کابینہ کی موجودہ تعداد قانونی گنجائش سے کم ہے، رانا ثنا اللہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما رانا ثنا اللہ نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ میں ممبران کی جس تعداد کی آئین اور قانون اجازت دیتا ہے موجودہ تعداد اس سے کم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک وزارت جس کا اربوں میں بجٹ ہے، اگر اس میں ایک وزیر کی تنخوا سے فرق پڑسکتا ہے تو ہمیں نہیں کرنا چاہیے، لیکن اگر ایک وزارت موجود ہے تو کیا اس کی سیاسی نگرانی کی ضرورت نہیں ہے؟
یہ بھی پڑھیے: وفاقی کابینہ میں شامل نئے چہرے کون ہیں؟
انہوں نے کہا کہ اخراجات کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں اس کی تفصیل دی گئی جس کی خبر میڈیا پہ بھی چلی، وزیراعظم کی جو پالیسی ہے تنخوا لینے نہ لینے اور بیرونی دوروں سے متعلق اس پر سب عمل کریں گے۔
رانا ثنا کا کہنا تھا کہ پرویز خٹک کو وزارت دینے سے کوئی پارٹی کے اندر کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہوگا، سیاسی ورکرز کی اپنی رائے ضرور ہوتی ہے مگر حکومت کی اپنی بھی ترجیحات ہوتی ہیں جنہیں پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
رانا ثنا اللہ کابینہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: رانا ثنا اللہ کابینہ
پڑھیں:
ترقی، ایک سوال
ڈاکٹر حفیظ پاشا، سابق وزیر خزانہ ہیں، وہ بنیادی طور پر معیشت کے استاد اور محقق ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا مسلسل پاکستانی معیشت کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں تحقیق میں مصروف رہے ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے گزشتہ دنوں شایع ہونے والے اپنے تحقیقی مقالوں میں معیشت کی بہتری کے دعوؤں کا پردہ فاش کیا ہے۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ ملک میں غربت کا پیمانہ مسلسل وسیع ہوتا جا رہا ہے اور اس وقت آبادی کا 44 فیصد حصہ خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور اس وقت یہ تعداد 100 ملین سے زیادہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ کئی برسوں سے ملک کو درپیش معاشی بحران کی بناء پر خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے۔ ایک اور ماہرِ معاشیات ڈاکٹر اکبر زیدی نے اپنے آرٹیکل میں تحریرکیا ہے کہ اگرچہ اس وقت افراطِ زرکی شرح 3 فیصد کے قریب ہے مگر اس کے باوجود بنیادی اشیاء کی قیمتیں کم نہیں ہوئیں اور بعض اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے بارے میں بھی اپنے آرٹیکل میں تحریرکیا ہے ۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا کا تخمینہ ہے کہ اس وقت ملک میں بے روزگاری کی شرح 9 فیصد کے قریب ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مزدوروں کی گزشتہ 3 برسوں کے دوران مزدوری کی حقیقی اجرت میں تقریباً 20 فیصد کمی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کی تحقیق میں ایک خطرناک عنصرکا خاص طور پر ذکرکیا گیا ہے۔ جنوبی کوریا کی 1972ء میں سیکنڈری اسکولز میں جانے والے طلبہ کی جو تعداد تھی وہ تعداد اس وقت پاکستان میں ہے۔ اسی طرح پاکستان میں پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد کی شرح وہی ہے جو 1973میں جنوبی کوریا کی تھی۔ یہ دور جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے۔ پاکستان اس میدان میں جنوبی کوریا سے چار دہائی پیچھے ہے۔
اسی طرح اسٹیٹ بینک کی مختلف رپورٹوں میں مجموعی ڈھانچہ میں نظر آنے والے نقائص کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں مزدوروں کی پیداواری صلاحیتوں میں شدید کمی ظاہر ہوئی ہے۔ ایک طرف معیشت کی ترقی کا ذکر ہوتا ہے تو اسی وقت وفاق کے تحت چلنے والے بیشتر ادارے معاشی بحران کا شکار ہیں۔
اسٹیل ملز اور پی آئی اے کے معاشی اور انتظامی بحران کا تو ذکر عام ہے مگر ریلوے،کراچی پورٹ ٹرسٹ اور ملک کی سرکاری یونیورسیٹیاں اپنے انتظامی اور معاشی بحرانوں سے نکل نہیں پا رہیں۔ ان اداروں میں جن میں اساتذہ، تخلیق کار، انجینئرز سب شامل ہیں، تنخواہوں سے محروم ہیں اور جو لوگ ریٹائر ہوئے ہیں انھیں پنشن نہیں مل رہی ہے۔
پٹرول،گیس اور بجلی کے نرخ کسی طورکم نہیں ہو پا رہے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران گیس کی قیمتوں میں سو گنا سے زائد اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ ایک سال کے دوران عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مجموعی طور پرکمی ہوئی ہے مگر حکومت نے گزشتہ سال تیل کی قیمتوں میں بہت معمولی کمی کی اور چند ماہ قبل پٹرول کی قیمت بڑھا دی گئی تھی۔ پہلے پنجاب حکومت نے اور پھر وفاقی حکومت نے بجلی کے نرخوں میں 3 ماہ کے لیے کمی کے پیکیج کے اعلانات کیے جس سے بجلی کے بلوں میں معمولی کمی رہی مگر پورے ملک میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ میں کمی نہیں ہوئی۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے صنعتی شعبہ خاصا متاثر ہوا۔
مزدوروں کے حالاتِ کار کو بہتر بنانے کی جدوجہد کے لیے سرگرداں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل کی صنعت اس صورتحال سے خاصی متاثر ہے۔ کراچی کے علاوہ لاہور اور فیصل آباد میں بہت سے کارخانے بند ہوئے ہیں۔ تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ پہلے مالیاتی سال کے چھ ماہ میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں 1.8 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ اگرچہ وفاقی حکومت نے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر اس ایمرجنسی کے عملی اقدامات نظر نہیں آئے، یہی وجہ ہے کہ اس سال بھی اسکول نہ جانے والے 2 کروڑ سے زیادہ بچوں کی تعداد میں کمی کا امکان نہیں ہے جب کہ ادویات کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امراض بھی زیادہ پھیل رہے ہیں۔ حکومت کے مستقل اقدامات کے باوجود پولیو تھم نہیں رہا۔ گزشتہ ہفتے تک پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد ایک سال میں 80 کے ہندسہ کے قریب پہنچ گئی تھی۔
جب بھی پولیو کی مہم شروع ہوتی ہے پولیو کے قطرے پلانے والے کارکنوں اور ان کی حفاظت پر مامور پولیس، رینجرز اور ایف سی کے سپاہیوں کی شہادتوں کی خبریں آنے لگتی ہیں۔ حکومت ایک طرف تو ریاستی ڈھانچے میں کمی کا اعلان کرتی ہے۔ روزانہ وفاقی وزارتوں سے آسامیوں کے خاتمے اور مختلف وزارتوں اور ڈویژن کے انضمام کی خبریں آتی ہیں تو دوسری طرف یہ خبریں نمایاں ہوتی ہیں کہ بجلی اورگیس کی قیمتوں کو ریگولیٹ کرنے والے ادارہ کے اراکین نے اپنی تنخواہوں میں تین گنا سے زیادہ اضافہ کرلیا ہے۔ اگرچہ وفاقی حکومت نے کابینہ کی منظوری کے بغیر نیپرا کے چیئرمین اور اراکین کی تنخواہوں میں ازخود اضافے کا نوٹس لیا ہے۔ پھر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بدعنوانی کے خاتمہ اور شفافیت کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کیا ہے، مگر ہر ہفتے ذرایع ابلاغ پرکئی اسکینڈل کا چرچا ہوتا ہے۔
سینیٹ کی میری ٹائمز افیئرزکمیٹی کے اجلاس کی ایک سینیٹر نے انکشاف کیا ہے کہ پورٹ قاسم کی 150 ایکڑ اراضی کو کم قیمت پر فروخت کیا گیا جس سے سرکاری خزانہ کو 160 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح کراچی پورٹ کی 140 ارب کی زمین کو 15 ارب میں فروخت کیا گیا۔ پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کو بتایا گیا کہ حکومت سندھ نے اسٹیل ملز کی 56 ایکڑ زمین 4 افراد کو انتہائی کم قیمت پر فروخت کردی ہے۔
اسی طرح اسٹیل ملز کی بجلی کے بلوں کی ادائیگی میں خزانہ کو 1 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختون خوا میں ایک ٹیچنگ اسپتال میں 13لاکھ ڈالرکی MRI مشین کی خریداری ایک معمہ بن گئی۔ اسی طرح خیبر پختون خوا کی حکومت کا یہ اسکینڈل بھی زیرِ بحث ہے کہ جنوبی وزیرستان میں 36 ہیلتھ سینٹر قبائلی سرداروں کے حجروں میں قائم ہیں، یوں ان ہیلتھ سینٹروں کا بجٹ بااثر سرداروں اور لواحقین کی بہبود پر خرچ ہو رہا ہے۔
حکومت نے آئی ایم ایف کی سفارش پر عمل کرتے ہوئے گندم کی سپورٹ پرائز دینے سے انکارکیا ہے۔ اس فیصلہ کے نتیجے میں کسان اور چھوٹے زمیندار مڈل مین اور آڑھتی کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ گزشتہ سال گندم کی بلاوجہ درآمد سے سب سے زیادہ نقصان پنجاب کے کسانوں اور چھوٹے کاشتکاروں کو ہوا تھا۔
اب نئی پالیسی کے نتیجے میں کسان گندم اگانے سے پرہیزکریں گے اور اگلے سال پھرگندم کا بحران پیدا ہوگا۔ بتایا جاتا ہے کہ کلائیمنٹ چینج کی بناء پر پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو اس سال سے خشک سالی کا شکار ہو رہے ہیں۔ حکومت زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے بجائے نئے تضادات پیدا کررہی ہے۔ سارے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ قرضوں کا بوجھ بڑھنے اور مختلف ممالک سے ایم او یوز دستخط کرنے کی اچھی خبروں کے باوجود غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کسی صورت کم نہیں ہو رہی۔