پاک افغان چوکی تنازع اور تجارت
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
گزشتہ سال مارچ میں ایک رپورٹ شایع ہوئی تھی کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدہ صورت حال کے باعث افغان تاجر تجارت کے لیے ایران اور وسط ایشیا کے متبادل راستے اختیار کر رہے ہیں۔ کئی افغان تاجروں نے بتایا کہ پاکستان اور افغان حکومت کی جانب سے تجارت اور سیکیورٹی سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات دونوں ممالک کی باہمی تجارت میں کمی لے کر آیا ہے اور بہت سے تاجر اب متبادل راستے اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف بھارت، افغانستان کے مابین تجارتی مالیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تجارتی اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ افغانستان اب بہت سی اشیا مثلاً پھل اور ڈرائی فروٹس وغیرہ بھارت کو برآمد کرنے میں ترجیح دے رہے ہیں اور بھارت بھی اپنی ایکسپورٹ برائے افغانستان بڑھانے میں دلچسپی لے رہا ہے اور بھارت کی ایکسپورٹ برائے افغانستان میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
1958 کے ایک ایکٹ کے تحت دنیا کے ان ممالک کے لیے ایک سہولت پر عمل درآمد کرنے میں پابندی کا کہا تھا وہ ممالک جوکہ لینڈ لاک ہیں۔ وہ اپنے پڑوسی ممالک جن کے پاس بندرگاہیں ہیں ان سے پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ 1965 میں افغانستان کے ساتھ ٹریڈ ایگریمنٹ ہوا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 1965 کی بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ میں افغانستان نے بھارت کی حمایت کی تھی۔ 2010 میں جب افغانستان میں حامد کرزئی کی حکومت تھی تو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی مسائل کے حل کے لیے پاک افغان ٹریڈ منظر عام پر آیا۔
بھارت کے ساتھ افغانستان کی تجارت کی صورت حال یہ ہے کہ افغانستان سے سامان تجارت سے لدے ہوئے ٹرک واہگہ بارڈر پر جاتے ہیں اور وہاں پر ٹرک کا سامان بھارتی ٹرکوں میں لاد کر افغانی ٹرک واپس خالی آ جاتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی تجارتی ماحول میں زبردست خرابی لے کر آیا جس کے منفی اثرات دونوں ممالک کے تاجروں، ٹرک ڈرائیورز، ٹرالرز والے، مقامی تاجر، باغات کے مالکان، ایکسپورٹرز اور امپورٹرز تو ہر طرح سے متاثر ہوتے ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق طورخم بارڈر چوتھے روز بھی بند رہا کیونکہ حکام کے مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں، بارڈر کی بندش کے ساتھ بڑے پیمانے پر مزدوری کرنے والے دونوں ممالک کے درمیان آنے جانے والے مسافر بھی متاثر ہوتے ہیں۔ حال ہی میں سرحدی چوکی تنازع بڑی شدت سے ابھر کر جب سامنے آیا اور طورخم بارڈر کو بند کر دیا گیا۔ اس موقع پر ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ روزانہ 600 سے 700 ٹرک اور 5 سے 6 ہزار لوگ کراسنگ کا استعمال کرتے ہیں۔ افغان طالبان کی جانب سے انتہائی سخت رویوں کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
اب امریکی صدر کے ایگزیکٹیو آرڈر کے باعث بھی تعلقات مزید بگڑ سکتے ہیں، کیونکہ اب امریکا نے اپنے ان ہزاروں افغان شہریوں کو جوکہ 2001 سے امریکا کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے اور ان لوگوں کو امریکا میں پناہ دینے کی منظوری بھی دی گئی تھی، ان کی اکثریت افغانستان میں خطرہ محسوس کرتے ہوئے پاکستان میں پناہ گزین ہوئے تھے۔ اب صدر ٹرمپ کے ایک آرڈر سے ان لوگوں کی امریکی واپسی خطرے میں پڑگئی ہے۔
ایسے موقع پر پاکستان نے کہا ہے کہ وہ ان پناہ گزینوں کے امریکا منتقلی کے باعث بات چیت کے لیے تیار ہے، اگر امریکا کی جانب سے ان پناہ گزینوں کو قبول نہیں کیا جائے گا تو ان کو ملک بدر کردیا جائے گا۔ ان کو افغانستان بھیجا جائے گا، اب بھلا بتائیے اس وقت کی حکومت نے ان لوگوں کو کیوں پناہ دی تھی اور اتنے عرصے گزرنے کے باوجود ان لوگوں کو امریکا واپس نہیں بھجوایا جاسکا۔ پاکستان نے امریکا سے مذاکرات کرنے ہیں تو پہلے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ زور و شور سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔
اگرچہ اس سلسلے میں کچھ پیش رفت ہوئی تھی لیکن حتمی نتیجے کے حصول ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور پاکستان واپس پہنچنے تک پاکستان کو اپنی تگ و دو زیادہ بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس مسئلے کو ترجیح دی جائے اس کے ساتھ ان پناہ گزینوں کے بارے میں بات کی جائے۔اس وقت پاک افغان تجارت شدید خطرے سے دوچار ہے کچھ افراد کا کہنا ہے کہ اگر معاملات میں تھوڑی بہت بہتری لے کر آئے ہیں اور پاکستان اپنی بہترین سفارت کاری کے ذریعے تجارتی تعلقات کو بحال کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں افغان تاجر دوبارہ اپنی ایکسپورٹ اور امپورٹ کے لیے پاکستان کو ترجیح دیں گے۔
اب بات یہ ہے کہ معاملات بہتری کی جانب مڑ سکتے ہیں، اگرچہ افغان تاجر دیگر راستوں کا انتخاب کر چکے ہیں لیکن جس طرح کی سہولت پاکستان میں تھی وہ میسر نہ آسکے گی۔ اول ان تاجروں کے کارندے جوکہ پاکستانی حکام اور یہاں کے تاجروں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں وہ اردو سے بخوبی واقف ہیں اور دونوں ممالک کے تاجروں کے درمیان تجارت انگریزوں کے زمانے سے چلی آ رہی ہے ایک دوسرے سے خوب واقف بھی ہیں باآسانی ایک دوسرے سے گفتگو بھی کر سکتے ہیں اور بعض کے انتہائی قریبی تعلقات بھی ہیں۔
البتہ ان تمام باتوں میں طالبان کی طرف سے ہٹ دھرمی، سختی اور کئی باتیں اب شامل ہوگئی ہیں۔ اب یہ مسائل کیسے حل ہوں کہ پاکستان کے تاجروں کو اور دیگر متعلقہ افراد کی روزی کو جس طرح نقصان کا سامنا ہے اسی طرح افغانستان کے تاجر اور وہاں کے مزدور عام شہری سب اس سے متاثر ہیں۔ لہٰذا ان مسائل کا باریک بینی سے جائزہ لے کر مسائل کا حل نکالنا ضروری ہے۔ افغانستان کے ساتھ بہت سے دیرینہ اختلافات کے باوجود افغانستان کے لیے ہماری برآمدات کا حجم بھی زیادہ ہے اور پڑوسی ملک بھی ہے اور افغان تاجر پاکستان سے ہی تجارت کرنے میں زیادہ آسانی محسوس کرتے ہیں اور پاکستانی تاجر بھی لہٰذا درمیانی راستہ حکومت کو بھی نکالنا ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے افغانستان میں افغانستان کے اور پاکستان کہ پاکستان افغان تاجر کے تاجروں کے درمیان سکتے ہیں ان لوگوں کے تاجر رہے ہیں کے باعث ہیں اور کے ساتھ کی جانب کے لیے ہے اور
پڑھیں:
ہیٹ ویو اور پانی کی قلت کے خطرات
محکمہ موسمیات نے گرمی کی لہر کے حوالے سے متنبہ کیا ہے محکمے نے گرمی کی لہر یعنی ہیٹ ویو کے بارے میں بات کی ہے اور دوسری جانب کہا ہے کہ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں بارشوں میں 41 فیصد کمی واقع ہوئی جس سے پنجاب اور سندھ بہت زیادہ متاثر ہوئے۔
فروری میں سب سے کم بارش ہوئی جس میں منفی آٹھ سے منفی 97 فیصد کم بارشیں ہوئیں۔ کم بارشوں کی وجہ سے خشک سالی کا خطرہ بڑھ گیا ہے فی الوقت صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد دریائے سندھ کے کنارے آباد ہونے کے باوجود پینے کے صاف پانی سے محروم ہے، شہر میں ان دنوں پانی کی شدید قلت ہے جب دریائے سندھ کے کنارے آباد شہری پینے کے پانی سے محروم ہیں تو کاشتکاروں کو درپیش مسائل کو اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہے ۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر کی طرح موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان بھی بچا نہیں ہے بلکہ پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں سے ایک ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جنھیں اس سال یعنی 2025 سے پانی کے شدید بحران کا سامنا ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان کی حکومت اور افراد نے مل کر اس بحران کو حل نہ کیا تو اگلے چند سال میں خشک سالی کی وجہ سے پاکستان میں شدید ترین غذائی بحران شروع ہو جائے گا جس سے نہ صرف یہ کہ ملک کا اقتصادی استحکام متاثر ہوگا بلکہ اس کے وجود کو بھی خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے تو ہمیں تیار رہنا ہی ہو گا۔پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ2023 میں بہار کا موسم نہیں آیا تو اس بار موسم سرما کی بہاروں کافقدان رہا۔ اس کے لیے تو ہمیں تیار رہنا ہی ہو گا۔ماہرین موسمیات نے کہا ہے کہ سندھ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں درجہ حرارت اوسط سے6سے 8 سینٹی گریڈ زیادہ رہے گا اور وسط اور پنجاب بالا، اسلام آباد، خیبر پختونخوا، کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی درجہ حرارت اوسط سے4 سے 6 ڈگری زیادہ رہے گا۔عالمی ادارے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ شدید موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی خرابی اور ہوا میں آلودگی سے پاکستان میں 2050 تک ملک کے جی ڈی پی میں 18 سے 20 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔یہ ایک بہت بڑا نمبر ہے جس سے ملک کی ترقی رک جائے گی۔ پاکستان میں گرمی کی شدت اور سیلاب اس بات کا واضح عندیہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان کو ترقیاتی پروگرام اور غربت میں کمی کرنے کی کوششوں میں مشکلات ہوں گی۔موسمیاتی تبدیلی کے باعث آفات سے 1700 افراد جان گنوا بیٹھے جبکہ 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ اس کے علاوہ ملک کو 30 ارب ڈالر کا انفرا اسٹرکچر، فصلوں اور مویشیوں کے بہہ جانے سے معاشی نقصان ہوا۔
پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی سے رونما ہونے والی مسائل اور ان کے اثرات کے حوالے سے جو نیشنل اڈاپٹیشن پلان مرتب کیا ہے اس میں کہا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی کا اثر ہر ایک پر ایک جیسا نہیں ہو گا بلکہ یہ انفرادی طور پر کسی اور طریقے سے، کاروبار کو مختلف، کمیونٹی کو مختلف اور تنظیموں اور حکومتوں کو مختلف طریقے سے متاثر کرے گی نیا میں تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور موسمی تبدیلی کے اثرات نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ موسمی تبدیلی بوتل کے جن کی مانند ہے کہ ایک بار باہر آ گیا تو واپس بوتل میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ دماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس وقت زیادہ نہیں ہے ہمارے پاس سائنس بھی ہے اور ٹیکنالوجی بھی ہے ۔ مسئلہ سائنس کے نہ ہونے کا نہیں بلکہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قوت ارادی کی کمی ہے۔اب پاکستان کے پاس آپشن ہے اور اسے یہ فیصلہ کرناہے کہ آیا وہ اپنے وجود میں آنے کے 100 سال بعد موسمی تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے ماحول دوست اقدامات اٹھا کر معاشی کامیابی کی مثال بننا چاہتا ہے یا نہیں۔پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ترقیاتی پروگرام اور پالیسیاں ازسر نو ترتیب دیناہوں گی۔یہ بات ثابت ہوچکی ہے اور خود ارباب حکومت بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میں تمام ویٹ لینڈز یعنی پانی کے ذخائر کو موسمی تبدیلی، سیلاب یا خشک سالی، پانی کی طلب میں اضافے اور بدانتظامی کے باعث مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ عالمی رپورٹس کے مطابق موسمی تبدیلی کے باعث گلیشیئر تیزی سے پگھلنا شروع ہو گئے ہیں، جس کے باعث ایک طرف سیلاب آتے ہیں اور دوسری جانب گلیشیئروں میں کمی واقع ہو رہی ہے ،جس کی وجہ سے پاکستان میں مجموعی طور پر پانی میں نمایاں کمی واقع ہو گی۔موسمیاتی تبدیلی کے باعث سیلاب اور خشک سالی میں اضافہ اور اس کے ساتھ گرمی میں اضافے کی وجہ سے پوری دنیا میں خوراک کی فراہمی میں کمی اور قیمتوں میں اضافہ ہو گا جس سے جنوبی اور جنوب مشرق ایشیا میں غذاتی قلت میں اضافہ ہونالازمی امرہے گرمی میں اضافے سے ایشیائی ممالک میں توانائی کی طلب بڑھے گی۔ ایشیا میں 13 ممالک ایسے ہیں جہاں توانائی کا استعمال بہت زیادہ ہے اور ان 13 ممالک میں سے 11 ایسے ہیں جہاں توانائی کا عدم تحفظ اور صنعتی نظام کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔پانی کی کمی اور خشک سالی کی وجہ سے خدشہ ہے کہ 24 کروڑ آبادی کا ملک پاکستان خوراک کے ایک بڑے بلکہ خوفناک بحران کی جانب بڑھ رہا ہے۔
عالمی رپورٹس کے مطابق پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنے والے ممالک میں پاکستان کے علاوہ لبنان، افغانستان، شام، ترکی، برکینوفاسو، قطر، اسرائیل، قبرص اور کویت شامل ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ5 براعظموں میں واقع 50 سے زائد ممالک پانی کے مسئلے پر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ان سب ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا سامنا تو کرنا ہی پڑ رہا ہے لیکن اس کے علاوہ ہر ملک کے اپنے انفرادی مسائل اس نوعیت کے ہیں جس سے وہاں زیرزمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ان 10ملکوں میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے جو سب سے زیادہ پانی کی قلت سے متاثر ہو رہا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق 1950ء میں پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 5,260 مکعب میٹر تھی، جو 2019ء تک کم ہو کر صرف 1,032 مکعب میٹر رہ گئی ہے۔دنیا بھر میں پانی کی طلب بڑھ رہی ہے اور جب طلب سپلائی سے بڑھ جائے تو یہ کمی قوموں کو ایک دوسرے کے مقابل میدان جنگ میں لا کھڑا کرتی ہے۔جنوبی ایشیامیں پانی کی قلتے کے منڈلاتے خطرات کے پیش نظر علاقائی منظرنامے پر نظر رکھنے والے ماہرین نے پاکستان اور بھارت کے درمیان اگلی جنگ پانی کے مسئلے پر چھڑنے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے بھارت پر اپنے حصے کے پانی کی چوری کے الزام کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ پہلے ہی بڑھ رہا ہے۔پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ
بھارت اس کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر بندھ باندھ کر اور ڈیم تعمیر کر کے دونوں ممالک کے درمیان عالمی بینک کے ذریعے 1960ء میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔سرحدوں کے دونوں اطراف کی سیاسی جماعتیں پانی کے مسئلے پر اپنی سیاست بھی چمکا رہی ہیں۔پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف 30 دن ہے جب کہ عالمی اوسط 220 دن ہے۔ بحران کی وجوہات میں ماحولیاتی تبدیلی، بڑھتا ہوئا درجہ حرارت اور بارش کا غیر متوقع پیٹرن ملک کے آبی نظام کو متاثر کر رہا ہے جس کے نتیجے میں خشک سالی اور سیلاب عام ہو جائیں گے۔پاکستان میں پانی کا بحران گھڑی کی ٹک ٹک کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ اگر ہم نے اس کی روک تھام کی جانب فوری توجہ نہیں دی اور اس کیلئے عملی اقدامات نہیں کیے اوراس مسئلے کو نظرانداز کیا تو مستقبل میں ملک کو شدید ماحولیاتی، اقتصادی اور سماجی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ پانی کے تحفظ کے لیے بروقت اور موثر حکمت عملی اپنا کر ہی ہم ایک محفوظ اور مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔پاکستان میں میٹھے پانی کی کمی کے کئی عوامل ہیں جن میں موسمیاتی تبدیلی کے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی کو نہ روکنا اور دیہی آبادی کا شہروں کی طرف تیزی سے منتقل ہونا شامل ہے۔پانی کی کمیابی بنی نوع انسان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ پاکستان کو پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور موثر حکمت عملی اپنانا ہوگی جس کے تحت ہنگامی طور پر کئی اقدامات کرنے ہوں گے۔پانی کی بچت: جدید آبپاشی نظام، جیسے کہ ڈرپ اریگیشن اور بارش کے پانی کو محفوظ کرنے والے طریقے متعارف کروا کر پانی کے ضیاع کو کم کرنا ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں نئے ڈیم اورآبی ذخائر تعمیر کر کے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھائی جائے۔ ہم 60 کی دہائی کے بعد ہم کوئی بڑا آبی ذخیرہ نہیں بنا سکے، اب وقت آ گیا ہے کہ انسانی زندگی کی بقا کے لیے تمام ڈیزائن کردہ چھوٹے بڑے ڈیمز اور آبی ذخائر ترجیحاً تعمیر کیے جائیں اور پانی کے کم استعمال اور اس مائع سونے کی حفاظت کا شعور اجاگر کیا جائے۔ زرعی پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے نہروں، راجباہوں کی باقاعدگی کے ساتھ حقیقی معنوں میں بھل صفائی کرنا ضروری ہے،اسی طرح عوام کو، روز مرہ کے گھریلو استعمال کے لیے ضرورت کے مطابق پانی استعمال کرنے کا کلچر اختیار کرنے کی تربیت دینے اور پانی ضائع کرنے پر سزائیں دینے کا قانون نافذ کرنا اب از بس ضروری ہوگیاہے، یہ بات ذہن نشین رہے کہ پانی کے بغیر انسانی زندگی ناممکن ہے۔