کیا ماسٹر تارا سنگھ کے خاندان کو مسلمانوں نے قتل کیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
ماسٹر تارا سنگھ تقسیم برصغیر کے وقت پنجاب میں سکھوں کے ایک سرکردہ رہنما تھے۔جب مسلمانوں کی طرف سے پاکستان کے مطالبے نے بہت زور پکڑا تو پنجاب کے کچھ سکھ رہنمائوں نے ہندو رہنمائوںسے مل کر پاکستان کی مخالفت شروع کر دی۔ماسٹر تارا سنگھ 1947کی پنجاب قانون ساز اسمبلی کے ایک ممبر اور بہت با اثر سکھ رہنما تھے۔ماسٹر تارا سنگھ ،راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان میں مندرہ کے قریب ایک گائوں ہریال میں ملہوترہ کھتری خاندان میں پیدا ہوئے۔
انھوں نے خالصہ کالج لائل پور)فیصل آباد(سے گریجویشن کی اور تعلیم و تدریس کے شعبے سے منسلک ہو گئے۔ان کے نام کے ساتھ ماسٹر کا لفظ اسی حوالے سے لگا ہوا ہے کیونکہ وہ معلمی کا پیشہ اختیار کر چکے تھے۔ماسٹر تارا سنگھ بعد میں سیاست میں آ گئے اور اس میدان میں اپنی شعلہ بیانی کے سبب بہت کامیابی حاصل کی۔خیال کیا جاتا ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے انھیں مسلم لیگ کی سیاست اور پاکستان کے مطالبے کے خلاف استعمال کیا۔قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کم از کم تین مرتبہ سکھ رہنمائوں سے ملاقات کر کے انھیں پاکستان کے اندر بہت کچھ دینے کی پیش کش کی لیکن مہاراجہ پٹیالہ اور ماسٹر تارا سنگھ نے قائدِ اعظم کی پیش کش کو کوئی اہمیت نہ دی۔تقسیمِ برصغیر کے بعد پنڈت نہرو نے سکھ رہنمائوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کا کوئی پاس نہیں کیا۔
اس طرح ہندوستان کے اندر سکھوں کو اپنی مرضی کے مطابق سکھ ریاست نہ ملی اور وہ پاکستان کے اندر ملنے والے ان گنت اختیارات و چودھراہٹ سے بھی محروم رہے۔ماسٹر تارا سنگھ کی سیاست کی وجہ سے سکھ خالی ہاتھ رہے۔اس سیاست سے سکھوں کو بہت نقصان ہوا،پنجاب دو ٹکڑے ہو کر برباد ہوا،پنجاب کی بہت بڑی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوئی،بڑا قتلِ عام ہوا اور پاکستان کو پورا پنجاب نہ ملا۔
ایک تاثر یہ بھی ہے کہ چونکہ ماسٹر تارا سنگھ کے پورے خاندان کو ضلع راولپنڈی کے مسلمانوں نے تہہ تیغ کر دیا تھا اس لیے ماسٹر تارا سنگھ کے دل میں مسلمانوں کے خلاف آگ لگی ہوئی تھی۔وہ اسی لیے قیامِ پاکستان کے خلاف انتہائی سرگرمِ عمل تھے۔شاید اسی لیے ماسٹر صاحب نے پاکستان کے خلاف نعرہ بھی لگایا۔اب تک جو شواہد سامنے آئے ہیں ان کے مطابق یہ صحیح ہے کہ 3مارچ1947کو ماسٹر تارا سنگھ چند ساتھی سکھ ممبرانِ اسمبلی کے ہمراہ پنجاب اسمبلی سے باہر آئے ،سیڑھیوں پرپورے زور سے پاکستان کے خلاف نعرہ لگایا اور کرپان لہرائی۔ یہ تاثر عام ہے کہ ماسٹر تارا سنگھ کی اس بے جا جارحیت کی وجہ سے ان کے گائوں سے ملحقہ بستی کے مسلمانوں نے ان کے سارے خاندان کو مار ڈالا۔ مرنے والوں میں ان کی والدہ اور بڑے بھائی بخشی سنت سنگھ بھی شامل تھے۔آج تک یہ وجہ بتا کر کہا جاتا ہے کہ خاندان کے اسی قتلِ عام کی وجہ سے ماسٹر تارا سنگھ ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف اور پاکستان کے دشمن رہے۔
مشہور تاریخ دان جناب ڈاکٹر اشتیاق حسین نے کچھ دن پہلے امریکا میں سکھوں کی ایک بیٹھک سے خطاب کیا۔سکھوں کے ساتھ ہونے والے اس خطاب کے دوران چند افراد نے ان سے معلوم کیا کہ تقسیمِ برصغیر کے وقت ماسٹر تارا سنگھ کے خاندان کے ساتھ کیا ہوا،کیا ان کے خاندان کے سبھی افراد کو مسلمانوں نے مار ڈالا تھا۔ڈاکٹر صاحب نے انھیں سکھوں کی مرتب کردہ دو رپورٹوں کے حوالے دے کر بتایا کہ اگر اتنا بڑا واقعہ وقوع پذیر ہوا ہوتا تو اس کا ذکر ان رپورٹوں میں ضرور ہوتا۔پہلی رپورٹ شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی نے شائع کی جسے گوربچن سنگھ طالب نے مرتب کیا۔یہ رپورٹ 1949میں شائع کی گئی۔اسی سلسلے کی دوسری رپورٹ جسٹس جی ڈی کھوسلہ نے مرتب کر کے شائع کی۔
یہ رپورٹ پہلی رپورٹ کے کچھ ہی عرصے بعدغالباً1950کے شروع میں شائع کی گئی۔ان دونوں رپورٹوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں سکھوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو مرتب کیا گیا ہے۔یہ رپورٹیں سکھوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو بیان نہیں کرتیں۔یہ دونوں رپورٹیں ماسٹر تارا سنگھ کے خاندان کے تہہ تیغ ہونے کے ذکر سے یکسر خالی ہیں۔ڈاکٹر اشتیاق صاحب کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے بعد سکریت سنگھ جو ماسٹر تارا سنگھ کی نواسی کرن جوت کور کے بیٹے ہیں انھوں نے ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیا اور اپنی والدہ محترمہ کرن جوت کور سے بات کروائی۔
محترمہ نے بتایا کہ ان کے نانا ماسٹر تارا سنگھ اس وقت لاہور قانون ساز اسمبلی کے ممبر تھے اور اپنی فیملی کے ساتھ لاہور میں مقیم تھے،البتہ کبھی کبھی اپنے گائوں جا کر بڑے بھائی اور رشتے داروں سے مل آتے تھے۔محترمہ کرن جوت کور نے کہا کہ میں آپ کی بات اپنی کزن اور بخشی سنت سنگھ کی نواسی سرجیت کور سے کروا دیتی ہوں۔محترمہ سرجیت کور کی والدہ چونکہ تقسیم کے دنوں میں گائوں ہریال میں موجود تھیں اس لیے وہ اس سلسلے میں زیادہ بہتر طور پر بیان کر سکتی ہیں۔بعد میں محترمہ سرجیت کور نے ایک ویڈیو بیان میں اس سارے واقعے کو بیان کیا۔
محترمہ سرجیت کورنے کہا کہ میں صرف اتنی بات کروں گی جتنی بات میری والدہ جو بخشی سنت کی بیٹی تھیں انھوں نے بتائی۔محترمہ نے کہا کہ اس وقت میری عمر86برس ہے۔ مجھے میری والدہ نے بتایا کہ تحصیل گوجر خان کے ریلوے جنکشن مندرہ سے کوئی تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہمارا گائوں ہریال ہے۔ہریال میں صرف سکھ آبادی تھی،کوئی مسلمان اس آبادی میں نہیں رہتا تھا۔ ہریال گائوں کے قریب ہی ایک اور بستی تھی جسے موہڑہ تیلیاں کہا جاتا تھا۔ موہڑے میں مسلمان مختلف بیجوں سے تیل نکالنے کا کام کرتے تھے،اسی لیے اس آبادی کو موہڑہ تیلیاں کہا جاتا تھا۔ ماسٹر تارا سنگھ کے بڑے بھائی بخشی سنت سنگھ ہریال میں کپڑے کی ایک چھوٹی سی دکان کرتے تھے۔بخشی سنت سنگھ ماسٹر صاحب سے تین سال بڑے تھے۔
3مارچ کو موہڑہ تیلیاں کی مسجد میں ساری آبادی اکٹھی ہوئی۔وہاں پر کیا بات ہوئی اس کی تفصیل کا علم نہیں۔مسجد میں جو لوگ اکٹھے ہوئے ان میں سے دو فرد بخشی سنت سنگھ کے بہت دوست تھے۔ایک کا نام فقیر تھا۔فقیر کی والدہ بچے کی پیدائش کے بعد فوت ہو گئی تھی۔فقیرکو سنت سنگھ کی والدہ نے گود لے لیا اور اپنا دودھ پلا کر بڑا کیا۔فقیر اس وجہ سے بخشی سنت سنگھ اور ان کے گھر سے بہت پیار کرتا تھا۔مسجد میں بات چیت ختم ہوئی تو مسلمانوں نے فقیر کو روک لیا۔ان کے خیال میں فقیر باہر نکل کر بخشی سنت سنگھ کے پاس پہنچ کر اسے حملے سے پیشگی آگاہ کر دیتا اور حملہ ناکام ہو جاتا۔ مسجد میں ایک دوسرا فرد بوستان نامی تھا۔بوستان فقیر کی طرح بخشی سنت سنگھ سے جڑا ہوا تو نہیں تھا لیکن وہ بھی ان کا بہت دوست تھا۔وہ مسجد سے نکل کر چھپتا چھپاتا بخشی سنت سنگھ کے پاس پہنچ گیا اور بتایا کہ رات کو آپ لوگوں پر حملہ ہو گا۔بخشی کو اطلاع ملتے ہی اس نے سارے خاندان کو رات ہوتے ہی نکلنے کی ہدایت کر دی۔
رات کا اندھیرا پھیلتے ہی یہ خاندان پیدل نکل کھڑا ہوا۔پہلے یہ مندرہ پہنچے اور پھر پیدل ہی گوجر خان ۔گوجر خان سے یہ خاندان امرتسر چلا گیا۔ محترمہ سرجیت کور نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ کتنے افراد ہریال سے نکلے اور کتنے منزلِ مقصود پر پہنچے کیونکہ ان کی والدہ نے انھیں یہ نہیں بتایا تھا۔محترمہ کا ویڈیو بیان جو کہ دیکھا جا سکتا ہے، اور سکھوں کی مرتب کردہ دونوں رپورٹوں کے مطابق ماسٹر تارا سنگھ کا خاندان بالکل قتل نہیں ہوا۔پورے خاندان کا تہہ تیغ ہونا محض ایک منفی پروپیگنڈہ ہے،جب کہ یہ لوگ بسلامت گائوں سے نکل کر امرتسر چلے گئے تھے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ماسٹر تارا سنگھ کے محترمہ سرجیت کور بخشی سنت سنگھ کے ساتھ ہونے مسلمانوں کے پاکستان کے ہریال میں خاندان کے خاندان کو کے خاندان کے خلاف ا نے کہا کہ کی والدہ سکھوں کے گوجر خان بتایا کہ شائع کی سنگھ کی
پڑھیں:
نیا وقف قانون:اوقافی جائیدادوں پر شب خون
معصوم مرادآبادی
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہونے کے بعد وقف بل نے ایک ایسے قانون کی شکل اختیار کرلی ہے جو پورے ملک میں ہزاروں کروڑ کی وقف جائیدادوں کا تیا پانچہ کردے گا۔اس کا سب سے زیادہ اثر اترپردیش میں ہوگا، جہاں پچاس ہزار سے زیادہ وقف جائیدادیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بل پر صدرجمہوریہ کی مہر لگنے سے قبل ہی اترپردیش کی یوگی سرکار سرگرم ہوگئی ہے ۔ سبھی ضلع مجسٹریٹ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ غیرقانونی طورپر وقف قرار دی گئی جائیدادوں کی نشان دہی کرکے انھیں بحق سرکار ضبط کریں۔ واضح رہے کہ یوپی کی جو وقف املاک محکمہ مالیات میں درج نہیں ہیں، ان پر اب وقف بورڈ کی جگہ ضلع مجسٹریٹ کو فیصلہ لینے کا مجاز قرار دیا گیا ہے ۔ نئے وقف ایکٹ میں ایسی ترامیم کی گئی ہیں جن سے اوقافی جائیدادوں پر مسلمانوں کی بجائے حکومت کا کنٹرول ہوجائے گا۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس کی زد مسجدوں، درگاہوں اورقبرستانوں پر بھی پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وقف ترمیمی بل 2025 کے خلاف مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ کشمیر سے کنیا کماری تک احتجاج کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ نیا قانون چونکہ دستوری تحفظات کے بھی صریحاً خلاف ہے ، اس لیے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے ۔ اس کی پہل ایم آئی ایم کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کی ہے ، جنھوں نے لوک سبھا میں اس بل پر نہایت مدلل تقریر کی تھی اور اس کی کاپی پھاڑ ڈالی تھی۔اس بل کی حمایت کرنے والے نام نہاد سیکولرلیڈروں چندربابو نائیڈو اور نتیش کمار کو اپنے اپنے صوبوں میں شدید مزاحمت کا سامنا ہے ۔ نتیش کمار کی پارٹی میں شامل کئی مسلم عہدیدار پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور وجے واڑہ کی سڑکوں پر نائیڈو کے خلاف احتجاج جاری ہے ۔ سپریم کورٹ میں اس غیر آئینی بل کو چیلنج کرنے والوں میں ڈی ایم کے ، کانگریس پارٹی، مسلم لیگ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی شامل ہیں۔ سپریم کورٹ میں اگر اس بل کے خلاف مضبوط پیروی کی گئی تو پوری امید ہے کہ یہ قانون کالعدم ہوجائے گا کیونکہ اس کی بہت سی شقیں دستوری تحفظات سے متصادم ہیں۔
تین طلاق کو قابل سزا جرم قرار دینے کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب مودی سرکارنے مسلمانوں کے داخلی معاملات میں مداخلت کا دروازہ کھولا ہے ۔ اس کے بعد یکساں سول کوڈ کا نمبر ہے جو بی جے پی کے انتخابی منشور کا اہم حصہ ہے ۔پچھلے گیارہ سال کا جائزہ لیا جائے تو اس حکومت نے ہر وہ کام کیا ہے جس کی ضرب مسلمانوں کے مفادات پر پڑتی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں مسلم آبادی کے بنیادی شہری حقوق پر ڈاکہ زنی کرنا ہی اس حکومت کا بنیادی مقصدہے ۔ وقف ترمیمی بل کی منظوری کے بعد کھربوں روپوں کی وقف جائیدادوں کا مستقبل تاریکی میں چلا گیا ہے ۔ رات کی تاریکی میں منظور کی گئی ترمیمات مسلم حقوق پر شب خون کے مترادف ہیں۔
اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے جو کچھ کہا اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حکومت مسلمانوں کی سب سے بڑی خیرخواہ ہے اور ان کی فلاح وبہبود چاہتی ہے ۔ کرن رجیجو کا کہنا ہے کہ ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ وقف املاک ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ آزادی کے اتنے برسوں بعد بھی مسلمانوں کی بدحالی دور نہیں ہوسکی؟ ان کے اس بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقف ترمیمی قانون کے وجود میں آنے کے بعد ملک گیر سطح پر مسلمانوں کی بدحالی دور ہوجائے گی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کے ذریعہ اوقاف کی جائیدادوں کومسلمانوں سے چھین لینے کا ایک انتہائی تکلیف دہ عمل شروع ہوگا۔اس جھوٹ کو باربار بولا گیا ہے بولاگیاہے کہ وقف کے نام پر مسلمانوں نے سرکاری زمینوں پر قبضے کررکھے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بے شمار ایسی سرکاری عمارتیں ہیں جو وقف کی زمینوں اور قبرستانوں پر بنائی گئی ہیں۔ کرن رجیجو کی ایک گھنٹہ طویل تقریر کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کانگریس پارلیمانی پارٹی کے ڈپٹی لیڈر گورو گوگوئی نے درست ہی کہا ہے کہرجیجو کی تقریر گمراہ کن اور جھوٹی تھی۔ انھوں نے رجیجو کے جھوٹ کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو حکومت مسلمانوں کو عید کی نماز پڑھنے سے روکتی ہے اور جس کا لوک سبھا میں ایک بھی ممبر مسلمان نہیں ہے ،وہ آخر مسلمانوں کی خیرخواہ کیسے ہوسکتی ہے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ وزیرداخلہ امت شاہ نے لوک سبھا میں اپنی تقریر کے دوران دہلی میں وقف کی 123 قیمتی جائیدادوں کو سرکاری املاک قراردے دیا ہے ۔ واضح رہے کہ ان قیمتی جائیدادوں کو2013 کے وقف بل میں دہلی وقف بورڈ کو سونپا گیا تھا۔ مگر نئے بل میں اس پر سرکاری قبضہ بحال کردیا گیا ہے ۔2007میں سچر کمیٹی نے ان اوقافی جائیدادوں کی قیمت کا تخمینہ چھ ہزارکروڑ روپے لگایا تھا، جن سے اب مسلمان محروم کردئیے جائیں گے ۔مرکزی وزیرانوراگ ٹھاکر نے وقف جائیدادوں کو ‘لینڈجہاد’ سے تشبیہ دے ڈالی ہے اور یہی کام یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی کررہے ہیں۔
حکومت کے ان ہی عزائم کے پیش نظر گزشتہ برس اگست میں وقف ترمیمی بل کی پارلیمنٹ میں زبردست مخالفت ہوئی تھی۔ اپوزیشن پارٹیوں کی زبردست مزاحمت کے بعد حکومت اس بل کو جو ائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی)کو بھیجنے پر مجبور ہوئی تھی۔ بی جے پی ممبر جگدمبیکا پال کی سربراہی والی اس کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ممبران شامل تھے ، لیکن جب اس کمیٹی کی رپورٹ پیش کی گئی تو اس میں اپوزیشن ممبران کے اعتراضات کو درکنار کرتے ہوئے صرف سرکاری ممبران کی رائے کو ہی اہمیت دی گئی۔ یہ سب کچھ ایک طے شدہ حکمت عملی کا حصہ تھا۔ حکومت پہلے ہی طے کرچکی تھی کہ وہ ہرصورت میں وقف ترمیمی بل کو پارلیمنٹ سے پاس کروالے گی۔ اس سے پہلے کم وبیش پانچ کروڑ مسلمانوں نے ای میل بھیج کر وقف ترمیمی بل کی مخالفت کی تھی۔ خود اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے یہ تسلیم کیا کہ انھیں اس بل کے سلسلے میں 97 لاکھ عرضداشتیں موصول ہوئی ہیں۔ اس دوران حکومت نے مسلمانوں جیسے نام رکھنے والے کچھ ضمیر فروشوں کو اس بل کی حمایت میں بیان جاری کرنے کوکہا۔ اس میں درگاہ اجمیر اورفتحپور سیکری کی درگاہ کے نام نہاد سجادہ نشین بھی شامل تھے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کاکام مسلم مفادات کے خلاف حکومت کے ہرغلط کام کی تائید کرنا ہے ۔ ایسے ہی گندم نما جوفروش پارلیمنٹ میں بحث کے دوران وقف ترمیمی بل کیحمایت میں مودی کی تصویریں لے کرجگہ جگہ مظاہرہ کررہے تھے اور گودی میڈیا کے چینل انھیں خوب نمایاں کرکے دکھارہے تھے ۔اسی قسم کے لوگوں نے نتیش کمار کے افطار کے بائیکاٹ کی اپیل کے باوجود پوری بے شرمی کے ساتھ اس میں شرکت کی
تھی۔سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جس نتیش کمار سے مسلمانوں نے ان کے ‘سیکولر’ ہونے کی بنا پر بڑی امیدیں باندھی تھیں ان کے نمائندے للن سنگھ نے پارلیمنٹ میں بی جے پی ممبران سے زیادہ جوش وخروش کے ساتھ وقف ترمیمی بل کی حمایت کی اور وزیراعظم کی شان میں قصیدے پڑھے ۔اس کے برعکس اپوزیشن پارٹیوں کے ممبران نے اوقافی جائیدادوں کے معاملے میں حکومت کے خفیہ ایجنڈے کو بے نقاب کیا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ حکومت کی ہمنوا جن نام نہاد سیکولر پارٹیوں سے مسلمانوں نے اس بل کی مخالفت کی امیدیں باندھی تھیں انھوں نے سب سے پہلے اپنے ممبران کو ہدایت دی کہ وہ وقف ترمیمی بل کے حق میں ووٹ دیں۔ مسلمانوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ باربار ایک ہی قسم کے لوگوں سے دھوکہ کھاتے ہیں۔ اس میں قصور دھوکہ دینے والوں کا نہیں بلکہ بے جا اعتبار کرنے والے مسلمانوں کا ہوتا ہے ۔ مسلمان جنھیں سیکولر سمجھ کر ووٹ دیتے ہیں وہ سب سے بڑے موقع پرست ثابت ہوتے ہیں۔مسلمانوں کو سب سے زیادہ تعجب بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار پر ہے ۔ بہار میں اسمبلی انتخابات کی آمد آمد ہے اور مسلمانوں کو یقین تھا کہ وہ مسلم ووٹوں کے لالچ میں وقف ترمیمی بل کی مخالفت کریں گے ۔ اس سلسلہ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ نے پٹنہ میں ایک احتجاجی پروگرام بھی کیا تھا مگرنتیش نے مسلمانوں کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کاکام کیا۔ حکومت کے دوسرے اتحادی چندرا بابو نائڈو نے تو باقاعدہ وجے واڑہ میں جمعة الوداع کی نماز میں شرکت کی اور چوغہ پہن کر مسلمانوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ وقف کے معاملہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہیں، لیکن پارلیمنٹ میں انھوں نے بھی نتیش کمار ہی راہ لی۔ اسی طرح چراغ پاسوان اور جینت چودھری سے بھی مسلمانوں کو کچھ امیدیں تھیں، لیکن انھوں نے بھی اس بل کی تائید کی۔جن حقیقی سیکولر پارٹیوں نے پوری قوت کے ساتھ اس بل کی مخالفت کی ہے ، مسلمانوں کو ان کا احسان مند ہونا چاہئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔