بیجنگ :مارچ کے خوشگوار موسم میں سالانہ قومی عوامی کانگریس اور چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس کے اجلاس بیجنگ میں شروع ہوں گے۔ دو اجلاسوں کے دوران قومی عوامی کانگریس کے نمائندے اور چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس کے مندوب قومی معیشت اور عوام کے ذریعہ معاش جیسے امور پر تبادلہ خیال کریں گے، رائے عامہ کو جانیں گے ، لوگوں کی دانش مندی کو جمع کریں گے اور اتفاق رائے پیدا کریں گے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی معیشت اور عوام کے ذریعہ معاش سے متعلق تمام بڑے اور چھوٹے معاملات نمائندوں کی تجاویز میں کیسے ڈھلے اور “دو اجلاسوں” تک کیسے پہنچے ؟ہر چینی شہری مختلف چینلز جیسے سرکاری محکموں کی ویب سائٹس ، آفیشل وی چیٹ اکاؤنٹس اور گورنمنٹ سروس ہاٹ لائن 12345 کے ذریعے اپنی رائے، مسائل اور مشکلات کا اظہار کر سکتا ہے۔ متعدد رہائشی کالونیوں میں عوامی کانگریس کے مقامی نمائندوں کے لئے مرکزی رابطہ اسٹیشنز ہوتے ہیں تاکہ عوام کی طرف سے پیش کردہ مسائل کو سنا جائے اور ان کے حل میں تعاون کیا جائے ۔ رابطہ اسٹیشن میں وہ تمام مسائل جن کا حل کرنا آسان ہوتا ہے انہیں موقع پر ہی براہ راست مشاورت کے ذریعے حل کر لیا جاتا ہے اور وہ مسائل جو فوراً حل نہیں ہوسکتے ہیں انہیں رابطہ اسٹیشن متعلقہ محکموں کو منتقل کرتا ہے ، اور ” ہینڈلنگ ” کی صورتحال پر بروقت اپنی رائے دیتا ہے۔

اس کے علاوہ وہ مسائل جو عام ہیں لیکن انہیں حل کرنا آسان نہیں ، ان پر مندوبین اجلاس میں پیش کی جانے والی تجا ویز کے طور پر غور کرتے ہیں تاکہ ان مسائل کا حل ادارہ جاتی طاقت کے ذریعے تلاش کیا جا سکے ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہاٹ لائن 12345 ،چین بھر کی مقامی حکومتوں کی جانب سے قائم کردہ ایک عوامی پلیٹ فارم ہے، جس کے ذریعے لوگ حکومت کو اپنی زندگی میں درپیش مختلف مسائل کے بارے میں بتا سکتے ہیں، یا مشاورت کر سکتے ہیں اس حوالے سے مدد مانگ سکتے ہیں، شکایت کر سکتے ہیں اور رائے یا تجاویز پیش کر سکتے ہیں۔

یہ پلیٹ فارم عوام کے مطالبات اور صورتحال سے نمٹنے کے بارے میں متعلقہ حکومت اور متعلقہ اکائیوں کو بروقت رپورٹ کرتا ہے ۔ہاٹ لائن سروس 12345 کو روزانہ موصول ہونے والی کالز کی بڑی تعداد اور ان سے جمع ہونے والے ڈیٹا سے شہر میں لوگوں کے ذریعہ معاش اور مسائل کے حوالے سے حقیقی حالت سامنے آجاتی ہے ۔ مشلاً مسائل کن شعبوں میں ہیں، نمایاں مسائل میں تضادات کہاں ہیں، اور تمام فریقوں کے مطالبات کیا ہیں؟ وغیرہ وغیرہ ۔ یوں دو اجلاسوں کے شرکاء کے لیے ایسی تجاویز تیار ہو جاتی ہیں جو قابل اعتماد اور تفصیلی اعداد و شمار پر مشتمل تجزیے کے ساتھ ہوتی ہیں اور عوام کے مسائل کی عکاسی کرتی ہیں ۔ یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس طرح سے پیش کردہ آراء اور تجاویز عوام کی آراء کے قریب ہوں گی، عوام کی خواہشات کی عکاسی کریں گی، لوگوں کی مشکلات کو حل کریں گی، اور لوگوں کے ذریعہ معاش اور فلاح و بہبود کی مسلسل بہتری میں کردار ادا کریں گی.

رواں سال دو اجلاسوں کے انعقاد سے قبل شنہوا نیٹ نے تجاویز جمع کرنے کی سرگرمی “میں نمائندوں کو کچھ کہنا چاہتا ہوں” کا آغاز کیا، جس میں انٹرنیٹ صارفین کو تجاویز پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ اس کا پہلا مقصد یہ ہے کہ نمائند وں کی جانب سے انٹرنیٹ صارفین کے سوالات کے براہ راست جوابات دیئے جائیں ، اور دوسرا مقصد متعلقہ محکموں کے لئے ان تجاویز کو مرتب کرنا اور ترتیب دینا ہے جن کا حوالہ فیصلہ سازی میں دیا جائے۔ایک تجزیہ کار نے شہریوں کو بس میں سوار مسافروں سے تشبیہ دی ہے۔ بڑی اور مستقبل کی تجاویز بس کی سمت ، اس کی منزل ، اور اس کی رفتار پر توجہ مرکوز کرتی ہیں۔

جبکہ لوگوں کے ذریعہ معاش کی تفصیلات کے بارے میں چھوٹے موضوعات پر مبنی تجاویز یوں معلوم ہوتی ہیں جیسے مسافر سیٹ بیلٹ پہنتے ہیں یا نہیں اور کیا نشستیں آرام دہ ہیں یا نہیں ۔ لیکن یہ یہی چھوٹی چھوٹی تجاویز “عوام پر مرکوز” حکمرانی کے تصور کو زیادہ ٹھوس اور واضح بناتی ہیں اور لوگوں کے سنے جانے کے احساس کو مزید مضبوط بناتی ہیں۔بالائی اور نچلی سطحوں کو ملانے اور ہمہ گیر عوامی طرز جمہوریت پر عمل پیرا ہونے کی راہ پر چلتے ہوئے چینی خصوصیات کے حامل مختلف چینلز، پلیٹ فارمز اور دیگر ذرائع جو عوام کی آواز سنتے ہیں ، عوام کے مسائل کو حل کرتے ہیں اور عوام کی دانشمندی کو جمع کرتے ہیں اور یوں مختلف سطح کی عوامی کانگریسوں کے نمائندوں کی بڑی تعداد اور عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنسوں کے ارکان کی انتھک کوششوں سے محتاط غور و خوض کے بعد دونوں اجلاسوں کو پیش کی جانے والی بہت سی تجاویز ریاستی اداروں کی فیصلہ سازی کی بنیاد بنتی ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں مختلف اداروں نے اجلاس کے شرکاء کی جانب سے پیش کردہ 5 ہزار سے زائد آراء اور تجاویز کو اپنایا اور 2 ہزار سے زائد متعلقہ پالیسیاں اور اقدامات جاری کئے گئے جس سے اصلاحات اور ترقی اور عوام کے اہم مفادات سے متعلق اہم اور مشکل مسائل کے حل کو موثر طریقے سے فروغ ملا ۔ اس وقت بین الاقوامی برادری جمہوریت کے حصول کے راستوں میں تنوع پر زیادہ توجہ دے رہی ہے اسی لئے چین کی ہمہ گیر عوامی طرز جمہوریت کی تفہیم اور اہمیت کو مسلسل مضبوط کیا گیا ہے۔ چین میں نکاراگوا کے سفیر مائیکل کیمبل نے 36 ممالک کے سفیروں اور سفارت کاروں کے ساتھ نیشنل پیپلز کانگریس کی قائمہ کمیٹی کے قانون ساز امور کمیشن کے نچلی سطح کے ایک رابطہ اسٹیشن کا دورہ کیا ۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ عوام کی امنگوں کی عکاسی کرنے والی رائے اور تجاویز کو ایک ایک کرکے ریکارڈ کیا جاسکتا ہے، قدم بہ قدم آگے بڑھایا جاسکتا ہے اور قومی قانون سازی کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے۔ “یہ واقعی ایک عظیم اور حیرت انگیز نظام ہے. “

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

گلگت بلتستان کے کسانوں کے لیے ’آئس اسٹوپاز‘ رحمت کیسے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) شمالی پاکستان میں سارا سال برف کی سفید چادر سے ڈھکے رہنے بلند و بالا پہاڑوں کے وادیوں میں رہائش پذیر اور پانی کی کمی سے دوچار کسانوں نے اپنے آئس ٹاور یا برفانی ستون تعمیر کر لیے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سردیوں میں معمول سے زیادہ درجہ حرارت اور برف باری میں کمی کی وجہ سے گلگت بلتستان کو اب پانی کی قلت کا مسئلہ درپیش ہے۔

آن لائن مدد کی تلاش

یہ علاقہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کا مسکن بھی ہے۔ قراقرم کے پہاڑی سلسلے کے سائے میں وادی اسکردو کے کسانوں نے 2,600 میٹر (8,200 فٹ) تک کی بلندی پر اپنے سیب اور خوبانی کے باغات کو سیراب کرنے کے لیے آن لائن مدد تلاش کی۔

ایک مقامی کسان غلام حیدر ہاشمی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''ہم نے یوٹیوب پر مصنوعی گلیشیئر دریافت کیے۔

(جاری ہے)

‘‘ انہوں نے سرحد کے اس پار دو سو کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر بھارتی علاقے لداخ میں ماحولیاتی کارکن اور انجینئر سونم وانگچک کی ویڈیوز دیکھیں، جنہوں نے تقریباً دس سال قبل یہ تکنیک تیار کی تھی۔

اس تکنیک کے تحت پانی کو ندیوں سے گاؤں تک پہنچایا جاتا ہے اور سردیوں کے منجمد کر دینے والے درجہ حرارت کے دوران اس کا ہوا میں چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔

یونیورسٹی آف بلتستان کے پروفیسر ذاکر حسین ذاکر نے کہا، ''پانی کو ہوا میں اچھالا جانا چاہیے تاکہ جب درجہ حرارت صفر سے نیچے آجائے تو یہ جم جائے، جس سے برف کے ٹاور بنتے ہیں۔‘‘

اس کے بعد یہ برف ایک ایسی شکل اختیار کر لیتی ہے، جو بدھ مت کے مقدس اسٹوپاز سے ملتی جلتی ہے اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے ایک نظام کے طور پر کام کرتی ہے، پھر جب موسم بہار میں درجہ حرارت بڑھتا ہے، تو برف کا یہ ذخیرہ تسلسل سے پگھلنے لگتا ہے۔

برفانی چوٹیوں کی سر زمین

گلگت بلتستان میں 13,000 گلیشیئرز ہیں، جو قطبی خطوں سے باہر زمین پر موجود اور کسی بھی ملک میں برفانی چوٹیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ ان کی خوبصورتی نے اس خطے کو ملک کے اعلیٰ سیاحتی مقامات میں سے ایک بنا دیا ہے۔

قدیم شاہراہ ریشم پر یہ اونچی چوٹیاں اب بھی ایک شاہراہ سے دکھائی دیتی ہیں، جو سیاحوں کو چیری کے باغات، گلیشیئرز اور برف کی نیلی جھیلوں کے درمیان تک لے جاتی ہیں۔

افغانستان سے میانمار تک پھیلے ہوئے ہندوکش اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے ماہر شیر محمد کا کہنا ہے کہ اس خطے میں پانی کی زیادہ تر فراہمی موسم بہار میں برف کے پگھلنے اور گرمیوں میں کسی حد تک برفانی تودوں کے پگھلنے سے ہوتی ہے۔

انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ (ICIMOD) سے وابستہ محقق شیر محمد نے اے ایف پی کو بتایا، ''اکتوبر کے آخر سے اپریل کے شروع تک یہاں شدید برف باری ہوتی رہتی تھی۔

لیکن پچھلے کچھ سالوں سے یہ کافی خشک ہے۔‘‘ پہلے آئس اسٹوپا کی تعمیر سات سال قبل

اقوام متحدہ کے تحت پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے ہم آہنگ ہونے کے لیے قائم منصوبے جی او ایل ایف۔ ٹو کے صوبائی سربراہ رشید الدین نے کہا کہ گلگت بلتستان میں پہلا ''آئس اسٹوپا‘‘ سن دو ہزار اٹھارہ میں بنایا گیا تھا اور اب بیس سے زائد دیہات ہر موسم سرما میں انہیں بناتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان اسٹوپاز کی بدولت ''سولہ ہزار سے زائد باشندوں کو آبی ذخائر یا ٹینک بنائے بغیر پانی تک رسائی حاصل ہے۔‘‘ موسمیاتی تبدیلیوں کے سامنے سب بے بس

کسان محمد رضا نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس موسم سرما میں ان کے گاؤں حسین آباد میں آٹھ اسٹوپا بنائے گئے تھے، جن میں تقریباً 20 ملین لٹر پانی برف کی شکل میں ذخیرہ کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا، ''ہمارے پاس اب پودے لگانے کے دوران پانی کی کمی نہیں ہے۔‘‘

وادی کے ایک اور کسان علی کاظم نے کہا، ''اس سے پہلے ہمیں پانی حاصل کرنے کے لیے جون میں گلیشیئرز کے پگھلنے کا انتظار کرنا پڑتا تھا، لیکن اب ان اسٹوپاز نے ہمارے کھیتوں کو بچا لیا ہے۔‘‘

قریبی پاری گاؤں میں آلو، گندم اور جو اگانے والے نوجوان بشیر احمد نے کہا کہ اسٹوپا بنانے سے قبل وہ مئی میں اپنی فصلیں بویا کرتے تھے۔

ان کا کہنا ہے، ''پہلے ہمارے پاس پیداوار کے لیے صرف ایک موسم تھا، جبکہ اب ہم سال میں دو یا تین بار فصل اگا سکتے ہیں۔‘‘

پاکستان میں1981 اور 2005 کے درمیان اوسط درجہ حرارت عالمی اوسط کے مقابلے میں دو گنا تیزی سے بڑھا، جس نے اس جنوبی ایشیائی ملک کو اب پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ اثرات والے ممالک کی صف اول میں لا کھڑا کیا ہے۔

240 ملین کی آبادی والے اس ملک میں زیادہ تر باشندے ایک ایسے علاقے میں رہتے ہیں، جو 80 فیصد بنجر یا نیم خشک ہے اور اس کو درکار پانی کے تین چوتھائی سے زیادہ حصے کا انحصار پڑوسی ممالک سے نکلنے والے دریاؤں اور ندیوں پر ہوتا ہے۔

پاکستان اور دنیا بھر میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جن میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے سمیت چند مستثنیات شامل ہیں۔

اس صورت حال کی وجہ سے سیلابوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور طویل المدتی بنیادوں پر پانی کی فراہمی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

ایک اور مقامی رہائشی یاسر پروی نے کہا، ''موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہوئے، یہاں نہ امیر ہے نہ غریب، نہ شہری اور نہ ہی دیہی، پوری دنیا غیر محفوظ ہو چکی ہے۔ ہمارے گاؤں میں برف کے اسٹوپاز کی تعمیر کے ذریعے ہم نے ایک چانس لینے کا فیصلہ کیا۔‘‘

ش ر ⁄ م م (اے ایف پی)

متعلقہ مضامین

  • پاکستان مراکو تیسری دوطرفہ فوجی مشقوں کا آغاز ہو گیا
  • آئی ایم ایف کا الیکٹرک گاڑیوں پر سبسڈی جبکہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز
  • آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان آئندہ بجٹ پر مذاکرات کا آغاز، ٹیکس تجاویز اور کاربن لیوی پر غور
  • چھوٹی سی عمر میں جج، ڈاکٹر اور انجینیئر بننے والی 3 لڑکیوں کی کہانی
  • حقیقت یہ ہے کہ ملک کے مسائل حل نہیں ہو رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں؛ مسرت جمشید چیمہ
  • گلگت بلتستان کے کسانوں کے لیے ’آئس اسٹوپاز‘ رحمت کیسے؟
  • مہنگائی میں کمی کا فائدہ عوام تک براہ راست نہیں پہنچ رہا، حکومت کا اعتراف
  • سونا عوام کی پہنچ سے مزید دور، قیمت نئی بلندی پر پہنچ گئی
  • شیخ رشید کا اہم بیان : مذاکرات جاری ہیں مگر تفصیلات سیاسی جماعتیں ہی بتا سکتی ہیں
  • پاکستانی پروڈکٹس کو عالمی منڈیوں تک رسائی دینا وقت کی اہم ضرورت ہے، وفاقی وزیر خزانہ