سیکیورٹی فورسز کا آپریشن، چھ خوارج ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
راولپنڈی(ڈیلی پاکستان آن لائن) سیکیورٹی فورسز نے خفیہ اطلاعات پر شمالی وزیرستان میں کامیاب آپریشن کرتے ہوئے 6 خوارج کو ہلاک کر دیا ، ہلاک دہشت گرد سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کے قتل میں ملوث تھے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق متعدد وارداتوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب تھے۔ فورسز نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کر لیا ہے۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
دہشتگردی کا ناسور، بے رحمانہ آپریشن واحد حل
اسلام ٹائمز: جو بویا جاتا ہے، وہی ملتا ہے، جسکا بیج بویا جاتا ہے، اسی کی فصل پک کر نکلتی ہے۔ اگر دہشتگردی کو کسی بھی طرح سے، کسی بھی مقصد کیلئے ضرورت سمجھ کر سر پرستی کی جائے گی تو یہ ایک دن گلے کا طوق بن جاتی ہے، ایسا طوق جسے اتار کر پھینکنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ لہذا اسکا واحد حل بے رحمانہ طریقہ سے آپریشن اور بغیر رو رعایت کے دہشتگردوں کی جڑوں کو اکھاڑ باہر نکالنا ہی حل ہے۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا، سہولتکاروں کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاتا، یہ سانحات ہوتے رہیں گے اور رہا سوال اہل کرم کا، چند کلومیٹر روڈ دہشتگرد عناصر سے محفوظ بنانا تو یہ بھی ملی بھگت ختم کرکے بے رحمانہ آپریشن سے ہی ممکن ہے۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر
دہشت گردی ایک ایسا ناسور ہے، جس کا شکار بےگناہوں کیساتھ ساتھ اس کے خالق بھی ہوتے ہیں، اسی لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کو ایک ہی بار جڑ سے اکھاڑ پھینکیں، روز روز نئے نئے نام سے آپریشن اور بھاری بجٹ، وسائل کا حصول اور رزلٹ ایک اور مذاکرات کا دور، ڈائیلاگ اور سیز فائر کا اعلان، پھر ان کی ناکامی اور نئے نام سے نیا آپریشن۔ یہی کچھ ہم گذشتہ دو تین دہائیوں سے اس وطن عزیز میں دیکھتے آرہے ہیں۔ مختصر کہیں تو، ایسا لگتا ہے یہ بہت سے لوگوں کا کاروبار بن چکا ہے، دہشت گرد گروپوں کیساتھ ساتھ ان کو بنانے والوں، ان کو خریدنے والوں، ان پر انویسٹمنٹ کرنے والوں، انہیں استعمال کرنے والوں، ان کو تقویت دینے والوں، ان کو سنبھال کے موڈ آف اور آن کرنے والوں کا یہ بھیانک کاروبار ہزاروں بے گناہوں، نامور، چنیدہ قیمتی ترین افراد کو نگل چکا ہے۔ اس کے باوجود یہ جڑ سے اکھاڑ کے پھینکا نہیں جا سکا، کچھ وقت کیلئے تو اسے بوتل میں بند کر دیا جاتا ہے، مگر کسی اور ضرورت کیلئے اسے پھر سے کھل جا سم سم کی گردان سے باہر نکال دیا جاتا ہے اور نتیجہ کسی بے گناہ کا بہتا لہو، کسی طبقہ سے ظلم کی نئی داستان اور نہ جانے کیا کچھ۔۔
Kpk میں کرم ڈسٹرکٹ میں شیعہ نشین علاقوں کے مقامی قبائل کیلئے یہ سرزمین تنگ کر دی گئی ہے، پاکستان میں ان کا داخلہ ممنوع قرار پایا ہوا ہے، پانچ ماہ سے چند کلو میٹر روڈ پر دہشت گردوں کا راج بتایا جاتا ہے، جن میں مقامی دہشت گردوں کیساتھ افغانستانی کمانڈرز کے نام بھی آرہے ہیں۔ یہ غیر مقامی دہشت گرد کھلے عام اس علاقے میں اپنی حکومت قائم کیے ہوئے ہیں۔ بگن، اوچت، مندوری ان کا مرکز بنا ہوا ہے، جبکہ دیگر وہ تمام علاقے جہاں اس مکتبہ فکر و سوچ کی اکثریت ہے، ان کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔ ان لوگوں نے کالعدم جماعتوں کے قائدین کو بھی بلایا اور فساد پھیلانے، جلتی پر تیل کا کام کرنے اور ملک دشمن دہشت گردوں کو بھرپور ہلہ شیری، پشت پناہی اور تھپکی دیتے ہوئے لاکھوں کی آبادی کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا ہے۔ نااہل صوبائی حکومت اور سکیورٹی معاملات کو دیکھنے والے ادارے، انتظامیہ جو دراصل متعصب ترین افراد کا مجموعہ ہیں، لاکھوں کی آبادی کے مسائل و مشکلات حل کرنے میں کسی بھی قسم کی دلچسپی ظاہر نہیں کر رہے۔
حالانکہ اگر کسی جگہ روڈ ایکسیڈنٹ میں کچھ ہلاکتیں ہو جائیں تو حکمران ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، متاثرین کی مالی امداد کی جاتی ہے، مگر یہاں تو کسی کو ان محاصرین کی ذرہ برابر پرواہ نہیں ہے، کتنے پھول آکسیجن اور دوائیاں نہ ملنے کی وجہ سے جان سے چلے گئے،جبکہ اس ملک میں بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی انجمنیں موجود ہیں، دہشت گردوں کیساتھ ملی بھگت اور سہولت کاری کا نتیجہ یہ ادارے اب خود بھی بھگت رہے ہیں، باولے کتے کبھی کبھی ان کو بھی کاٹنے لگتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب دیگر چھ ایجنسیز (سابقہ قبائلی علاقے) میں آگ و بارود کی بارش تھی، دہشت گردی عروج پر تھی، ان دنوں میں سکیورٹی اداروں کے لوگ کھلے چل نہیں سکتے تھے، تب بھی اس کرم ایجنسی میں کسی فوجی، کسی سکیورٹی اہلکار پر کبھی کسی نے پتھر نہیں مارا تھا، جبکہ دیگر ایجنسیز کی طرح کالعدم تحریک طالبان کے کمانڈرز کی طرح ادھر بھی نامزد گورنر موجود ہوتے تھے۔
اب حالت یہ ہے کہ کرم ڈسٹرکٹ میں بہت سے ایریاز میں فوجی چوکیوں پر حملے ہوتے ہیں اور بعض ایریاز میں تو سکیورٹی اداروں کا جانا ممکن نہیں۔ ایک پرامن علاقہ ہمارے مقتدر و ذمہ دار اداروں کی کالی بھیڑوں کی وجہ سے یہ خطہ بھی شدید امن و امان کے مسائل سے دوچار ہوچکا ہے۔ افسوس تو ہوتا ہے کہ ایک طرف یہی عناصر ملکی افواج اور سکیورٹی اداروں پر حملے کرتے ہیں، دوسری طرف یہی لوگ اہل تشیع جو اتنے تعصب، اتنے مظالم، اتنی کوتاہیوں اور جانبداری کے باوجود سکیورٹی اداروں کے لوگوں کیلئے کسی بھی قسم کی تھریٹ نہیں ہیں، جبکہ اپنے دفاع کے حق سے محروم کیے جانے کی سازش کا حصہ بننے کیلئے تیار نہیں، اس کی بنیادی وجہ بھی وہی رویئے ہیں، جو موجودہ حالات میں ایک بار پھر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ چاہے وہ صوبائی حکومت کے اہلکار ہوں، سکیورٹی سے وابستہ اداروں کے ذمہ دار ہوں یا انتظامیہ سے متعلق اتھارٹیز، سب کی طرف سے اہل تشیع کیساتھ سلوک اور رویوں کی شدید شکایات ہیں۔
ہمارا بنیادی موقف ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ دہشت گرد کسی کے بھی نہیں، لہذا ان کے ساتھ ملک دشمنوں والا سلوک کیا جائے، انہیں کسی قسم کی رعایت اور ڈھیل نہ دی جائے، یہ رعایت اور ڈھیل نقصان کی مقدار کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ یہ ثابت شدہ اور تجربہ شدہ بات ہے، مگر ہمارے ذمہ دار ادارے اور حکومتیں ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں، جبکہ دہشت گردوں میں ایسے عناصر موجود ہوتے ہیں، جو کئی کئی ایجنسیز اور گروہوں یا ملکوں کیلئے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی بنیاد افغان روس جنگ ہی سمجھی جاتی ہے، جس نے بعد ازاں القاعدہ جیسی تنظیموں کو جنم دیا، جو یہیں پلی بڑھیں، القاعدہ کی کوکھ سے بہت سے گروہ نکلے، ان میں آخری بڑا گروہ داعش کی شکل میں نکلا تھا، جو القاعدہ والوں کے بھی خلاف کارروائیاں کرتا ہے۔
پشاور کے قریب اکوڑہ خٹک کے معروف دینی مدرسہ دارالعلوم حقانیہ میں جمعہ کی نماز کے بعد مہتمم جامعہ حامد الحق پر خودکش حملہ بھی دراصل داعشی عناصر کی کارروائی محسوس ہوتی ہے، داعش بنیادی طور پر سلفی فکر کی حامل ہے، جو اس وقت مختلف ممالک بشمول شام، عراق، پاکستان، افغانستان کارروائیاں کرتی ہے۔ افغان طالبان جو ہتھیار ماضی میں دوسروں کیلئے استعمال کرتے تھے، آج وہی ہتھیار داعش ان کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ افغانستان میں کئی ایک دھماکے ہوچکے ہیں، جن میں طالبان کو شکار کیا گیا ہے۔ اکوڑہ خٹک کے مدرسہ میں ہونے والا حملہ اس کی ایک مثال ہے، پاکستان میں مولانا فضل الرحمن اور مرحوم قاضی حسین احمد پر بھی خود حملے ہوچکے ہیں جبکہ ان کا مکتب فکر دیوبندی ہے۔
کہنے کا مقصد یہی ہے کہ جو بویا جاتا ہے، وہی ملتا ہے، جس کا بیج بویا جاتا ہے، اسی کی فصل پک کر نکلتی ہے۔ اگر دہشت گردی کو کسی بھی طرح سے، کسی بھی مقصد کیلئے ضرورت سمجھ کر سر پرستی کی جائے گی تو یہ ایک دن گلے کا طوق بن جاتی ہے، ایسا طوق جسے اتار کر پھینکنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ لہذا اس کا واحد حل بے رحمانہ طریقہ سے آپریشن اور بغیر رو رعایت کے دہشت گردوں کی جڑوں کو اکھاڑ باہر نکالنا ہی حل ہے۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا، سہولت کاروں کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاتا، یہ سانحات ہوتے رہیں گے اور رہا سوال اہل کرم کا، چند کلومیٹر روڈ دہشت گرد عناصر سے محفوظ بنانا تو یہ بھی ملی بھگت ختم کرکے بے رحمانہ آپریشن سے ہی ممکن ہے۔