Islam Times:
2025-02-27@21:27:09 GMT

دیر قانون گاوں کا روشن ستارہ

اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT

دیر قانون گاوں کا روشن ستارہ

اسلام ٹائمز: یہ سرزمین سید ہاشم صفی الدین کی یادیں لیے ہوئے ہے۔ جنوبی لبنان کا ایک گاوں جو آج ایسے مرد سے الوداع کے مناظر پیش کر رہا ہے جو نہ صرف حزب اللہ لبنان بلکہ پورے اسلامی مزاحمتی بلاک میں ایک تھم کی حیثیت رکھتا تھا۔ سید ہاشم کا زرد رنگ کا تابوت عوام کے سمندر میں بہتا جا رہا ہے۔ چہرے غمگین ہیں لیکن ان کا دکھ سرتسلیم خم کرنے والا نہیں ہے۔ یہاں آنسووں کا مطلب اختتام نہیں بلکہ ایک قسم کی بیعت ہے۔ ایسا عہد جو شہداء کے خون سے باندھا گیا ہے۔ دیر قانون النہر ایسے مرد کی جائے پیدائش ہے جو کئی سالوں سے حزب اللہ کی پہلی صف میں کھڑا رہا۔ وہی عوام جو جنگوں اور محاصروں میں اسلامی مزاحمت کے ساتھ تھے اب اس کے ایک کمانڈر کے سوگ میں اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ان لمحات میں دیر قانون کے کوچوں میں لبیک یا حسین کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں۔ تحریر: عبدالرضا ہادی زادہ
 
کل صبح ہم جنوبی لبنان کی جانب روانہ ہوئے، ایسی سرزمین جس کا چپہ چپہ مزاحمت کی خوشبو دیتا ہے، وہ جگہ جہاں کچھ عرصہ پہلے اسرائیل کی آمدورفت جاری تھی لیکن آج اسے وہاں سے قریب آنے کی جرات بھی نہیں ہے۔ جنوب کی بل کھاتی سڑکیں ایسی کہانی لیے ہوئے ہیں جن کا ذکر کتابوں میں کم ہوا ہے۔ ایسی سرزمین کی کہانی جو 1980ء کے عشرے میں اسرائیلی مرکاوا ٹینکوں کی آماج گاہ بنی ہوئی تھی لیکن آج اسلامی مزاحمت کی طاقت کی برکت سے سرحدی علاقے دشمنوں کے خوف اور اور ناامنی کی علامت بن چکے ہیں۔ راستے میں جگہ جگہ شہداء، سید حسن نصراللہ، سید ہاشم صفی الدین اور سید عباس موسوی سے لے کر عماد مغنیہ اور ایسے شہداء کی تصاویر لگی تھیں جنہیں آسمانے والے زمین والوں سے کہیں زیادہ بہتر پہچانتے ہیں۔
 
یہاں اسلامی مزاحمت محض ایک سیاسی تصور یا فوجی گروہ کا نام نہیں بلکہ ایسی ثقافت کا نام ہے جو عوام کی رگوں میں جاری و ساری ہے۔ چھوٹے دیہاتوں سے لے کر اسٹریٹجک اہمیت کے حامل شہروں جیسے بنت جبیل اور مارون الراس تک آپ جسے بھی دیکھیں گے وہ گویا جنگ کی ایک یاد، مزاحمت کا ایک قصہ اور تاریخ سے ایک درس اپنے دل میں سمویا ہو گا۔ ہم مقبوضہ فلسطین کی سرحد کے قریب مارون الراس والے علاقے میں پہنچتے ہیں، یہ وہ جگہ ہے جو ایران پارک کے نام سے معروف ہے۔ ہم نے مقبوضہ فلسطین کی سرحد کے قریب ایران کا نام اور پرچم دیکھ کر فخر کا احساس کیا۔ یہ احساس بھی امام خمینی رح کی وحدت بخش آواز کے باعث تھا جس میں انہوں نے کہا: "اے رسول اللہ کے فرزندو، کیا آپس میں متحد ہونے کا وقت نہیں آیا؟"
 
سرحد کے اس پار اسرائیل کے واچ ٹاور صاف دکھائی دے رہے تھے۔ ایک دن وہ بھی تھا جب اسی جگہ اسرائیلی فوجی آسانی سے آمدورفت کرتے نظر آتے تھے۔ لیکن آج حتی اپنے فوجی اڈوں میں بھی بہت زیادہ احتیاط سے آتے جاتے ہیں۔ وہ اسرائیل جو خود کو خطے کی طاقتور ترین فوج کا مالک گردانتا تھا اس وقت اسلامی مزاحمت کے مجاہدین کے سامنے کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رکھتا، وہ بھی ایسے وقت جب اسلامی مزاحمت کے اہم مرکزی رہنما شہید ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج اپنے مورچوں تک پیچھے ہٹ گئی ہے۔ یہ کہنا درست ہو گا کہ سرحدی علاقے کی صورتحال تقریباً غزہ کی صورتحال جیسی ہو گئی ہے۔ رہائشی عمارتیں اور دیگر انفرااسٹرکچر پوری طرح تباہ ہو گیا ہے اور مٹی کا ڈھیر بن گیا ہے۔ اگرچہ تباہ شدہ علاقے اپنی وسعت کے لحاظ سے غزہ سے قابل موازنہ نہیں ہیں۔
 
سرحد سے کچھ ہی فاصلے پر تباہی کے مناظر میں بہت حد تک کمی آ جاتی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے ذرائع کے بقول ابھی 80 شہداء کے جنازے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ جنوبی لبنان ایک حقیقت ثابت کرنے کی حقیقی تجربہ گاہ ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ سازباز ہر گز راہ حل نہیں ہے اور آئندہ بھی نہیں ہو گا۔ مزاحمت ہی صرف وہ زبان ہے جسے اسرائیل سمجھتا ہے۔ وہ جو ایک دن "زمین کے بدلے صلح" کا نعرہ لگاتے تھے آج لبنان کے تجربے پر اس حقیقت کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اسرائیل صرف اس صورت میں پیچھے ہٹتا ہے جب اپنے سے برتر طاقت اس کے مقابلے میں اترتی ہے۔ 2000ء میں جب اسرائیلی فوجیوں نے کسی معاہدے کے بغیر لبنان سے فرار کیا سے لے کر 2006ء کی جنگ تک اسرائیل حتی ایک فوجی کامیابی بھی حاصل نہیں کر پایا ہے۔
 
ابھی چند دن پہلے ہی انہوں نے فرار کرنے کو مقابلہ کرنے پر ترجیح دی ہے اور یہ حقیقت اب تک بارہا دہرائی جا چکی ہے۔ جنوبی لبنان میں زندگی جاری و ساری ہے لیکن خوف و ہراس کے سائے تلے نہیں بلکہ اقتدار کی سائے تلے۔ عوام شاید اقتصادی لحاظ سے مشکلات کا شکار ہوں لیکن سلامتی اور عزت کے ساتھ ان کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ اس سرزمین کے بچے مقبوضہ فلسطین میں اپنے ہم عمر بچوں کے برعکس ایسے اسکول جا کر تعلیم حاصل کرتے ہیں جو اسرائیل کے زیر کنٹرول نہیں بلکہ آزاد شدہ سرزمین میں واقع ہیں۔ جنوبی لبنان نے ثابت کر دیا ہے کہ آزادی دی نہیں جاتی بلکہ اسے جنگ کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت وہ دو خواتین اور ایک مرد بیان کر رہے ہیں جو اپنا تباہ شدہ گھر دیکھنے کے لیے مارون الراس آئے ہوئے ہیں۔
 
ہم سردی سے بچنے کے لیے ویگن میں پناہ حاصل کرتے ہیں تاکہ اسلامی دنیا کے ایک معروف ہیرو کی جائے پیدائش کا سفر کر سکیں۔ یہ سرزمین سید ہاشم صفی الدین کی یادیں لیے ہوئے ہے۔ جنوبی لبنان کا ایک گاوں جو آج ایسے مرد سے الوداع کے مناظر پیش کر رہا ہے جو نہ صرف حزب اللہ لبنان بلکہ پورے اسلامی مزاحمتی بلاک میں ایک تھم کی حیثیت رکھتا تھا۔ سید ہاشم کا زرد رنگ کا تابوت عوام کے سمندر میں بہتا جا رہا ہے۔ چہرے غمگین ہیں لیکن ان کا دکھ سرتسلیم خم کرنے والا نہیں ہے۔ یہاں آنسووں کا مطلب اختتام نہیں بلکہ ایک قسم کی بیعت ہے۔ ایسا عہد جو شہداء کے خون سے باندھا گیا ہے۔ دیر قانون النہر ایسے مرد کی جائے پیدائش ہے جو کئی سالوں سے حزب اللہ کی پہلی صف میں کھڑا رہا۔ وہی عوام جو جنگوں اور محاصروں میں اسلامی مزاحمت کے ساتھ تھے اب اس کے ایک کمانڈر کے سوگ میں اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ان لمحات میں دیر قانون کے کوچوں میں لبیک یا حسین کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلامی مزاحمت کے نہیں بلکہ ایسے مرد سید ہاشم حزب اللہ نہیں ہے گیا ہے رہا ہے ہے اور

پڑھیں:

قانون کی بالادستی نہیں ہو گی تو ملکی معیشت نہیں چلے گی، شاہد خاقان عباسی

 ویب ڈیسک:سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ قانون کی بالادستی نہیں ہو گی تو ملکی معیشت نہیں چلے گی۔

 اسلام آباد میں اپوزیشن اتحاد قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہمیں میچ کیلئے پورا پاکستان بند کرنا پڑتا ہے، حکومت کو اتنا خوف ہے کہ آئین پر بات کے لیے ایک کانفرنس نہیں کرنے دے رہی۔

 انہوں نے کہا کہ ہم نے وینیو چنا تو کہا گیا یہاں کانفرنس نہیں ہو سکتی، دوسرا وینیو کرکٹ ٹیم سے 10کلو میٹر دور رکھا، وہاں بھی انتظامیہ پہنچ گئی کہ کانفرنس نہیں ہو سکتی، آئین کے معاملے پر کانفرنس کی جا رہی ہے۔

بلدیاتی انتخابات میں تاخیر؛ پنجاب حکومت کی جلد قانون سازی کی یقین دہانی

 ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی ایک زمانے میں جمہوریت کے داعی تھیں، آج اقتدار کے داعی ہیں، آج آئین کے نام پر ایک کانفرنس بھی ممکن نہیں، جمہوریت اور آئین کی بالا دستی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

 سابق وزیراعظم نے کہا کہ جمہوریت نہیں ہو گی تو ملک نہیں چلے گا اگر قانون کی بالادستی نہیں ہو گی تو ملکی معیشت نہیں چلے گی۔ انہوں نے کہا کہ اظہار رائے کو دبانے کیلئے قانون بنایا گیا،ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے آپس میں اختلافات اور تحفظات ہوتے ہیں، آئین، قانون، جمہوریت اور عدلیہ پر بات ہو گی تو سب اکٹھے ہوں گے۔

لاہور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ, بری ہونے والے افراد کا نام کریکٹر سرٹیفکیٹ پر ظاہر نہیں ہوگا

متعلقہ مضامین

  • جماعت اسلامی واحد جماعت تھی جس نے کراچی میں ہماری سیٹ واپس کی، بیرسٹر گوہر
  • پاکستان کو سیاسی نہیں بلکہ معاشی لانگ مارچ کی سخت ضرورت ہے: احسن اقبال
  • ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ 2025: ایک تنقیدی جائزہ
  • لبنان میں صیہونی فوج کا چلتی گاڑی پر ڈرون حملہ، حزب اللہ کا مقامی کمانڈر شہید
  • پیکا قانون ابتدائی تجویز پر منظور نہیں ہوا: بلاول بھٹو
  • قانون کی بالادستی نہیں ہو گی تو ملکی معیشت نہیں چلے گی، شاہد خاقان عباسی
  • جنوبی لبنان، صیہونی ڈرون حملے میں دو شہری شہید
  • جوش ملیح آبادی ایک بے باک شاعر
  • ماہ رمضان: روح کے لیے ایک الہامی ریفریشر کورس