چھ نسلوں سے جاری مزاحمت (قسط اول)
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
ہماری نئی پیڑھی کو کم و بیش یہی بتایا گیا کہ مسلح فلسطینی مزاحمت کی ابتدا انیس سو انسٹھ میں الفتح تنظیم کے سائے تلے پانچ نوجوانوں (یاسر عرفات، صالح خلف، خلیل الوزیر ، خالد یشروتی ، محمود عباس) سے ہوئی۔ پھر لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ الفتح آگے چل کے دھڑے بندی کا شکار بھی ہوئی اور ان دھڑوں نے انیس سو سڑسٹھ کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد تنظیمِ آزادیِ فلسطین (پی ایل او) نامی ایک متحدہ محاذ بھی تشکیل دیا۔
یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ فلسطینیوں کا پہلا انتفادہ (عوامی مزاحمت ) انیس سو ستاسی تا اکیانوے اور دوسرا انتفادہ سن دو ہزار تا دو ہزار پانچ جاری رہا۔مگر حقیقت قدرے مختلف ہے۔ برطانوی نوآبادیاتی نظام اور صیہونیت کے خلاف فلسطینی جدو جہد ایک صدی سے بھی پرانی ہے۔ پہلا انتفادہ انیس سو چھتیس تا انتالیس جاری رہا۔اس کی چھاپ آج تک محسوس ہو رہی ہے۔
اٹھارہ سو ستانوے کی پہلی صیہونی کانفرنس کے روحِ رواں تھیوڈور ہرزل کو ایک برس بعد ہی یروشلم کے رئیسِ بلدیہ ( میئر ) یوسف الخالدی نے ایک خط میں متنبہ کیا تھا کہ فلسطین میں ایک جبری صیہونی مملکت کے خواب کی تعبیر لازماً خونی ہی ہو گی۔ بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں جافا اور یروشلم سے شایع ہونے والے اخبارات نے بھی فلسطینی مڈل کلاس اور فلاحین ( کسانوں ) کو مضامین اور اداریوں کے ذریعے خبردار کرنا شروع کر دیا تھا کہ ’’ تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں ‘‘۔
مگر زوال پذیر عثمانیوں نے یورپ سے یہودیوں کی فلسطین میں دبے پاؤں آمد کو ہرگز بقائی خطرہ نہیں سمجھا۔ پہلی عالمی جنگ میں جب عثمانیوں کا دھڑن تختہ ہو گیا اور دورانِ جنگ ہی فرانس اور برطانیہ نے خفیہ طور پر بعد از جنگ کی عرب دنیا کو آپس میں بانٹ لیا اور برطانیہ نے فلسطین میں ایک یہودی قومی وطن کے قیام میں ہر ممکن مدد کا وعدہ کر لیا اور جنگ کے بعد منعقد ہونے والے فاتحین کی پیرس کانفرنس سے اس وعدے پر تصدیقی مہر لگوا کے مغربی سامراج کی طفیلی عالمی تنظیم انجمنِ اقوام ( لیگ آف نیشنز ) نے فلسطین کو بطور امانت برطانیہ کے سپرد کر دیا۔
تب فلسطینی اشرافیہ کے ایک دھڑے نے غیرمتشدد سیاسی راستہ اپنایا اور کچھ نے یہ سوچ کر مسلح سیاسی جدوجہد کی راہ چنی کہ ہتھیار بند یہودی جتھے ہوں کہ ان کی مددگار برطانوی انتظامیہ۔لاتوں کے بھوت صرف باتوں سے نہ مانیں گے۔
اس کا پہلا مظاہرہ یکم مارچ انیس سو بیس میں دیکھنے میں آیا جب لبنانی سرحد سے متصل شمالی گلیلی کی ایک یہودی بستی تلحئی میں مسلح شیعہ ٹکڑی اور ایک فلسطینی جتھہ لبنان اور شام پر قابض فرانسیسی فوجیوں سے مڈبھیڑ کے دوران یہودی بستی میں ان فوجیوں کے تعاقب میں گھس آیا۔ان کی نیت یہودی مکینوں سے لڑنے کی نہیں تھی مگر ان مکینوں نے مسلح افراد کو خود پر حملہ آور سمجھتے ہوئے فائرنگ شروع کر دی اور یوں یہ قضئیہ پہلے عرب یہودی تصادم میں بدل گیا۔ آٹھ یہودی اور پانچ عرب ہلاکتیں ہوئیں۔مرنے والوں میں ایک سرگرم مقامی صیہونی رہنما جوزف ٹرمپل ڈور بھی تھا۔جسے اسرائیل پہلا قومی شہید قرار دیتا ہے۔
یہودیوں نے اس حملے کے بعد تلحئی بستی ترک کر کے تل ابیب کا رخ کیا۔اس واقعہ کے ردِعمل میں یہودیوں کی پہلی بڑی مسلح ملیشیا ہگانہ کا قیام عمل میں آیا جس کا تفصیلی احوال آپ گزشتہ مضامین میں پڑھ چکے ہیں۔تلحئی کی جھڑپ نے عربوں اور یہودیوں کے مابین پہلی خونی لکیر کھینچ دی۔
اگلے ماہ چار تا سات اپریل یروشلم میں عرب مسلمانوں اور مسیحوں کے مشترکہ تہوار ’’ نبی موسی ‘‘ کے دوران مقامی عربوں اور یہودی آبادکاروں میں ایک اور تصادم ہوا۔اس میں یہودی املاک کا زیادہ نقصان ہوا۔ مقامی پولیس نے امن بحال کرنے کے بجائے پرانے شہر سے پسپائی اختیار کی۔تین روزہ ہنگامے میں پانچ یہودی اور چار عرب ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو گئے۔اس بلوے کے بعد عربوں اور یہودیوں نے اپنے اپنے تحفظ کے لیے مقامی برطانوی انتظامیہ کی جانب دیکھنے کے بجائے ’’ اپنی مدد آپ ‘‘ کا اصول اپنا لیا۔
نبی موسی بلوے کے تیرہ ماہ بعد یکم مئی دو ہزار اکیس کو یومِ مزدور کے موقع پر جافا میں کیمونسٹ پارٹی کے دو متحارب دھڑے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئے۔جافا اور تل ابیب کے درمیان منشیا قصبے میں عربوں اور یہودیوں کی ملی جلی آبادی دیکھتے ہی دیکھتے اس تصادم کی لپیٹ میں آ گئی۔افواہوں کے سبب بلوہ دیگر قصبوں تک پھیلتا چلا گیا۔ہفتے بھر کی بدامنی میں سینتالیس یہودی اور اڑتالیس عرب مارے گئے۔ مرنے والوں میں عبرانی ادیب یوسف خائم برینر اور جافا پولیس کے ایک سابق عرب افسرِ اعلیٰ توفیق بے السعید بھی شامل تھے۔
لوٹ مار اور تشدد میں مسلح شہریوں کے علاوہ کچھ عرب اور یہودی پولیس والے بھی ملوث نکلے۔ہنگامہ فرو کرنے کے لیے مصر سے اضافی فوجی کمک منگوانا پڑی اور برطانوی ایرفورس نے حالات پر قابو پانے کے لیے جافا کے کچھ متاثرہ حصوں پر بمباری بھی کی۔عرب قیادت نے برطانوی انتظامیہ کو یہودیوں کی آمد پر فوری پابندی عائد کرنے کا الٹی میٹم دے دیا۔
چنانچہ غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے تین سو یہودی پناہ گزینوں سے بھری تین کشتیوں کو جافا میں لنگر انداز کرنے کے بجائے استنبول روانہ کر دیا گیا۔ہائی کمشنر ہربرٹ سیموئیل نے اعلان کیا کہ آیندہ صرف اتنے پناہ گزینوں کو آنے کی اجازت ہو گی جو مقامی معیشت میں جذب ہو سکیں۔ جافا کے آس پاس سات عرب دیہاتوں کے مکینوں پر فسادات میں معاونت کی پاداش میں اجتماعی جرمانے عائد کیے گئے۔فلسطینی چیف جسٹس سر تھامس ہیوکرافٹ کی سربراہی میں ایک جانچ کمیشن بنا۔مگر اس کی سفارشات عرب اور صیہونی قیادت نے مسترد کر دیں۔
نبی موسی فسادات کے بعد برطانوی ہائی کمشنر نے یروشلم کے مئیر موسی کاظم الحسینی کو برطرف کر دیا تھا۔مگر یومِ مئی کے جافا فسادات کے بعد عرب غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے موسی کے بھتیجے امین الحسینی کو یروشلم کا مفتی بنا دیا گیا اور بعد ازاں انھیں مفتیِ اعظم فلسطین کا خطاب بھی دے دیا گیا۔عرب قیادت نے لیگ آف نیشنز کے نام خط میں فوری برطانوی انخلا اور فلسطین کی آزاد مملکت تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔
ان فسادات میں مسلح یہودی ملیشیا ہگانہ نے پہلی بار جدید ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ان میں جافا کے سرکاری اسلحہ خانے کی خودکار رائفلیں بھی تھیں جو ایک یہودی پولیس افسر پیریز ایٹکیز کے تعاون سے چرائی گئیں۔
نومبر انیس سو اکیس میں یروشلم میں ایک اور فساد ہوا جس میں پانچ یہودی اور تین عرب مارے گئے۔گویا ہر نیا جھگڑا گزشتہ کا ردِ عمل تھا اور فریقین کا صبر جواب دیتا جا رہا تھا۔یہودی اور عرب لڑائی اور پھر ان دونوں کی برطانوی انتظامیہ سے لڑائی۔وقت کے ساتھ ساتھ نفرت و مزاحمت کی یہ تکون اور نوکیلی ہوتی چلی گئی اور پھر سال انیس سو انتیس میں بدامنی کا ایک اور باب فلسطین پر نازل ہو گیا ( جاری ہے )۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: برطانوی انتظامیہ عربوں اور یہودی یہودیوں کی یہودی اور یہودی ا میں ایک کرنے کے کے لیے کے بعد کر دیا
پڑھیں:
رمضان المبارک ؛ سرکاری اداروں کے اوقات کار جاری
بابر شہزاد : وفاقی حکومت کے ماتحت سرکاری اداروں میں رمضان المبارک کے اوقات کار جاری ہوگئے ،
نوٹیفکیشن کے مطابق ہفتہ کے 5 دن کام کرنے والے دفاتر کے اوقات کار صبح 9 سے 3 بجے تک ہوں گے،ہفتہ کے 6 دن کام کرنے والے دفاتر کے اوقات کار صبح 9 سے 2 بجے تک ہوں گے،جمعہ کو سرکاری دفاتر کے اوقات کار صبح 9 سے ساڑھے 12 بجے تک ہوں گے، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے رمضان المبارک کے اوقات کار کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا
وفاقی حکومت کے ماتحت سرکاری اداروں میں رمضان المبارک کے اوقات کار جاری کر دیئے گئے ہیں، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق ہفتہ کے 5 دن کام کرنے والے سرکاری دفاتر کے اوقات کار صبح 9 سے 3 بجے تک ہوں گے جبکہ رمضان کے دوران ہفتہ کے 6 دن کام کرنے والے سرکاری دفاتر کے اوقات کار صبح 9 سے دوپہر 2 بجے تک ہوں گے، مزید برآں جمعتہ المبارک کو سرکاری دفاتر کے اوقات کار صبح 9 سے ساڑھے 12 بجے تک ہوں گے، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے رمضان المبارک کے اوقات کار کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے
حکومت وزرا کی فوج لیکر بھی اپنی نا اہلی کو ختم نہیں کر سکتے: شبلی فراز