اسلام آباد(خبرنگار)پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی(پلڈاٹ)نے 16ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کی کارکردگی کی سالانہ جائزہ رپورٹ میں اس بتایا ہے کہ موجودہ اسمبلی کے کام کا دورانیہ کام کے اوقات اور ایام کے حوالے سے گزشتہ اسمبلی کے مقابلے میں کم رہا حالانکہ ان ایام اور اوقات میں اہم قانون سازی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا جس میں سے زیادہ تر قوانین اور قانون سازی کے عمل کو بغیر کسی جانچ پڑتال اور غور و خوض کے منظور کیا گیا تھا موجودہ اسمبلی کا 29 فروری 2024 کو افتتاحی اجلاس منعقد ہوا اور پہلے پارلیمانی سال کی مدت 28 فروری 2025 کو ختم ہو رہا ہے16ویں قومی اسمبلی کے 93 اجلاس منعقد ہوئے اور موجودہ اسمبلی نے 212 گھنٹے کام کیا جبکہ اس کے مقابلے میں 15ویں قومی اسمبلی کے پہلے پارلیمانی سال کے دوران 96 اجلاس منعقد اور گذشتہ اسمبلی نے 297 گھنٹے کام کیا جو کہ ایک ریکارڈ ہے جبکہ موجودہ اسمبلی کی کارکردگی گذشتہ اسمبلی کے مقابلے میں واضح حد تک کم ہے۔ واضح رہے کہ سولہویں قومی اسمبلی کے پہلے سال میں ایک گھنٹے کام کرنے کی لاگت تقریبا 60.

08 ملین روپے فی گھنٹہ آتی ہے جبکہ اس کے پہلے سال میں 16ویں قومی اسمبلی کے اجلاس پر اوسطا" 136.96 ملین روپے لاگت آئی تاہم 16 ویں قومی اسمبلی کی کارکردگی قانون سازی کے حوالے سے نمایاں طور پر گذشتہ اسمبلی سے بہتر رہی۔ اس کے پہلے سال میں 47 بل منظور کیے گئے جبکہ 15 ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کے دوران منظور کیے گئے بلوں کی تعداد صرف 10 ہے جو کہ گذشتہ اسمبلی کے مقابلے میں 370 فیصد زیادہ ہے۔ اس تیز تر قانون سازی کی سرگرمیوں میں اہم قوانین اور 26ویں آئینی ترمیم شامل ہے، جن میں سے زیادہ تر کو اسمبلی کی طرف سے مناسب وقت اور جانچ پڑتال کے بغیر فوری طور پر منظور کیا گیا۔ مزید برآں، متعدد قوانین بشمول 9 انتہائی اہم قوانین کو ممبران اسمبلی کی جانب سے نظرثانی کی پرواہ کیے بغیر اور متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھیجے بغیر منظوری کے لیے جلد بازی کی گئی ممبران اسمبلی کی حاضری بھی 16ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال میں اوسطا 66 فیصد تک کم ہو گئی ہے جو 15ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال میں 73 فیصد تھی۔ واضح رہے کہ 16ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کے دوران ٹیکس دہندگان کے لیے فی ممبر قومی اسمبلی پر 37.9 ملین روپے لاگت آئی۔ پلڈاٹ اس بات کی تگ و دو کر رہا ہے کہ ممبران اسمبلی کی حاضری ریکارڈ کرنے کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ نظام 5 منٹ تک اجلاس میں شریک ہونے والے ممبر اور 5 گھنٹے تک موجود دوسرے ممبر میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ حاضری کے نظام کے ساتھ ایک اور مسئلہ کورم کی نشاندہی اور کورم کی کمی کی وجہ سے ملتوی ہونے والی نشستوں کی تعداد سے ظاہر ہوتا ہے حالانکہ ان نشستوں میں موجود ممبران اسمبلی کی تعداد مطلوبہ کورم سے کہیں زیادہ ہے16ویں قومی اسمبلی نے ایجنڈا آئٹمز کی منصوبہ بندی اور نمٹانے کے معاملے میں نسبتا کمزور کارکردگی دکھائی ہے، اس کے پہلے سال کے دوران طے شدہ ایجنڈا آئٹمز کا 49.18 فیصد باقی رہ گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ مقرر کردہ کارروائی کا اہم حصہ قومی اسمبلی میں نامکمل ہے16ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کے دوران، وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کل 93 اجلاسوں میں سے صرف 17اجلاسوں میں شرکت کی یا کل اجلاسوں کے صرف 18 فیصد میں شامل ہوئے جو کہ انتہائی افسوسناک ہے اور وزیر اعظم کی حاضری کا یہ کمزور ریکارڈ افسوسناک طور پر سابق وزیر اعظم عمران خان کی حاضری سے مطابقت رکھتا ہے جنہوں نے 15 ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال میں 96 میں سے صرف 18 یا 19 فیصد اجلاسوں میں شرکت کی تھی جبکہ ان کے پیشرو وزیر اعظم نواز شریف نے 14ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کے 103 میں سے صرف سات اجلاسوں میں شرکت کی تھی ان کے مقابلے میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے سال میں 62 اجلاسوں میں شرکت کی جو کہ گزشتہ اسمبلی کے پہلے سال میں قائد حزب اختلاف محمد شہباز شریف نے 53 اجلاسوں میں اپنی حاضری یقینی بنائی تھی۔ عمر ایوب خان نے 16 ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کے دوران 13 گھنٹے اور 28 منٹ کے ریکارڈ شدہ ٹاک ٹائم کے ساتھ سب سے زیادہ بولنے والے ممبر اسمبلی بھی ہیں16ویں قومی اسمبلی نے بھی قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل سے متعلق اپنے اصول کو نظرانداز کیا اور اس کی خلاف ورزی کی۔ قومی اسمبلی میں قواعد و ضوابط اور طرز عمل کا قاعدہ 200 یہ حکم دیتا ہے کہ محکمہ جاتی قائمہ کمیٹیوں کے ارکان کا انتخاب اسمبلی کے ذریعہ قائد ایوان کے انتخاب کے بعد تیس دنوں کے اندر کیا جانا چاہیے، جس نے ایسا کرنے کی آخری تاریخ 3 اپریل 2024 کو مقرر کی تھی۔ تاہم 17 مئی 2024 تک کمیٹیوں کو فعال نہیں کیا گیا اور کمیٹیوں کے چیئرمینوں کے انتخاب میں مزید تاخیر ہوئی

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: اجلاسوں میں شرکت کی ممبران اسمبلی کی موجودہ اسمبلی کے مقابلے میں گذشتہ اسمبلی اسمبلی نے کی حاضری

پڑھیں:

ارکان پنجاب اسمبلی کی نون لیگی حکومت کے خلاف صدر زرداری کو شکایتیں

 

بیورو کریسی ہماری بات نہیں سنتی، ایک ایڈیشنل سیکریٹری دیا گیا ہے جس کی کوئی سنتا ہی نہیں، اسسٹنٹ کمشنر بھی ایڈیشنل سیکریٹری کی بات نہیں سنتا،اربوں کا بجٹ لاہور پر لگا دیا، باقی پنجاب نظرانداز کر دیا گیا

آپ سب کے تحفظات جائز ہیں، ہم ان کو جلد حل کروائیں گے ، ، بلاول اور میں خود پنجاب میں بیٹھیں گے ،گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کی کارکردگی متاثر کن ہے، صدر زرداری کی پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی سے گفتگو

صدر آصف زرداری کی لاہور میں اراکین پنجاب اسمبلی سے ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔ارکان اسمبلی نے صدر کو بتایا کہ بیورو کریسی ہماری بات نہیں سنتی، ایک ایڈیشنل سیکریٹری دیا گیا ہے جس کی کوئی سنتا ہی نہیں، متعلقہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر تو کیا، اسسٹنٹ کمشنر بھی ایڈیشنل سیکریٹری کی بات نہیں سنتا۔ صدر زرداری نے کہا کہ بلدیاتی الیکشن کی تیاری کریں، ہمیں بھرپور کامیابی حاصل کرنا ہوگی، پنجاب میں بلدیاتی الیکشن میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے ۔انھوں نے کہا کہ بلدیاتی الیکشن کا ہونا بہت ضروری ہے عوامی مسائل کاحل بلدیاتی الیکشن ہے ۔ صدر آصف زرداری نے مزید کہا کہ ہم عوامی لوگ ہیں اور ہمیں عوام کی جنگ لڑنی ہے ۔صدر آصف زرداری نے اس موقع پر سوال کیا کہ جنوبی پنجاب میں بجلی اور گیس کی قلت کہاں پر ہے ؟ انھوں نے کہا پانی کا بہت بڑا مسئلہ ہے ، سندھ اور بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہو رہے ۔ارکان اسمبلی نے صدر کو بتایا کہ مسلم لیگ ن کے کام فوری ہوتے ہیں، انہیں تبادلوں سمیت ہر کام کے فوری آرڈر دیے جاتے ہیں۔ارکان اسمبلی نے شکایت کی کہ اربوں کا بجٹ لاہور پر لگا دیا، باقی پنجاب ایک طرف ہے ، یہ کونسا میرٹ ہے ؟ ماضی کی طرح ایک ضلع کو پروموٹ کیا جا رہا ہے ، باقی اضلاع میں احساس محرومی ہے ۔پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی کے ذرائع نے بتایا کہ صرف لاہور کے عوام کے لئے اربوں روپے لگا کر ہارس اینڈ کیٹل شو کا انعقاد کیا گیا، پنجاب میں کسانوں کا کوئی پرسان حال نہیں، ہر جگہ کسان پس رہا ہے ۔ارکان کا کہنا تھا کہ ہم جیت کر ایوان میں آئے لیکن ہمارے کام نہیں ہوتے ۔ ہمارے ہی حلقے میں ن لیگ کے لوگوں کے کام ہو رہے ہیں۔ذرائع نے صدر آصف زرداری کے حوالے سے بتایا کہ انھوں نے کہا آپ سب کے تحفظات جائز ہیں، ہم ان کو جلد حل کروائیں گے ، ہم نے ہمیشہ ملک وعوام کی جنگ لڑی ہے ۔صدر نے کہا کہ ہمیں پانی کے مسئلے کو سنجیدہ لینا ہوگا، ہر فورم پر اس کی نشاندہی کرچکا ہوں، بلاول اور میں خود پنجاب میں بیٹھیں گے ۔انھوں نے کہا کہ گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کی کارکردگی متاثر کن ہے ، وہ بہترین کام کر رہے ہیں، سلیم حیدر کا کام غلطی کی نشاندہی اور ایکشن لینا ہے ۔صدر آصف زرداری نے کہا کہ کسانوں کے ساتھ کھڑے ہیں، انہیں سہولیات فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرینگے ۔

متعلقہ مضامین

  • 16ویں قومی اسمبلی کی سالانہ جائزہ رپورٹ، بحث کم، قانون سازی تیز ترین
  • ترانوے اجلاس، 212 گھنٹے کام، قومی اسمبلی کے پہلے سال کی کارکردگی رپورٹ جاری
  • وفاقی کابینہ میں توسیع،پہلے مرحلے میں 13وفاقی وزراءاور11وزرائے مملکت نے حلف اٹھالیا
  • اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا پارلیمانی وفد کے ہمراہ ہنگری کی قومی اسمبلی کا دورہ،وزیر اعظم کو دورہ پاکستان کی دعوت
  • قومی اسمبلی کا پہلا سال، پلڈاٹ نے کارکردگی رپورٹ جاری کردی
  • 16ویں قومی اسمبلی کا پہلا پارلیمانی سال مکمل، 47 قوانین، 26 قرادادیں منظور ہوئیں
  • ارکان پنجاب اسمبلی کی نون لیگی حکومت کے خلاف صدر زرداری کو شکایتیں
  • 16ویں قومی اسمبلی کا پہلا پارلیمانی سال مکمل، 26ویں ترمیم سمیت 47قوانین منظور
  • اتحادی حکومت کے ساتھ چلنا مجبوری ہے، معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، صدر زرداری