پاکستان ازبکستان، اقتصادی خوشحالی کا ویژن
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
پاکستان اور ازبکستان کے مابین مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے 11 مفاہمتی یاد داشتوں اور معاہدوں پر دستخط ہوگئے۔ دونوں ممالک کے تجارتی حجم کو 2 ارب ڈالر تک پہنچانے، ٹرانس افغان ریلوے منصوبے، مواصلات ، تجارت، معدنیات، سیاحت، زراعت، سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ پاکستان کے دو طرفہ تعلقات کو جو وسعت دے رہے ہیں، وہ قابل ستائش بات ہے، اس کے ساتھ ساتھ روس اور چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو بھی کشادہ کر رہے ہیں وہ بھی ملکی مفاد میں انتہائی اہم پیش رفت ہے۔
نئے عالمی منظر نامے کے تناظر میں وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ آذربائیجان اور ازبکستان انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان اور ازبکستان تجارتی و اقتصادی تعلقات اور صنعتی تعاون کو وسعت دیتے ہوئے باہمی تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کے عزم رکھتے ہیں، دونوں ممالک ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کو کامیابی سے نافذ کرنے، تجارتی حجم 2 ارب ڈالر تک بڑھانے، خصوصی اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے بھرپور کاوشیں بروئے کار لائیں گے۔
پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت کے باعث خشکی میں گھرے وسطی ایشیائی ممالک کو عالمی منڈیوں سے جوڑنے کے لیے ایک کلیدی تجارتی اور ٹرانزٹ مرکز کے طور پر اپنی پوزیشن مضبوط کر رہا ہے۔ پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان دوروں، سرمایہ کاری کے مذاکرات اور اقتصادی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کا ازبکستان کا یہ دورہ آذربائیجان کے دورے کے بعد ہوا ہے، ازبکستان وسطی ایشیا کی سب سے بڑی صارف منڈی اور دوسری بڑی معیشت ہے۔ بلاشبہ وزیرِاعظم کا یہ دورہ پاکستان کی ازبکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے، جس میں اقتصادی تعاون کو فروغ دینا اور شراکت داری کے نئے مواقعے تلاش کرنا شامل ہے، جو علاقائی روابط اور اقتصادی خوشحالی کے اسٹرٹیجک ویژن کا حصہ ہے۔
صنعتی ترقی کے لیے پاکستان ازبکستان سے تکنیکی معاونت لے سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ روسی ساختہ طیاروں کی ٹیکنالوجی کے حصول میں بھی پیش رفت ہوسکتی ہے۔ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی دونوں ملکوں کے لیے تشویش کا باعث ہے جس کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی کے ذریعے افغان طالبان پر دباؤ کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ ازبکستان کو جوہری توانائی کے حوالے سے تعاون فراہم کرے کیوں کہ وہاں سے بڑی تعداد میں یورینیم خام صورت میں بیرونی دنیا کو برآمد ہو جاتا ہے۔ ازبکستان اور آذربائیجان کو دفاعی خطرات کا ادراک ہے جس سے نمٹنے کے لیے تینوں ملکوں کے درمیان مضبوط عسکری تعاون پایا جاتا ہے۔ آذربائیجان کا جے ایف 17 تھنڈر کے حصول کے لیے پاکستان کے ساتھ معاہدہ موجود ہے اور اس دورے کے نتیجے میں معاہدے پر پیش رفت ہوگی۔
ازبکستان کے شہروں سمرقند و بخارا کا حوالہ پاکستان اور ہندوستان کی تاریخ و ادب میں دیا جاتا رہے گا۔ پاکستان اور ازبکستان دونوں اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم، اکنامک کارپوریشن آرگنائزیشن اور شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن جیسے اہمیت کے حامل عالمی علاقائی فورمز کے رکن ہیں۔ 2018 کے بعد سے ان دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
ساٹھ کی دہائی میں ازبکستان کے دارالحکومت اور ملک کے سب سے بڑے شہر تاشقند میں پاکستان اور انڈیا کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب رقم ہوا تھا۔ یہ ذکر ہے 10 جنوری 1966 کے ’معاہدہ تاشقند‘ کا، جس پر اس وقت کے پاکستان کے فوجی آمر صدر جنرل ایوب خان اور اور انڈیا کے وزیراعظم لال بہادر شاستری نے دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان 17 روز تک جاری رہنے والی جنگ اپنے اختتام کو پہنچی تھی۔ یہ اس دور کی بات ہے کہ جب موجودہ ازبکستان کے علاقے سوویت یونین کے ماتحت تھے۔
پاکستان اور وسط ایشیائی ملکوں کے درمیان حالیہ عرصے میں قربتوں میں اضافہ ہوا ہے، جسے ’’ویژن وسطی ایشیا‘‘ پالیسی کا نام دیا گیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت اسلام آباد وسطی ایشیا کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور توانائی کے شعبوں میں روابط مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ کاسا 1000 توانائی منصوبے کو ویژن وسطی ایشیا کا ایک اہم جزو قرار دیا جاتا ہے۔
پاکستان کی سفارت کاری کا پہلا محور اب معاشی اہداف کا حصول ہے اور اسی بنا پر وسطی ایشیا اسلام آباد کے سفارتی نقشے پر اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ پاکستان کے وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ معاشی مفادات وابستہ ہیں جو توانائی کے حصول کی صورت میں ہیں جن میں ’’ ٹاپی‘‘ اور ’’کاسا 1000' سرِفہرست ہیں۔’’ ٹاپی‘‘ ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت گیس پائپ لائن منصوبہ (ٹاپی) ہے جب کہ کاسا 1000 میں کرغستان اور تاجکستان سے افغانستان اور پاکستان کو 1300 میگاواٹ بجلی فراہم کی جا سکے گی، یہ دونوں منصوبے زیرِ تکمیل ہیں۔
یورپی منڈی تک زمینی راستے کا حصول پاکستان کی پرانی خواہش ہے۔ توانائی کی حالیہ شدید قلت اور افغانستان کی صورتِ حال نے وسطی ایشیا کو اسلام آباد کے لیے مزید اہم بنا دیا ہے۔
چین اور روس کے بھی وسطی ایشیا میں مفادات ہیں اور وہ اس خطے کے ممالک کو شامل کرکے شنگھائی تعاون آرگنائزیشن (ایس سی او) اور بھارت، چین، برازیل، جنوبی افریقہ اور روس پر مشتمل پانچ ملکوں کی تنظیم ’’ برکس‘‘ کو توسیع دینا چاہتے ہیں۔ ایسے وقت میں جب امریکا اور مغربی ممالک افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑگئے ہیں۔ اسلام آباد کے لیے بھارت اور افغانستان کے تناظر میں وسطی ایشیا بہت اہم ہو جاتا ہے۔
جغرافیائی لحاظ سے پاکستان وسط ایشیائی ریاستوں کے لیے سمندر تک اقتصادی راہداری کا قدرتی راستہ فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کی خواہش رہی ہے کہ وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ اس کے تاریخی، ثقافتی اور تجارتی تعلقات بحال ہوں۔ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات کی ایک وجہ افغانستان بھی ہے تاکہ خطے کے ممالک افغانستان کے حوالے سے مشترکہ حکمتِ عملی اپنا سکیں کیونکہ افغانستان کی سرزمین عالمی دہشت گردوں کی آماجگاہ بنتی جا رہی ہے جو پاکستان اور وسط ایشیائی ممالک کے لیے مشترکہ خطرہ ہے۔ افغانستان کو استحکام کی طرف لے کر جانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور وسط ایشیائی ممالک انٹیلی جینس شیئرنگ کے ساتھ ساتھ مشترکہ حکمتِ عملی اپنائیں۔
وسط ایشیائی ممالک کی سمندر تک رسائی نہیں ہے جس کے باعث ان کی ٹرانزٹ روٹ کے لیے پاکستان کی طرف دلچسپی ہے۔ پاکستان بھی چاہتا ہے کہ ان دوست ممالک کو کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں سے منسلک کیا جائے اور اس ضمن میں اسلام آباد نے وسط ایشیائی ممالک کو ٹرانزٹ روٹ کی سہولت کی پیش کش کر رکھی ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ وہ وسط ایشیائی ممالک سے اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرسکے۔
پاکستان کے وسط ایشیائی ممالک سے گہرے تاریخی، ثقافتی اور سفارتی تعلقات ہیں اور افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد ان تعلقات میں مزید استحکام آیا ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری کی طرز پر پاکستان ایک اور راہداری کے منصوبے پر غورکر رہا ہے، جو اسے وسط ایشیائی ممالک تک منسلک کرے گا۔ یہ راہداری منصوبہ خطے میں تجارت کے فروغ کا اچھا ذریعہ بنے گا اور اب اس میں ماضی کی دقتیں بھی حائل نہیں رہی ہیں۔ آذربائیجان کے دورے کے نتیجے میں دو ارب ڈالرکی سرمایہ کاری میں پیش رفت ہوئی جو کہ گیس پائپ لائن، پاکستان میں آئل ریفائنری اور ایل این جی کے معاہدوں کی صورت میں ہوئی ہے۔ پاکستان آذربائیجان کو فوجی تربیت کے ساتھ ساتھ جے ایف 17 تھنڈر طیارے بھی فراہم کرنا چاہتا ہے۔
درحقیقت وسط ایشیا صدیوں سے مشرق اور مغرب کے درمیان تجارت کا ایک وسیلہ بنا رہا ہے۔ یہ تہذیبوں کے درمیان ثقافتی رابطوں کا ایک مرکز بھی رہا ہے۔ آج تمام وسطِ ایشیائی ممالک امید اور مواقع کی تلاش میں سرگرداں ہیں یہ تمام ممالک مشترکہ نکتہ نظر کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ روس اور چین نے 4002 بلین ڈالرز کی سائبیریا گیس کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کردیا ہے تاکہ چین کی توانائی کی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ عالمی طاقتیں تیل و گیس اور قدرتی وسائل کو بین الاقوامی سیاست کی نذر نہیں کریں گی، بلکہ قدرتی وسائل کو عوام کی خوشحالی اور فلاح و بہبود پر استعمال کریں گی تاکہ دنیا میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وسطی ایشیائی ممالک وسط ایشیائی ممالک ایشیائی ممالک کے پاکستان اور وسط اور ازبکستان کے ساتھ ساتھ ازبکستان کے اسلام ا باد وسطی ایشیا پاکستان کے پاکستان کی وسط ایشیا پاکستان ا کے درمیان تعلقات کو ممالک کو جاتا ہے پیش رفت رہا ہے کے لیے اور اس کے بعد کا ایک
پڑھیں:
ماسکو میں یومِ پاکستان کی پر وقار تقریب
ماسکو (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 14 اپریل 2025ء) پاکستان کے قومی دن کے موقع پر روس کے دارالحکومت ماسکو میں سفارت خانہ پاکستان کی جانب سے ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب میں روس کے نائب وزیر خارجہ رُدینکو اینڈری یوریوچ مہمان خصوصی تھے. جبکہ دیگر روسی حکام، سفارتکاروں، دانشوروں، صحافیوں، فنکاروں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے معزز مہمانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ تقریب کا آغازپاکستان اور روس کے قومی ترانوں سے ہوا، گنیسن اکیڈمی کے طلباء نےاردو اور رشین میں ترانے پڑھ کر اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا شاندار مظاہرہ کیا۔جس کے بعد سفیر پاکستان جناب محمد خالد جمالی نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ 23 مارچ 1940 ایک تاریخی دن ہے، جب برصغیر کے مسلمانوں نے ایک علیحدہ وطن کے قیام کا فیصلہ کیا، جو بعد ازاں پاکستان کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ آج کا پاکستان 24 کروڑ عوام کا ملک ہے، جو اقتصادی، جغرافیائی اور تزویراتی اہمیت کا حامل ہے۔ سفیر پاکستان نے اپنے خطاب میں دہشتگردی کے خلاف جانوں کا نذرانہ دینے والے پاکستانی سپاہیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے حالیہ دہشتگرد حملے پر تعزیتی پیغام دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس عالمی چیلنج کے خلاف جاری جنگ میں روس کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ جبکہ روس کے نائب وزیر خارجہ رُدینکو اینڈری یوریوچ نے یوم پاکستان کے موقع پر ایک اہم خطاب کیا ہے۔ دوران خطاب انہوں نے کہا کہ تاریخ میں یہ یادگار دن 23 مارچ 1940، پاکستان کی آزاد ریاست کی بنیاد رکھنے کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سے پاکستان ایک طویل اور مشکل راستہ طے کرچکا ہے اور آج پاکستان ایک ترقی پذیر ریاست کے طور پر ابھرا ہے۔ روسی نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ روسی قوم دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کا فروغ اور پاکستانی عوام کی خوشحالی اور ترقی کی خواہش کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم پاکستان کو جنوبی ایشیا میں اپنے اہم شراکت دار ملک کے طور پر دیکھتے ہیں، ہمارے تعلقات ایک نئے معیار پر پہنچ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ سیاسی مکالمے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ روسی سفارت کار کے مطابق ہمارے حکومتوں، وزارتوں اور کاروباری نمائندوں کے درمیان روابط جاری ہیں، اور عالمی معیشت کی مشکل صورت حال کے باوجود، تجارتی حجم بڑھ رہا ہے۔ رُدینکو نے یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم پر اکثر معاملات پر ایک دوسرے کے موقف سے ہم آہنگی رکھتے ہیں، جہاں ہماری آرا میں ہم آہنگی یا قریبی پوزیشنز ہیں۔انھوں نے پاکستان اور روس کے مابین دیرینہ دوستانہ تعلقات پر بھی روشنی ڈالی۔ پاکستانی سفیر محمد خالد جمالی نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی و اقتصادی روابط میں تیزی سے بہتری آ رہی ہے، اور دوطرفہ تجارت کا حجم ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ اکتوبر میں ماسکو میں ہونے والے "ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ فورم" کا خصوصی ذکر کیا گیا، جس میں پچاس سے زائد پاکستانی کمپنیوں نے شرکت کی۔ اگلا فورم پاکستان میں منعقد کیا جائے گا تاکہ نجی شعبے کو قریب لایا جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ 2024 پاکستان اور روس کے تعلقات میں پیش رفت کا سال رہا ہے، اور آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے دوران دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کی ملاقاتوں نے باہمی تعاون کو نئی جہت دی۔