اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی مذاکرات قاہرہ میں دوبارہ شروع
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
قاہرہ: اسرائیل، قطر اور امریکہ کے وفود قاہرہ پہنچ چکے ہیں، جہاں حماس کے ساتھ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر بات چیت جاری ہے۔
یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب اسرائیلی فوج نے 2023 میں حماس کے حملے کو روکنے میں اپنی مکمل ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔ اسرائیلی حکام نے تسلیم کیا کہ فوج نے حماس کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا اور اس کے حملے کو روکنے میں ناکام رہی۔
مصری حکام کے مطابق، "متعلقہ فریق جنگ بندی معاہدے کے اگلے مراحل پر بات چیت میں مصروف ہیں، تاکہ پہلے سے طے شدہ معاہدوں پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔"
جنگ بندی کا پہلا مرحلہ ہفتے کے روز ختم ہو رہا ہے، جس کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر نے قاہرہ میں مذاکرات کار بھیجے ہیں۔
پہلے مرحلے کے تحت حماس نے چار اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں واپس کیں، جس کے بدلے میں 643 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ ان میں نائل برغوثی بھی شامل تھے، جو اسرائیل کی جیلوں میں سب سے زیادہ عرصہ قید رہنے والے فلسطینی تھے۔
رہا ہونے والے فلسطینی قیدی یحییٰ شرائیدہ نے جذباتی انداز میں کہا "ہم جہنم میں تھے اور آج جہنم سے باہر نکل آئے، آج میرا حقیقی یوم پیدائش ہے،"۔
دوسری جانب، اسرائیلی تنظیم "ہوسٹیجز اینڈ مسنگ فیمیلیز فورم" نے اس بات کی تصدیق کی کہ واپس کیے گئے یرغمالیوں کی لاشوں میں اوہاد یاہالومی، تساحی عدان، ایتزک ایلگارٹ اور شلومو منصور شامل ہیں۔
حماس نے مذاکرات کو آگے بڑھانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ "ہم نے دشمن کی جھوٹی تاویلات کا راستہ بند کر دیا ہے، اور اب اس کے پاس مذاکرات میں شامل ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔"
یہ مذاکرات ایک اہم موڑ پر ہو رہے ہیں، جہاں فریقین مزید قیدیوں کی رہائی اور مستقل جنگ بندی کے لیے اقدامات پر غور کر رہے ہیں، تاکہ غزہ میں مزید تباہی اور انسانی بحران کو روکا جا سکے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
صیہونی قیدیوں کی ایک مرحلے میں رہائی کیلئے حماس کی شرائط
الجزیرہ سے اپنی ایک گفتگو میں سامی ابو زھری کا کہنا تھا کہ نتین یاہو ناقابل عمل شرائط پیش کر رہا ہے تاکہ جنگبندی کے معاہدے کو سبوتاژ کر سکے۔ اسلام ٹائمز۔حماس کے فلسطین سے باہر پولیٹیکل سربراہ "سامی ابو زھری" نے کہا کہ ہماری تحریک ہر اُس تجویز کا خیر مقدم کرے گی جس سے ہماری عوام کی مشکلات میں کمی آئے۔ لیکن صیہونی وزیراعظم "نتین یاہو" ہم سے ہماری شکست کے ہروانے پر دستخط کروانا چاہتا ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار الجزیرہ سے گفتگو میں کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ نتین یاہو ناقابل عمل شرائط پیش کر رہا ہے تاکہ جنگ بندی کے معاہدے کو سبوتاژ کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ مقاومت کو غیر مسلح کرنے کی شرط پر بات نہیں ہو سکتی اور نہ ہی یہ شرط پوری کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہتھیاروں کا تعلق صیہونیوں کے قبضے سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ہتھیار ہمارے لوگوں اور اُن کے قومی مفاد کے تحفظ کے لئے ہیں۔ دوسری جانب المیادین نے خبر دی کہ اسرائیل نے اپنی تجاویز، جنگ بندی کے معاہدے میں موجود ثالثین کے حوالے کر دی ہے۔ ان تجاویز کے مطابق، جنگ بندی کے پہلے روز، مقاومتی فورسز، امریکی نژاد "الیگزینڈر ایڈن" کو رہا کریں گی۔ لیکن اس میں اہم بات یہ ہے کہ اس تجویز میں غزہ کی پٹی میں مقاومت کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ شامل ہے۔ جس پر فلسطین کے مقاومتی گروہوں نے کہا کہ ہم ایسے مطالبات کو بارہا مسترد کر چکے ہیں۔
واضح رہے کہ 45 روزہ عارضی جنگ بندی کے فریم ورک کے تحت عسکری کارروائیاں بند کی جائیں گی، انسانی امداد غزہ پہنچ سکے گی اور قیدیوں کا تبادلہ ہو گا۔ اسرائیل کی تجویز کے مطابق، جنگ بندی کے دوسرے روز حماس، مقاومت سے تعلق رکھنے والے عمر قید کے 66 اور غزہ کے 611 قیدیوں کی رہائی کے بدلے 5 زندہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی۔ تاہم صیہونیوں کا کہنا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کا یہ عمل کسی تقریب کی صورت میں نہ ہو۔ 5 صیہونیوں کی رہائی کے بعد غزہ کی پٹی میں بے گھر افراد کے لئے ضروریات زندگی سے تعلق رکھنے والے امدادی سامان کو داخلے کی اجازت ہو گی جب کہ اسرائیلی فوج، رفح اور شمالی غزہ کی پٹی میں اپنی دوبارہ تعیناتی شروع کر دے گی۔ جنگ بندی کی ان تجاویز پر ردعمل دیتے ہوئے سامی ابو زھری نے کہا کہ اسرائیل نے ان تجاویز میں کہیں بھی جنگ کے مکمل خاتمے کا ذکر نہیں کیا۔ اسرائیل صرف اپنے قیدیوں کی رہائی چاہتا ہے۔ بہرحال ہم بھی یک مرحلہ تبادلے کے لئے تیار ہیں۔جس کے بدلے میں جنگ کا خاتمہ ہو اور اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی سے باہر نکلے۔ حماس کے ان رہنماء نے کہا کہ اسرائیل کے ان تمام جرائم میں امریکہ برابر شریک ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت امریکی حکومت سے مستقیماََ کسی رابطے میں نہیں ہیں۔