کار سرکار میں مداخلت کے کیس میں مصطفیٰ نواز کھوکھر کو بڑا ریلیف
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
ڈسڑکٹ کورٹ اسلام آباد نے کار سرکار میں مداخلت کے کیس میں مصطفیٰ نواز کھوکھر کو مقدمے سے باعزت بری کر دیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ مرید عباس خان نے تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
تحریری فیصلے کے مطابق بغیر کسی شک و شبہ کے کیس ثابت کرنا استغاثہ کی ذمہ داری ہے، شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو ملتا ہے، اس کیس میں استغاثہ شواہد کے ساتھ اپنا کیس ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے اسل یے عدالت مصطفی نواز کھوکھر کو الزامات سے بری قرار دیتی ہے۔
سال 2019 میں مصطفیٰ نواز کھوکھر کے خلاف پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر پر صدر آصف علی زرداری کو نیب کی حراست سے فرار کروانے کی کوشش کا الزام تھا۔ مصطفی نواز کھوکھر پر کار سرکار میں مداخلت اور کارکنوں کو نیب اور پولیس کے خلاف اکسانے کا بھی الزام تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نواز کھوکھر
پڑھیں:
امریکہ میں امیگریشن گرفتاریوں میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام میں جج گرفتار
سینیٹ کی عدالتی کمیٹی میں سب سے سینئر ڈیموکریٹ سینیٹر ڈک ڈربن نے کہا کہ جب امیگریشن حکام فوجداری انصاف کے نظام میں مداخلت کرتے ہیں تو یہ گواہوں اور متاثرین کو آگے آنے سے روکتا ہے، ایک جج کو گرفتار کرنے سے امریکا کیسے محفوظ ہو سکتا ہے؟۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی حکام نے وسکونسن کی ایک جج کو گرفتار کر لیا ہے اور ان پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے امیگریشن کے نفاذ کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اور مقامی حکام کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازع میں امیگریشن حکام سے بچنے کے لیے اپنی عدالت میں ایک شخص کی مدد کی تھی۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکی محکمہ انصاف نے مجرمانہ شکایت میں کہا کہ ملواکی کاؤنٹی سرکٹ جج ہنا ڈوگن نے امیگریشن ایجنٹوں کو روکا۔
امریکی محکمہ انصاف کے مطابق یہ ایجنٹس 18 اپریل کو عدالتی وارنٹ کے بغیر اس شخص کو گرفتار کرنے عدالت کے باہر آئے تھے، اور جج نے اسے جیوری کے دروازے سے باہر نکلنے کی اجازت دے کر گرفتاری سے بچنے میں مدد کرنے کی کوشش کی تھی۔ ایجنٹوں نے ایڈورڈو فلورس روئز نامی شخص کو عدالت کے باہر سے اس وقت گرفتار کرلیا تھا، جب وہ اپنے وکیل کے ساتھ جا رہا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ گرفتار کی گئی جج ہنا ڈوگن ملواکی کی ایک وفاقی عدالت میں مختصر وقت کے لیے پیش ہوئیں، تاکہ سرکاری کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے اور گرفتاری کو روکنے کے لیے ایک شخص کو چھپانے کے الزامات کا سامنا کرسکیں۔ انہیں رہا کر دیا گیا تھا، اور وہ 15 مئی کو ایک پٹیشن داخل کرنے والی ہیں، ان کی پیشی کے دوران عدالت کے باہر ایک ہجوم جمع ہو گیا، جو نعرے لگا رہا تھا کہ ’جج کو رہا کرو‘۔ ڈوگن بغیر کسی تبصرہ کے عدالت کے دروازے سے باہر نکل گئیں۔
ایک پبلسٹی فرم نے ان کی جانب سے کہا کہ جج ڈوگن بھرپور طریقے سے اپنا دفاع کریں گی اور انہیں بری کیے جانے کا انتظار ہے۔ ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ٹرمپ نے جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد امیگریشن کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا۔ محکمہ انصاف نے وفاقی پراسیکیوٹرز کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس کوشش میں مداخلت کرنے والے مقامی حکام کے خلاف فوجداری مقدمات کی پیروی کریں، اس طرح کی مزاحمت ٹرمپ کے پہلے 2021-2017 کے دور اقتدار کے دوران وسیع پیمانے پر کی گئی تھی۔
اٹارنی جنرل پام بونڈی نے ایک بیان میں کہا کہ کسی بھی جج کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی وفاقی ججوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی محاذ آرائی جاری ہے، کیوں کہ بہت سے ججز نے ایسے فیصلے جاری کیے، جو امیگریشن اور دیگر معاملات میں صدارتی اختیارات کے جارحانہ استعمال کو محدود کرتے ہیں، ریاستی عدالتوں نے اس تنازع میں کم اہم کردار ادا کیا ہے۔
فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے ڈائریکٹر کاش پٹیل نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ایجنٹوں نے فلورس روئز کی گرفتاری میں مداخلت کرنے پر جج ہنا ڈوگن کو گرفتار کیا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے اس پوسٹ کو حذف کر دیا، جو اس سے قبل کی گئی تھی، جب ڈوگن کے خلاف کیس کو رازداری کے قواعد کی ممکنہ خلاف ورزی کرتے ہوئے وفاقی عدالت میں سیل نہیں کیا گیا تھا۔
سینیٹ کی عدالتی کمیٹی میں سب سے سینئر ڈیموکریٹ سینیٹر ڈک ڈربن نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ ہمارے آئین کی حدود کی جانچ جاری رکھے ہوئے ہے اور جب امیگریشن حکام فوجداری انصاف کے نظام میں مداخلت کرتے ہیں تو یہ گواہوں اور متاثرین کو آگے آنے سے روکتا ہے۔ ڈربن نے اپنے بیان میں کہا کہ ایک جج کو گرفتار کرنے سے امریکا کیسے محفوظ ہو سکتا ہے؟۔