مصطفیٰ عامر قتل کیس میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی داخلہ نے آئی جی سندھ کو طلب کرلیا۔

 کمیٹی ممبر عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ کہا جا رہا ہے 22 سال کا لڑکا خود یہ سب دھندا کر رہا تھا، سمجھ سے باہر ہے کہ بغیر کسی سپورٹ کے 22 سالہ لڑکا سب کچھ کیسے کر رہا تھا۔

آغا رفیع اللّٰہ نے کہا کہ مصطفیٰ عامر کیس میں 500 سے زائد لیپ ٹاپ اِدھر اُدھر کیے گئے، کیس سے متعلق بہت سے کردار ملک سے فرار ہوگئے اور اب بھی ہو رہے ہیں۔

مصطفیٰ قتل کے ملزم ارمغان پر 8 سال سے ویڈ منگوا کر نشہ کرنے کا الزام

کراچی کی انسداد منشیات عدالت میں ملزم ارمغان کے خلاف منشیات کے دو کیسز میں چالان پیش کر دیا گیا۔

ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ اس کیس پر کراچی میں ذیلی کمیٹی بنائی ہے، بہتر ہوگا کہ جے آئی ٹی بنا دی جائے۔

ممبر کمیٹی نبیل گبول نے کہا کہ جے آئی ٹی کا قیام کمیٹی کا اختیار نہیں ہے۔

قائمہ کمیٹی داخلہ نے وزارت داخلہ کو بذریعہ ایف آئی اے اور اے این ایف تحقیقات کرنے کی ہدایت کردی۔

کیس کا پس منظر:۔

واضح رہے کہ مصطفیٰ عامر کراچی کے علاقے ڈیفنس سے 6 جنوری کو لاپتہ ہوگیا تھا، جس کی لاش 14 فروری  کو حب سے ملی تھی، مصطفیٰ کو اس کے بچپن کے دوستوں نے تشدد کرنے کے بعد  گاڑی میں بٹھا کر جلایا تھا، اب تک کی تحقیقات کے مطابق ارمغان اور شیراز نے گاڑی کو آگ لگائی۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: نے کہا کہ داخلہ نے

پڑھیں:

مصطفیٰ عامر قتل کیس، کیا ارمغان بھی منظر سے غائب ہونے کے بعد بری ہوجائے گا؟

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور اس شہر میں جرائم بھی بڑے نوعیت کے ہوا کرتے ہیں، جب بھی کوئی جرم سامنے آتا ہے تو وہ عام شہریوں کو جنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے، ایسا ہی ایک کیس مصطفیٰ عامر قتل کیس ہے جو حال ہی میں منظر عام پر آیا۔

 اس سے قبل آپ کو یاد ہو گا ایک کیس نتاشا نامی خاتون کا بھی سامنے آیا تھا وہ بھی نشے سے جڑا کیس تھا اور یہ بھی، کیا نتاشا کی طرح ارمغان کو بھی ہم سب بھول جائیں گے؟

یہ بھی پڑھیں: مصطفیٰ قتل کیس: منشیات کی خریدوفروخت میں بین الاقوامی ڈرگ چین کے ملوث ہونے کا انکشاف

مصطفیٰ کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ارمغان اس وقت تحویل میں ہے اور ارمغان سے جڑے دیگر کرداروں کی اگر بات کی جائے تو سب سے پہلے شیراز ہے، جس نے اس پورے کیس سے پردہ ہٹایا اور پولیس کے ساتھ ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا، اس کے بعد ساحر حسن منظر عام پر آتے ہیں اور انکشافات کا ایک نیا باب کھل جاتا ہے۔

بظاہر ایک کیس لگنے ولا یہ معاملہ اپنے اندر 4 مختلف جرائم لیے بیٹھا ہے۔ سب سے پہلے تو ایک شہری کا قتل ہوا، دوسرا منشیات کا بہت بڑا دھندا بے نقاب ہوا، تیسری بات یہ کہ کال سینٹر کی آڑ میں غیر قانونی دھندا چل رہا تھا اور چوتھی ڈیفنس جیسے علاقے میں جدید اسلحہ کی موجودگی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مصطفیٰ عامر قتل کیس: ملزم ارمغان کا گھر خالی کروایا جائے، پڑوسیوں کا متعلقہ حکام کو خط

 اگر تو یہ کیس الگ الگ زاویوں سے دیکھا جائے اور اس کی تحقیقات بھی اسی پیمانے پر ہونا شروع ہوجاتی ہیں تو شاید بہت کچھ سامنے آجاتا اور کتھیاں سلجھنا بھی شروع ہو جاتیں لیکن یہ کیا کہ ایک قتل کے عینی شاہد اور چشمدید گواہ کا بیان ٹی وی پر چلا دیا گیا؟

آپ نے بہت سے اعترافی ویڈیو بیان دیکھے ہوں گے  یا سنے ہوں گے لیکن کیا کبھی سوچا کہ ان بیانات کے بعد ان کی اہمیت کیا رہی ہوگی؟ یا ان بیانات کے نتائج کیا نکلے ہوں گے؟ کیوں کہ میڈیا پر چلنے والے اعترافی بیانات کی بھر مار سے تو لگتا ہے کہ مجرم کو اگلے روز پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مصطفیٰ عامر قتل کیس: ملزم ارمغان کا ریمانڈ نہ دینے والے جج سے انتظامی اختیارات واپس لیے گئے

ایسا اس لیے نہیں ہوتا کیوں کہ ہر کیس کا ایک رخ وہ ہوتا ہے جو دِکھایا جاتا ہے  جبکہ دوسرا پہلو وہ جو اصل ہوتا ہے، جو دستاویزات پر مشتمل ہوتا ہے اور قانونی شکل میں مکمل کیا جاتا ہے لیکن اب تک شیراز کا تہلکہ خیز اعترافی بیان میڈیا پر تو چل رہا ہے، لیکن عدالت میں اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں کیوں کہ اس بیان کے لیے عدالت سے ابھی تک رجوع ہی نہیں کیا گیا۔

کوئی بھی مجرم یا گواہ سب سے پہلے انکشاف پولیس کے سامنے کرتا ہے اس کے بعد پولیس کا کام ہے کہ فوری طور پر عدالت میں ضابطہ فوجداری کی  دفعہ 164 کے تحت اعترافی بیان قلمبند کرنے لیے درخواست دائر کرے تاکہ مجسٹریٹ کے روبرو اس اعترافی بیان کو قلمبند کیا جائے اور اگر ایسا ہوجاتا ہے تو ملزم کے بیان کو قانونی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: مصطفیٰ عامر قتل کیس: شریک ملزم شیراز کے سنسنی خیز انکشافات

لیکن مصطفیٰ کیس میں تو اب تک پولیس نے عدالت میں ایسی کوئی درخواست نہیں دی، تو عین ممکن ہے کہ اب تک میڈیا پر چلنے والے بیانات کے غبارے سے اس وقت ہوا نکل جائے جب انکشافات کرنے والوں کو عدالت کے روبرو بیان کے لیے پیش کیا جائے اور وہ یہ کہہ دیں کہ ہمارا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں اور نہ میڈیا پر چلنے والے بیان سے ہمارا کوئی تعلق ہے یا ملزم عدالت میں یہ مؤقف بھی دے سکتے ہیں کہ وہ بیان ان سے زبردستی لیا گیا ہے۔

 جی ہاں ایسا پہلے ہوچکا ہے اور پولیس کی جانب سے ایک لمحہ تاخیر کیس کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news ارمغان بیان پولیس عدالت کراچی گواہ مصطفیٰ قتل کیس نتاشا

متعلقہ مضامین

  • قائمہ کمیٹی داخلہ کا مصطفیٰ عامر قتل کیس کی ہائی پروفائل انویسٹی گیشن کا مطالبہ
  • سینیٹ کی قائمہ کمیٹی صوبائی حکومتوں پر برہم، چیف سیکریٹری سندھ کو طلب کرلیا
  • مصطفیٰ قتل کیس: گواہ نے ملزم ارمغان اور شیراز کو شناخت کر لیا
  • مصطفیٰ عامر قتل کیس، کیا ارمغان بھی منظر سے غائب ہونے کے بعد بری ہوجائے گا؟
  • قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی داخلہ کا مصطفیٰ عامر کے قتل کا نوٹس، آئی جی سندھ طلب
  • قائمہ کمیٹی داخلہ نےمصطفیٰ عامر قتل کیس کا نوٹس لے لیا،آئی جی سندھ طلب
  • مصطفیٰ عامر قتل کیس، ملزم ارمغان کا ریمانڈ نہ دینے پر جج کے اختیارات ختم کردیے گئے
  • وزارت داخلہ کو دی گئی ضمنی گرانٹ کی قومی اسمبلی سے منظوری نہ لینے کا انکشاف
  • قائمہ کمیٹی کا اجلاس، سی پیک منصوبوں پر بریفنگ