امن مشنز کی کامیابی یقینی بنانے کے لئے اقوام متحدہ کی پولیس کو حقیقت پسندانہ مینڈیٹ دینے کی ضرورت ہے، پاکستانی سفیر منیراکرم
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
اقوام متحدہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 28 فروری2025ء) پاکستان نے دنیا بھر میں قیام امن کے اقدامات کو بہتر بنانے میں اقوام متحدہ کی پولیس کی شمولیت پر زور دیا ہے۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نےسلامتی کونسل میں تنازعات سے متاثرہ ممالک کے لئے اقوام متحدہ کی حمایت کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یواین او کی پولیس عالمی سطح پر قیام امن کے لیے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے ، قیام امن کے حوالے سے اقوام متحدہ کے فلیگ شپ منصوبوں میں یواین پولیس کے نقطہ نظر کو شامل کر کے تنازعات سے متاثر ممالک میں امن بحال کرنے کے اقدامات کو زیادہ موثر بنایا جا سکتا ہے۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ یہ بہت اہم ہے کہ اقوام متحدہ کی پولیس کے نقطہ نظر کو امن مشن بشمول ان مشنز کی منصوبہ بندی اور ان کے لئے وسائل کی فراہمی بارے فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے ۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ امن مشن کی کامیابی یقینی بنانے کے لئے اقوام متحدہ کی پولیس کو حقیقت پسندانہ مینڈیٹ دینے کی بھی ضرورت ہے، ایسے حالات میں جہاں فوج کے بجائے تشکیل شدہ پولیس یونٹوں کی تیزی سے تعیناتی ضروری ہے، یہ تعیناتی واضح اور قابل حصول مینڈیٹ پر مبنی ہونی چاہیے اور اس کے لئے مناسب وسائل فراہم کئے جانے چاہئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امن قائم کرنے کے اقدامات کے لئے پولیسنگ کو اس انداز میں تیار کرنے کی ضرورت ہے جو منظم جرائم، انسانی سمگلنگ، دہشت گردی اور ٹیکنالوجی کے ہتھیاروں سے متعلق پیچیدہ اور غیر روایتی خطرات سے نمٹنے کے قابل ہو، اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی پولیس کو اپنے مینڈیٹ کو پورا کرنے کے قابل بنانے کے لئے ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ منیر اکرم نے کہا کہ اقوام متحدہ کی پولیس کو مناسب تربیت اور صلاحیت سازی حاصل کرنی چاہیے ، اسے جنریٹو آرٹیفیشل انٹیلی جنس، ورچوئل رئیلٹی ( وی آر) ٹولز، ڈرونز، سرویلنس کا سامان اور ڈیٹا اینالیٹکس جیسے ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے اپنے آپریشنز میں ٹیکنالوجی کو مربوط کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ تنازعات اور جنگوں کے بعد کی تبدیلیوں میں اقوام متحدہ کی پولیس کے اہم کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے پائیدار امن اور استحکام یقینی بنانے کے لیے میزبان حکومت کی صلاحیتوں کی تعمیر، ادارہ جاتی ترقی اور مقامی قانون نافذ کرنے والے ڈھانچے کی تعمیر نو کو ترجیح دینا بھی ضروری ہے۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ پاکستا ن طویل عرصے سے اقوام متحدہ کے امن مشنز کے لئے پولیس کے دستے فراہم کر رہا ہے ، پاکستان نے ہیٹی، دارفور، مشرقی تیمور اور آئیوری کوسٹ میں یواین امن آپریشنز میں 50 تشکیل شدہ پولیس یونٹ ( ایف پی یوز) تعینات کئے ۔ انہوں نے کہا کہ عوامی خدمت اور بین الاقوامی امن کے لئے غیر متزلزل عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے 11 پاکستانی پولیس اہلکار فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تیزی سے تعیناتی کی سطح ( آر ڈی ایل)پر پاکستانی ایف پی یو کی موجودہ تیاری بین الاقوامی امن کی کوششوں کے لئے پاکستان کی تیاری کو اجاگر کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے امن مشنز میں شامل پاکستانی پولیس افسران نے پیشہ ورانہ مہارت اور قیام امن کے پختہ عزم کے کا مظاہرہ کیا ہے۔ پولیس ایڈوائزر فیصل شاہکار نے اعلیٰ سطح پر پاکستان کی نمائندگی کی جبکہ شہزادی گلفام نے 2011 میں پہلی مرتبہ انٹرنیشنل فیمیل پولیس پیس کیپر ایوارڈ حاصل کرنے کا اعزاز اپنے نام کیا۔قبل ازیں اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے امن آپریشنز جین پیئر لاکروکس نے اس بات کو یقینی بنانے کے لئے اجتماعی طور پر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا کہ یواین پولیس مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے مناسب طریقے سے تیار وسائل سے لیس ہو۔\932.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کی پولیس کو انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے یقینی بنانے کے بنانے کے لئے قیام امن کے پولیس کے ضرورت ہے
پڑھیں:
طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
اقوام متحدہ نے طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان میں نافذ کیے گئے اخلاقی قوانین پر ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے، جس میں ان قوانین کے نتیجے میں خواتین اور عام شہریوں کے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) کی رپورٹ کے مطابق، اگست 2024 سے طالبان حکومت کی جانب سے قائم کردہ وزارت "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کے تحت افغان عوام پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس وزارت نے ملک کے 28 صوبوں میں 3,300 سے زائد اہلکار تعینات کیے ہیں اور ہر صوبے میں گورنر کی سربراہی میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں تاکہ ان ضوابط کو زبردستی نافذ کیا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق، خواتین کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ہے، ان کی نقل و حرکت، تعلیم، کاروبار اور عوامی زندگی میں شمولیت پر سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ صرف محرم کے بغیر سفر کرنے کی ممانعت سے خواتین کی آمدنی میں کمی، کاروباری روابط میں رکاوٹ اور فلاحی اداروں کی امدادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے انکشاف کیا کہ 98 فیصد علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم بند ہے جبکہ خواتین کی عوامی وسائل تک رسائی 38 فیصد سے بڑھ کر 76 فیصد تک محدود ہو چکی ہے۔ مزید برآں، 46 فیصد خواتین کو فیلڈ وزٹ سے روکا گیا اور 49 فیصد امدادی کارکنان کو مستحق خواتین سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کی یہ پالیسیاں نہ صرف عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ ایک مکمل ریاستی جبر کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ یہ سوال اب شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا عالمی برادری ان مظالم پر خاموش تماشائی بنی رہے گی یا کوئی عملی اقدام کرے گی؟