پاکستان میں شمسی توانائی، سہولت یا مصیبت؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 فروری 2025ء) سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک سال میں مکانات کی چھتوں پر سولر پینلز کی تنصیب میں اتنا اضافہ ہوا ہے جتنا اس سے پہلے 10 برس میں نہیں ہوا تھا۔ تازہ صورت حال میں پاکستان کا شمار خطے کی اہم شمسی منڈیوں میں ہونے لگا ہے۔
پاکستان میں سولر پینلز کی قیمتیں تاریخی حد تک کم ہو گئیں
پاکستان: شمسی توانائی سے دو ہزار میگا واٹ بجلی، منصوبہ منظور
پاکستانمیں شمسی توانائی کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کی وجوہات میں بجلی کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ، گرڈ کی غیر مستحکم فراہمی، اور ماحولیاتی پائیداری کے حوالے سے بڑھتی ہوئی آگاہی بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ مقامی طور پر اسمبل کیے جانے والے انورٹرز اور بیٹری اسٹوریج کے حل کی بڑھتی ہوئی دستیابی نے پاکستان کے شمسی نظام کو مزید مستحکم کیا ہے۔(جاری ہے)
انرجی امور کے ماہر طاہر بشارت چیمہ کے بقول ملک میں اس وقت شمسی توانائی سے پیدا ہونے والی بجلی کی مقدار دو ہزار میگا ووٹ سے زیادہ ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
دنیا بھر میں سولر انرجی کو ماحول دوست سمجھا جاتا ہے اور پاکستان کی حکومتیں بھی سولر انرجی کے حصول کی حوصلہ افزائی کرنے کا دعوی کرتی رہی ہیں۔
پاکستان کا تازہ بحران تاہم یہ ہے کہ ملک میں بجلی کی بڑی پیداوار چوری ہو رہی ہے اور بل دینے والے امیر صارفین سولر انرجی پر منتقل ہو رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بجلے کی کمپنیوں کی آمدن میں اربوں روپے کی کمی ہو رہی ہے اور حکومت کے لیے بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کو کپیسٹی پیمنٹس کی ادائیگی مشکل ہو گئی ہے۔
ایک تازہ پیش رفت میں پاکستان کے وفاقی ٹیکس محتسب (ایف ٹی او) نے پاکستان میں سولر نیٹ میٹرنگ صارفین پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی ہدایت دی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ ایک بڑے مالی خسارے کے انکشاف کے بعد کیا گیا جو تقریباً 9.8 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔
پاکستان میں ایک گرین میٹر کی تنصیب سے سولر پینل سے بجلی حاصل کرنے والے صارفین اپنی زائد بجلی واپڈا کے سسٹم کو دے سکتے ہیں۔ شبیر احمد نامی ایک صارف کے مطابق اب نیٹ میٹرنگ والا گرین میٹر لگوانا آسان نہیں رہا۔ ان کے بقول متعلقہ سرکاری اداروں نے نیٹ میٹرنگ کی سہولت پر غیر اعلانیہ پابندی لگا رکھی ہے۔
انگریزی اخبار ڈان سے وابستہ انرجی امور کو کور کرنے والے صحافی احمد فراز خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ موجودہ صورتحال میں ایک طرف اربوں روپوں کے کپیسٹی چارجز کے بوجھ تلے دبی ہوئی پاکستانی حکومت اپنی بجلی فروخت کرنے کی خواہاں ہے، دوسری طرف اسے خطرہ ہے کہ شمسی توانائی کے صارفین پر پابندیاں لگانے سے اس کی ووٹ بنک میں اس کی مقبولیت پر بہت برا اثر پڑے گا: ''سوال یہ ہے کہ جو لوگ سولر انرجی کی طرف چلے گئے ہیں ان کے حصے کے کپیسٹی چارجز اب کون دے گا کیا وہ چارجز بھی غریب صارفین کی طرف منتقل کر دیے جائیں گے۔
‘‘اقتصادی ماہر ڈاکٹر فرخ سلیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملک میں کوئی لگ بھگ 40 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے حامل بجلی کے پلانٹ موجود ہیں: ''آئی پی پیز سے بجلی نہ بھی لیں تو انہیں کپیسٹی چارجز کی مد میں ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ لیکن حکومت کی مہنگی بجلی کوئی خریدنے کو تیار نہیں ہے۔‘‘ ان کے بقول، ''پیسکو کے علاقوں میں بجلی چوری 45 فی صد کے قریب ہے جبکہ سکھر کی طرف کے علاقوں میں بجلی چوری 35 فی صد کے قریب ہے اگر حکومت اپنے لائن لاسز اور بجلی چوری پر قابو پا لے تو اسے کپیسٹی پیمنٹس کی ادائیگی میں مدد مل سکتی ہے۔
‘‘فرخ سلیم کے مطابق اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ حکومت بجلی کے کاروبار سے نکل جائے اور نجی شعبہ اس کاروبار کو سنبھالے اور بہتر طور پر اسے چلائے: ''اب ملک میں حکومت بجلی کی واحد خریدار ہے جب بہت سی کمپنیاں بجلی بنا رہی ہوں گی، خرید اور فروخت کر رہی ہوں گی تو اس سے صارفین کو فائدہ ہوگا۔‘‘
پاور سیکٹر سے وابستہ ایک نجی کمپنی کے سی ای او احمد جہانگیر نے بتایا کہ حکومت اپنی خامیاں دور کرے، ان کے بقول حکومت کے غیر منصفانہ فیصلوں کی وجہ سے لوگ شمسی توانائی کی طرف جانے پر مجبور ہوئے۔
ایک صارف محمد شاہین کا کہنا تھا کہ 60 روپے کا یونٹ خریدنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں: ''اگر حکومت اپنی بجلی بیچنا چاہتی ہے تو اسے اس کی قیمت کم کرنا ہوگی۔‘‘سابق ایم ڈی پیپکو (پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی) اور انرجی امور کے ماہر طاہر بشار چیمہ نے بتایا کہ بجلی کی قیمتیں بڑھنے پر پہلے صارفین نے بجلی کا استعمال کم کیا، پھر انرجی ایفیشنٹ سسٹم لگائے اور اب وہ سولر کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی رائے میں بجلی کی قیمتوں میں کمی اب ناگزیر ہے اور حکومت اس سمت میں اب کام بھی کر رہی ہے۔ ان کے مطابق آنے والے دنوں میں اس حوالے سے کچھ اعلانات سامنے آ سکتے ہیں۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے شمسی توانائی پاکستان میں سولر انرجی میں بجلی بتایا کہ کے مطابق ملک میں نے والے کے بقول بجلی کی ہے اور کی طرف
پڑھیں:
رمضان میں لوڈشیڈنگ، سندھ حکومت کی کے الیکٹرک سے بات چیت جاری
تقریب سے خطاب میں وزیر توانائی سندھ کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو کے وژن کے مطابق ایجوکیشن اور ہیلتھ سیکٹر میں سولر سسٹم فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے لیے سندھ حکومت نے فنڈز مختص کیے ہیں، سولر سسٹم کو مرحلہ وار اسکولوں اور کالجوں میں نصب کیا جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر توانائی ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ کے الیکٹرک سمیت تمام تقسیم کار کمپنیوں سے بات چیت جاری ہے اور رمضان میں لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا کہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق کراچی کی آئی بی اے یونیورسٹی میں پاکستان اکیڈمک کنسورشیم کے زیر اہتمام اور آغا خان یونیورسٹی ایگزامینیشن بورڈ کے تعاون سے موسمیاتی تبدیلیوں پر "گرین مائنڈز، گرینر اسکولز کے عنوان سے کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں آگاہی فراہم کی گئی اور پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے طلبہ اور اساتذہ کے درمیان تعاون کو فروغ دیا گیا۔ اس موقع پر وزیر توانائی ناصر حسین شاہ نے کہا کہ پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے مسائل ہیں اور پاکستان اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ انہوں نے 2022ء میں پاکستان میں موسمیاتی حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کبھی خشکی، کبھی پانی کی کمی، پاکستان کو مختلف مسائل کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں کے الیکٹرک، حیسکو اور سیپکو کے ساتھ مسلسل بات چیت کی جا رہی ہے اور رمضان میں لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا کہا ہے تاکہ عوام کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔ وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ کہا جاتا ہے جہاں بل ادا نہیں کیا جاتا وہاں پرلوڈشیڈنگ کرتے ہیں لیکن ہم نے کہا رمضان کا خیال کرتے ہوئے اس پر زیادہ توجہ نہ دیں تاکہ عوام کو مسئلہ نہ ہو۔ ناصر حسین شاہ نے کہا کہ آج ڈائریکٹ پرائیویٹ اسکولز کی جانب سے کانفرنس کا انعقاد ایک خوش آئند قدم ہے، کئی طلبہ نے موسمیاتی تبدیلی سے بچاو کے لیے اچھے پروپوزل پیش کیے ہیں اور حکومت اس پر کام کر رہی ہے تاکہ بہتر حل نکالا جا سکے۔ صوبائی وزیر نے بتایا کہ حکومت پاکستان کو ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری ملنے کے بعد اربن فورسٹ اور گرین انرجی کی جانب قدم بڑھا رہی ہے۔