بارشیں برسانے والا سسٹم بلوچستان سے نکل گیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
بلوچستان میں بارشیں برسانے والا مغربی ہواؤں کا سسٹم صوبے سے نکل گیا،
جمعہ کو بار کھان میں دس، قلات میں چھ اور سبی میں تین ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی جبکہ زیارت اور کوئٹہ میں تین تین اور قلات میں درجہ حرارت پانچ ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق ہفتہ کو صوبے کے بیشتر اضلاع میں موسم خشک جبکہ شمالی اضلاع میں سرد رہنے کا امکان ہے۔
ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟
اہل علم وہ ہوتے ہیں جو حالات کے تیور دیکھتے ہوئے مستقبل کا اندازہ لگا لیتے ہیں ۔روبرو حقائق پر الفاظ کے غلاف چڑھانے کا ہنر رکھنے والے اہل قلم تو فقط فروغ منافقت کے آرزو مند ہوتے ہیں ،کیا ہونے والا ہے ،کون کرانے والا ہے ،کس کے رگ و پے میں کیا ہل چل شور مچائے ہوئے ہے ؟ یہ وہ دیکھ سکتا اور محسوس کرسکتا ہے جو یہ جانتا ہو کہ کاغذ کی کمانوں سے دانش کے تیر چلانے والے حسن تد بیر کا کتنا ملکہ رکھتے ہیں ؟ان سے زیادہ تو امیر شریعتؒ کے گھر کو جانے والی کوٹ تغلق شاہ کی گلی کے کونے پر بیٹھا جوتے گانٹھنے والا باباآگہی رکھتا ہے کہ انڈیا پاکستان کے درمیان اٹھنے والے تنازعے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ؟
اسے معلوم ہے کہ نوکر شاہی موجودہ حکومت کے ناز نخرے اٹھاتے ،اس کے وزراء کی نالائقیوں ،بے اعتدالیوں اور بد عنوانیوں پر پردے ڈالتے ہوئے کتنی ہلکان ہوچکی ہے ، وہ آشنا ہے کہ اشرافیہ کی چیرہ دستیاں کہاں پہنچ چکی ہیں وہ اس امر کا ادراک بھی رکھتا ہے کہ حکمرانوں نے مقتدرہ کو کس تحت الثری تک پہنچا دیا ہے کہ اس حوالے سے ہر زبان کا ذا ئقہ خراب ہو چکا ہے ۔دماغی ویرانیوں کا دور دورہ ہے ۔سنسنی پھیلانے والوں کا سکہ چل رہا ہے ۔کیوں نہ چلے کہ صحافیوں کی قلم رو میں تازہ دماغوں کا فقدان شدید تر ہوتا جا رہا ہے یہ پیشہ خود اپنے لئے ہر پل عذاب بنتا جارہا ہے ،جب غیر متعلقہ افراد تلاش پناہ میں غلط مقام کو اپنی چراہ گاہ بنالیں تو ایسا ہی ہوتا ۔
اس موضوع پر اتنا ہی کافی ہے۔سمجھنے والے اسی سے مطلب نکال لیں گے اور جنہوں نے ترد نہیں کرنا ان کا کیا ہی کہنا۔جب خودی یا انا متاع گم گشتہ ٹھہرے تو اس تہی دستی کے عالم میں قومی سالمیت کی ہوش بھی اڑ جاتی ہے ۔گو ہمارا دشمن بہت بڑا ہے مگر ہمارا اللہ اس سے بہت ہی بڑا ہے ،یہاں اہل خرد نے اللہ کو بیچ لانے کا بہت برا منانا ہے ،وہ اگر مصحف ربانی کو طاق نسیاں پر رکھ کر اس وقت تک ہاتھ نہیں لگاتے جب تک خود پر کوئی بڑی افتاد نہ ٹوٹے ،میرا اللہ تو اس صحیفے کا مصنف ہے میں اس سے اپنی اگلی نسل کے مستقبل کی بھیک کیوں نہ مانگوں ؟ کہ میرا دل مفادات و مراعات کے لئے نہیں دھڑکتا ،اس خطہ پاک کے لئے دھڑکتا ہے جو بے حس اور حریص حکمرانوں کے پنجہ استبداد میں ہے ،جس کا ذرہ ،ذرہ لہو کے آنسو رو رہا ہے ۔
جب کسی قوم کو فخر اور تیور کے ساتھ زندہ رہنا بھول جائے تو اس کی سزا غلامی ہی ہوتی ہے مگر شکر یہ ہے کہ ابھی وہ مقدس ہستیاں موجود ہیں جن کے وجود سے ہمارا دفاع وابستہ ہے مگر یہ گھمنڈ کب محافظ رہے گا ایک دن ہم اس سے بھی تہی دست ٹھہریں گے کہ ہم اپنے اللہ سے بھی فاصلے بڑھانے پر تلے ہوئے ہیں ۔
کل جوتے گانٹھنے والے بابا جی نے دفعتاً مجھے روک لیا ،فرمانے لگے ’’جب سے لوگوں کو اچھے جوتے رعایتی نرخوں پر نصیب ہونا شروع ہوئے ہیں مرمت کا کام رک گیا ہے ۔مگر ہم مایوس نہیں ہیں ،تم بھی حوصلہ رکھو اور کمر مضبوط کرو کوڑا پھر تیار ہے‘‘ ۔میرے استفسار سے پہلے وہ اپنے رخت کی بوری کندھے پر رکھے سڑک کے اس پار پٹھانوں کی کڑی میں غائب ہوگئے ۔
بابا سے جب بھی ملا ہوں انہیں آزردہ پایا ہے ۔ایک فقیر منش ، ایک الگ تھلگ دنیا کا آدمی، اسے کیوں کر یہ فکر لاحق ہے کہ اس کا ملک دکھوں کی سان پر چڑھا ہوا ہے ،وہ ذمہ داروں کا گلا کرتے ہوئے بھی ہچکچاتا ہے مگر اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہے ۔وہ کم گو ہے ،مجھے لگتا ہے کم کم لوگوں پر اپنا آپ کھولتا ہے مگرجب کھولتا ہے تو یوں لگتا ہے اس کے اندر سے ایک دھواں سا اٹھ رہا ہے ،وہ نہ جانے کتنے زخم خوردہ ہیں ،ان کے چہرے پر پڑی جھریوں میں کہانیاں ہی کہانیاں ہیں مگر وہ کبھی کوئی ایک کہانی بھی مکمل نہیں سنا پائے ۔
یوں بھی شام سے پہلے وہ اپنا سامان سمیٹے گم ہوجاتے ہیں ۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ رات کوان کی کہانیاں سننے والا کوئی نہیں، اور میری دادی اماں کہا کرتی تھیں کہ ’’ دن کو کہانی سنانے والا راستہ بھول جاتا ہے ۔‘‘