پاکستان میں بدعنوانی کے خلاف اقوام متحدہ کی جائزہ رپورٹ پر وفاقی کابینہ نے کمیٹی تشکیل دے دی
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
پاکستان میں بدعنوانی کے خلاف اقوام متحدہ کی جائزہ رپورٹ پر وفاقی کابینہ نے کمیٹی تشکیل دے دی WhatsAppFacebookTwitter 0 28 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز )وفاقی کابینہ نے پاکستان میں بدعنوانی کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کنٹری جائزہ رپورٹ پر کابینہ کمیٹی تشکیل دے دی، کمیٹی وفاقی وزیر قانون و انصاف کی سربراہی میں کمیٹی 7 رکنی ممبران پر مشتمل ہے،کمیٹی پاکستان کی یو این سی اے سی کنٹری ریویو رپورٹ کا جائزہ لے گی۔
وفاقی کابینہ نے یو این سی اے سی کنٹری ریویو رپورٹ کے جائزے کے لیے کابینہ کمیٹی تشکیل دے دی، وفاقی وزیر قانون و انصاف کی سربراہی میں کمیٹی 7 رکنی ممبران پر مشتمل ہوگی، کمیٹی پاکستان کی یو این سی اے سی کنٹری ریویو رپورٹ کا جائزہ لے گی۔
کابینہ کمیٹی ارکان میں وزیر اطلاعات و نشریات، وزیر مملکت برائے خزانہ ومحصولات شامل،کمیٹی میں سیکرٹری خارجہ، سیکریٹری خزانہ، اور سیکریٹری قانون و انصاف بھی شامل ہیں، قومی احتساب بیورو کے ڈی جی بھی کمیٹی کے رکن ہوں گے۔
کمیٹی کابینہ کی منظوری کے لیے رپورٹ اشاعت سے متعلق سفارشات پیش کرے گی، کمیٹی پاکستان سے متعلق کنٹری رپورٹ شائع کرنے کے امکان کا جائزہ لے گی۔کابینہ کمیٹی کو سیکریٹریل سپورٹ وزارت قانون و انصاف فراہم کرے گی،کمیٹی اپنی سفارشات 14 دن کے اندر کابینہ کو پیش کرے گی۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کمیٹی تشکیل دے دی وفاقی کابینہ نے قانون و انصاف کابینہ کمیٹی
پڑھیں:
ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ 2025: ایک تنقیدی جائزہ
وفاقی حکومت کی حالیہ قانون سازی میں ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ 2025 ایک نمایاں قانون ہے، جس کا مقصد ملک میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو ہر سطح پر فروغ دینا، ڈیجیٹل معیشت کی تشکیل اور ڈیجیٹل طرز حکمرانی کو تقویت دینا ہے۔
اگرچہ یہ قانون ایک مثبت اقدام کے طور پر سامنے آیا ہے، لیکن اس پر تفصیلی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی ممکنہ خامیوں اور چیلنجز کو واضح کیا جا سکے۔
قانون سازی کی آئینی حدود اور دائرہ کاریہ قانون وفاقی سطح پر پورے ملک کے لیے بنایا گیا ہے، جس کی بظاہر وجہ آئین میں وفاق کو کمیونیکیشن کے موضوع پر قانون سازی کا اختیار حاصل ہونا ہے۔
تاہم، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا دائرہ کار صرف کمیونیکیشن تک محدود نہیں، بلکہ اس میں ڈیجیٹل ڈیٹا، ڈیجیٹل اثاثے، ڈیجیٹل پراپرٹی اور ڈیجیٹل حقوق جیسے کئی پیچیدہ موضوعات بھی شامل ہیں، جن کا آئینی ڈومین ابہام کا شکار ہے۔
چونکہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی نوعیت ایسی ہے کہ اس کے لیے ملک گیر یکساں قانون اور نظام درکار ہے، اس لیے یہ قانون کسی حد تک اس خلا کو پورا کرتا ہے۔ تاہم، قانونی حلقوں میں اس معاملے پر بحث جاری رہنی چاہیے تاکہ آئین میں ضروری ترامیم کے امکانات کا بھی جائزہ لیا جا سکے۔
قانون کی بنیادی خامیاںیہ قانون ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے جڑے ہمارے 3 بڑے مسائل کو براہ راست اور وضاحت کے ساتھ حل نہیں کرتا۔
ڈیجیٹل رسائی اور پابندیاںڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک بلا رکاوٹ عوامی رسائی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ سیکیورٹی خدشات کے نام پر لگائی گئی غیر ضروری پابندیاں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ قانون میں ایسا کوئی ریگولیٹری فریم ورک شامل نہیں جو ان پابندیوں کو شفافیت سے کنٹرول کر سکے۔
ڈیٹا سیکیورٹی اور پرائیویسی کا فقدانپاکستان میں ابھی تک ڈیٹا پروٹیکشن کا جامع قانون موجود نہیں ہے۔ ہر شخص کا ڈیجیٹل فٹ پرنٹ مختلف پلیٹ فارمز پر بکھرا ہوا ہے، جو سیکیورٹی رسک کا باعث بن سکتا ہے۔ ڈیجیٹل پراپرٹی کے تحفظ اور ذاتی معلومات کے غیر مجاز استعمال کے خلاف کوئی ٹھوس حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے۔
نگرانی (Surveillance) اور پرائیویسی خدشاتبغیر کسی واضح فریم ورک کے نگرانی کا بے تحاشا استعمال جاری ہے۔ پرائیویسی کے حقوق پر کوئی تفصیلی شق شامل نہیں، جو شہری آزادیوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ جدید جمہوری ممالک میں ریگولیٹڈ سرویلنس سسٹمز کا تصور موجود ہے، لیکن اس قانون میں اس پہلو کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
ادارہ جاتی ڈھانچہ اور اس کے مسائلاس قانون کے تحت 3 بڑے فورمز قائم کیے گئے ہیں۔
نیشنل ڈیجیٹل کمیشن18 رکنی کمیشن جس کی سربراہی وزیراعظم کریں گے، ممبران میں زیادہ تر سیاسی اور بیوروکریٹک شخصیات شامل ہیں، جس سے اس کے عملی نفاذ میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس کمیشن کے اجلاسوں کا انعقاد بذات خود ایک چیلنج ہوگا۔
پاکستان ڈیجیٹل اتھارٹیاس کے 3 سے 5 ممبران ہوں گے، جنہیں وزیراعظم مقرر کریں گے۔خدشہ ہے کہ یہ ادارہ بھی بیوروکریسی یا ریٹائرڈ افسران کے لیے مخصوص کر دیا جائے گا، جیسے نادرا اور پی ٹی اے میں دیکھا گیا ہے۔
اوور سائیٹ کمیٹی9 رکنی کمیٹی جس کی سربراہی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کام کریں گے۔ اس میں 3 وزارتوں کے سیکرٹریز اور اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل کے گریڈ 21 کے افسر کو شامل کیا گیا ہے۔ مزید 4 آزاد ممبران کی تقرری کا اختیار بھی وزیراعظم کے پاس ہوگا، جو ادارہ جاتی خودمختاری پر سوالیہ نشان ہے۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی جیسے ماڈرن اور تیز رفتاری سے بدلتے ہوئے شعبے کو بھاری بھرکم بیوروکریسی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ یہ ادارے ایسے لگتے ہیں جیسے سیاست اور بیوروکریسی کا امتزاج ہیں، جو عملی طور پر ڈیجیٹل ترقی کو سست رفتار اور غیر مؤثر بنا سکتے ہیں۔
اس وقت جب دنیا بھر میں حکومتی سائز کم کرنے کی بات ہو رہی ہے، پاکستان میں مزید نئے ادارے بنانے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے، جو غلط حکمت عملی ہے۔ ڈیجیٹل حقوق اور پرائیویسی قوانین کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ قانونی فریم ورک کو جدید بین الاقوامی ڈیٹا پروٹیکشن معیارات (جیسے GDPR) سے ہم آہنگ کیا جائے۔
ادارہ جاتی بوجھ کم کرنے اور فیصلہ سازی میں تکنیکی ماہرین اور نجی شعبے کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
ریگولیٹری فریم ورک کو ڈیجیٹل معیشت کے تقاضوں کے مطابق بنایا جائے، نہ کہ محض بیوروکریسی کے انتظامی کنٹرول کے لیے۔
ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ 2025 ایک اہم قانونی پیش رفت ہے، لیکن اس میں کئی بنیادی خامیاں موجود ہیں، جو اس کے مؤثر نفاذ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔
اس قانون میں ڈیجیٹل حقوق، ڈیٹا پروٹیکشن، نگرانی کے قوانین اور ادارہ جاتی خود مختاری جیسے مسائل کو بہتر بنانے کی فوری ضرورت ہے، تاکہ یہ قانون واقعی ملک میں ڈیجیٹل ترقی کا ذریعہ بن سکے، نہ کہ ایک غیر مؤثر بیوروکریٹک ڈھانچہ۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں