Express News:
2025-03-01@00:10:11 GMT

چشم ما روشن دل ما شاد : رمضان الکریم 

اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT

ماہِ رمضان بہت ہی برکتوں والا مہینا ہے۔ اس ماہِ مبارک میں اﷲ کی رحمت گویا ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی مانند ہو جاتی ہے اور ہر نیک عمل کا اجر ستّر گنا بڑھ کر ملتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ انسان کسی بھی مشق سے بغیر منصوبہ بندی اور ذہنی تیاری کے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ انسان کی اسی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اﷲ کے رسول ﷺ نے بھی شعبان کے آخری روز ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا تھا، جس میں رمضان کے فضائل کے ساتھ اس کی خصوصیات کا بھی ذکر فرمایا اور اس میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی تلقین بھی کی۔

حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ ماہِ شعبان کے آخری دن رسول اﷲ ﷺ نے ہمیں ایک اہم خطبہ دیا اور اس میں آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے جس کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ‘‘

سورۃ البقرۃ میں بھی اس مہینے کے روزے کی فرضیت کا اعلان کیا گیا ہے: ’’تو جو کوئی بھی تم میں سے اس مہینے کو پائے اس پر لازم ہے کہ روزہ رکھے۔‘‘

اس مہینے میں روزہ رکھنا تو فرض ہے‘ جب کہ رات کا قیام نفل ہونے کے باوجود بہت ہی اجر و ثواب کا باعث ہے۔ قیام اللیل کا اطلاق سورۃ المزمل کی آیات کی روشنی میں کم سے کم ایک تہائی رات پر ہوتا ہے‘ لیکن خلفائے راشدینؓ کے دور سے ہی اس کا کم سے کم نصاب اُمت کے اندر رواج پاگیا ہے اور وہ ہے نظامِ تراویح۔ یہ قیام اللیل بہت اجر و فضیلت کا باعث ہے۔

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص اس مہینے میں اﷲ کی رضا اور اس کا قُرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (سنّت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستّر فرضوں کے برابر ملے گا۔ ‘‘

انسان جو بھی نیکی کرے وہ خالصتاً اﷲ کی رضا کے لیے ہونی چاہیے اس لیے کہ اگر نیّت ریا کاری اور شہرت کی ہو تو وہ نیکی برباد ہوجائے گی۔ اس ماہ میں خلوصِ نیّت سے ادا کیے گئے نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کا ثواب ستّر فرضوں کے برابر ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اس ماہ کو نیکیوں کا موسم بہار کہا جاتا ہے۔

اس ماہ کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے رسول اکرمؐ کے ارشاد کا مفہوم ہے:

’’یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے۔ ‘‘

یہ مہینہ واقعی صبر کا ہے، اس لیے کہ اس میں جائز، حلال اور طیّب چیزوں سے بھی انسان صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک رُکتا ہے۔ یہ رکنا دراصل صبر اور تقویٰ کی تربیت ہے۔ انسان کی نفسانی خواہشات میں حدود کو پھلانگنے کا رجحان پایا جاتا ہے‘ جب کہ تقویٰ یہ ہے کہ انسان سارا سال اپنے آپ کو حرام سے روکے رکھے‘ گناہ سے باز آجائے اور منکرات سے اجتناب کرے، اسی کا نام صبر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی تکلیف یا مصیبت کو خندہ پیشانی سے برداشت کرلینا ہی صبر ہے‘ جب کہ حقیقت میں صبر کا مفہوم بہت جامع اور ہمہ گیر ہے۔ چناں چہ امام راغب اصفہانیؒ نے صبر کے تین درجے مقرر کیے ہیں۔

پہلا: گناہوں سے اپنے آپ کو روکنا۔ دوسرا: اطاعت، بندگی اور دینی فرائض کی ادائی پر کاربند ہونا۔ اور تیسرا: مشکلات اور سختیوں میں صبر کرنا۔ خاص طور پر اقامت دین کی جدوجہد کے مراحل میں آنے والی سختیوں کو جھیلنا‘ برداشت کرنا اور پھر استقامت کا مظاہرہ کرنا۔ اس اعتبار سے گویا پورا دین صبر کی تشریح میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر صبر کو جنّت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔

اس مبارک مہینے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں غم گساری اور ہم دردی کے احساسات انسان میں پیدا ہوتے ہیں۔ غالباً اس کا سبب یہ ہے کہ خوش حال اور کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ جب روزہ رکھتے ہیں تو انہیں کم از کم ان لوگوں کا احساس ضرور ہوتا ہے جو فاقوں میں زندگی گزارتے ہیں۔

اس ماہ کی ایک اور خصوصیت یہ ہے: ’’اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔‘‘ عام طور پر روزہ رکھنے سے کچھ لوگ اس لیے بھی کتراتے ہیں کہ سارا دن مشقت نہیں ہوسکے گی تو ہماری کارکردگی پر فرق پڑے گا اور اس طرح ہماری کمائی میں کمی آسکتی ہے۔ اس اندیشے کا ازالہ کردیا کہ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ بندۂ مومن کو یقین ہونا چاہیے کہ روزے کی وجہ سے اس کے رزق میں کوئی کمی نہیں آئے گی، چاہے کارکردگی عام دنوں سے کم ہوجائے۔

رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے اس میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو یہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا‘ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔‘‘

یہاں ایک لمحے رک کر سوچنا چاہیے کہ ہماری ہم دردی اور غم گساری کے سب سے زیادہ مستحق کون لوگ ہیں۔۔۔ ؟ اس کا جواب یقیناً یہ ہے کہ ہماری ہم دردی کے مستحق معاشرے کے وہ لوگ ہیں جنہیں عام دنوں میں دو وقت کی روٹی بھی میسّر نہیں آتی۔ اگر آپ ان کا روزہ افطار کرائیں تو اس سے معاشرے کے اندر جو بھائی چارے کی فضا بنے گی اس کا ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔

رسول اکرمؐ کا انتہائی پُرمغز خطبہ جاری تھا کہ حضرت سلمان فارسیؓ نے گویا درمیان میں یہ سوال پوچھ لیا: ’’اے اﷲ کے رسول ﷺ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا۔‘‘ اس پر آنحضورؐ نے فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا ایک کھجور پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے۔ اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اﷲ تعالیٰ میرے حوض (کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا کہ جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی تاآںکہ وہ جنّت میں پہنچ جائے گا۔ ‘‘

یہاں بین السطور یہ پیغام پنہاں ہے کہ جس کو کچھ میسر نہیں ہے وہ اپنے ساتھ کسی کو پانی‘ دودھ یا لسّی کے ایک گلاس میں بھی شریک کرلیتا ہے تو یہ بہت اجر و ثواب کی بات ہے۔ لیکن اگر معاملہ یہ ہو کہ خود اپنے لیے تو پکوان سجے ہوئے ہوں اور دوسروں کو صرف شربت یا لسی کے دو گھونٹ پر افطار کروایا جا رہا ہے تو یہ پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ اس حوالے سے اصل بات یہ ہے کہ اس کی عملی تعبیر سامنے آنی چاہیے اور ہمیں اس پر بالفعل عمل بھی کرنا چاہیے۔

رسول اکرمؐ نے اس ماہ کو تین حصوں میں تقسیم فرماتے ہوئے ہر عشرے کی الگ خصوصیات کا ذکر فرمایا: ’’اس ماہِ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی ہے۔‘‘

استقبالِ رمضان کے حوالے سے انتہائی اہم خطبے کے آخری الفاظ یہ ہیں: ’’اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف و کمی کر دے گا‘ اﷲ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا۔‘‘

یہ بھی گویا ہم دردی اور غم گساری کا ایک مظہر ہے کہ اپنے ماتحت لوگوں کی ذمے داریوں میں تخفیف کردی جائے۔

رسول اکرمؐ نے فرمایا: ’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ انہیں روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ ایک حدیث میں اس کی وجہ بھی بیان کی گئی ہے: ’’جو شخص (روزہ رکھ کر) جھوٹی بات بنانا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اﷲ کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ محض اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ اصل میں روزہ وہی ہے جو مکمل آداب اور شرائط کے ساتھ رکھا جائے۔

رمضان واقعی نیکیوں کی برسات کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں اگر ہم صحیح معنوں میں محنت کرکے اپنے نفس کی تربیت کرلیں تو اس کا اور کوئی بدل نہیں ہوسکتا اور اگر ہم اس ماہ میں بھی اﷲ کی رحمت سمیٹنے اور اپنی بخشش کرانے سے محروم رہ جائیں تو پھر ہم سے بڑا بدنصیب اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

درحقیقت رمضان المبارک کے دو متوازی پروگرام ہیں، ایک ہے دن کا روزہ اور دوسرا ہے رات کا قیام۔ رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور اجر و ثواب کی امید کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے گئے‘ اور جس نے رمضان (کی راتوں) میں قیام کیا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور اجر و ثواب کی امید کے ساتھ اس کے بھی تمام سابقہ گناہ معاف کر دیے گئے‘ اور جو لیلۃ القدر میں کھڑا رہا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور اجر و ثواب کی امید کے ساتھ اس کی بھی سابقہ تمام خطائیں بخش دی گئیں۔‘‘

اسی طرح ایک اور حدیث میں فرمایا: روزہ اور قرآن (قیامت کے روز) بندے کے حق میں شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا، اے ربّ! میں نے اس شخص کو دن میں کھانے پینے اور خواہشاتِ نفس سے روکے رکھا‘ تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما! اور قرآن یہ کہے گا کہ اے پروردگار! میں نے اسے رات کے وقت سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا‘ لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما! چناں چہ (روزہ اور قرآن) دونوں کی شفاعت بندے کے حق میں قبول کی جائے گی اور اس کے لیے جنّت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا۔‘‘

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اجر و ثواب کی اس مہینے میں کے ساتھ اس نے فرمایا رسول اکرم گا اور اس کے حق میں کے برابر مہینہ ہے یہ ہے کہ کا ثواب جاتا ہے اس ماہ صبر کا ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

رمضان المبارک کا شان دار استقبال کیجیے

نیکیوں کا موسم بہار آنے والا ہے۔ اے طالب خیر! ماہ رمضان کی ہر ایک قیمتی گھڑی سے فائدہ اٹھا کیوں کہ معلوم نہیں کہ آئندہ رمضان ملے گا یا یا نہیں۔ اے طالب شر! بس کر گناہوں سے تائب ہوکر طاعت اور نیکی کی زندگی کو اختیار کر، کیوں کہ تجھے ایک دن مرنا ہے اور اﷲ کے سامنے اس زندگی کا حساب دینا ہے۔

رمضان کے روزے رکھنا ہر مسلمان بالغ صحت مند مرد و عورت پر فرض ہے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا، مفہوم: ''تم میں سے جو شخص بھی یہ مہینہ پائے، وہ اس میں ضرور روزہ رکھے۔'' صوم یعنی روزے کے لفظی معنی رکنے اور بچنے کے ہیں اور اصطلاحِ شرع میں: ''طلوع صبح صادق سے لے کر غروب ِآفتاب تک روزہ کی نیّت کے ساتھ کھانے پینے اور مباشرت کرنے سے رکنے کا نام صوم ہے۔''

رمضان اور روزہ کی اہمیت اور فضیلت:
رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے انسان کے ہر (نیک) عمل کا بدلہ دس گُنا سے لے کر سات سو گُنا تک دیا جاتا ہے، لیکن روزے کا بدلہ میں خود ہی عطا کروں گا کیوں کہ وہ میرے لیے ہے۔'' دوسری روایت کے مطابق میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔ انسان کھانے پینے اور جنسی شہوت سے صرف میری وجہ سے رکا رہتا ہے۔ روزہ دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں، ایک افطار کے وقت اور دوسری اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت۔

اﷲ تعالیٰ نے ہر عمل خیر کا دنیا میں ہی اجر بتا دیا کہ کس عمل پر کیا ملے گا مگر روزہ کے متعلق حدیث قدسی میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ''روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔'' بلکہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔ روزہ کیسا عظیم الشان عمل ہے کہ اس کا بدلہ ساتوں آسمانوں و زمینوں کو پیدا کرنے والا خود عطا کرے گا یا وہ خود اس کا بدلہ ہے۔ روزے میں عموماً ریا کا پہلو دیگر اعمال کے مقابلے میں کم ہوتا ہے اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے روزے کو اپنی طرف منسوب کرکے فرمایا کہ روزہ میرے لیے ہے۔

رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کے متعلق میری امت کو خاص طور پر پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملیں: روزہ دار کے منہ کی بُو (جو بھوک کی وجہ سے پیدا ہوجاتی ہے) اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ان کے لیے دریا کی مچھلیاں تک دعائے مغفرت کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں۔ جنّت ہر روز ان کے لیے سجائی جاتی ہے۔ اس ماہ مبارک میں سرکش شیاطین قید کردیے جاتے ہیں۔ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ کیا یہ شب ِمغفرت شب ِقدر ہی تو نہیں ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کا کام ختم ہوتے ہی اسے مزدوری دے دی جاتی ہے۔ (مسند احمد، بزاز، بیہقی)

رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کے ہر شب و روز میں اﷲ کے یہاں سے جہنم کے قیدی چھوڑے جاتے ہیں اور ہر مسلمان کی ہر شب و روز میں ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ (بزاز، الترغیب و الترہیب)

رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی، ایک روزہ دار کی افطار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی اور تیسرے مظلوم کی۔'' (مسند احمد، ترمذی)

حضرت کعب ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہوجاؤ، ہم لوگ حاضر ہوگئے۔ جب حضور ﷺ نے منبر کے پہلے درجہ پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا: آمین۔ جب دوسرے درجہ پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا: آمین۔ جب تیسرے درجہ پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا: آمین۔ جب آپؐ خطبہ سے فارغ ہوکر نیچے اترے تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپؐ سے منبر پر چڑھتے ہوئے ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: اس وقت جبرئیلؑ میرے سامنے آئے تھے ۔ جب پہلے درجہ پر میں نے قدم رکھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی، میں نے کہا: آمین۔ پھر جب دوسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے آپ ﷺ کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے۔ میں نے کہا: آمین۔ جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہنچے اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں۔ میں نے کہا: آمین۔ (بخاری، ترمذی)

رمضان اور قرآن کریم:
قرآن کریم کو رمضان المبارک سے خاص تعلق اور گہری خصوصیت حاصل ہے۔ چناں چہ رمضان المبارک میں اس کا نازل ہونا، حضور اکرم ﷺ کا رمضان شریف میں تلاوت ِقرآن کا شغل نسبتاً زیادہ رکھنا، حضرت جبرئیلؑ کا رمضان شریف میں نبی اکرم ﷺ کو قرآن کریم کا دور کرانا، تراویح میں ختم قرآن کا مسنون ہونا، صحابہ کرامؓ اور بزرگان دین کا رمضان میں تلاوت کا خاص اہتمام کرنا، یہ سب امور اس خصوصیت کو بتلاتے ہیں۔ لہذا اس ماہ میں کثرت سے تلاوت قرآن میں مشغول رہنا چاہیے۔ تلاوت قرآن پاک کے ساتھ قرآن کریم کو علمائے کرام کی صحبت میں رہ کر سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے خواہ روزانہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو، تاکہ اﷲ تعالیٰ کے احکام سے واقفیت کے بعد اس پر عمل کرنا اور اس کو دوسروں تک پہنچانا ہمارے لیے آسان ہو۔

رمضان اور تراویح: حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : ''جو شخص رمضان (کی راتوں) میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا ہو، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔'' (بخاری و مسلم)

رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''خود حق تعالیٰ شانہ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں۔'' (طبرانی، صحیح ابن حبان) متعدد احادیث میں رات کے آخری وقت میں سحری کھانے کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ ایک دو لقمے کھانے سے بھی سحری کی فضیلت حاصل ہوجائے گی، ان شاء اﷲ۔

حضرت سلمان بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، ،مفہوم: ''جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ کھجور سے روزہ افطار کرے کیوں کہ اس میں برکت ہے۔ اگر کھجور نہ پائے تو پھر پانی ہی سے افطار کرے، اس لیے کہ پانی نہایت پاکیزہ چیز ہے۔'' (ترمذی، ابن ماجہ) حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ مغرب کی نماز سے پہلے چند تر کھجوروں سے روزہ افطار فرماتے تھے، اگر تر کھجوریں بروقت موجود نہ ہوتیں تو خشک کھجوروں سے افطار فرماتے تھے اور اگر خشک کھجور بھی نہ ہوتی تو چند گھونٹ پانی پی لیتے تھے۔ (ابودائود)

افطار کے وقت دعائ: افطار کے وقت چند دعائیں نبی اکرم ﷺسے ثابت ہیں، جن میں سے کوئی ایک یا حضور اکرم ﷺ سے ثابت شدہ کوئی دوسری دعا مانگی جاسکتی ہے۔

حضرت زید بن خالد الجہنیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : ''جس شخص نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اُس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا، بغیر اِس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔'' (ترمذی، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان) حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اﷲ ﷺ نے ہم کو خطبہ دیا اور اس میں یہ بھی فرمایا: ''جس شخص نے رمضان المبارک کے مہینہ میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا۔ اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ آپ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اﷲ ؐ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ یہ ثواب اُس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی یا صرف پانی کے ایک گھونٹ سے کسی کا روزہ افطار کرادے۔ (بیہقی ۔ شعب الایمان)

رمضان اور شب قدر: رمضان کی راتوں میں ایک رات شب ِقدر کہلاتی ہے جو بہت ہی خیر اور برکت کی رات ہے۔ جس میں عبادت کرنے کو قرآن کریم (سورۃ القدر) میں ہزار مہینوں سے افضل بتلایا گیا ہے۔ گویا اِس رات کی عبادت پوری زندگی کی عبادت سے بہتر ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا ہو، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (بخاری و مسلم)

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔ (بخاری) حضرت عائشہ ؓ نے حضور اکرم ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اﷲ ﷺ! اگر مجھے شب قدر کا پتا چل جائے تو کیا دعا مانگوں؟ حضور نے ارشاد فرمایا: ''اے اﷲ! تُو بے شک معاف کرنے والا ہے اور پسند کرتا ہے معاف کرنے کو، پس معاف فرمادے مجھے بھی۔''

(مسند احمد، ابن ماجہ، ترمذی)
رمضان اور اعتکاف: رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے یعنی اگر محلہ کی مسجد میں ایک دو آدمی اعتکاف کرلیں تو پورے محلہ کی طرف سے ذمہ داری ادا ہوجائے گی۔ آخری عشرہ کے اعتکاف کے لیے بیس رمضان کو سورج ڈوبنے سے پہلے مسجد میں داخل ہونا ضروری ہے۔ اعتکاف کا اصل مقصد شب قدر کی عبادت کو حاصل کرنا ہے، جس کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔ حضور اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ ایک سال پورے ماہ رمضان کا اعتکاف فرمایا۔ معتکف کو بلا ضرورت شرعیہ وطبعیہ اعتکاف والی مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے۔ معتکف کے متعلقین میں سے کوئی سخت بیمار ہوجائے یا کسی کی وفات ہوجائے یا کوئی بڑا حادثہ پیش آجائے یا معتکف خود ہی سخت بیمار ہوجائے یا اس کی جان و مال کو خطرہ لاحق ہوجائے تو معتکف کے مسجد سے چلے جانے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا لیکن ایسی مجبوری میں چلے جانے سے گنا ہ نہیں ہوگا ان شاء اﷲ۔ البتہ بعد میں قضا کرلینی چاہیے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جس نے (شرعی) اجازت اور مرض کی (مجبوری) کے بغیر رمضان کا ایک روزہ چھوڑ دیا (اگر وہ ساری) عمر (بھی) روزے رکھے تب بھی اس کی فضیلت حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔'' (مسند احمد، ترمذی، ابودائود)

متعلقہ مضامین

  • اعمال رمضان المبارک
  • متحدہ عرب امارات میں بھی رمضان المبارک کا چاند نظر آ گیا
  • رمضان المبارک کا چاند نظر نہیں آیا،رویت ہلال کمیٹی نے اعلان کردیا،پہلا روزہ اتوار کو ہوگا
  • رمضان کا چاند نظر نہیں آیا، پہلا روزہ اتوار 2 مارچ کو ہوگا
  • ماہ ایثار و ہم دردی رمضان میں کرنے کے کام
  • دیر قانون گاوں کا روشن ستارہ
  • رمضان اﷲ تعالیٰ کا احسان
  • رمضان المبارک کا شان دار استقبال کیجیے
  • فضائلِ رمضان المبارک