بلتستان کے تین نامور علماء کی گرفتاری کٹھ پتلی حکومت کا سیاہ کارنامہ ہے، کاظم میثم
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
اپوزیشن لیڈر جی بی اسمبلی نے ایک بیان میں کہا کہ گلگت بلتستان کے باسیوں کے ساتھ ناروا سلوک کے وفاقی حکومت حکومت کو سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت ایسی لاقانونیت کو ختم کرے ورنہ احتجاج کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گا۔ اسلام ٹائمز۔ اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی محمد کاظم میثم نے کہا ہے کہ بلتستان کے تین نامور علماء کی رمدان بارڈر سے بلاجواز گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں، بلتستان کے علماء کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کرنے پر بلتستان بھر سے سخت ردعمل آئیں گے۔ ایک بیان میں کاظم میثم کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے باسیوں کے ساتھ ناروا سلوک کے وفاقی حکومت حکومت کو سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت ایسی لاقانونیت کو ختم کرے ورنہ احتجاج کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ گمبہ سکردو کے نامور عالم دین غلام عباس ناصری، کھرمنگ کے سید علی عباس رضوی اور شگر کے شیخ اختر حسین شگری کو فورا رہا کیا جائے، بلتستان کے عوام دیامر کے علماء کی کال اور گرفتار علماء کی رہائی کے لیے مرکزی علما کی کال کا انتظار کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ سانحہ جامشورو کے حوالے سے سندھ حکومت کی مجرمانہ غفلت بھی قابل افسوس ہے۔ شہداء کے لواحقین کا جے آئی ٹی اور جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ سندھ حکومت نے ان سنی کر دی ہے، سندھ حکومت کی بنائی گئی انکوائری کمیٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں جوڈیشل انکوائری کمیٹی اور جے آئی کے ذریعے تحقیق کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے علماء ہو یا ذاکرین کوئی بھی محفوظ نہیں اور عوام عدم تحفظ کے شکار ہو چکے ہیں، ہمارے علما پر ہاتھ ڈال کر سنگین غلطی کی گئی ہے اور یہ اس کٹھ پتلی حکومت کا سیاہ کارنامہ ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بلتستان کے علماء کی
پڑھیں:
داسو منصوبہ 240 فیصد مہنگا، ذمہ داری کسی فرد یا ادارے پر نہیں ڈالی گئی
اسلام آباد:ایک سرکاری انکوائری میں داسو ہائیڈرو پاور پرو جیکٹ کی لاگت میں 240 فیصد کے اضافے کرکے اسے 6.2 ارب ڈالر تک لانے کی ذمہ داری کسی ایک فرد یا ادارے پر نہیں ڈالی گئی بلکہ چینی کنٹریکٹرز، واپڈا اور پلاننگ کمیشن کی طرف اشارہ کیا گیا۔
تین رکنی کمیٹی نے زمین کے حصول میں تاخیر کا ذمہ دار ضلع کوہستان کی مقامی انتظامیہ کو بھی ٹھہرایا۔ رپورٹ میں کہا گیا چینی کنٹریکٹرز پر دو مہلک حملوں کے بعد حفاظتی انتظامات میں اضافہ کی وجہ سے لاگت میں 48 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
مجموعی لاگت میں سکورٹی انتظامات کا اثر بمشکل 3.8 فیصد رہا۔ رپورٹ میں کہا گیا مختلف عوامل اور غیر متوقع چیلنجز کے پیچیدہ تعامل نے داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کو نہ صرف 10سال تاخیر کا شکار کردیا بلکہ اس کی لاگت میں 1.3ٹریلین روپے یا 240فیصد اضافہ بھی کردیا۔
مزید پڑھیں: داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کی لاگت میں ایک کھرب سے زائد کا اضافہ
ڈالر کے حساب سے لاگت میں یہ اضافہ 6.2 بلین ڈالر ہے۔ اس طرح 2160میگا واٹ کے اس پروجیکٹ کی قیمت غیر معقول حد تک 1.74ٹریلین روپے تک پہنچ گئی۔
کمیٹی نے کہا کہ چینی کنٹریکٹر نے کنسلٹنٹس کی ہدایات کو نظر انداز کیا۔ مقامی انتظامیہ بروقت اراضی حاصل نہیں کرسکی اور سب سے اہم واپڈا نے کنٹریکٹرز کی جانب سے مطلوبہ اراضی کی دستیابی کو یقینی بنائے بغیر تعمیراتی ٹھیکے دے دیے۔
کمیٹی نے واپڈا کے کسی چیئرمین یا کسی بھی اعلیٰ افسر کا نام لے کر ذمہ داری طے نہیں کی ۔ پلاننگ کمیشن کو زمین کے حصول اور آباد کاری کے مسائل حل کرنے میں کوتاہی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: عالمی بینک داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلیے ایک ارب 58 کروڑ ڈالر کی مالی معاونت فراہم کر رہا ہے
وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی سربراہی میں سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی نے جمعہ کو داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کی مشروط منظوری کی سفارش کی ۔
تین رکنی کمیٹی کی رپورٹ کے نتائج میں کہا گیا کہ یہ ایک قابل غور رائے ہے کہ داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ (مرحلہ-1) میں تاخیر عوامل کے پیچیدہ تعامل کا نتیجہ ہے۔ دسمبر میں حکومت نے 2019میں لاگت میں کی گئی پہلی نظرثانی کے بعد اس کی وجوہات کی نشاندہی کرنے اور اس منصوبے کو مکمل کرنے میں ناکامی کی ذمہ داری طے کرنے کے لیے انکوائری کا حکم دیا تھا۔ انکوائری کمیٹی کی سربراہی سول انجینئر اطہر حمید کر رہے تھے۔
دیگر ارکان میں وزارت آبی وسائل کے ڈائریکٹر مانیٹرنگ سید ایاز محمد حیدر اور وزارت کے پروکیورمنٹ ایکسپرٹ عمران نجم بھی شامل تھے۔ انکوائری نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تعمیراتی تاخیر غیر متوقع اہم انتظامی چیلنجوں اور حصول اراضی، معاوضے کی ادائیگی اور آباد کاری کے عمل میں طریقہ کار کی رکاوٹوں کی وجہ سے بڑھ گئی ہے۔
مزید پڑھیں: توانائی کی ضروریات داسو پراجیکٹ انتہائی اہم چیئرمین واپڈا
غیر متوقع تکنیکی چیلنجز نے پراجیکٹ پر عمل درآمد کے شیڈول کو مزید پریشان کر دیا ہے۔ کمیٹی کے مطابق کمیونٹی کی شکایات اور مزاحمت پر مبنی سماجی مسائل نے پیش رفت کو مزید سست کر دیا۔
انکوائری کمیٹی نے مزید کہا کہ کنٹریکٹرز اور کنسلٹنٹس کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان، پراجیکٹ ایریا میں سیکیورٹی چیلنجز اور دشوار گزار علاقے، غیر متوقع ارضیاتی حالات اور سیلاب جیسی قدرتی وجوہات نے بھی تاخیر میں اضافہ کیا۔
رابطہ کرنے پر وزارت آبی وسائل کے سیکرٹری سید علی مرتضیٰ نے کہا کہ انکوائری چیف انجینئرنگ ایڈوائزر نے کی تھی جو ایک خود مختار ادارہ ہے اور اس طرح کی انکوائری کرنے کے لیے ہے۔
سیکرٹری نے مزید کہا کہ انکوائری کمیٹی کو پتہ چلا کہ لاگت میں 85 فیصد اضافہ قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہوا اور باقی 15 فیصد منصوبے کے دائرہ کار اور ڈیزائن میں تبدیلی کی وجہ سے ہوا۔ انکوائری کمیٹی نے کہا منصوبے کی کامیابی کا انحصار ایسے باہمی تعاون پر ہے جو وفاقی حکومت، خیبر پختونخوا حکومت ، کوہستان کی ضلعی انتظامیہ، واپڈا، کنٹریکٹرز، کنسلٹنٹس اور مقامی کمیونٹیز کے درمیان صف بندی اور تعاون کو فروغ دیتا ہو۔
مزید پڑھیں: داسو ہائیڈرو پاور منصوبہ تین سالہ تاخیر کا شکار 2028ء میں مکمل ہوگا وزارت اقتصادی حکام
کمیٹی نے خاص طور پر 132کے وی ٹرانسمیشن لائن پر سماجی مسائل کو فعال طور پر حل کرنے اور تکنیکی، سماجی اور سکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط انتظامی حکمت عملی کو نافذ کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔
تاہم یہ وہ مسائل ہیں جن کو 2014 میں پورا کیا جانا چاہیے تھا۔ منصوبے کا پی سی ون 2014میں منظور کیا گیا اور اس کی لاگت 486ارب روپے رکھی گئی۔ منصوبے کی تکمیل کا وقت 2019رکھا گیا۔ زمین کی بڑھتی شرح کی وجہ سے اکتوبر 2019 میں لاگت کو 511 بلین روپے تک بڑھا دیا گیا اور اس پر عمل درآمد جون 2024 تک بڑھا دیا گیا۔
جنوری 2025 کی انکوائری رپورٹ کے مطابق اسٹیج ون کے لیے مرکزی سول ورک کنٹریکٹر میسرز چائنا گیزوبا گروپ کمپنی (سی جی جی سی) کا تھا ، نگرانی جاپان کے میسرز نیپون کوئی اور ترکی کے میسرز ڈولسر کے جوائنٹ وینچر کو دی گئی۔
مزید پڑھیں: اہم سنگ میل داسو ہائیڈرو پروجیکٹ کیلئے دریائے سندھ کا رخ موڑ دیا گیا
ساتھ ہی میسرز ڈی ایم سی، میسرز این ڈی سی اور میسرز پی ای ای ایس کا تعاون شامل کیا گیا تھا۔ جنوری تک منصوبے کی مجموعی پیشرفت 23.3 فیصد اور مالیاتی پیشرفت 23 فیصد تھی۔ دوسری نظرثانی پر انکوائری رپورٹ نے بتایا کہ اس منصوبے کو بنیادی طور پر ورلڈ بینک، مقامی اور غیر ملکی کمرشل بینکوں اور واپڈا ایکویٹی کے ذریعے فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں۔
منصوبے پر اب تک 317 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ 1.73 ٹریلین روپے کی کل لاگت میں لیے جانے والے قرضوں پر 479 ارب روپے کا سود شامل ہے۔