Al Qamar Online:
2025-04-15@06:43:56 GMT

امریکی کارکنوں کی نصف تعداد مصنوعی ذہانت کے بارے میں فکرمند کیوں؟  سروے

اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT

امریکی کارکنوں کی نصف تعداد مصنوعی ذہانت کے بارے میں فکرمند کیوں؟  سروے

‍‍‍‍‍‍

ویب ڈیسک — 

ایک نئی تحقیق کے مطابق امریکی کارکنوں میں مصنوعی ذہانت کے اثرات کے بارے میں ملے جلے جذبات ہیں جس کا تعلق ان کے پیشسہ ورانہ کام پر اثر ات سے ہے۔

تحقیقی ادارے’ پیو ریسرچ سینٹر‘ کے مطابق 52 فیصد امریکی کارکنوں کا کہنا ہے کہ انہیں مصنوعی ذہانت کے استعمال کے مستقبل کے اثرات کے بارے میں فکر لاحق ہے۔

حالیہ سروے کے مطابق 32 فیصد ملازمین کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت سے طویل مدت میں ان کے لئے ملازمت کے کم مواقع ہو جائیں گے۔

دوسری طرف 36 فیصد کارکنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں کام کی جگہ پر مصنوعی ذہانت کے استعمال کے بارے میں پرامید ہیں۔ 33 فیصد کہتے ہیں کہ وہ خود کو آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی وجہ سے دباؤ میں محسوس کرتے ہیں۔




تقریباً چھ میں سے ایک کارکن یعنی 16 فیصد کا کہنا ہے کہ ان کے کام کچھ حصہ مصنوعی ذہانت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ تحقیقی ادارے کے مطابق دیگر 25 فیصد کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ اس وقت اس کا زیادہ استعمال نہیں کر رہے ہیں لیکن کم از کم ان کا کچھ کام مصنوعی ذہانت کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ یہ رجحان بیچلرز ڈگری رکھنے والے نوجوانوں میں نمایاں طور پر زیادہ ہے۔

پیو ریسرچ کے یہ نتائج ایک بڑے سروے پر مبنی ہیں جس کے تحت، 7 سے 13 اکتوبر 2024 تک، 5,273 ملازمت پیشہ امریکی بالغوں کی آرا معلوم کی گئیں۔ اس دوران اس بات کا جائزہ لیا گیا تھا کہ کارکن مجموعی طور پر کام کی جگہ پر مصنوعی ذہانت کے استعمال کو کس طرح دیکھتے ہیں۔

صرف 6 فیصد ملازم پیشہ لوگوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ کام کی جگہ پر مصنوعی ذہانت کا استعمال طویل عرصےکے دوران ان کے لئے ملازمت کے مزید مواقع کا باعث بنے گا۔

تقریبا ایک تہائی یعنی 32 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے ان کے لیے مواقع کم ہوں گے اور 31 فیصد کا کہنا ہے کہ اس سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔







No media source currently available

دلچسب بات یہ ہے کہ تقریبا 17فیصد کارکنوں نے کہا کہ انہوں نے کام کی جگہ پر مصنوعی ذہانت کے استعمال کے بارے میں نہیں سنا ہے۔

ادارے کے مطابق تقریباً چھ میں سے ایک کارکن یعنی 16 فیصد خود بھی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے صارف ہیں جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے کام کا کم از کم کچھ حصہ مصنوعی ذہانت کے ساتھ کیا گیا ہے۔

یہ بھی پتہ چلا ہے کہ 81 فیصد کارکنوں کو غیر مصنوعی ذہانت کے صارفین سمجھا جاسکتا ہے۔ اس تناسب میں 63 فیصد شامل وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ اپنی ملازمت میں مصنوعی ذہانت کا زیادہ یا بالکل بھی استعمال نہیں کرتے ہیں۔

اس تحقیق میں شامل کارکنوں کی اکثریت یعنی 55 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ شاذ و نادر ہی یا کبھی بھی چیٹ بوٹس جیسی مصنوعی ذہانت کی سہولیات کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔

سروے میں شامل افراد کی عمر

جہاں تک مصنوعی ذہانت کے اثرات کا کارکنوں کی عمر سے تعلق ہے تو 18 سے 29 سال کی عمر کے کارکن مہینے میں کم از کم چند بار کام پر اے آئی چیٹ بوٹس استعمال کرنے کا امکان زیادہ ہے۔







No media source currently available

اس گروپ سے بڑی عمر کے لوگوں میں 23 فیصد کہتے ہیں کہ وہ کبھی کبھار چیٹ بوٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ سینیئر کارکنوں میں چیٹ بوٹ کا استعمال کرنے کا تناسب کم ہو کر 17 فیصد رہ جاتا ہے ۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت کے استعمال فیصد کا کہنا ہے کہ کے بارے میں کا استعمال کے مطابق کرتے ہیں

پڑھیں:

امریکی ٹیرف، سام سنگ کی قیمتیں فی الحال مستحکم رہیں گی

امریکہ(نیوز ڈیسک)امریکی حکومت نے اسمارٹ فونز، کمپیوٹرز اور میموری پراڈکٹس کو ان ٹیرف سے مکمل طور پر مستثنیٰ قرار دے دیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپریل میں نافذ کیے گئے وسیع پیمانے پر نئے ٹیرف سسٹم کے بعد عالمی ٹیکنالوجی مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال نے جنم لے لیا ہے۔ ان ٹیرف کا اطلاق دنیا کے تقریباً تمام بڑے پیداواری مراکز پر ہوا، جس کے باعث عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔

5 اپریل سے نافذ ہونے والے ٹیرف کے تحت، تمام ممالک سے درآمدات پر 10 فیصد فلیٹ ٹیکس عائد کیا گیا، جبکہ چین پر سب سے سخت ردعمل کے طور پر ابتدائی طور پر 54 فیصد اور بعد میں 145 فیصد تک ٹیرف لگا دیا گیا۔ اس فیصلے کے بعد امریکہ میں صارفین نے ممکنہ قیمتوں میں اضافے سے بچنے کے لیے آئی فونز کی خریداری میں تیزی دکھائی۔

سام سنگ، جو اپنے زیادہ تر اسمارٹ فونز ویتنام میں تیار کرتا ہے، ابتدائی طور پر 46 فیصد ٹیرف کی زد میں آیا، لیکن 75 سے زائد ممالک کی جانب سے شدید ردعمل کے بعد صدر ٹرمپ نے چین کے علاوہ باقی دنیا کے لیے 90 دن کا “ٹیرف بریک” دے دیا۔ اس کے تحت دیگر ممالک پر ٹیرف کی شرح کم کرکے صرف 10 فیصد کر دی گئی ہے۔

75 سے زائد ممالک نے امریکی نمائندوں سے رابطہ کیا جس پر ٹرمپ نے کہا کہ ’’میں نے 90 دن کی مہلت اور اس مدت کے دوران 10 فیصد کم ریسیپروکل ٹیرف کی اجازت دے دی ہے۔‘‘

ایک اچانک فیصلے کے تحت، امریکی حکومت نے اسمارٹ فونز، کمپیوٹرز اور میموری پراڈکٹس کو ان ٹیرف سے مکمل طور پر مستثنیٰ قرار دے دیا ہے۔ اس کا مطلب ہےکہ سام سنگ گلیکسی فونز کی قیمتیں فی الحال نہیں بڑھیں گی۔ ایپل، گوگل اور دیگر بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی مصنوعات بھی مہنگی نہیں ہوں گی۔ 10 فیصد فلیٹ ریٹ تو برقرار ہے، مگر اضافی چارجز فی الوقت نہیں لگیں گے۔

تاہم، کچھ کمپنیاں فوری متاثر ہوئیں۔ ون پلس نے خاموشی سے اپنی نئی گھڑی “ون پلس واچ کی قیمت $329 سے بڑھا کر $499 کر دی تھی۔ اب جب کہ ٹیرف میں نرمی کی گئی ہے، امکان ہے کہ ان قیمتوں میں نظرِ ثانی کی جا سکتی ہے۔

لاہور پولیس کو مطلوب 2 خطرناک اشتہاری ملزمان 10 اور 13 سال بعد گرفتار

متعلقہ مضامین

  •  پی ٹی آئی کے 2 ارکان کی امریکی وفد کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں شرکت  بارے تفصیلات سامنے آگئیں
  • امریکی ٹیرف، سام سنگ کی قیمتیں فی الحال مستحکم رہیں گی
  • جعفر ایکسپریس واقعہ میں افغانستان میں چھوڑا امریکی اسلحہ استعمال کیا گیا، امریکی اخبار
  • چیئرپرسن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سینیٹر روبینہ خالد کاای-کچہری سیشن
  • چین کی عوامی مصنوعی ذہانت خواص کو چیلنج کر رہی ہے
  • مارچ 2025 میں کارکنوں کی ترسیلات زر پہلی مرتبہ 4 ارب امریکی ڈالر سے زائد رہیں
  • حماس ہسپتالوں کو کمانڈ سنٹر کے طور پر استعمال نہیں کرتی، اسرائیلی جھوٹ بولتے ہیں، یورپی ڈاکٹر
  • مصنوعی ذہانت کی دنیا میں چین امریکا کو پیچھے چھوڑنے کے قریب پہنچ گیا
  • غزہ میں شہداء کی تعداد 51 ہزار تک جا پہنچی، پانی کا بطور ہتھیار استعمال!
  • پی ڈی ایم اے پنجاب کو زلزلے بارے ابتدائی رپورٹس موصول