’ڈٹے رہنا ڈرنا مت‘، ارمغان کا کورٹ روم میں ساتھی ملزم شیراز کو مشورہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کیس میں جمعرات کو اس وقت ایک اہم پیش رفت ہوئی جب گواہ غلام مصطفیٰ نے ملزم ارمغان کو گواہی میں شناخت کرلیا۔ پولیس کی جانب سے ملزمان ارمغان اور شیراز کو سٹی کورٹ میں پیش کیا گیا۔ اس موقعے پر کمراہ عدالت میں ملزم ارمغان نے اپنے ساتھی شیراز کو ہدایت کی وہ ڈٹا رہے اور خوفزدہ نہ ہو جس پر شیراز نے اس سے کہا کہ اس نے کوئی بیان نہیں دیا۔
یہ بھی پڑھیں: مصطفیٰ عامر قتل کیس، کیا ارمغان بھی منظر سے غائب ہونے کے بعد بری ہوجائے گا؟
گواہ غلام مصطفیٰ ولد عابد نے عدالت کو بتایا کہ وہ حیدرآباد کا رہائشی ہے اور اسے ڈیفنس میں بنگلہ نمبر 35 کام پر رکھا گیا تھا۔ گواہ نے کہا کہ ’اس میں اوپر والے فلور پر باس رہتے تھے جن کا نام ارمغان ہے، میں وہاں صفائی کا کام کرتا تھا، نیو ایئر کو 2 بجے کال آئی مجھے گھر بلایا تھا جس پر میں نے منع کردیا۔ اگلے روز یکم جنوری کو ہم 3 بجے بنگلے پر گئے تھے، گھر بکھرا ہوا تھا 30 سے 40 لوگ آئے ہوئے تھے، ہمارا کھانا بھی باس آن لائن منگواتے تھے ہم نیچے رہتے تھے، جب کام ہوتا تھا تو باس ہمیں بلاتے تھے، گھر کا گیٹ ریموٹ سے کھلتا تھا، ہمیں باہر جانے کی بھی اجازت نہیں تھی‘۔
گواہ نے بتایا کہ 6 جنوری کو رات 9 بجے بلیک ٹراؤزر پہنے ایک لڑکا آیا جو اوپر چلاگیا‘۔ عدالت نے استفسار کیا کہ لڑکا دیکھنے میں کیسا تھا جس پر گواہ نے بتایا کہ وہ دبلا پتلا تھا اور وہ اوپر چلا گیا اور کچھ دیر بعد گالم گلوچ کی آواز آئی، کچھ دیر بعد فائرنگ کی آواز بھی آئی، باس نے کیمرے پر دیکھ کر ہمیں اوپر بلایا، ہمیں کمرے میں رہنے کا کہا گیا اور کہا کہ ڈرو نہیں۔ تھوڑی دیر بعد باس نے اوپر بلایا اور کہا کہ کپڑا اور شاور لے کر آؤ، میں اوپر چلا گیا جہاں باس کے پاس ایک لڑکا تھا جو چھوٹے قد کا اور چشمہ لگایا ہوا تھا، ہم سے باس نے خون صاف کروایا، خون صاف کرکے رات ایک بجے ہم کھانا کھانے بیٹھ گئے، جب میں نے رات ایک بجے دیکھا تو جو لڑکا آیا تھا اس کی گاڑی تھی اور نہ ہی وہ خود موجود تھا۔ ہم اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گئے لیکن نیند نہیں آرہی تھی فجر تک جاگتے رہے، فجر میں نیند آئی ہمیں، ایک بجے دن اٹھے تو زور زور کھڑکیاں اور دروازہ پیٹا جا رہا تھا۔ گیٹ کھولا تو 2 لوگ موجود تھے ایک چشمے والا اور ایک ہمارا باس جنہوں نے ہم سے پوچھا کہ گیٹ کیوں بند کیا تھا تو میں نے کہا کہ مجھے لگا آپ سو گئے ہیں، باس نے کہا ٹھیک ہے نیچے جاکر آرام کرو کوئی مسئلہ نہیں ہے، اسی دن باس نے ہم دونوں کو اوپر بلایا، باس نے کہاکہ یہ نشان ٹھیک سے صاف نہیں ہوئے ٹھیک سے صاف کرو اور وہ ٹراؤزر موجود نہیں تھا، ہمارے باس نے ایک سے 2 دن بعد ہمیں چھٹی دے دی تھی، پھر ہمیں باس نے 3 تاریخ کو کال کی تھی، ہمیں اوپر جانے کی اجازت نہیں تھی۔
مزید پڑھیے: مصطفیٰ عامر قتل کیس: ارمغان کو پولیس نے کیسے گرفتار کیا؟ رپورٹ عدالت میں جمع
گواہ نے بتایا کہ 5 فروری کو پولیس کا چھاپہ پڑا اوپر سے فائرنگ ہورہی تھی اور ہم اپنے روم میں تھے، آمنے سامنے فائرنگ ہورہی تھی، فائرنگ میں 2 افراد زخمی ہوگئے تھے، ہم اس وقت چھپ کر باہر نکلے اور چلے گئے تھے، 10 تاریخ کو آئے سامان کے لیے کپڑوں کے لیے پولیس نے ہمیں پکڑ لیا، پولیس نے ہم سے پوچھ گچھ کی اور ہم نے سب بتادیا کہ ایسا واقعہ ہوا، پولیس اسی رات ہمیں بنگلے پر لے کر گئی ہے، موقع واردات پر پولیس کو خون کے نشانات بتائے، قالین میں 2 دھاگے تھے بلیک اور وائٹ، قالین ہٹایا تو خون کے نشانات موجود تھے، پولیس نے وہاں سیمپل لیے اور ہمیں اسی رات تھانے لے کر گئے پھر پولیس نے ہم سے نمبر لے کر ہمیں چھوڑ دیا، اس کے بعد پولیس نے ہمیں کال کرکے بلایا اور آج میں یہاں موجود ہوں۔
عدالت نے گواہ کا بیان قلمبند کرلیا گواہ نے انگلی کے اشارے سے ملزمان ارمغان کو شناخت کرتے ہوئے کہا کہ ارمغان باس ہے اور دوسرا چشمے والا لڑکا ہے۔
دوسرے گواہ نے بھی ارمغان اور شیراز کو شناخت کرلیا
دوسرے گواہ زوہیب نے بھی ملزمان ارمغان اور شیراز کو شناخت کرلیا۔
گواہ نے اپنے بیان میں کہا کہ میرا نام زوہیب ہے اور عمر 17 سال ہے، میں باس ارمغان کے پاس کام کرتا ہوں، میں باس کے گھر کام پر لگا تھا ہم سے کہا گیا تھا وہاں فیملی ہے لیکن وہاں فیملی نہیں تھی، یکم جنوری کو کام پر آیا تھا، گھر میں بہت کچرا اور گھر بکھرا ہوا تھا، ہمیں انہوں نے روم دیا ہوا تھا، ہم صفائی کرنے کے بعد وہاں چلے جاتےتھے اور ہمیں اوپر جانے کی اجازت نہیں تھی، جو بھی کوئی دوست آتا یا کوئی اور آتا تھا ہمیں اس سے ملنے کی اجازت نہیں تھی، روم میں ہی اپنا زیادہ تر وقت گزارتے تھے۔
مزید پڑھیں: مصطفیٰ عامر قتل: تشدد اور زندہ جلانے سے پہلے مبینہ قاتل کی فلمی ولن جیسی حرکتیں
زوہیب نے بتایا کہ 5 جنوری کو میں کپڑے نے دھوئے اور استری کرنے کے بعد کپڑے اوپر لے گیا وہاں پر لڑکی بھی بیٹھی ہوئی تھی، کپڑے رکھ کر میں نیچے آگیا، 6 جنوری کو بلیک گاڑی آئی جس میں مصطفیٰ نامی شخص تھا، جب وہ اندر آیا تو ہم نے جاتے ہوئے دیکھا اس نے چہرا ڈھانپ رکھا تھا اور ٹوپی والی شرٹ پہنی تھی وہ اوپر چلاگیا، اوپر جانے ہے بعد گالم گلوچ کی، کچھ دیر بعد 2 سے 3 فائر کی آواز آئیں، جیسے فائر کی آواز سنی ہم مین گیٹ کی طرف بڑھے، باس نے ہمیں کیمرے میں دیکھ کر تسلی دی کہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، باس نے کہا کہ جاکر اپنے روم میں سو جاؤ، تھوڑی دیر بعد باس نے اوپر بلایا اور پانی کی بوتل منگوائی پینے کے لیے اور ہم سے کپڑے اور شاور منگوایا، ہم سے کہا کہ یہ خون صاف کرو اور روم میں جاکر آرام کرو، چھوٹے قد کا لڑکا چشمہ لگایا ہوا ساتھ تھا سامنے آئے گا تو پہنچان لوں گا، رات کو ایک بجے کھانے کے لیے اٹھے تو سناٹا تھا اور ہمیں لگا کہ باس سو گئے ہیں، ہم نے چاول کھائے اور تمام دروازوں پر کنڈی لگائی اور سو گئے۔
گواہ کے مطابق کنڈی لگانے کے بعد باہر دیکھا تو کالے رنگ کی گاڑی جو آئی تھی وہ موجود نہیں تھی، اگلے دن ظہر کی نماز کے لیے 1:30بجے اٹھا تو روم کی کھڑکی زور زور سے پیٹنے کی آوزیں آرہی تھیں ہم ڈر گئے، جب میں نے دروازہ پر دیکھا تو باس اور چشمے والا لڑکا موجود تھے، یہ دونوں اوپر چلے گئے میں واپس روم میں آگیا، بعد میں باس نے دوبارہ بلا کر اوپر کی صفائی کروائی، وہاں پر ایک ٹراؤزر بھی تھا اس کو ہم نے تھیلی میں ڈال کر رکھ دیا، باس نے ہمیں چھٹی دے دی تھی 3 تاریخ کو حیدر آباد سے واپس آیا اور گھر کے کام میں لگ گیا، 8 تاریخ کو پولیس مقابلہ ہوا میں وہاں موجود تھا، فائرنگ ہورہی تھی ہم وہاں سے چھپ کر نکل گئے۔
اس نے کہا کہ ہمیں 10 تاریخ کو پولیس نے پکڑا اور جائے وقوعہ پر لے گئے۔ ہم نے جہاں سے خون صاف کیا تھا اس کی نشاندہی کرائی، کارپیٹ ہٹایا تو وہاں خون کے نشانات موجود تھے پولیس نے وہاں سے سیمپل لیے جہاں جہاں خون کے نشان تھے پولیس نے قالین کا وہ حصہ کاٹا اور لفافے میں رکھ لیا، پولیس نے ہمارا بیان لیا اور ہمیں چھوڑ دیا بعد میں 25 تاریخ کو بلایا تھا۔
عدالت نے گواہ سے استفسار کیا کہ کیا ملزمان یہاں موجود ہیں؟ گواہ نے اشارہ کرکے بتایا کہ ارمغان باس ہیں اور دوسرا لڑکا چشمے والا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: مصطفیٰ قتل کیس: منشیات کی خریدوفروخت میں بین الاقوامی ڈرگ چین کے ملوث ہونے کا انکشاف
وکیل ملزم عابد زمان کا کہنا تھا کہ یہاں چشمے والا کوئی لڑکا نہیں ہے۔ گواہ نے بتایا کہ میں اسے پہچانتا ہوں یہ ہی ہے وہ۔ عدالت نے گواہ کا بیان ریکارڈ کرلیا۔
چشم دید گواہان کے بیانات کے بعد ملزم ارمغان کا گواہ زوہیب اور تفتیشی افسر کو انگوٹھے کے ذریعے ’تھمبس اپ‘ کا نشان بنایا اور کمرہ عدالت میں تفتیشی افسر اور گواہ پر ہنستا رہا۔
ملزم ارمغان کی کورٹ روم میں علی عباس اعوان ایڈووکیٹ سے گفتگو ہوئی جس میں اس کا کہنا تھا کہ پولیس دشمن بنی ہوئی ہے، پولیس سامنے بٹھا کرجھوٹے بیان میڈیا پرچلارہی ہے، ڈکیتی ہوئی تھی اس میں بہت سارے وکلا بھی ملوث ہیں۔
ملزم ارمغان نے قریب بیٹھےملزم شیراز سے بھی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مضبوط رہنا ڈرنا نہیں اس پر شیراز نے جواب دیا کہ میں نےکوئی بیان نہیں دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ارمغان اور شیراز مصطفیٰ عامر قتل کیس مصطفیٰ قتل کے گواہان مصطفیٰ کا مبینہ قاتل ارمغان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ارمغان اور شیراز مصطفی عامر قتل کیس ارمغان اور شیراز اجازت نہیں تھی پولیس نے ہم چشمے والا موجود تھے نے کہا کہ اس نے کہا اور ہمیں تاریخ کو کو پولیس عامر قتل شیراز کو میں اوپر عدالت نے جنوری کو ہوا تھا کی آواز خون صاف ایک بجے قتل کیس کے لیے اور ہم خون کے کے بعد ہے اور
پڑھیں:
مصطفی قتل کیس؛ پولیس نے پیشی پر ملزم ارمغان کی والدہ کو کس چیز سے روکا؟
ویب ڈیسک: مصطفی قتل کیس کے ملزمان کو عدالت میں پیش کردیا گیا، جہاں ملزم ارمغان کی والدہ نے اس سے ملنے کی کوشش کی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق مصطفی عامر قتل کیس کی سماعت سینٹرل جیل میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں ہوئی، جہاں پولیس نے ملزمان ارمغان اور شیراز کو پیش کیا۔
عدالت میں کیس کی سماعت کے موقع پر ملزم ارمغان کی والدہ نے اس سے ملنے کی کوشش کی، تاہم پولیس نے ملزم کی والدہ کو ملنے سے روک دیا اور ہدایت کی کہ سکیورٹی رسک کی وجہ سے افسران بالا نے ملاقات سے منع کیا ہے۔
بلدیاتی انتخابات میں تاخیر؛ پنجاب حکومت کی جلد قانون سازی کی یقین دہانی
واضح رہے کہ ڈیفنس سے 6 جنوری کو اغوا کے بعد بے دردی سے قتل کیے جانے والے نوجوان مصطفیٰ عامر کے والدین نے کہا ہے کہ مشکل وقت میں کسی نے رابطہ تک نہیں کیا، اگر انصاف نہ ملا تو بھوک ہڑتال کریں گے۔
مقتول مصطفیٰ کے والدین نے وزیر اعظم پاکستان ، آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ہمیں انصاف کی فراہمی میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔
علاوہ ازیں مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ملزم ارمغان کا ریمانڈ نہ دینے پر وزیر داخلہ سندھ کے خط کی روشنی میں ہائیکورٹ نے جج کے اختیارات ختم کردیے۔
لاہور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ, بری ہونے والے افراد کا نام کریکٹر سرٹیفکیٹ پر ظاہر نہیں ہوگا