ہمیں فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا جا رہا: عالیہ حمزہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
عالیہ حمزہ--فائل فوٹو
پی ٹی آئی رہنما عالیہ حمزہ نے کہا ہے کہ ہمیں فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا جا رہا۔
اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں عالیہ حمزہ نے کہا ہے کہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ عوام کو دبانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
سابق ایم این اے عالیہ حمزہ کا کہنا ہے کہ اپنے حلقے این اے 118 کا مقدمہ لڑنے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا پر پیکا ایکٹ مسلط کر دیا گیا، یہ لوگ اپوزیشن کے الائنس سے کیوں گھبرا رہے ہیں؟
ان کا کہنا ہے کہ مان لیں آپ ہار گئے ہیں، وہ ایک شخص جیل میں بیٹھا اپنی عوام کی جنگ لڑ رہا ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: عالیہ حمزہ
پڑھیں:
5 جج متفق تھے سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا: جسٹس مندوخیل
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر ) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ 5 ججز متفق تھے کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکتا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں ماضی سے اپیل کا حق مل جاتا تو 1973 سے اپیلیں آنا شروع ہو جاتیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی آئینی بینچ مقدمے کی سماعت کی۔ سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ فوجی عدالتوں کیخلاف 5 رکنی بنچ کا ایک نہیں تین فیصلے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے فیصلے لکھے۔ انہوں نے دلیل دی کہ تمام ججز کا ایک دوسرے کے فیصلے سے اتفاق تھا ۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ججز نے اضافی نوٹ نہیں بلکہ فیصلے لکھے تھے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تمام پانچ ججز متفق تھے کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اپیل کا دائرہ محدود کر دیا تو ہماری کئی اپیلیں بھی خارج ہوجائیں گی۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ لارجر بنچ مقدمہ پہلی بار سن رہا ہوتا اس لیے پہلے فیصلے کا پابند نہیں ہوتا۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میرا آئینی بینچ پر مکمل اعتماد ہے۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آئینی بینچ آرمی ایکٹ کی شقوں کو کالعدم قرار دیے بغیر بھی سویلین کا ٹرائل کالعدم قرار دے سکتا ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو خود اپنا دائرہ اختیار طے کرنا ہوتا ہے۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر کوئی مزار قائد کا قبضہ مانگ لے تو کیا عدالت یہ کہے گی کسی نے دائرہ اختیار پر اعتراض نہیں؟ کیا سویلین کو فوجی تحویل میں دینے کا فیصلہ درست نہیں تھا، حوالگی فرد جرم عائد ہونے کے بعد ہی دی جاسکتی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ، ملزم فرم جرم عائد ہونے سے قبل بھی ملزم ہی ہوتا ہے، مجرم نہیں بن جاتا۔ ضیاء الحق وقت کا فرعون تھا چار پانچ ججز کھڑے ہوئے کتنے لوگوں کی زندگیاں بچائی۔ جن کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوچکا ان کا دوبارہ ممکن نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں فوجی عدالت سزا دیکر اے ٹی سی کو کیس بھیج دے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آرمی ایکٹ میں تو ایف آئی آر کا تصور ہی نہیں ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر مجسٹریٹ کسی ملزم کی فوج کو حوالگی دے تو اس ملزم کو بھی اپیل کا حق ہوتا ہے۔ فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کی محض ایف آئی آر کی بنیاد پر ملزم کو فوج کی تحویل میں دینا درست نہیں۔ سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی۔