ایک مغربی مفکرکا کہنا ہے کہ درخت کی جڑیں نیچے کی طرف اور پھل اوپر کی طرف ہوتا ہے جو ایک خدائی اصول ہے۔ گلاب کا پھول رنگ اور خوشبو کا ایک معیاری مجموعہ ہے جو ایک تنے کے اوپر ظاہر ہوتا ہے مگر اس کا معیار اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ پہلے ایک جڑ نیچے مٹی کے اندر گئی، وہ لوگ جو زمین میں کھیتی کرتے ہیں یا باغ لگاتے ہیں وہ اس اصول کو جانتے ہیں۔ مگر ہم کو پھل حاصل کرنے کی اتنی جلدی اور ایسی دلچسپی ہے کہ ہم جڑ جمانے کی بات آسانی سے بھول جاتے ہیں۔ ہم حقیقت میں ترقی اور خوشحالی حاصل نہیں کرسکتے جب تک ہم مشترک زندگی میں اپنی جڑیں داخل نہ کریں۔
مکمل خوش حالی مشترک زندگی میں جڑیں قائم کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ درخت زمین کے اوپر کھڑا ہوتا ہے مگر وہ زمین کے اندر اپنی جڑیں جماتا ہے، وہ نیچے سے اوپر کی طرف بڑھتا ہے نہ کہ اوپر سے نیچے کی طرف۔ درخت گویا قدرت کی جانب سے معلم ہے جو انسان کو یہ سبق دے رہا ہے کہ اس دنیا میں داخلی استحکام کے بغیر خارجی ترقی ممکن نہیں۔
وطن عزیز کا المیہ یہ ہے کہ برسر اقتدار آنے والے حکمرانوں نے داخلی استحکام پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے خارجی عوامل کو اہم جانا۔ بنیادی چیزوں کو چھوڑ کر عبوری اور سطحی چیزوں کو اپنی ترجیح بنایا۔ آپ کسی بھی شعبہ زندگی پر نظر ڈالیں سب کی جڑیں کمزور اور غیر مستحکم نظر آئیں گی۔
ایسی صورت میں پائیدار اور دائمی ترقی و خوشحالی کیسے ممکن ہے، کھیل سے لے کر سیاست تک معیشت سے لے کر صحافت اور قیادت سے لے کر عدالت تک ہر شعبے میں خامیاں،کمزوریاں، نقائص اور خرابیوں کے انبار لگے ہوئے ہیں، اسی پس منظر میں وزیر اعظم شہباز شریف نے ڈیرہ غازی خان میں ایک کینسر اسپتال اور راجن پور میں یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے دہشت گردی اور سیاسی انتشار کا خاتمہ ضروری ہے، پاکستان قرضوں کے ساتھ ترقی نہیں کر سکتا۔ انھوں نے بڑے یقین اور دعوے کے ساتھ کہا ہے کہ’’ اگر محنت کر کے بھارت کو پیچھے نہ چھوڑا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔‘‘
بلاشبہ ہم سب کی خواہش اور کوشش ہے کہ وطن عزیز ہر شعبہ ہائے زندگی میں شب و روز ترقی کی منازل طے کرے۔ بھارت کو پیچھے چھوڑنے کا دعویٰ اپنی جگہ کہ وہ آبادی و رقبے کے علاوہ سیاست، معیشت اور کھیل میں بھی فی الحال ہم سے آگے ہے جس کی تازہ مثال چیمپئنز ٹرافی کے میچ میں بھارت کے خلاف پاکستان کرکٹ ٹیم کی مایوس کن کارکردگی ہے۔
میچ سے قبل کھلاڑیوں اور آفیشل کی طرف سے بھارت کو شکست دینے کی یقین دہانی کراتے ہوئے قوم کو امید دلائی گئی کہ اس مرتبہ پاکستان نہ صرف اپنے اعزاز کا دفاع کرے گا بلکہ بھارت کو بھی شکست دیں گے خود وزیر اعظم شہباز شریف نے نئے قذافی اسٹیڈیم کے افتتاح کے موقع پر کہا تھا کہ’’ ہم سب اس وقت کا انتظار کریں گے جب قومی ٹیم ہندوستان کو شکست فاش دے گی‘‘ لیکن ہمارے کرکٹ ہیروز نے بھارت کے خلاف ناقص ترین کھیل پیش، کھلاڑیوں نے اپنی ذمے داریوں کا احساس نہ کیا اور قوم کو خوش فہمیوں میں مبتلا کرکے بھارت سے ٹورنامنٹ کا اہم ترین میچ مزاحمت کیے بغیر آسانی سے ہار گئے۔
بھارتی ٹیم نے کھیل کے ہر شعبے میں پاکستان سے بہتر کھیل پیش کیا۔ بھارتی کپتان روہت شرما کا یہ کہنا کہ ہمارے کھلاڑیوں کو اپنی ذمے داریوں کا بخوبی علم ہے، ان کے پروفیشنل ہونے کی دلیل ہے۔ جب کہ ہمارے شعبہ کھیل میں سیاست نے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم پہلے مرحلے میں ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئی۔
ہمیں سیاست اور معیشت میں بھی بھارت کو پیچھے چھوڑنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ بھارت میں آج تک مارشل لا نہیں لگا جب کہ پاکستان تین بار مارشل لا کے جبر برداشت کر چکا ہے۔ بھارت نے ’’ شائننگ انڈیا‘‘ کا نعرہ لگایا اور کرکے دکھایا۔ ہم ایشین ٹائیگر بننے کے بلند و بانگ دعوے کرتے رہے اور ہماری معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دبتی چلی گئی۔ اسٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق غیر ملکی قرضوں کا حجم 70 ہزار 360 ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔
ایسی صورت میں معیشت کیسے سنبھلے گی؟ سیاسی انتشار بھی وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ اپوزیشن گرینڈ الائنس اور احتجاج کی طرف جا رہی ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف وکلا اور پیکا ایکٹ کے خلاف صحافی سراپا احتجاج ہیں۔ دہشت گردی کے پے در پے واقعات نے امن و امان کو تہس نہس کر دیا ہے۔ بھارت کو پیچھے چھوڑنے کی وزیر اعظم کی خواہش ان کے عزم کی علامت ہے، لیکن آگے کون ہے اور پیچھے کون ہے، زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھارت کو پیچھے ہوتا ہے کے خلاف کی طرف
پڑھیں:
حکومت نے معاشی استحکام حاصل کر لیا، جو منزل نہیں بلکہ ترقی کی بنیاد ہے، وزیر خزانہ
اسلام آباد: وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت مستقبل کی ترقی بارے حکمتِ عملی پر مکمل طور پر کاربند ہے، پالیسی کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاریوں کو سہولت فراہم کی جا رہی، پالیسی اہم شعبوں میں برآمدی استعداد پیدا کرنے میں معاون ہوں، حکومت وفاقی بجٹ کو زمینی حقائق کے مطابق تشکیل دے گی، حکومت نے معاشی استحکام حاصل کر لیا ہے، استحکام کو ایک منزل نہیں بلکہ ایک بنیاد کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
وفاقی حکومت نے پائیدار اقتصادی ترقی، برآمدات کے فروغ اور سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے حقیقت پسندانہ اور جامع پالیسی سازی کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس سلسلے میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا جس میں ترجیحی شعبہ جات میں قرضوں کی فراہمی، مالیاتی سہولیات اور پالیسی سازی پر تفصیلی غور کیا گیا۔
اجلاس میں اسٹیٹ بینک، پاکستان بینکس ایسوسی ایشن اور معروف بینکوں کے نمائندگان نے شرکت کی۔ پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کے چیئرمین ظفر مسعود نے معاشی ٹیم کو زرعی شعبے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار، اور ڈیجیٹل و ٹیکنالوجی کے شعبے میں سہولیات اور بینکنگ سیکٹر کے کردار پر تفصیلی بریفنگ دی۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اس موقع پر زور دیا کہ چھوٹے کسانوں کو بغیر ضمانت قرضے فراہم کیے جائیں تاکہ زرعی پیداوار میں اضافہ اور دیہی معیشت کو مستحکم کیا جا سکے۔ انہوں نے بینکنگ سیکٹر کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ برآمدات کے فروغ کے لیے بینکوں، پالیسی سازوں اور سرمایہ کاروں کے درمیان مربوط کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت برآمدات پر مبنی اقتصادی احیاء اور مستقبل کی ترقی کے ایجنڈے پر مکمل طور پر کاربند ہے۔ پالیسی کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سہولت فراہم کی جا رہی ہے جبکہ اہم شعبوں میں برآمدی استعداد بڑھانے پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔
انہوں نے حالیہ سرمایہ کاروں کی دلچسپی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ منرلز سمٹ میں ملکی سرمایہ کاروں نے اعلیٰ قدر کے منصوبوں میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا، جو اقتصادی اعتماد کی علامت ہے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ رواں سال بجٹ سازی کا عمل قبل از وقت شروع کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے روایتی طریقہ کار سے ہٹتے ہوئے مختلف چیمبرز آف کامرس کا دورہ کیا تاکہ شراکت داروں سے براہ راست تجاویز حاصل کی جا سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت آئندہ وفاقی بجٹ کو زمینی حقائق اور شراکت داروں کی ضروریات کے مطابق تشکیل دے گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے معاشی استحکام حاصل کر لیا ہے، تاہم استحکام کو ایک منزل کے بجائے ایک بنیاد کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جس پر ترقی اور خوشحالی کی عمارت تعمیر کی جائے گی۔