ہم کسی کو بازیاب تو کروا سکتے ہیں، ایسا کیوں ہے کہ اِسے روک نہیں سکتے، جسٹس جمال مندوخیل
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
جسٹس جمال مندوخیل نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہم کسی کو بازیاب تو کروا سکتے ہیں لیکن ایسا کیوں ہے کہ ہم اسے روک نہیں سکتے؟۔
پی ٹی آئی قیادت کے خلاف کریک ڈاؤن اور پکڑ دھکڑ کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق درخواست کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کی۔
دوران سماعت بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی قیادت کے خلاف ناروا سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ نے درخواست میں لکھا کہ پی ٹی آئی قیادت کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، اس سے کیا مراد ہے؟۔
سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ چیف جسٹس پاکستان کے نام بانی پی ٹی آئی نے کھلا خط لکھا۔ پی ٹی آئی قیادت کیخلاف متعدد کیسز درج کیے گئے۔ میں عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں ساری صورتحال پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کیوں ضروری ہے؟۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انتظار پنجوتھا کا معاملہ بھی آپ دیکھ سکتے ہیں۔ انتظار پنجوتھا اغوا ہوئے اور جس ڈرامائی انداز میں بازیاب ہوئے، عدالت اسے دیکھے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا انتظار پنجوتھا نے پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کروایا، جس پر وکیل نے بتایا کہ انہیں کہا گیا تھا آپ کسی سے مل نہیں سکتے۔ وہ سو نہیں سکتے تھے، نہ ہی بات کر سکتے تھے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمیں حقائق کو ماننا پڑے گا۔ ہم کسی کو بازیاب تو کروا سکتے ہیں لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ اسے روک نہیں سکتے۔ آپ پارلیمنٹ میں ہیں، پارلیمنٹ ہی متعلقہ فورم ہے۔ پارلیمنٹ میں جاکر اس پر آواز اٹھائیں۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ پارلیمنٹ اس پر کچھ نہیں کر سکتی۔ جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ بہت کچھ کر سکتی ہے۔ پارلیمنٹ ہی اصل فورم ہے۔
وکیل نے عدالت میں کہا کہ اٹارنی جنرل نے کہا تھا کل انتظار پنجوتھا بازیاب ہو جائیں گے۔ پھر سب نے دیکھا کہ وہ کس طرح بازیاب ہوئے۔ لوگ خوفزدہ ہیں، ہر دوسرے دن کوئی اغوا ہو رہا ہے۔ آپ کی بات درست ہے، جب کیسز مختلف فورمز پر چل رہے ہیں تو پھر کمیشن آف انکوائری کیا کر سکتا ہے۔ یہ سوال سابق چیف جسٹس ناصر الملک کے دور میں بھی آیا تھا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ 35 پنکچر والے معاملے پر یہ سوال اٹھا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت کمیشن کی تشکیل کا اختیار کس کا ہے؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ اختیار تو حکومت کا ہے، لیکن سپریم کورٹ بھی کمیشن بنا سکتی ہے۔
سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ بھارت میں جب ریاست خود گجرات فسادات میں ملوث تھی تو سپریم کورٹ نے اپنا اختیار استعمال کیا تھا۔ جب ریاست کرمنل ہو پھر عدالت اپنا اختیار استعمال کر سکتی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ صورتحال پیدا ہوئی، اس کی کوئی سیاسی جماعت بینیفشری بھی ہوگی۔ جس پر وکیل نے کہا کہ یہ فیصلہ کوئی اور کرتا ہے، کون زیر عتاب ہوگا اور کون بینیفشری۔ ہر دور میں ایک سیاسی جماعت زیر عتاب ہوتی ہے تو دوسری بینیفشری۔ جسٹس مسرت ہلالی نے سلمان اکرم راجا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پھر آپ لوگ پارلیمنٹ کیوں جاتے ہیں؟۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالت سی سی ٹی وی دیکھ سکتی ہے۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج تو متعلقہ عدالت میں آپ کا دفاع ہو سکتا ہے۔ وکیل نے جواب دیا کہ حیریت کی بات ہے 10 سیکنڈ کی سی سی ٹی وی فوٹیج ہے۔ یہ تو سی سی ٹی وی میں ہے کہ صوفے کو آگ لگی ہوئی ہے، یہ نہیں ہے کہ آگ کس نے لگائی۔ کور کمانڈر ہاؤس کا گیٹ کس نے کھولا، یہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں نہیں ہے۔
وکیل نے عدالت میں بتایا کہ ہماری ایک ہوٹل کانفرنس تھی لیکن دفعہ 144 نافذ کردی گئی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ آپ نے دفعہ 144 کو چیلنج کیا ہے؟، آپ چیلنج کریں ہم آرڈر کر دیتے ہیں۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اب چیلنج کرنے کا کیا فائدہ، ہمارا ایونٹ گزر گیا۔ اگر چیلنج کر بھی دیا تو سالوں کیس چلتا رہے گا۔
بعد ازاں عدالت نے مزید دستاویزات جمع کرانے کی مہلت دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے سلمان اکرم راجا نے پی ٹی آئی قیادت سی سی ٹی نہیں سکتے نے کہا کہ بتایا کہ نے عدالت سکتے ہیں وکیل نے سکتی ہے
پڑھیں:
آپ ججز کے ہوتے مجھے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا،فیصل صدیقی کا جسٹس جمال مندوخیل کو جواب
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں سے متعلق کیس میں وکیل فیصل صدیقی نے احمد فراز کیس میں عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ احمد فراز پر الزام تھا کہ شاعری کے ذریعے آرمی افسر کو اکسایا گیا،احمد فراز اور فیض احمد فیض کے ڈاکٹر میرے والد تھے،مجھ پر بھی اکسانے کا الزام لگا لیکن میں گرفتار نہیں ہوا، جسٹس جمال مندوخیل نے ہلکے پھلکے انداز میں جواب دیا کہ آپ کو اب گرفتار کروا دیتے ہیں،فیصل صدیقی نے کہاکہ آپ ججز کے ہوتے مجھے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ آئینی میں فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی بنچ نے سماعت کی، دوران سماعت وکیل فیصل صدیقی نے کہاکہ عدالتی ایسی لئے ہوتی ہیں کہ قانون کا غلط استعمال روکا جا سکے،احمد فراز کو شاعری کرنے پر گرفتار کیاگیا، عدالت نے ریلیف دیا، فیصل صدیقی نے احمد فراز کیس میں عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ احمد فراز پر الزام تھا کہ شاعری کے ذریعے آرمی افسر کو اکسایا گیا،احمد فراز اور فیض احمد فیض کے ڈاکٹر میرے والد تھے،مجھ پر بھی اکسانے کا الزام لگا لیکن میں گرفتار نہیں ہوا، جسٹس جمال مندوخیل نے ہلکے پھلکے انداز میں جواب دیا کہ آپ کو اب گرفتار کروا دیتے ہیں،فیصل صدیقی نے کہاکہ آپ ججز کے ہوتے مجھے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ٹاس بارش کے باعث تاخیر کاشکار
جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ احمد فراز کی کونسی نظم پر کیس بنا تھا مجھے تو ساری یاد ہیں،بطور وکیل کیس ہارنے کے بعد میں بار میں بہت شور کرتی تھی،میں کہتی تھی ججز نے ٹرک ڈرائیور ز کی طرح اشارہ کہیں اور کا لگایا اور گئے کہیں اور، جسٹس مسرت ہلالی نے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ میری بات کو گہرائی میں سمجھنے کی کوشش کریں،جسٹس حسن اظہر رضوی نے جسٹس مسرت ہلالی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ کیا آپ بھی ٹرک چلاتی ہیں؟جسٹس مسرت ہلالی نے جواب دیا کہ ٹرک تومیں چلا سکتی ہوں،میرے والد جو شاعری کرتے تھے وہ ان کی وفات کے بعدپشتون جرگہ میں کسی نے پڑھی، جرگہ میں میرے والد کی شاعری پڑھنے والا گرفتار ہو گیا، میرے والد ایک فریڈم فائٹر تھے، ان کی ساری عمرجیلوں میں ہی گزری ،شاعری پڑھنے والے نے بتایاکہ کس کا کلام ہے اور اس کی بیٹی آج کون ہے،میرے والد کی شاعری پڑھنے والے کو بہت مشکل سے رہائی ملی۔
صدر تنخواہ دارو محدود آمدنی کے طبقات کیلئے بڑی مراعات کا اعلان کرینگے
مزید :