ب نقاب /ایم آر ملک
کیا صحافت یہی ہے کہ سچ کی آنکھیں دولت کی چمک پر چندھیا جائیں ؟کیا ایسا نہیں کہ اب نابینے کے ہاتھ میں لالٹین ہے ؟
اِ س بار دھاندلی کے حکمت سازوں نے منشا ء کے مطابق نتائج حاصل کرنا بھی چاہے تو نہ کر پائے ،عمران کے ساتھ عوام ہی نہیں عوامی رد عمل بھی کھڑا تھااور یہ ردِ عمل بدستور عمران کے دفاع میں موجود ہے۔
یہ 1977نہیں کہ اخبارات کے ذریعے رائے عامہ ہموار کی جائے، اختیارات کا زعم اب آخری سانسیں لے رہا ہے ،شہرِ اقتدار میں اپوزیشن کے الائنس پر دھاوا شاید زوال کی سیڑھی پر پہلا قدم ہے ،یہ پھسلا تو کچھ باقی نہیں رہے گا ،لوگ لیڈر شپ کے انتظار میں ہیں۔ شاہراہیں سراپا احتجاج ہو ںگی، انتخابات میں دھاندلی پرشفافیت کا پوچا مارنے والوں کے چہرے سے نقاب سرک چکا ،17سیٹوں پر اقتدار انجوائے کرنے والے قوم کو بتائیں کہ” رزلٹ ٹرانسمشن سسٹم ”کس نے متعارف کرایا خصوصی سافٹ ویئر بنانے میں کس کس کا دماغ کار فرما تھا ؟
رائے ونڈ کے حکمرانوں کے پنجاب اور وفاق میں اقتدار نے سیاسی زندگی اور ریاست کو مہلک نقاہت سے دوچار کیا ،صنعت کار حکمرانوں نے زرعی شعبے کی کمر توڑ کے رکھ دی اپنے دور ِاقتدار میں زرعی پیکیج کے نام پر کسان کارڈ کا لولی پاپ دیکر کسانوں کو لائنوں میں لگا کر بھکاری بنا یاگیا اور پھر اس خیراتی رقم کی میڈیا پر بڑے بڑے اشتہارات چلا کر تشہیر کی گئی۔
ہم جب روس کے انقلاب کے ورق اُلٹتے ہیں تو زار روس کی بادشاہت کا بانجھ پن سامنے آتا ہے جو اپنے ملک کے لاکھوں انسانوں کو بھوک اور قحط کی شکل میں نگل رہا تھا، زار شاہی ہماری بر سر اقتدار اشرافیہ کی طرح اُن کی مدد اور بحالی کا کوئی مداوا نہیں کر رہی تھی، ایک وقت آیا کہ بحران نے سبھی طبقات کو اپنی گرفت میں لے لیا، دولت کی اسی غیر مساویانہ تقسیم نے انقلابی نوجوانوں کی ایک نسل پیدا کی جو مکمل طور پر ریڈیکلائز تھی، اسی نسل کے جارحانہ کردار نے روس کے پہلے 1905-6کے انقلاب کی بنیادیں استوار کیں ۔
آج اقبال کا پاکستان اُنہی حالات کی عکاسی کر رہا ہے میں عمران خان کے ساتھ اُس نسل کو دیکھ رہا ہوں جو متحرک اور تبدیلی کی جانب گامزن ہوئی !
غم و غصے ،کراہت و حقارت کا ایک ایسا احساس ان نوجوانوں میں دکھائی دیا جس کے اظہار کے اثرات گلیوں ،محلوں ،اور گھروں میں دکھائی دے رہے ہیں۔
عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے بھاری رقوم کے بل بوتے پر پلڈاٹ جیسی جعلی تنظیموں کے جعلی سروے ،تجزیئے ،اعداد و شمار منشاء کے مطابق مرتب کرائے جاتے رہے ۔
میڈیا پر کرپشن کے ا سکینڈلز نے یار لوگوں کی جیسے روحیں قبض کر لیں ،کرپشن اور کمیشن کے بڑے بڑے کھاتے کھلے ،بدعنوانی کی داستانوں نے وطن عزیز کی اقدار پر سوالیہ نشان لگا دیا اور گڈ گورننس پر اُٹھنے والے سوالوں سے جاتی امرا کے شہنشاہوں کی طمانیت دائو پرلگ گئی ۔
چند بکائو صحافی زر کی حکومتی منڈی میں سب سے بہتر قیمت کے حصول کیلئے صحافت کے پیشے کو بیچنے کیلئے تیار و بے تاب دکھائی دیئے، ضمیر کے سودے میں یہ گھٹیا صحافی اپنی تجوریا ں بھرنے اور مراعات میں اضافے کی خاطر اک عرصہ سے سچائی کو بیچتے آرہے ہیں ۔ایسی صحافت پر یہ سوال اب شدت سے عوامی حلقوں میں سر اُٹھا رہا ہے کہ کیا سچ کو جھوٹ کے لباس میں چھپا کر اس بے ہودہ کرپشن کا کوئی انت بھی ہوگا ۔
ہمیں ایک ایسے نظام کی خواہش کے ساتھ قدم بڑھانا ہیں جو جھلستے اور جھلساتے مسائل سے نمٹ سکے، موروثی اقتدار کا گھنائونا کھیل کھیلنے والوں پر کراس کا نشان لگا سکے ،جس میں عوام کو جمہوریت کے چہرے پر بدترین سول آمریت کا نقاب چڑھا کر لوٹا جارہاہے، اس جمہوریت میں عوام کی ذلتوں ،محرومیوں کا قد اونچا ہوتا چلا گیا ۔
مفاہمت کے نام پرقوم نے ایک ناہلی دیکھی ،بانجھ پن دیکھا جوصرف اور صرف تابع وفرماں برداری کو برقرار رکھنے کا میثاق تھا۔ ماضی میں تابع و فرمان برداری کا یہ جوش پاک فوج جیسے محب وطن ادارہ پر اپنی ناپاک خواہشات کے تیر برساتا رہا جس کا تسلسل در پردہ آج بھی جاری ہے، حادثاتی سیاست دانوں نے وفادار بن کر نظریاتی سرحدوں کے محافظ ادارے کو ہدف بنایا اور ننگ وطن افراد پاک فوج کے خلاف ایک بیانیہ لیکر آج بھی رواں دواں ہیں ، یہ حقیقت ہے کہ وطن عزیز ایک اثر انگیز استحکام کی طرف بڑھ رہا تھاجو لوٹ مار کی تاریخ رقم کرنے والوں کی آنکھ میں کانٹا بن کر کھٹکتا رہا ۔
احتساب کا خوف اب یقینالوٹ مار کی تاریخ رقم کرنے والوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والا ہے۔
شہر اقتدار میں تحفظ آئین کانفرنس کے شرکا کو پریس کانفرنس تک نہ کرنے دی گئی ،فسطائیت کرنے والے جان لیں کہ فروری 2024 میں ہونے والے یہ الیکشن تاریخ کے بد ترین الیکشن تھے، ایک ایسا صوبہ جہاں لے پالک انتظامیہ اور پولیس کے ذریعے الیکشن چرائے جاتے رہے ،منظم طریقے سے دھاندلی کی گئی ،عوام کا حق ِ خود ارادیت ،ووٹ کا تقدس 1985ء سے انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی سے خریدا اور بیچا جاتا رہااس کے خلاف ساری زبانیں گنگ ہو گئیں ۔اب عوام کے بر انگیختہ جذبات کو روکنا ممکن نہیں ،اُن کے جذبات کے آگے بند باندھنا ایک خواب ہوگا !
جس طرح عوامی مینڈیٹ چرایا گیا عوام اسے نہیں بھولے ،حالیہ عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلی نے شریفوں کے مورال کو جو پہلے ہی خستہ تھا مزید خستہ کر دیا، ن لیگی امیدواران ایک ایک دروازے پر ووٹوں کی بھیک مانگ کر اُلٹے قدموں جیت کی ناکام خواہشیں لیکر لوٹتے رہے ،بجلی کے 300یونٹس تک معافی کے جھوٹے وعدے ،پولیس سسٹم کی بہتری کے وعدے ،ترقیاتی کاموں کا جھانسہ دیکر ایک بار پھر دھوکے سے عوام کی رائے کو یر غمال بنانے کی بھر پور ریہرسل کی گئی مگر 8فروری کو سرمائے کا شیر بھیگی بلی بن گیا۔ عوام جانتے ہیں کہ اُن کا حق خود ارادیت کس خفیہ ہاتھ نے چرایا اور ضلعی سطح پر کرپٹ بیورو کریسی پریذائیڈنگ اور ریٹرننگ آفیسرز کی شکل میں موجود رہی جو انتخابی نتائج کو پنجاب میں شریفوں کی منشا کے مطابق بدلتی رہی جو لندن پلان کا حصہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
سندھ و پنجاب حکومتوں کی کارکردگی عوام کو نظر نہیں آ رہی: بیرسٹر محمد علی سیف
---فائل فوٹومشیرِ اطلاعات خیبر پختون خوا بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ سندھ و پنجاب کی صوبائی حکومتوں کی کارکردگی عوام کو نظر آ رہی ہے نہ انہیں محسوس ہو رہی ہے۔
بیرسٹر محمد علی سیف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں غیر منتخب حکومتوں کی کارکردگی ڈرامے بازی تک محدود ہے۔
معروف اداکارہ و میزبان جگن کاظم نے کہا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز جو وعدہ کرتی ہیں اسے وقت سے پہلے پورا کرتی ہیں، اس بات کا میں نے ذاتی طور پر تجربہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ کون سی کارکردگی ہے جس کی تشہیر کی جا رہی ہے، پنجاب میں کیا مہنگائی اور بے روزگاری ختم ہو چکی ہے؟
بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ عوام کا لیڈر بننے کے شوق میں یہ کردار مذاق بن چکے ہیں۔