UrduPoint:
2025-04-15@11:03:04 GMT

فوج اہم غزہ راہداری سے پیچھے نہیں ہٹے گی، اسرائیلی اہلکار

اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT

فوج اہم غزہ راہداری سے پیچھے نہیں ہٹے گی، اسرائیلی اہلکار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 فروری 2025ء) اس پیش رفت سے چند گھنٹے قبل ہی حماس نے 600 سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے چار اسرائیلی مغویوں کی باقیات اسرائیل کے حوالے کی تھیں۔ جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ رواں ہفتے کے آخر میں ختم ہو رہا ہے اور اس سے پہلے مغویوں کی باقیات کی واپسی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا یہ آخری تبادلہ تھا۔

اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کے دوسرے اور مشکل مرحلے پر بات چیت کا آغاز ہونا ابھی باقی ہے۔ بہت سے معاملات کا انحصار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وِٹکوف کے دورے پر ہے، جو آنے والے دنوں میں اس خطے کا دورہ کرنے والے ہیں۔

اس دوران اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایک مختصر بیان میں تفصیلات فراہم کیے بغیر کہا ہے کہ وہ اپنے مذاکرات کاروں کو قاہرہ بھیج رہے ہیں۔

(جاری ہے)

جنگ بندی معاہدے کی 'واضح خلاف ورزی‘

دوسری جانب ایک اسرائیلی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا ہے کہ مصر سے غزہ میں اسلحے کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے اسرائیلی فوج کا نام نہاد فلاڈیلفی کوریڈور (صلاح الدیں محور) میں رہنا لازمی ہے۔

غزہ سیزفائر کی راہ میں حائل فلاڈیلفی کوریڈور اتنا اہم کیوں؟

اسی طرح اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے مقامی رہنماؤں کے ساتھ ایک میٹنگ میں کہا ہے کہ انہوں نے اس راہداری کے حالیہ دورےکے دوران وہاں سرنگیں دیکھی ہیں لیکن انہوں نے اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔

مصر کا کہنا ہے کہ اس نے برسوں پہلے ہی اپنی سائیڈ پر اسمگلنگ کے مقصد سے بنائی گئی ایسی سرنگوں کو تباہ کر دیا تھا اور اس نے اسمگلنگ کو روکنے کے لیے ایک فوجی بفر زون بھی قائم کر رکھا ہے۔

غزہ میں شدید سردی کے سبب چھ شیر خوار بچوں کی اموات

حماس نے کہا ہے کہ اس راہداری میں بفر زون کو برقرار رکھنے کی کوئی بھی اسرائیلی کوشش جنگ بندی معاہدے کی ''کُھلی خلاف ورزی‘‘ ہو گی۔

اس عسکریت پسند گروپ کا کہنا ہے کہ معاہدے پر قائم رہنا ہی اسرائیل کے لیے غزہ میں قید درجنوں مغویوں کی رہائی کا واحد راستہ ہے۔

جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیل کو پہلے مرحلے کے آخری دن یعنی ہفتے کو فلاڈیلفی راہداری سے انخلاء شروع اور اسے آٹھ دن کے اندر مکمل کرنا ہے۔ مصر کی طرف سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا، جو اپنی سرحد کے ساتھ غزہ کی حدود میں کسی بھی اسرائیلی موجودگی کی مخالفت کرتا ہے۔

چار اسرائیلی مغویوں کی باقیات کی شناخت

اسرائیلی یرغمالیوں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کے فورم کے مطابق جمعرات کو، جن مغوی اسرائیلیوں کی باقیات واپس کی گئی ہیں، وہ انہی کی ہیں، جن کے نام دیے گئے تھے۔ ان میں سے ایک اسرائیلی کی لاش حماس کے عسکریت پسند اس وقت اپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے، جب انہوں نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر دہشت گردانہ حملہ کیا تھا۔

اسرائیل کے مطابق باقی تین مغوی غزہ میں مارے گئے تھے۔

اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے ​​کہا ہے کہ ایسی تلخ خبر ملنے پر اسرائیلیوں کے دل دہل جاتے ہیں، ''اس تکلیف دہ لمحے میں، یہ جان کر کچھ سکون ہے کہ انہیں اسرائیل میں عزت کے ساتھ سُپرد خاک کیا جائے گا۔‘‘

فلسطینی قیدیوں کی واپسی

حماس نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ شب 600 سے زائد فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ زیادہ تر قیدی غزہ واپس لوٹے گئے ہیں، جہاں انہیں سات اکتوبر کے حملے کے بعد بغیر کسی الزام کے حراست میں لے لیا گیا تھا۔ درجنوں قیدی مغربی کنارے پہنچے، جہاں ان کا استقبال ان کے رشتہ داروں اور ہجوم نے کیا۔

ا ا / ع ب، ک م (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جنگ بندی معاہدے فلسطینی قیدیوں اسرائیل کے مغویوں کی کی باقیات کہا ہے کہ

پڑھیں:

اسرائیل کیخلاف جہاد میں حصہ لیں

ﷰامریکا کی مکمل حمایت سے غزہ پر نہ رکنے والے اسرائیلی ظلم و ستم کو روکنے کیلئے کوئی آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ ظالم اپنے ظلم میں روز بروز بڑھتا جا رہا ہے لیکن دنیا کا ضمیر سویا ہوا ہے۔ ماسوائے زبانی جمع خرچ کے کوئی بھی مظلوم فلسطینیوں کو ظالم اسرائیل سے بچانے کیلئےآگے نہیں بڑھ رہا۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ افسوس مسلمانوں اور مسلمان ممالک پر ہوتا ہے جو فلسطینیوں کی اس نسل کشی کو بڑی سرد مہری کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے اگر بیانات سے آگے کوئی بات نہیں بڑھتی تو عمومی طور پر عام مسلمانوں کو بھی جو کرنا چاہیے وہ نہیں کیا جا رہا۔ پاکستان کے بڑے عالم دین اور اسکالر محترم مفتی تقی عثمانی نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں غزہ پر اسرائیلی ظلم و ستم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب تمام مسلمان ممالک کی حکومتوں پر فلسطینیوں کو اسرائیل کے ظلم و ستم سے بچانےکے لیے جہاد فرض ہو چکا۔ محترم مفتی صاحب کی اس بات کا پاکستان سمیت دوسرے اسلامی ممالک کے حکمرانوں پر کتنا اثر ہوتا ہے اس بارے میں مجھے کوئی خوش فہمی نہیں لیکن اگر عام مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ اس صورتحال میں ساری ذمہ داری صرف مسلمان ممالک کی حکومتوں کی ہے تو یہ بات بھی درست نہیں۔ اگر مسلمانوں کے حکمراں فلسطینیوں کی مدد کرنے اور اسرائیل کے خلاف جہاد کرنے کیلئےتیار نہیں تو پھر کیا عام مسلمان بھی خاموش ہو کر بیٹھ جائیں؟ اپنے آپ کو بے بس ثابت کر کے اور مسلمان ممالک کے حکمرانوں پر ساری ذمہ داری ڈال کر عام مسلمانوں کا وہ کچھ بھی نہ کرنا جو اُن کے بس میں ہے کیا اس ظلم میں اسرائیل کا ساتھ دینے کے مترادف نہیں۔ ایک عام مسلمان چاہے اُس کا تعلق پاکستان سے ہو، سعودی عرب یا ترکی سے یا وہ امریکا اور یورپ کے کسی ملک میں بیٹھا ہو اوہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے ایک ایسے جہاد کا حصہ نہیں بن سکتا جس کا اسرائیل کو نقصان بھی ہو اور اپنے آپ کویہ احساس بھی کہ کم از کم میرے بس میں جو ہے وہ میں عملی طور پر کر رہا ہوں۔ اسرائیل کے غزہ پر حملوں اور بچوں، عورتوں، بوڑھوں سمیت ہزاروں فلسطینیوں کو نشانہ بنانے پر اسرائیلی اور یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی مہم چلائی گئی۔ پاکستان میں بھی یہ مہم چلائی گئی اور اسرائیلی مصنوعات کے حوالے سے لوگوں کو آگاہ کیا گیا۔ اس پر عوام کے ایک خاطر خواہ طبقہ نے اسرائیلی مصنوعات،برینڈز، فرین چائزز، فوڈ چینز وغیرہ کا بائیکاٹ کیا لیکن بعد میں اس احتجاج میںحصہ لینے والوں کی شرح میں بدستور کمی ہوتی گئی اس سلسلے میں کچھ عوامی سروے میں بھی یہ حقیقت سامنے آئی۔اسرائیلی فوڈ چینز میں وہی رش لوٹ آیا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ اب جب کہ اسرائیل کا ظلم تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور مسلمان ممالک کے حکمراں بھی کچھ کرنے کو تیار نہیں تو عام مسلمان اسرائیل کو مالی طور پر نقصان پہنچانے کیلئے اسرائیلی و یہودی مصنوعات، اشیاء، فوڈ چینز، کولڈ ڈرنکس وغیرہ کا بائیکاٹ کر کے جہاد کی اس صورت میں اپنا حصہ کیوں نہیں ڈالتے۔ اگر ہم اسرائیلی اور یہودی مصنوعات وغیرہ کا بائیکاٹ نہیں کرتے اور اُنہیں خریدتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اُس اسرائیل کو مالی طور پر مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جو مظلوم فلسطینیوں کا خون بہانے سے رکنے کا نام نہیں لے رہا۔کچھ عرصہ قبل جب اسرائیلی مصنوعات کے حوالے سے تفصیلات سامنے آئیں تو پتا چلا کہ ہمارے گھروں میں استعمال ہونے والی اکثر اشیاء کا تعلق اسرائیل سے ہے۔ یعنی اگر ہم ان اشیاء کو خریدنے سے نہیں رکتے تو ہم عملی طور پر ظالم اسرائیل کو مضبوط اور مظلوم فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس ظلم کو روکنے کیلئے ہمیں اسرائیل کے خلاف اس جہاد میں حصہ لینا چاہیے۔اگر مسلمان ممالک کے حکمراں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھی وہ کام نہ کریں جو ہمارے بس میں ہے اور جس کا ایک اثر بھی ہے۔
انصار عباسی

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل حماس جنگ بندی کیلئے ہونیوالے مذاکرات بغیر کسی پیشرفت کے ختم
  • مصری تجویز مسترد: حماس کا جنگ بندی معاہدے کے لیے غیر مسلح ہونے سے انکار
  • غزہ جنگ بند کرنے کی ضمانت دیں تو تمام یرغمالیوں کی رہا کردیں گے؛ حماس کی پیشکش
  • غزہ میں مستقل جنگ بندی کی ضمانت پر یرغمالی رہا کر دیں گے، حماس
  • اسرائیل طاقت کے ذریعے قیدیوں کو نہیں چھڑا سکتا، حماس
  • اسرائیل کیخلاف جہاد میں حصہ لیں
  • حماس ہسپتالوں کو کمانڈ سنٹر کے طور پر استعمال نہیں کرتی، اسرائیلی جھوٹ بولتے ہیں، یورپی ڈاکٹر
  • اسرائیل حماس سے شکست کھا چکا، مسلم حکمران غیرت کا مظاہرہ کرکے خاموشی توڑیں، حافظ نعیم الرحمان
  • اسرائیلی فوج کا موراگ کوریڈور پر قبضہ، رفح اور خان یونس تقسیم، لاکھوں فلسطینی انخلا پر مجبور
  • حماس کی جانب سے صہیونی قیدیوں کی رہائی کے لیے شرائط