ملٹری ٹرائل ، کیس ، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت حوالگی تفیتش ہونے کے بعد ممکن ہوگی آئینی بنچ
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال خان نے ریمارکس دئیے کہ لگتا ہے انسداد دہشت گردی عدالتوں کے ججز کی انگریزی کے کافی مسائل ہیں، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت حوالگی تفتیش مکمل ہونے کے بعد ہی ممکن ہے۔ سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کمانڈنگ افسرز نے ملزموں کی حوالگی کیلئے درخواستیں دیں،درخواستوں کا آغاز ہی ان الفاظ سے ہوا کہ ابتدائی تفتیش میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا جرم بنتا ہے، درخواست کے یہ الفاظ اعتراف ہیں کہ تفتیش مکمل نہیں ہوئی تھی، انسداد دہشتگردی عدالت نے ملزموں کی حوالگی کیلئے جو وجوہات دیں وہ مضحکہ خیز ہیں۔ انسداد دہشتگردی عدالت کے ایڈمنسٹریٹو جج نے ملزموں کی حوالگی کے احکامات دئیے، انسداد دہشتگردی عدالت نے ملزموں کو تفتیش مکمل ہونے سے پہلے ہی قصوروار لکھ دیا۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ راولپنڈی اور لاہور کی عدالتوں کے حکم ناموں کے الفاظ بالکل ایک جیسے ہیں، جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ میرے حساب سے تو 59(4) کا اطلاق بھی ان پر ہی ہوتا ہے جو آرمی ایکٹ کے تابع ہوں، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت حوالگی تفتیش مکمل ہونے کے بعد ہی ممکن ہوگی۔فیصل صدیقی نے کہا کہ جن مقدمات میں حوالگی کی درخواستیں دی گئیں ان میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات عائد نہیں تھیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایک ایف آئی آر میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات بھی عائد تھیں، فیصل صدیقی نے کہا کہ وہ ایف آئی آر مجھے ریکارڈ میں نظر نہیں آئی۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ حوالگی والی ایف آئی آر پڑھیں اس میں الزام فوجی تنصیب کے باہر توڑ پھوڑ کا ہے۔ فیصل صدیقی کی جانب سے احمد فراز کیس میں عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا گیا اور کہا کہ احمد فراز پر الزام تھا کہ شاعری کے ذریعے آرمی افسر کو اکسایا گیا، احمد فراز اور فیض احمد فیض کے ڈاکٹر میرے والد تھے۔ فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ مجھ پر بھی اکسانے کا الزام لگا لیکن میں گرفتار نہیں ہوا، جسٹس جمال مندوخیل نے ہلکے پھلکے انداز میں جواب دیا کہ آپ کو اب گرفتار کروا دیتے ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دئیے کہ احمد فراز کی کونسی نظم پر کیس بنا تھا مجھے تو ساری یاد ہیں، فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ ججز کے ہوتے ہوئے، مجھے کوئی کچھ نہیں کہ سکتا۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ بطور وکیل کیس ہارنے کے بعد میں بار میں بہت شور کرتی تھی، میں کہتی تھی ججز نے ٹرک ڈرائیورز کی طرح اشارہ کہیں اور کا لگایا اور گئے کہیں اور۔جسٹس مسرت ہلالی نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ میری بات کو گہرائی میں سمجھنے کی کوشش کریں، جسٹس حسن اظہر رضوی نے جسٹس مسرت ہلالی سے مکالمہ کیا کہ کیا آپ بھی ٹرک چلاتی ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے جواب دیا کہ ٹرک تو میں چلا سکتی ہوں، میرے والد ایک فریڈم فائٹر تھے، ان کی ساری عمر جیلوں میں ہی گزری۔ان کا کہنا تھا کہ میرے والد جو شاعری کرتے تھے وہ انکی وفات کے بعد ایک پشتون جرگہ میں کسی نے پڑھی، جرگے میں میرے والد کی شاعری پڑھنے والا گرفتار ہوگیا۔شاعری پڑھنے والے نے بتایا کہ کس کا کلام ہے اور اس کی بیٹی آج کون ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میرے والد کی شاعری پڑھنے والے کو بہت مشکل سے رہائی ملی، جسٹس جمال نے کہا کہ وقت کے حساب سے شاعری اچھی بری لگتی رہتی ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دئیے کہ اب تو چرسی تکہ والے کو بھی اصلی چرسی تکہ لکھنا پڑتا ہے۔فیصل صدیقی نے کہا کہ مجھے آپ تمام ججز سے اچھے کی امید ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھنے والے ہیں۔جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ہلکے پھلکے انداز میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، شاعر احمد فراز نے تو عدالت میں یہ کہہ دیا تھا کہ یہ نظم میری ہے ہی نہیں، جسٹس افضل ظْلہ نے احمد فراز سے کہا آپ کوئی ایسی نظم لکھ دیں جس سے فوجی کے جذبات کی ترجمانی ہو جائے۔ جج آئینی بنچ نے ریمارکس دئیے کہ احمد فراز نے اپنے دفاع میں کہا تھا کہ میرے پاس تو وسائل ہی نہیں کہ اپنی نظم کی تشہیر کر سکوں، آج کل تو سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، اس دور میں اگر احمد فراز ہوتے تو وہ یہ دفاع نہیں لے سکتے تھے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: فیصل صدیقی نے کہا کہ جسٹس مسرت ہلالی نے نے ریمارکس دئیے کہ تفتیش مکمل جسٹس جمال میرے والد ایکٹ کے کہ میرے تھا کہ ا فیشل کے بعد
پڑھیں:
آئینی بینچ میں مزید دو ججز شامل کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں مزید دو ججز شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے لیے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب کرلیا۔
نجی ٹی وی کے مطابق جمعہ 18 اپریل کو چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن اجلاس دو بجے ہوگا۔
اجلاس میں مستقل چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ اور چیف جسٹس بلوچستان کیلئے ججز کے ناموں پر غور ہوگا۔