نسل کشی یا نسلی صفایا، اسباب، عوامل اور محرکات(2)
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: سترہ اگست سے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی ہجرت کا آغاز ہوا، جن میں سے مختلف اعداد و شمار کے مطابق سرحد کے دونوں جانب 10 سے 30 لاکھ انسان راستے میں ہی موت کا شکار ہوگئے۔ باؤنڈری فورس جو حفاظت کیلئے بنائی گئی تھی، قتل میں شریک ہوگئی۔ تقریباً 93 ہزار خواتین اغوا ہوئیں، جن میں سے اکثر بازیاب نہ کروائی جا سکیں۔ جبری طور پر مذہب تبدیل کروائے گئے، اغوا شدہ خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور یہ واقعات سرحد کی دونوں جانب ہوئے۔ دس لاکھ یا تیس لاکھ افراد کا قتل، ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی نقل مکانی، یہ برصغیر کی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ ہے، جسکے عوامل اور اسباب کو جاننا ازحد ضروری ہے۔ کوشش ہوگی کے کہ آئندہ کسی تحریر میں اس واقعہ کے تفصیلی عوامل اور اسباب پر بات کی جائے۔ تحریر: سید اسد عباس
سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد اپنی معروف کتاب The Punjab bloodied partition and cleansed کے دوسرے باب میں نسل کشی کا نظریہ کے زیر عنوان لکھتے ہیں: "کوئی نسلی گروپ ایسے افراد پر مشتمل ہوسکتا ہے، جو سمجھتا ہے کہ وہ ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، شاید یہ بالکل سچ نہ ہو، لیکن نام نہاد مشترکہ آباو اجداد، یکجہتی کے جذبات پیدا کرنے کا موجب ہوسکتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کے مطابق جب معاشرے کے ایک گروہ میں مشترکہ جد، مذہب، زبان یا ایسے ہی کسی اور مشترکہ پہلو کا احساس موجود ہو تو ایسے گروہ کو بھی نسلی گروہ کہا جاسکتا ہے، جب ایسے ہی دو یا دو سے زائد گروہ جو نسلی، مذہبی، فرقہ وارانہ یا ان جیسا کوئی اور مشترکہ اصول رکھتے ہوں، باہم ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے تو اس واقع کو نسلی تصادم کہا جائے گا۔ ڈاکٹر اشتیاق لکھتے ہیں: "نسل کشی ایک مستعمل اصطلاح ہے، جس سے مراد مخصوص آبادی کو (قتل عام یا جبری نقل مکانی یا دونوں طرح سے) نسل، مذہب، فرقے یا دیگر ایسے ہی عوامل کی بنیاد پر مخصوص علاقے سے مٹا دینا ہے۔"
نسل کشی یا نسلی صفایا بلحاظ فاعل
نسل کشی یا نسلی صفایا ریاستی مشینری کے تحت بھی ہوسکتا ہے اور حکومتی سرپرستی یا ذمہ داران کی جانب سے اغماض برتنے کے سبب ہونے والے معاشرتی تصادم کے نتیجے میں بھی۔ جو کچھ 2023ء سے 2025ء تک غزہ میں دیکھنے میں آیا، یہ ریاستی اداروں کے تحت ہونے والی نسل کشی کی مثال ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں کے خلاف ریاستی سرپرستی یا آشیرباد کے ساتھ نسل کشی اور نسلی صفائی کی مہم تا حال چلائی جا رہی ہے، جس میں کبھی فوج براہ راست روہینگیا مسلمانوں کو قتل کرتی ہے اور کبھی فوجی سرپرستی میں کام کرنے والے گروہ۔ نسل کشی اور نسلی صفایا کے بارے میں ہونے والی عالمی قانون سازی کے بعد سے، کسی بھی ریاست یا اس کے کسی ذمہ دار کے لیے بلاواسطہ نسل کشی یا نسلی صفایا کا ارتکاب ایک مشکل کام ہوچکا ہے۔ کئی ایک عالمی راہنماؤں کو اس جرم کے ارتکاب کے سبب سخت سزائیں سننی پڑیں۔ ان سزاؤں پر عمل درآمد نہ ہونا، مجرم کا قانون کے کٹہرے میں نہ لایا جانا، ایک الگ کہانی ہے۔ تاہم سزا ضرور سنائی گئی اور جرم کا تعین بھی کیا گیا۔
اسی سلسلے کی تازہ ترین سزا عالمی عدالت انصاف نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو غزہ میں جنگی جرائم اور نسل کشی کا مجرم ثابت ہونے پر سنائی۔ ایسی ہی سزا برما کی سابق وزیراعظم، یوگوسلاویا کے سابق صدر کو بھی سنائی گئی۔ حکومتی سرپرستی یا آشیرباد کے ساتھ نسل کشی یا نسلی صفایا ایک ایسا جرم ہے، جس کو شناخت کرنا یا اس کے ثبوت مہیا کرنا نہایت مشکل کام ہے اور اس کی مرحلہ وار پیشرفت مرحلہ وار نسل کشی اور نقل مکانی کا باعث بنتی ہے، جس کی متعدد مثالوں سے ہم آگاہ ہیں۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد کے مطابق: "کسی بھی ملک کی ریاستی حدود میں شراکت اقتدار کے حوالے سے کسی حل تک پہنچنے میں مکمل ناکامی نیز امن و امان کی تباہی کے نتیجے میں نسل کشی یا نسلی صفائی کا عمل شروع ہوسکتا ہے۔ اگرچہ پرامن طریقے سے بھی نسلی صفائے کا عمل ہوسکتا ہے، لیکن ایسا بندوبست قابو میں نہیں رہتا بلکہ اس کے لیے دہشت، آگ لگانا، جنسی زیادتی اور دیگر انتہاء پسندانہ طریقے وسیع پیمانے پر استعمال کیے جاتے ہیں۔"
نسل کشی اور نسلی صفایا بلحاظ اعداد و شمار
نسل کشی یا نسلی صفائے کا کوئی بھی واقعہ بلحاظ جرم مختلف نہیں ہے۔ تاہم عمومی طور پر ایسے حادثات کو سنگین گردانا جاتا ہے، جس سے انسانی معاشرہ بلواسطہ یا بلا واسطہ طور پر زیادہ مثاثر ہوا ہو۔ ممکن ہے کہ کسی ایک واقعہ میں کسی خاص گروہ کے ہزار افراد کو تہ تیغ کر دیا جائے، سو خواتین کو اغوا کر لیا جائے اور ان کا جنسی استحصال کیا جائے، جبکہ اس کے مقابل ایک واقعہ میں دس لاکھ افراد مختلف طریقوں سے قتل ہوں، ہزاروں خواتین کا جنسی استحصال کیا گیا ہو، لوگوں کے اموال پر قبضہ کیا جائے اور متاثرین کی تعداد کروڑوں میں ہو تو ہر صاحب انصاف یہی کہے گا کہ دوسرا واقعہ زیادہ سنگین ہے، کیونکہ اس میں زیادہ انسانوں کی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں۔ اگر ہم دنیا میں ہونے والے نسل کشی اور نسلی صفائے کے واقعات کی فہرست کو دیکھیں تو ہم ان واقعات کی سنگینی کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
افغانستان میں امیر عبدالرحمن نے افغانوں اور انگریزوں کے مابین ہونے والی دوسری جنگ کے بعد ہزارہ کو اپنے زیر قبضہ لانے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں ایک اندازے کے مطابق امیر عبدالرحمن کی افواج نے 3,20,000 ہزارہ خاندانوں کو قتل کیا یا اسیر بنایا۔ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں بالخصوص بنگالی ہندؤوں کی نسل کشی کے بارے کم سے کم تخمینہ 3 لاکھ افراد کے قتل کا ہے۔ بنگلہ دیش میں کتنی خواتین کا جنسی استحصال ہوا، یہ ایک شرمناک باب ہے، جسے میں یہاں تحریر نہیں کرنا چاہتا، جو لوگ اس موضوع پر مزید معلومات چاہتے ہیں، وہ متعلقہ کتب سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اب تک ان کے کم سے کم 14 ہزار اور زیادہ سے زیادہ 43 ہزار افراد قتل ہوچکے ہیں۔ مختلف ممالک میں نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد تقریباً دس لاکھ ہے۔ ایک لاکھ افراد اس وقت بھی کیمپوں میں جدا کرکے رکھے گئے ہیں۔
تقسیم ہند اور پنجاب میں معاشرتی سطح پر نسل کشی
1941ء کی مردم شماری کے مطابق پنجاب کی آزاد ریاستوں کو ملا کر پورے پنجاب کی کل آبادی تین کروڑ انتالیس لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ ان میں مسلمان 53.
ہندو، سکھ اور مسلمان پنجاب کے مختلف اضلاع میں مل کر رہ رہے تھے۔ نسل، زبان اور مشترکہ ثقافت ان کے درمیان وجہ اشتراک تھی، جبکہ تمام ادیان کے ماننے والے دوسرے کے دینی جذبات اور رسومات کا بھی احترام کرتے تھے۔ ہندو اور سکھ مسلمان پیروں کے مرید تھے اور مسلمان ہندو اور سکھ ویدوں اور حکیموں سے علاج کروانے میں جھجک محسوس نہ کرتے تھے۔ ہندو کھانے کے حوالے سے احتیاط کرتے تھے، تاہم مسلمانوں سے پکانے کی اشیاء لے لیتے تھے۔ پنجاب کے مختلف ڈویژنز میں سلسلہ وار نسلی فسادات کا سلسلہ 1946ء میں شروع ہوچکا تھا، جس کے سبب بہت سے ہندو اور سکھ خانوادے پناہ گزین کیمپوں میں جانے پر مجبور ہوئے، تاہم 17 اگست 1947ء تک کسی کو کچھ معلوم نہ تھا کہ دیس تقسیم ہوگا یا حالات معمول پر آئیں گے۔ 17 اگست 1947ء کو ریڈ کلف ایوارڈ کے تحت تقسیم کا منصوبہ سامنے لایا گیا، جس سے سرحد کے دونوں جانب لاکھوں لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ سرحد کی غلط سمت میں موجود ہیں۔
سکھ سمجھتے تھے کہ لاہور، لائل پور، منٹگمری اور شیخوپورہ کے کچھ اضلاع مشرقی پنجاب کا حصہ بنیں گے۔ اسی طرح مسلمانوں کا خیال تھا کہ جالندھر ڈویژن کے بعض اضلاع مسلم اکثریت کے سبب پاکستان کا حصہ بنیں گے۔ سترہ اگست سے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی ہجرت کا آغاز ہوا، جن میں سے مختلف اعداد و شمار کے مطابق سرحد کے دونوں جانب 10 سے 30 لاکھ انسان راستے میں ہی موت کا شکار ہوگئے۔ باؤنڈری فورس جو حفاظت کے لیے بنائی گئی تھی، قتل میں شریک ہوگئی۔ تقریباً 93 ہزار خواتین اغوا ہوئیں، جن میں سے اکثر بازیاب نہ کروائی جا سکیں۔ جبری طور پر مذہب تبدیل کروائے گئے، اغوا شدہ خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور یہ واقعات سرحد کی دونوں جانب ہوئے۔ دس لاکھ یا تیس لاکھ افراد کا قتل، ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی نقل مکانی، یہ برصغیر کی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ ہے، جس کے عوامل اور اسباب کو جاننا ازحد ضروری ہے۔ کوشش ہوگی کے کہ آئندہ کسی تحریر میں اس واقعہ کے تفصیلی عوامل اور اسباب پر بات کی جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نسل کشی اور نسلی عوامل اور اسباب لاکھ افراد نقل مکانی ڈویژن میں ہوسکتا ہے کے اضلاع کے مطابق دس لاکھ کے سبب
پڑھیں:
رہائشی پلاٹس خریدنے کے خواہشمند افراد کے لئے اہم خبر
پشاور (نیوز ڈیسک)کمرشل اور رہائشی پلاٹس خریدنے کے خواہشمند افراد کے لئے اہم خبر آگئی، فیس دگنی کردی گئی۔
تفصیلات کے مطابق پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے کمرشل اور رہائشی پلاٹس کی ٹرانسفر فیس دگنی کردی گئی۔
جس کے تحت تین مرلہ رہائشی پلاٹ کی فیس 11250 سے بڑھا کر ساڑھے 22 ہزار روپے کردی گئی ہے۔
اسی طرح پانچ اور سات مرلہ پلاٹ کی ٹرانسفر فیس ساڑھے31 ہزار سے بڑھا کر 63 ہزار ہوگئی ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور دو کنال گھر کی ٹرانسفر فیس ایک لاکھ چھپن ہزارسےبڑھاکر تین لاکھ بارہ ہزارروپے جبکہ ایک کنال کی کمرشل اراضی فیس چھ لاکھ سے بڑھا کر بارہ لاکھ روپے کردی ہے۔
دکان کی ٹرانسفر فیس 300 روپے سے بڑھا کر 600 روپے مربع فٹ کردی گئی ہے۔
مزیدپڑھیں:شناختی کارڈ اور بے فارم بنوانے والوں کے لئے بڑی خوشخبری آگئی