Express News:
2025-03-01@01:08:26 GMT

پاک افغان چوکی تنازع اور تجارت

اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT

گزشتہ سال مارچ میں ایک رپورٹ شایع ہوئی تھی کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدہ صورت حال کے باعث افغان تاجر تجارت کے لیے ایران اور وسط ایشیا کے متبادل راستے اختیار کر رہے ہیں۔ کئی افغان تاجروں نے بتایا کہ پاکستان اور افغان حکومت کی جانب سے تجارت اور سیکیورٹی سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات دونوں ممالک کی باہمی تجارت میں کمی لے کر آیا ہے اور بہت سے تاجر اب متبادل راستے اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

دوسری طرف بھارت، افغانستان کے مابین تجارتی مالیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تجارتی اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ افغانستان اب بہت سی اشیا مثلاً پھل اور ڈرائی فروٹس وغیرہ بھارت کو برآمد کرنے میں ترجیح دے رہے ہیں اور بھارت بھی اپنی ایکسپورٹ برائے افغانستان بڑھانے میں دلچسپی لے رہا ہے اور بھارت کی ایکسپورٹ برائے افغانستان میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔

1958 کے ایک ایکٹ کے تحت دنیا کے ان ممالک کے لیے ایک سہولت پر عمل درآمد کرنے میں پابندی کا کہا تھا وہ ممالک جوکہ لینڈ لاک ہیں۔ وہ اپنے پڑوسی ممالک جن کے پاس بندرگاہیں ہیں ان سے پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ 1965 میں افغانستان کے ساتھ ٹریڈ ایگریمنٹ ہوا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 1965 کی بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ میں افغانستان نے بھارت کی حمایت کی تھی۔ 2010 میں جب افغانستان میں حامد کرزئی کی حکومت تھی تو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی مسائل کے حل کے لیے پاک افغان ٹریڈ منظر عام پر آیا۔

بھارت کے ساتھ افغانستان کی تجارت کی صورت حال یہ ہے کہ افغانستان سے سامان تجارت سے لدے ہوئے ٹرک واہگہ بارڈر پر جاتے ہیں اور وہاں پر ٹرک کا سامان بھارتی ٹرکوں میں لاد کر افغانی ٹرک واپس خالی آ جاتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی تجارتی ماحول میں زبردست خرابی لے کر آیا جس کے منفی اثرات دونوں ممالک کے تاجروں، ٹرک ڈرائیورز، ٹرالرز والے، مقامی تاجر، باغات کے مالکان، ایکسپورٹرز اور امپورٹرز تو ہر طرح سے متاثر ہوتے ہیں۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق طورخم بارڈر چوتھے روز بھی بند رہا کیونکہ حکام کے مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں، بارڈر کی بندش کے ساتھ بڑے پیمانے پر مزدوری کرنے والے دونوں ممالک کے درمیان آنے جانے والے مسافر بھی متاثر ہوتے ہیں۔ حال ہی میں سرحدی چوکی تنازع بڑی شدت سے ابھر کر جب سامنے آیا اور طورخم بارڈر کو بند کر دیا گیا۔ اس موقع پر ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ روزانہ 600 سے 700 ٹرک اور 5 سے 6 ہزار لوگ کراسنگ کا استعمال کرتے ہیں۔ افغان طالبان کی جانب سے انتہائی سخت رویوں کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

اب امریکی صدر کے ایگزیکٹیو آرڈر کے باعث بھی تعلقات مزید بگڑ سکتے ہیں، کیونکہ اب امریکا نے اپنے ان ہزاروں افغان شہریوں کو جوکہ 2001 سے امریکا کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے اور ان لوگوں کو امریکا میں پناہ دینے کی منظوری بھی دی گئی تھی، ان کی اکثریت افغانستان میں خطرہ محسوس کرتے ہوئے پاکستان میں پناہ گزین ہوئے تھے۔ اب صدر ٹرمپ کے ایک آرڈر سے ان لوگوں کی امریکی واپسی خطرے میں پڑگئی ہے۔

ایسے موقع پر پاکستان نے کہا ہے کہ وہ ان پناہ گزینوں کے امریکا منتقلی کے باعث بات چیت کے لیے تیار ہے، اگر امریکا کی جانب سے ان پناہ گزینوں کو قبول نہیں کیا جائے گا تو ان کو ملک بدر کردیا جائے گا۔ ان کو افغانستان بھیجا جائے گا، اب بھلا بتائیے اس وقت کی حکومت نے ان لوگوں کو کیوں پناہ دی تھی اور اتنے عرصے گزرنے کے باوجود ان لوگوں کو امریکا واپس نہیں بھجوایا جاسکا۔ پاکستان نے امریکا سے مذاکرات کرنے ہیں تو پہلے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ زور و شور سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔

اگرچہ اس سلسلے میں کچھ پیش رفت ہوئی تھی لیکن حتمی نتیجے کے حصول ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور پاکستان واپس پہنچنے تک پاکستان کو اپنی تگ و دو زیادہ بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس مسئلے کو ترجیح دی جائے اس کے ساتھ ان پناہ گزینوں کے بارے میں بات کی جائے۔اس وقت پاک افغان تجارت شدید خطرے سے دوچار ہے کچھ افراد کا کہنا ہے کہ اگر معاملات میں تھوڑی بہت بہتری لے کر آئے ہیں اور پاکستان اپنی بہترین سفارت کاری کے ذریعے تجارتی تعلقات کو بحال کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں افغان تاجر دوبارہ اپنی ایکسپورٹ اور امپورٹ کے لیے پاکستان کو ترجیح دیں گے۔

اب بات یہ ہے کہ معاملات بہتری کی جانب مڑ سکتے ہیں، اگرچہ افغان تاجر دیگر راستوں کا انتخاب کر چکے ہیں لیکن جس طرح کی سہولت پاکستان میں تھی وہ میسر نہ آسکے گی۔ اول ان تاجروں کے کارندے جوکہ پاکستانی حکام اور یہاں کے تاجروں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں وہ اردو سے بخوبی واقف ہیں اور دونوں ممالک کے تاجروں کے درمیان تجارت انگریزوں کے زمانے سے چلی آ رہی ہے ایک دوسرے سے خوب واقف بھی ہیں باآسانی ایک دوسرے سے گفتگو بھی کر سکتے ہیں اور بعض کے انتہائی قریبی تعلقات بھی ہیں۔

البتہ ان تمام باتوں میں طالبان کی طرف سے ہٹ دھرمی، سختی اور کئی باتیں اب شامل ہوگئی ہیں۔ اب یہ مسائل کیسے حل ہوں کہ پاکستان کے تاجروں کو اور دیگر متعلقہ افراد کی روزی کو جس طرح نقصان کا سامنا ہے اسی طرح افغانستان کے تاجر اور وہاں کے مزدور عام شہری سب اس سے متاثر ہیں۔ لہٰذا ان مسائل کا باریک بینی سے جائزہ لے کر مسائل کا حل نکالنا ضروری ہے۔ افغانستان کے ساتھ بہت سے دیرینہ اختلافات کے باوجود افغانستان کے لیے ہماری برآمدات کا حجم بھی زیادہ ہے اور پڑوسی ملک بھی ہے اور افغان تاجر پاکستان سے ہی تجارت کرنے میں زیادہ آسانی محسوس کرتے ہیں اور پاکستانی تاجر بھی لہٰذا درمیانی راستہ حکومت کو بھی نکالنا ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے افغانستان میں افغانستان کے اور پاکستان کہ پاکستان افغان تاجر کے تاجروں کے درمیان سکتے ہیں ان لوگوں کے تاجر رہے ہیں کے باعث ہیں اور کے ساتھ کی جانب کے لیے ہے اور

پڑھیں:

ٹرمپ کی دھمکی اور عالمی فوجی عدالت کے بارے میں افغان طالبان کا ردعمل

ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ کوئی بھی اس وہم میں نہ رہے کہ افغانستان، یوکرائن ہے، وہ افغانوں کو حکم نہیں دے سکتے ہیں، ہم کسی دوسرے ملک کے کنٹرول اور انتظامیہ کے ماتحت نہیں ہیں، امریکی افواج کے پیچھے چھوڑے گئے ہتھیار اب افغان عوام کی ملکیت ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان طالبان کو ایک بار پھر وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کا چھوڑا گیا 7 بلین ڈالرز کی قیمت کا امریکی اسلحہ ہمیں واپس کر دو، امریکہ بائیڈن کی غلطی کو درست کرنے کی قوت رکھتا ہے۔ اس کے جواب میں افغانستان طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ کوئی بھی اس وہم میں نہ رہے کہ افغانستان، یوکرائن ہے، وہ افغانوں کو حکم نہیں دے سکتے ہیں، ہم کسی دوسرے ملک کے کنٹرول اور انتظامیہ کے ماتحت نہیں ہیں، امریکی افواج کے پیچھے چھوڑے گئے ہتھیار اب افغان عوام کی ملکیت ہیں۔
دوسری جانب انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان کی عبوری انتظامیہ، اسلامی قانون کی روشنی میں اور افغانوں کی مذہبی اور قومی اقدار کی حفاظت کرنے والے نظام کے طور پر، روم کنونشن کی بنیاد پر قائم ہونے والے "انٹرنیشنل کریمنل کورٹ" نامی ادارے کے سامنے خود کو ذمہ دار نہیں سمجھتی اور درج ذیل نکات کا اعلان کرتی ہے: 1۔ "عدالت" کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے اقدامات عدل و انصاف کے اصول کے بجائے سیاسی تبدیلی پر مبنی ہیں، اور افغانستان کی عبوری انتظامیہ ممالک کے ساتھ کنٹرول اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات چاہتی ہے، اس پالیسی سے متفق نہیں۔ 2۔ افغانستان اور دیگر ممالک میں لاکھوں عام شہری (جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی) پسماندہ ہیں اور مارے گئے، لیکن یہ "عدالت" سنگین امریکی جرائم پر خاموش رہی۔ 3۔ اس ادارے نے کبھی افغانستان میں قابضین اور ان کے اتحادیوں کے جنگی جرائم کے بارے میں نہیں پوچھا، جس نے پورے دیہات کے دیہات کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا، تعلیمی مراکز، مساجد، اسپتالوں اور شادی بیاہ کی تقریبات کو دھماکے سے اڑا دیا، اور عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور ہزاروں قیدیوں کی شہادت کا سبب بنے۔ 4۔ بہت سی بڑی طاقتیں اس "عدالت" کی رکن نہیں ہیں، اسی طرح افغانستان جیسے ملک کی رکنیت بھی ضروری نہیں ہے، جو ہمیشہ دوسروں کے قبضے اور استعمار کی وجہ سے مظلوم رہا ہے۔ 
  مذکورہ بالا نکات کے پیش نظر افغانستان کی عبوری حکومت باضابطہ طور پر روم معاہدے کی عدم پاسداری کا اعلان کرتی ہے اور سابقہ انتظامیہ کے مذکورہ معاہدے سے الحاق کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان اور آسٹریلیا کا میچ بارش کے باعث ختم، کینگروز سیمی فائنل میں پہنچ گئے
  • چیمپئنز ٹرافی، افغانستان کا آسٹریلیا کو 274 رنز کا ہدف 
  • چیمپئنز ٹرافی، افغانستان نے آسٹریلیا کو 274 رنز کا ہدف دے دیا
  • پاک افغان سرحد طورخم چھٹے روز بھی بند، ہر قسم کی آمد و رفت معطل
  • ٹرمپ کی دھمکی اور عالمی فوجی عدالت کے بارے میں افغان طالبان کا ردعمل
  • قومی ٹیم کی شکست پر دلبرداشتہ شعیب افغان ٹیم کو سپورٹ کرنے لگے
  • پاکستان اور ازبکستان میں کئی معاہدے، تجارت 2 ارب ڈالر، ٹرانس افغان ریلوے منصوبے پر کمیٹی بنے گی
  • انگلینڈ کے خلاف جیت پر ہماری قوم خوش ہے، ٹیم میں نمایاں بہتری آئی ہے افغان کپتان
  • افغانستان اپنی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال ہونے سے روکے، وزیراعظم