کیا بنگلہ دیش کی ’تحریک انصاف‘ کامیاب ہو پائے گی؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
پچھلے سال اگست کے پہلے ہفتے میں بنگلہ دیش کی طاقتور سول ڈکٹیٹر خاتون رہنما شیخ حسینہ واجد فرار ہو کر بھارت چلی گئی تھیں، تب سے بنگلہ دیش کے کا سیاسی منظر یوں الٹ پلٹ ہوا ہے کہ یقین نہیں آتا۔ حسینہ واجد حکومت کے خاتمے سے صرف 2 مہینے پہلے تک کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ 15 سال سے بنگلہ دیش پر حکمران شیخ حسینہ یکایک کسی بوسیدہ ناکارہ درخت کی طرح اکھاڑ پھینک دی جائیں گی۔
ایسا مگر ہوا اور بنگلہ دیش کے عوام نے حیران کن عزیمت اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جانوں ک قربانیاں دیں اور ایسا زبردست احتجاج کیا کہ حسینہ واجد کی حکومت اپنے تمام تر ظلم، سفاکی اور سنگدلانہ جرائم کے باوجود کسی تنکے کی طرح اس طوفان میں بہتی چلی گئیں۔
آج یہ پوزیشن ہے کہ پچھلے 7 ماہ میں ملک سے عوامی لیگ اور حسینہ واجد خاندان کے تمام نقوش مٹانے کی کوشش جاری ہیں۔ ان کےوالد شیخ مجیب الرحمان کے مجسمے تو فوری طور پر پاش پاش کر دیے گئے۔ حسینہ واجد نے شیخ مجیب کو بنگلہ دیش کے بانی کے طور پر پیش کیا تھا، عوامی نفرت اس قدر بڑھ گئی کہ اسی مجیب الرحمان کے آبائی گھر کو بھی نذر آتش کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: خرابی کی جڑ آخر کہاں ہے؟
عوامی لیگ کے بیشتر رہنما چھپ چھپا کر جنگلوں میں سفر کر کے بھارت چلے گئے، جو بچے کھچے ملک میں ہیں، وہ خاموشی سے سر چھپائے حالات سازگار ہونے کا انتظآر کر رہے ہیں۔ حسینہ واجد حکومت نے جو جرائم کیے، ہزاروں کو جیلوں میں پھینکا، نہتے مظاہرین پر گولیاں چلائیں، ان کیسز کے مقدمات عوامی لیگ رہنماؤں پر عائد ہیں۔ عوامی لیگ پر پابندی لگ چکی ہے اور حکومتی وزرا اعلانات کر رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں عوامی لیگ حصہ نہیں لے سکے گی۔
اس وقت بنگلہ دیش میں ایک غیر جانبدار نگران حکومت ہے جس کی سربراہی نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات اور چھوٹے قرضے دینے کے حوالے سے مشہورگرامین بنک کے سربراہ ڈاکٹر یونس کر رہے ہیں۔ ان کی کابینہ میں البتہ 2 طلبہ رہنما بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ حسینہ واجد کے خلاف احتجاجی تحریک دراصل یونیورسٹی، کالج کے طلبہ نے چلائی تھی، نوجوانوں نے اسے لیڈ کیا تھا، تاہم بعد میں دیگر عوامی حلقے بھی شامل ہوئے۔ اسی وجہ سے نوجوان طلبہ اپنے آپ کو اس تبدیلی کا کسٹوڈین سمجھتے ہیں۔
طلبہ کی نئی سیاسی جماعتانہی طلبہ اور نوجوانوں نے باقاعدہ سیاسی جماعت بنا لی ہے۔ نئی جماعت گناتنترک چھاترا سنگساد (جمہوری طلبہ کونسل) میں وہی طلبہ سرفہرست ہیں جنہوں نے عوامی احتجاجی تحریک چلائی تھی۔ مشہور طلبہ رہنما ناہید رانا جو حکومت میں مشیر بن گئے تھے، وہ مستعفی ہو کر اس جماعت کی قیادت کر سکتے ہیں، تاہم جیسا کہ اس طرح کے معاملات میں ہوتا ہے، نئی جماعت کی تشکیل سے پہلے ہی کچھ اختلافات بھی نظر آئے، بعض طلبہ رہنما الگ ہوگئے اور شاید وہ الگ سے کوئی دھڑا بنائیں۔ تاہم یہ طلبہ جماعت اس لیے اہم اور قابل ذکر ہے کہ اس کا ایجنڈا عوامی ہے اور ان سے خاصی توقعات بھی وابستہ ہیں۔
بنگلہ دیش کی روایتی سیاستبنگلہ دیش میں روایتی طور پر 2 سیاسی جماعتیں بڑی اور طاقتور رہی ہیں۔ شیخ مجیب الرحمان مرحوم کی جماعت عوامی لیگ جس کی قیادت پچھلے 30 برسوں سے ان کی بیٹی حسینہ واجد کر رہی ہیں۔ حسینہ واجد پچھلے 15 برس مسلسل وزیراعظم رہیں، تاہم وہ 90 کے عشرے میں بھی وزیراعظم رہ چکی ہیں۔ دوسری بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی یعنی بی این پی ہے جس کی سربراہ بیگم خالدہ ضیا ہیں۔ ان کے خاوند جنرل ضیا الرحمان بھی ملک کے سربراہ رہ چکے ہیں، ان کے قتل کے بعد خالدہ ضیا سیاست میں آئیں۔ خالدہ ضیا 2 مرتبہ وزیراعظم بن چکی ہیں۔ حسینہ واجد کی حکومت میں انہیں کرپشن پر سزا سنائی گئی تھی اور وہ بیماری کے باوجود 6 سال سے اسیر تھیں۔
مزید پڑھیے: احمد جاوید کا متنازع انٹرویو اور اس کا تجزیہ
ان دونوں جماعتوں کو آپ پاکستان کی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سمجھ لیں۔ یعنی جو منظر نامہ ہمارے ہاں سنہ 2008 یا سنہ 2010 میں تھا۔ سابق فوجی آمر جنرل ارشاد کی پارٹی کی صورت میں ایک چھوٹا ناقابل ذکر گروپ بھی ہے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی بھی اپنا ایک خاص ووٹ بینک رکھتی ہے اور ماضی میں وہ پارلیمنٹ کی کچھ نشستیں جیتتی رہی ہے۔
جماعت اسلامی خالدہ ضیا کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بھی بنا چکی ہے۔ تاہم پچھلے چند برسوں سے جماعت اسلامی کو حسینہ واجد حکومت نے سخت جبر کا نشانہ بنا رکھا تھا، جماعت پر پابندی عائد ہے، اس کے بہت سے کارکن اور رہنما اسیر تھے جبکہ کئی رہنماؤں کو غیر شفاف ٹرائل کے ذریعے پھانسی کی سزائیں بھی دی گئیں۔
سیاست میں موجود خلابنگلہ دیشی طلبہ کو اپنے ملک کے سیاسی منظر نامے میں خلا اور ایک نئی جماعت کی گنجائش محسوس ہو رہی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ ایک گروپ پرو انڈیا عوامی لیگ کا ہے جسے اقلیتی ہندو آبادی کی حمایت بھی حاصل ہے، جبکہ عوامی لیگ نے سرکاری ملازمتوں میں 50 فیصد کوٹے کے ذریعے جو اپنے لوگ نوازے تھے، وہ بھی ان کے ہمدرد ہیں۔ دوسرا بڑا گروپ خالدہ ضیا کی پارٹی بی این پی کا ہے۔ اسے اینٹی انڈیا اور پرو پاکستان سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت توقع ہے کہ اگر الیکشن جلد ہوگئے تو بی این پی بڑی اکثریت سے جیت جائے گی، کیونکہ عوامی لیگ تو عملی طور پر میدان میں موجود ہی نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ خالدہ ضیا ضعیف اور علیل ہیں۔ وہ وہیل چیئر پر ہیں اور انہیں دیگر طبی عوارض کے ساتھ جگر کے سکڑنے کا مرض بھی لاحق ہے۔ حسینہ واجد حکومت ختم ہوتے ہی وہ علاج کے لیے لندن چلی گئی تھیں، 2 دن قبل انہوں نے وہاں سے آن لائن بنگلہ دیش میں اپنے حامیوں سے خطاب کیا ہے اور ڈاکٹر یونس سے مطالبہ کیا کہ وہ بنیادی ریفارمز تک محدود رہیں اور جلد الیکشن کرادیں۔ کہا جارہا ہے کہ پارٹی عملی طور پر خالدہ ضیا کے بیٹے طارق رحمان چلا رہے ہیں، تاہم ان پر کرپشن کے خاصے الزامات ہیں۔ ویسے الزامات جو ایک زمانے میں ہمارے ہاں مسٹر پرسینٹ کے نام سے عائد کیے گئے تھے۔
تبدیلی لانے اور نظام بدلنے کے خواہاں نوجوانبنگلہ دیش نوجوانوں نے اپنی نئی جماعت اسی ایجنڈے اور نعرے کے تحت بنائی ہے۔ ان کے بنیادی تصورات کچھ یوں ہیں:
ہم مساوات، انصاف اور گڈ گورننس کی بات کر رہے ہیں۔
ہم دائیں طرف نہیں جھکیں گے اور نہ ہی بائیں جانب۔ ہم ایک اعتدال پسند جماعت بنیں گے۔
ہم بنگلہ دیش کے معاملے پر متحد رہنا چاہتے ہیں۔ ہم اسلاموفوبیا یا بنیاد پرست اسلامی یا بنیاد پرست ہندوتوا کی سیاست میں نہیں پڑنا چاہتے۔
اپنے ان نعروں کے باوجود یہ بہرحال حقیقت ہے کہ یہ طلبہ بنگالی نیشنسلٹ نہیں بلکہ بنگلہ دیشی نیشنسلٹ ہیں۔ یہ وہ باریک فرق ہے جو بنگلہ دیشی سیاست میں اہم ہے۔ بنگالی نیشنسلٹ پرو انڈیا ہیں جبکہ بنگلہ دیشی نیشنسلٹ اپنے ملک کے مفادات پہلے رکھنے اور بھارتی تسلط سے مزاحمت کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ ان طلبہ کے ساتھ اسلامی نقطہ نظر رکھنے والے بھی شامل ہیں اور سیکولر بھی، یہ تو ہندو اقلیت کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔
تحریک انصاف پاکستان کی پیرویمختلف اطلاعات کے مطابق بنگلہ دیشی طلبہ نے پچھلے چند ماہ میں بڑی غور اور عرق ریزی کے ساتھ 2،3 مختلف ماڈلز اسٹڈی کیے۔ ترکیہ میں صدر طیب اردوان کے تجربے کو انہوں نے اسٹڈی کیا، اس تجربے پر لکھی کتابیں بھی منگوائی گئیں۔ طیب اردوان نے جس طرح ترکیہ میں اپنی جگہ بنائی، فوج کو بھی پیچھے دھکیلا اور روایتی جماعتوں کو شکست دے کر 25 برسوں سے وہ اقتدار میں ہیں، یہ بات ان کے لیے دلچسپی کی حامل ہے۔
مزید پڑھیں: کیا صدر ٹرمپ امریکا کو تنہا اور کمزور بنا رہے ہیں؟
دوسرا ماڈل بھارت میں عام آدمی پارٹی کی کامیابی کا ہے۔ اروند کیجروال نے بھی کرپشن کے خلاف نعرہ لگایا اور ریفارمز کے ایجنڈے پرکامیابی حاصل کی،تاہم یہ محدود تھی، دہلی کی صوبائی اسمبلی اور پھر پنجاب کی صوبائی اسمبلی تک۔
تیسرا ماڈل جس میں بنگلہ دیشی طلبہ کی نئی جماعت کی سب سے زیادہ دلچسپی ہے، وہ تحریک انصآف کا ماڈل ہے۔ وہ عمران خان کی سیاست کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں اور بیرون ملک موجود انصافی کارکنوں سے بھی ان نوجوانوں کا رابطہ ہوا۔
بنگالی نوجوان اس بات سے متاثر ہیں کہ عمران خان نے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے پرانے ، روایتی سیاسی بیانیہ کو اپنے نئے اور پرکشش بیانیے سے اڑا کر رکھ دیا۔ جس طرح سوشل میڈیا کو استعمال کیا گیا، جیسے نوجوانوں کے دلوں میں گھر کیا گیا اور پھر خواتین اور بڑی عمر کے ووٹروں میں بھی اپنی جگہ بنائی گئی، یہ سب بنگلہ دیشی نئی جماعت کے لیے بہت ترغیب آمیز اور پرکشش ہے۔
مستقبل میں کیا ہوگا؟یہ کہنا ابھی قبل ازوقت ہے ۔ اس وقت یا اگلے 4،5 ماہ میں الیکشن ہوجائیں تو خالدہ ضیا کی جماعت آسانی سے جیت جائے گی، اگر نوجوانوں کی نئی جماعت کو ایک سال مل گیا اور اس دوران ڈاکٹر یونس کی حکومت کچھ اچھے نتائج دے پائی، عوامی مشکلات میں کمی آئی تو پھر ان نوجوانوں کو بھی الیکشن میں فائدہ ہوسکتا ہے۔
دراصل ان نوجوانوں کو ایک مقبول اور کراؤڈ پُلر لیڈر کی ضرورت ہے۔ بنگلہ دیشی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ایک تجزیہ کار سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیشی طلبہ کو عمران خان جیسے کرشماتی لیڈر کی ضرورت ہے۔ اگر انہیں ویسا کوئی لیڈر مل جائے تو وہ بھی کرشمہ دکھا سکتے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر ڈاکٹر یونس بھی اس پارٹی کی قیادت سنبھال لیں تو اسے فائدہ ہوسکتا ہے، ڈاکٹر یونس ضعیف العمر ہیں اور شاید وہ زیادہ ایکٹو سیاست کرنے کے موڈ میں نہیں۔ البتہ اگر نوجوانوں کو عوامی پذیرائی ملی تو ممکن ہے ڈاکٹر یونس ایسا کرنے کا سوچیں، البتہ پھر انہیں نگران حکومت چھوڑنا پڑے گی۔
یہ بھی پڑھیے: آخر تحریک انصاف کو کون سی امید سہارا دیے ہوئے ہے؟
ویسے ایک دلچسپ حل ایک ایسے تجزیہ کار نے پیش کیا جو بنگلہ دیش کئی بار جا چکے ہیں اور وہاں کی سیاست اور معروضی حقائق کو سمججھتے ہیں، ازراہ تفنن انہوں نے کہا کہ ’اگر قیدی نمبر 804 کو حکومت بنگلہ دیش بھجوا دے تو ان طلبہ کی مشکل آسان ہوسکتی ہے۔ ہمارے مقتدر حلقے ویسے بھی خان سے بیزار اور نالاں ہیں، ان کی بھی جان چھوٹ جائے گی اور خان اگر بنگالی نوجوانوں کی قیادت سنبھال لے تو یقینی طور پر وہ بڑی اکثریت سے جیت جائیں گی۔ یوں ہمارے سابق مشرقی پاکستان والوں کا بھی بھلا ہوجائے گا‘۔
ظاہر ہے یہ تو نہیں ہو پائے گا۔ دیکھنا البتہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں ’تحریک انصاف‘ ماڈل بنانے کا نیا تجربہ کس قدر کامیاب رہے گا؟ یہ نوجوان الیکشن جیت کر اقتدار میں آ پائیں گے یا پھر انہیں بھی روک دیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
بنگلہ دیش اور عمران خان بنگلہ دیش کو عمران خان کی تلاش بنگلہ دیش کی تحریک انصاف بنگلہ دیش کے طلبا بنگلہ دیشی قوم پرست پاکستان تحریک انصاف.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بنگلہ دیش اور عمران خان بنگلہ دیش کے طلبا بنگلہ دیشی قوم پرست پاکستان تحریک انصاف حسینہ واجد حکومت بنگلہ دیشی طلبہ بنگلہ دیش میں بنگلہ دیش کی بنگلہ دیش کے تحریک انصاف سیاسی جماعت ڈاکٹر یونس کر رہے ہیں خالدہ ضیا عوامی لیگ سیاست میں جماعت کی کی قیادت ہیں اور کے ساتھ ہے اور کے لیے کو بھی
پڑھیں:
عمران خان نے چیئر مین پی سی بی محسن نقوی سے استعفے کا مطالبہ کردیا، فیصل چوہدری
راولپنڈی(ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان تحریک انصاف کے بانی کے وکیل فیصل چودھری نے کہا کہ ان کی بانی تحریک انصاف سے صرف 10 منٹ کی مختصر ملاقات ہوئی ہے ملاقات کے دوران بانی پی ٹی آئی نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔راولپنڈی میں اڈیالہ جیل کے باہر بانی پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی) کےوکیل فیصل چودھری نےمیڈیاسےگفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ محسن نقوی کی سربراہی میں پاکستان کرکٹ کو تباہ کر دیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ٹیم عالمی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر نہیں آ سکی۔
شیر افضل مروت کی پی ٹی آئی میں واپسی ممکن ہے یا نہیں؟ سلمان اکرم راجہ کا بڑا بیان آگیا
بانی تحریک انصاف کے وکیل فیصل چودھری کا مزیدکہنا تھا کہ جیل میں صحت سے متعلق خبروں پر بھی بانی پی ٹی آئی نے وضاحت دی اور ایسی کسی بھی قیاس آرائی کو مسترد کر دیا ہے وکالت نامے سات دن پہلے جمع کروا دیے گئے تھے لیکن تاحال ان پر دستخط نہیں کیے جا رہےانتظار کے باوجود ابھی بھی وکالت دستخط نہیں کیے گئے،رجسٹرار جوڈیشل آئیں گے تو وہ دستخط کریں گے۔
مزید :