آسٹریلیا میں رمضان المبارک کے آغاز کی تاریخ کا باضابطہ اعلان
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
سڈنی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 27 فروری2025ء) آسٹریلیا میں رمضان المبارک کے آغاز کی تاریخ کا باضابطہ اعلان ، آسٹریلین فتوٰی کونسل اور مفتی اعظٰم نے فلکیاتی ماہرین کی رائے کے مطابق پہلے روزے کی تاریخ کا اعلان کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں ماہ شعبان کا اختتام اور رمضان المبارک کا آغاز اب صرف 2 دن کی دوری پر ہے۔ دنیا بھر کے اسلامی ممالک اور غیر اسلامی مملک میں مسلمانوں کی تنظیموں کی جانب سے رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کیلئے رویت ہلال کمیٹیوں کا اجلاس طلب کیا جا چکا ہے۔
تاہم کچھ ممالک میں ماہرین فلکیات کی رائے کے مطابق پہلے ہی رمضان المبارک کے آغاز کا باضابطہ اعلان کر دیا گیا ہے۔ آسٹریا دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں رواں سال رمضان المبارک کے آغاز کے حوالے سے باضابطہ اعلان کر دیا گیا ہے۔(جاری ہے)
اسلامی نظریاتی کونسل آسٹریا نے آسٹریا بھر میں یکم مارچ بروز ہفتہ کو رمضان شریف کے پہلے روزہ کا اعلان کردیا ہے، اس سلسلہ میں رمضان المبارک کے پہلے روزہ کی نمازِ تراویح 28 فروری بروز جمعہ کو پڑھی جائے گی۔
جبکہ آسٹریلیا میں بھی آسٹریلین فتوٰی کونسل اور مفتی اعظم کی جانب سے یکم مارچ کو پہلا روزہ ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔ آسٹریلیا کی مساجد میں 28 فروری کی شب کو نماز عشاء کے بعد نماز تراویح کا اہتمام کیا جائے گا۔ جبکہ پاکستان اور سعودی عرب میں رمضان المبارک کے چاند کی رویت سے متعلق سپارکو ماہرین کی پیشن گوئی سامنے آئی ہے۔ سپارکو ترجمان کے مطابق نیا چاند 28 فروری 2025 کو پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق پانچ بج کر 45 منٹ پر ہو گا اور 28 فروری کو غروب افتاب کے وقت چاند کی عمر 12 گھنٹے ہوگی۔ سپارکو کے مطابق 28 فروری کو غروب آفتاب کے وقت چاند کی عمر 12 گھنٹے اور بلندی 5 ڈگری ہوگی، فاصلے اور کم بلندی کی وجہ سے اس کا نظر آنا مشکل ہے۔ سپارکو کے مطابق 28 فروری کو چاند اور سورج کے درمیان زوایے کا فاصلہ 7 ڈگری ہوگا جس کی وجہ سے چاند کو انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جائے گا۔ اس پیش گوئی کے پیش نظرپاکستان میں رمضان المبارک 2 مارچ 2025 سے شروع ہونے کا امکان ہے۔ سپارکو کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب میں 28 فروری کو ہلال نظر آسکتا ہے، سعودی عرب میں رمضان یکم مارچ سے شروع ہوگا، شوال کا چاند 30 مارچ کو متوقع ہے، عید الفطر 31 مارچ کو ہوسکتی ہے۔ سپارکو ترجمان نے یہ بھی واضح کیا کہ رمضان اور عید الفطر کے کے چاند کی رویت کا حتمی فیصلہ رویت ہلال کمیٹی کے پاس ہے۔ جبکہ ماہرین موسمیات کی بھی اہم پیشن گوئی سامنے آئی ہے۔ رواں سال ماہ صیام کا آغازموسم سرما کے اختتام اور موسم بہارکا آغاز پر ہورہا ہے،گزشتہ سالوں کی نسبت روزے قدرے ٹھنڈے ہوں گے۔ توقع ہے کہ کئی عرب ممالک مثلا سعودی عرب ، امارات ، قطر ، کویت اور مصر سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں رمضان کے ابتدائی ایام میں روزے کا دورانیہ تقریباً 13 گھنٹے ہوگا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے رمضان المبارک کے آغاز میں رمضان المبارک کے باضابطہ اعلان اعلان کر کے مطابق فروری کو چاند کی
پڑھیں:
ٹرمپ کی ٹیم نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کو "بہت مثبت" کیوں قرار دیا؟
اسلام ٹائمز: ایک اور مقصد جو تصور کیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ "بہت مثبت" قرار دیکر یہ ظاہر کیا جائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ٹیم نے مذاکرات شروع کیے ہیں اور وہ ایرانی عوام کی مشکلات کو دور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پلاننگ کا مقصد ایران کے اندرونی، سیاسی اور اقتصادی ماحول کو متاثر کرنا ہے اور اسکے نتیجے میں ایرانی قوم میں جھوٹی امید پیدا کرنا اور عوامی خیالات کو گمراہ کرنا ہے۔ اس پروپیگنڈہ کا مقصد امریکہ کیخلاف ایران کی خارجہ پالیسی کے اسٹریٹجک حساب کتاب کو مشکوک بنانا ہے۔ تحریر: مھدی جہانتیغی
سٹیو وٹکاف نے عمان میں ایران کے ساتھ ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کے بارے میں کہا ہے کہ "ہم نے بہت مثبت اور تعمیری بات چیت کی ہے۔" وائٹ ہاؤس نے بھی عمان میں ایرانی اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والی بالواسطہ بات چیت کو بہت مثبت اور تعمیری قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ "بہت زیادہ مثبت" بیان کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔؟
ایک: پہلی بات تو یہ ہے کہ بالواسطہ مذاکرات کے آغاز میں ابتدائی مباحثے کو مثبت قرار دینا صرف اسی مرحلے تک مثبت سمجھنا چاہیئے، کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ موقف مذاکرات کے بعد کے مراحل کے لئے ایک مطلق اور عمومی بیان ہو اور صورت جوں کی توں رہے۔ ابھی اہم متنازعہ اور پیچیدہ مرحلے باقی ہیں اور بعد میں میٹنگ کے حالات مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔
دوئم: مذاکرات کے "بہت مثبت" بیان سے کئی دوسرے مقاصد بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکی فریق اپنے آپ کو مذاکرات کے لیے پرعزم، سنجیدہ اور پرامید ظاہر کرے اور بعد میں کسی وجہ سے انہیں اگر مذاکرات کی میز کو چھوڑنا پڑے تو ایران پر مذاکرات کو ناکام بنانے کا الزام لگا سکیں اور اپنے آپ کو اس الزام سے بچا سکیں کہ انہوں نے مذاکرات کو سبوتاز نہیں کیا ہے۔
تیسرا: ایک اور مقصد جو کہ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کی انتخابی مہم میں حالیہ ہفتوں میں اور یہاں تک کہ ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ کے چار سال میں بھی عام طور پر دیکھا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ مذاکرات کو پہلے مثبت قرار دیکر اس سے تشہیراتی فوائد حاصل کئے جائیں، بعد میں کیا ہوتا ہے، اسے مستقبل پر چھوڑ دیا جائے۔ گویا یہ ایک قسم کا پروپیگنڈا بھی ہوسکتا ہے اور اس سے داخلی اور بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر دیا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیاں جلد عملی جامہ پہن رہی ہیں۔
چوتھا: ایک اور مقصد جو تصور کیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ "بہت مثبت" قرار دیکر یہ ظاہر کیا جائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ٹیم نے مذاکرات شروع کیے ہیں اور وہ ایرانی عوام کی مشکلات کو دور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پلاننگ کا مقصد ایران کے اندرونی، سیاسی اور اقتصادی ماحول کو متاثر کرنا ہے اور اس کے نتیجے میں ایرانی قوم میں جھوٹی امید پیدا کرنا اور عوامی خیالات کو گمراہ کرنا ہے۔ اس پروپیگنڈہ کا مقصد امریکہ کے خلاف ایران کی خارجہ پالیسی کے اسٹریٹجک حساب کتاب کو مشکوک بنانا ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں معاشرتی اور معاشی نقصان کا ماحول پیدا کرکے ایرانی حکام کے بارے میں عوام کو گمراہ کرنا ہے۔ مذاکرات میں مبینہ رکاوٹ ڈال کر یا بے جا مطالبات کرکے مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرانے کے لیے ماحول تیار کرنا ہے۔
پانچ: عام طور پر بات چیت کے عمل سے کسی ملک کی خارجہ پالیسی کی ٹیم کے نقطہ نظر پر اعتماد کیا جا سکتا ہے، لیکن امریکی حکومتوں کے بیان کردہ شرائط اور ماضی کا بدنام زمانہ ریکارڈ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے مذاکرات کی امید افزائی کو شکوک و شبہات کے ساتھ دیکھا جائے اور اسے ممکنہ طور پر پروپیگنڈا اور ممکنہ طور پر ایک سوچی سمجھی سازش کر طور پر دیکھا جائے۔ یاد رہے کہ امریکہ کے ساتھ متعدد مذاکرات کے عملی تجربات کے نتائج کی روشنی میں جب تک پابندیوں کے خاتمے اور ملکی معیشت پر ان مذاکرات کے حقیقی اثرات سامنے نہيں آجاتے آخری لمحے تک صبر اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور کسی پروپیگنڈے، مسکراہٹ اور مذاکرات کو بہت مثبت اور تعمیری قرار دینے جیسے دعووں کے فریب اور دام سے بچنے کی ضرورت ہے۔