چیمپئنز ٹرافی: بھارت کو دھچکا، روہت شرما کی میچ میں شرکت مشکوک
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
چیمپئنز ٹرافی: بھارت کو دھچکا، روہت شرما کی میچ میں شرکت مشکوک WhatsAppFacebookTwitter 0 27 February, 2025 سب نیوز
دبئی (سب نیوز )آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 میں بھارتی ٹیم پاکستان اور بنگلہ دیش کو شکست دینے کے بعد سیمی فائنل میں رسائی حاصل کرچکی ہے تاہم فٹنس مسائل کی وجہ سے نیوزی لینڈ کے خلاف آخری گروپ میچ میں کپتان روہت شرما کی شرکت مشکوک ہے۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی ٹیم کے کپتان روہت شرما نے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں نیوزی لینڈ کے خلاف اپنے آخری گروپ میچ سے قبل نیٹ پریکٹس میں حصہ نہیں لیا، جس سے ان کی فٹنس بارے تشویش پیدا ہو گئی ہے۔
خیال رہے کہ 23 فروری کو دبئی میں کھیلے گئے پاک بھارت ٹاکرے کے دوران روہت شرما کو ہیمسٹرنگ تکلیف محسوس ہوئی تھی لیکن میچ کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ وہ ٹھیک ہیں اور فکر کی کوئی بات نہیں۔روہت شرما کی انجری کے حوالے سے بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا تاہم، ممکنہ طور پر روہت شرما نے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے نیٹ سیشن میں حصہ نہیں لیا تاکہ انہیں مزید کوئی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور آخری میچ سے قبل وہ مکمل فٹ رہیں۔
بھارتی ٹیم ٹیم مینجمنٹ اور میڈیکل اسٹاف نے روہت شرما کی فٹنس پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے اور ٹورنامنٹ کے آخری گروپ میچ میں نیوزی لینڈ کے خلاف میچ میں ان کی شرکت کا حتمی فیصلہ میچ والے دن ہی کیا جائے گا۔دوسری جانب، ایک اور رپورٹ میں یہ دعوی کیا گیا کہ بھارتی کپتان روہت شرما کے علاوہ ون ڈے ٹیم کے نائب کپتان شبمن گل نے بھی پریکٹس سیشن میں شرکت نہیں کی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارتی ٹیم نے 27 فروری کو تقریبا 3 گھنٹے پریکٹس سیشن کیا جس میں بھارتی کپتان گرانڈ میں موجود رہے البتہ شبمن گل بالکل غائب رہے، وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیے۔ اس کے علاوہ، بھارت کے وکٹ کیپر بلے باز ریشبھ پانٹ بھی پریکٹس کرتے ہوئے دکھائی دیے، پاکستان کے میچ سے قبل وہ بخار میں مبتلا ہوگئے تھے جس کی وجہ سے وہ کوئی دن تک آرام کرتے رہے تاہم نیوزی لینڈ کے خلاف میچ میں ان کی شرکت کا فیصلہ تاحال نہیں ہوسکا۔
واضح رہے کہ چیمپئنز ٹرافی 2025 میں بھارت اور نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیمیں گروپ اے کا اپنا آخری میچ 2 مارچ کو دبئی میں کھیلیں گی تاہم دونوں ٹیمیں پاکستان اور بنگلہ دیش کو شکست دے کر پہلے ہی سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرچکی ہیں۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: چیمپئنز ٹرافی روہت شرما کی میچ میں
پڑھیں:
حادثہ سے بڑا سانحہ
ٹرمپ اور مودی ایک ہی تھیلی کے چٹّے بٹّے ہیں۔ دونوں نے دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب دونوں کوئی نہ کوئی شوشہ نہ چھوڑتے ہوں۔ دونوں کے سروں پر بھوت سوار ہے۔ ٹرمپ پوری دنیا پر امریکا کا سکہ جمانا چاہتا ہے تو ادھر مودی بھی اس سے پیچھے نہیں ہے۔مودی نے بھارت کے وِشو گُرو ہونے کا دعویٰ اور اعلان کیا ہے۔
وشو کے معنی دنیا ہے اور گرو کے معنی ہیں استاد۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب ہے پوری دنیا پر بھارت کی بالادستی۔مودی جس سیاسی جماعت کا سرغنہ ہے، اس کی ذہنیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہ بھارت کی انتہا پسند جماعتوں ہندو مہا سبھا کی پیداوار ہیں اور ان کا واحد مقصد مسلمانوں اور اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا ہے۔
آئیے! ذرا ماضی کی طرف لوٹتے ہیں۔ 1925 میں بھارت کے شہر ناگپور میں انتہا پسند ہندوؤں کے زہریلے ناگوں کا ایک اہم اجلاس ہوا تھا، جس کی صدارت گُرو گول والکر نے کی تھی۔ اس اجلاس میں ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی اورکسی بھی طرح ہندوستان پر اقتدار حاصل کرنا تھا۔اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔
جوں جوں وقت گزرتا رہا انتہا پسند ہندوؤں کے اس گروہ کی سازش پنپتی رہی۔ اس وقت اس کی دو تنظیمیں تھیں، ایک کا نام تھا ہندو مہاسبھا اور دوسری تھی، راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ۔ اس کے بعد اس کی دو شاخیں وجود میں آئیں جو جَن سنگ اور بھارتیہ جنتا پارٹی نامی بی جے پی کہلائیں۔شروع شروع میں بی جے پی کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور بھارت کی سب سے بڑی سیکولر پارٹی انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کے آگے اس کا چراغ نہیں جل سکا۔کانگریس وہ سیاسی جماعت تھی جس نے ہندوستان کی آزادی کے حصول کے لیے فرنگی راج کے خلاف جنگ لڑی۔ اس کے سرکردہ رہنما موہن داس کَرم چند گاندھی اور جواہر لال نہرو تھے جو سیکولر مزاج رکھتے تھے، اس لیے سیکولر ازم بھارت کے آئین کی روح ہے۔
بھارت کی آئین ساز کمیٹی کے سربراہ بابا صاحب امبیڈکر ایک ماہر آئین ساز تھے۔ دنیا کے مختلف آئین کا ان کا وسیع مطالعہ تھا لیکن ان کا تعلق اس طبقہ سے تھا جسے اعلیٰ ذات کے ہندو اچھوت کہتے ہیں جن کا مودی اور اُن کے پیروکاروں سے تعلق ہے۔بھارت کے آئین میں اس ملک کا ہر شہری برابر کے حقوق رکھتا ہے جس میں مذہب اور فرقہ کا کوئی بھید بھاؤ نہیں ہے اور سب کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔
مودی اور اس کی جماعت کو مسلمانوں کا وجود بُری طرح کھٹکتا ہے اور اُن کا بس نہیں چلتا کہ انھیں تہہ تیغ کردیا جائے۔ دیگر اقلیتوں کا بھی کم و بیش یہی حال ہے جس میں خالصتان کی تحریک چلانے والے سِکھ بھی شامل ہیں۔ جب سے مودی اور اس کے حواری برسرِ اقتدار آئے ہیں، انھوں نے بھارت کے مسلمانوں کی نسل کُشی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ مسلمانوں کی املاک کو بُلڈوز کیا جا رہا ہے اور ان کی معیشت کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ مختلف حیلوں بہانوں سے ان کا دائرہ حیات تنگ سے تنگ تر کیا جا رہا ہے جس کی تازہ ترین مثال وقف بورڈ ترمیمی بِل ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن سے مسلمان عاجز ہو جائیں۔
مسلمان حکمرانوں کو ظالم اور جابر قرار دیا جا رہا ہے لیکن سچ سچ اور جھوٹ جھوٹ ہوتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہندوستان پر مغل حکمرانوں نے دس بیس سال نہیں بلکہ آٹھ سو سال تک حکمرانی کی تھی، اگر وہ ہندو دھرم کے خلاف ہوتے تو نہ تو ہندو دھرم باقی رہتا اور نہ کسی ہندو کا وجود ہوتا۔ مسلم حکمرانوں نے ہندوؤں کے ساتھ انتہائی رواداری کا سلوک کیا۔
انھیں اپنے دربار میں بڑی عزت اور وقعت دی اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا جس کی ناقابلِ تردید مثال اکبر اعظم کی ہے جس کے دورِ حکومت میں بیربل اور ٹوڈرمل جیسے اہم ہندو درباری نہایت احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔شہنشاہ اورنگزیب جیسے پاکباز مسلمان حکمراںکے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ اس کی نماز کبھی قضا نہ ہوئی تھی حتیٰ کہ اس نے گھوڑے کی پیٹھ پر بھی نماز ادا کی۔ اُس پر یہ جھوٹے الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ اس نے مندروں کو تڑوا کر مساجد تعمیر کرائیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اُس نے بعض مندروں کی مرمت بھی کرائی اور ازراہِ ہمدردی ہندو بیواؤں کی مالی اعانت بھی کی۔ علاوہ ازیں اورنگزیب کی حکومت میں مختلف اہم عہدوں پر کئی ہندو اہلکار فائز تھے۔
تصویرکا دوسرا اور انتہائی مکروہ رخ یہ ہے کہ انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور آتے ہی بابری مسجد کا ناٹک رچایا گیا اور بابر کی تعمیر کرائی گئی اس مسجد کو شہید کرکے وہاں رام مندر تعمیر کردیا گیا جب کہ خود ہندوستان کے ماہرین آثارِ قدیمہ نے انتہائی تحقیق کے بعد یہ بات ثابت کردی تھی کہ یہاں کسی مندر کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ دنیا کے تمام مسلم ممالک نے اس عظیم سانحہ پر چپ سادھے رکھی۔
حادثہ سے بڑا حادثہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر