذرایع میں بے پناہ بچت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
چوں کہ دین اسلام کی تعلیمات عین فطرت کا تقاضا ہیں اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے سحر خیزی کے ساتھ تمام دنیاوی واخروی برکات کو منسلک کیا ہے۔ لہٰذا سحر خیزی نہ صرف جسمانی، طبّی اور نفسیاتی اعتبار سے مفید ہے بل کہ انعامات اخروی کے حصول کا بھی مؤثر ذریعہ ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے معاشرے میں شب بیداری اور رات کو بے خوابی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی مؤثر پیرائے میں روک تھام کرنی چاہیے تاکہ مسلم معاشرے میں فطری زندگی کا رنگ پروان چڑھے اور ہماری آئندہ نسلیں دین و فطرت کے خلاف بے راہ روی و بے اعتدالی کا شکار نہ ہوں اور برکات سحر سے بھرپور مستفید ہونے کے ساتھ اعمال نبوی ﷺ پر کاربند رہ سکیں۔