پنجاب کے بعد سندھ حکومت کا بھی پنک بائیک دینے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
ویب ڈیسک : پنجاب حکومت کے بعد سندھ حکومت نے بھی خواتین کی سہولت کیلئے پنک بائیک دینے کا اعلان کردیا۔
سینئر صوبائی وزیر شرجیل میمن نےپریس کانفرنس میں بتایا کہ محکمہ ٹرانسپورٹ سندھ خواتین کو مفت پنک اسکوٹرز دینے جارہا ہے،اس سلسلے میں جن کے پاس 2ویلرز لائسنس ہوگا ان کو پنک اسکوٹرز ملیں گے، اوپن بیلٹنگ کے ذریعے اسکوٹرز دیے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اسٹوڈنٹس، کاروبار اور نوکری پیشہ خواتین کو اسکوٹرز ملیں گے، محکمہ ٹرانسپورٹ خواتین کو بائیک چلانا بھی سکھائے گا۔
مردوں کے بینک اکاونٹس زیادہ ہیں یا خواتین کے ،گورنر اسٹیٹ بینک نے بتا دیا
شرجیل میمن نے کہا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ خواتین کو خودمختار بنانے کی بات کرتی ہے۔ کوشش ہے کہ اگلے ماہ سے پنک ٹیکسی بھی شروع کریں۔ حکومت کا پورا فوکس عوام کو ریلیف دینے پر ہے۔ کراچی میں پانی کی طلب زیادہ ہے، پانی کی دستیابی بڑھانےکےمنصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے صوبائی کابینہ سے ڈبل ڈیکر بسوں کی منظوری لیے جانے کی خوش خبری دیتے ہوئے مزید بتایا کہ کے فور منصوبے پر بھی کام کو تیز کیا جائے گا۔ اسی طرح اے این ایف کو آٹو میٹڈ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ڈبل کیبن گاڑیوں کو بھی پرسنل گاڑی کے طور پر رجسٹرڈ کیا جائے گا۔
کرکٹ کا اہم ایونٹ بھارت میں نہیں ہو گا، نیوٹرل وینیو کی تلاش
واضح رہے کہ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز بھی خواتین کے لیے پنک بائیک متعارف کروا چکی ہیں۔ اس حوالے سے ایک تقریب میں مریم نواز نے کہا تھا کہ والدین اپنی بچیوں کو بائیک چلانے کی اجازت دیں ، بچیاں بائیک چلانے سے بااختیار ہوں گی اور اپنا کام خود کریں گی ۔
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: خواتین کو
پڑھیں:
اتحادیوں کی مشاورت سے فیصلے!
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہم تمام فیصلے اتحادیوں کی مشاورت سے کرتے ہیں۔ اتحادی حکومت میں باہمی اعتماد سازی کی فضا خوش آیند ہے اور حکومت ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے یکسوئی سے کام کر رہی ہے۔
دریائے سندھ سے 6نہریں نکالنے کے اہم مسئلے پر سندھ میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی بھی اپنے سیاسی مخالفین کے بعد خود بھی اس صوبائی احتجاج میں بھرپور طور پر شریک ہو چکی ہے۔
صدر مملکت پارلیمنٹ میں 6 کینالز نکالنے کی مکمل طور پر مخالفت کر چکے ہیں جب کہ وفاق اور سندھ کے اس تنازع میں صورتحال مزید کشیدہ ہو چکی ہے جب کہ اس معاملے میں پنجاب کو خود کو دور رکھنا چاہیے تھا تاکہ صدر مملکت اور وزیر اعظم اس مسئلے کو خود حل کرنے کی کوشش کرتے، اس معاملے میں سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کے وزرائے اطلاعات بھی خاموش نہیں رہے اور دونوں نے اس سلسلے میں بیان بازی کی۔
وزیر اطلاعات پنجاب کا کہنا ہے کہ کینالز منصوبہ صدر مملکت کی منظوری کے بعد اعلان ہوا جس کے ثبوت موجود ہیں جب کہ وزیر اطلاعات سندھ نے اس سلسلے کے میٹنگ منٹس کو من گھڑت قرار دیا ہے اور دونوں ایک دوسرے کو آئین پڑھنے کا مشورہ بھی دے رہے ہیں جس سے صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی کینالز منصوبے کو نامنظور کرکے عوام کے ساتھ کھڑے رہنے کا اعلان کر چکے ہیں جس کے بعد پنجاب حکومت نے جواب دینا نہ جانے کیوں ضروری سمجھا جس کا جواب سندھ نے دیا۔
اگر صدر مملکت آصف زرداری نے کسی وجہ سے کینالز منصوبے کی منظوری دی تھی جس کے بعد سندھ میں ان کے سیاسی مخالفین نے اس کی نہ صرف مخالفت شروع کی بلکہ صدر مملکت کو بھی اس میں شریک قرار دیا اور سندھ میں احتجاج پر وفاقی حکومت خاموش رہی اور بڑھتی مخالفت کے بعد پیپلز پارٹی کو بھی کینالز پر اپنی سیاست متاثر ہوتی نظر آئی تو اس نے بھی یوٹرن لیا اور اس طرح وہ بھی دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کی مخالف ہوگئی اور احتجاج میں شریک ہوگئی اور یہ سلسلہ سندھ میں دونوں طرف سے احتجاج بڑھاتا رہا اور اب یہ مسئلہ انتہا پر پہنچ چکا ہے اگر اتحادی حکومت کے فیصلے اتحادیوں کے مشوروں سے ہوتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی اور کینالز منصوبے کا انجام بھی کالاباغ ڈیم جیسا نہ ہوتا۔
کالاباغ ڈیم کا پنجاب حامی اور باقی صوبے مخالف تھے اس لیے کالا باغ ڈیم سیاست کی نذر ہو گیا اور اب کینالز منصوبے پر صرف سندھ مخالف ہے کیونکہ پانی نہ ملنے سے سندھ ہی متاثر ہوگا اور فائدہ پنجاب کا ہونا ہے اس لیے وفاق کے منصوبے کی وجہ سے سندھ اور پنجاب سامنے آگئے جس کے بعد حکومت کے مخالفین جن میں پی ٹی آئی پنجاب بھی شامل ہے پنجاب کی مخالفت میں سامنے آگئی اور ملک کے تمام قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوں کو پنجاب کی مخالفت کا موقعہ مل گیا ہے۔
سندھ میں پی پی کے مخالفین کی مخالفت کے بعد اگر صدر مملکت اور وزیر اعظم باہمی مشاورت سے کوئی فیصلہ کر لیتے تو سندھ اور پنجاب حکومتوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نہ ہوتی۔اتحادی حکومت سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہ بلانے پر پیپلز پارٹی شکایت کرتی آ رہی ہے جس کے بعد ایم کیو ایم دوسری وزارت ملنے پر بھی نہ خوش ہے اور حکومت کی حمایت ترک کرنے کی دھمکی بھی دے چکی ہے تو وزیر اعظم کیسے کہہ رہے ہیں کہ ہم تمام فیصلے اپنے اتحادیوں کی مشاورت سے کرتے ہیں؟ کہنے کو حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہے جو پیپلز پارٹی کے ساتھ عہدوں کی تقسیم سے بنائی گئی تھی جس میں تیسری بڑی پارٹی ایم کیو ایم ہے اور دونوں کو شکایت ہے کہ اتحادی حکومت اہم فیصلوں میں بھی ہمیں اعتماد میں نہیں لیتی اور فیصلے پہلے اپنے طور کر لیتی ہے اور مشاورت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتی۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں سے پہلے بھی اس کے اتحادیوں کو مشاورت نہ کرنے کی شکایت ماضی میں بھی رہی ہے جب کہ اس وقت وہ صرف چھوٹے اتحادی تھے جن کے الگ ہونے سے (ن) لیگی حکومت قائم رہی تھی مگر اب صورت حال 2008 جیسی نہیں جب (ن) لیگ، پی پی حکومت سے الگ ہوئی تھی اور پی پی حکومت نے نئے اتحادی ملا کر اپنی مدت پوری کر لی تھی اب وہ صورتحال نہیں اور پیپلز پارٹی جب چاہے (ن) لیگی حکومت سے اتحاد ختم کرکے حکومت ختم کراسکتی ہے اور (ن) لیگ پی پی کو ملے ہوئے آئینی عہدے ختم نہیں کرا سکتی اور پی پی پی، پی ٹی آئی کو نیا اتحادی بنا سکتی ہے۔ اتحادیوں کو نظرانداز کرکے یکطرفہ فیصلے کرنا درست نہیں۔
ماضی میں پی ٹی آئی حکومت کی حمایت اختر مینگل نے ختم کی تھی کیونکہ ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے تھے۔ آصف زرداری میں اپنے چھوٹے اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت ضرور ہے وہ اپنی قرار دی گئی قاتل لیگ کو نائب وزیر اعظم بنا دیتے تھے مگر (ن) لیگ کسی اتحادی عہدہ دینے سے کتراتی ہے اور وہ ماضی میں آصف زرداری کو ناراض کرکے اپنی بلوچستان حکومت ختم کرا چکی ہے۔
حکومت بنانے کے لیے وعدے کرکے اپنے اتحادی بڑھانا اورحکمران بن کر اتحادیوں سے کیے گئے وعدے بھول جانا ماضی میں بھی ہوتا رہا اور اب بھی ہو رہا ہے اور دعویٰ ہے کہ ہم اتحادیوں کی مشاورت سے فیصلے کرتے ہیں۔ اتحادی حکومت سے پی پی مطمئن ہے نہ ایم کیو ایم مگر کوئی مجبوری ضرور ہے کہ یہ ایک سال بعد بھی حکومت کے اتحادی ہیں مگر اب سندھ میں پی پی کی سیاست واقعی خطرے میں ہے اور لگتا ہے کہ پنجاب حکومت بھی کچھ مختلف چاہتی ہے، اس لیے کینالز کے تنازعے میں ایک دوسرے کے خلاف بیانات دے کر معاملہ سلجھانے کے بجائے مزید الجھایا جا رہا ہے۔