رمضان المبارک اور قرآن کریم
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
رمضان المبارک اور قرآن کریم کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، مفہوم: ''رمضان کا مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا لوگوں کو ہدایت دینے والا اور روشن دلیلیں ہدایت دینے والی اور حق و باطل میں فیصلہ کرنے والا۔'' (البقرہ)
ماہِ رمضان المبارک کی آمد اور اِس کے روزے انسان کی زندگی میں ایک انقلابی عمل برپا کرکے اُسے تقوے کی اعلیٰ منازل پر فائز کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم: ''اے ایمان والو! ہم نے تم پر رمضان کے روزے فرض کیے جیسے تم سے پچھلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تمہیں تقویٰ اور پرہیزگاری حاصل ہو۔''
قرآن کا مقصد ہدایت اور تقویٰ عطا کرنا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم: ''(یہ) وہ عظیم الشان کتاب ہے، جس (کے کلام اﷲ ہونے) میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے، یہ مُتّقین کے لیے ہدایت ہے۔'' (البقرہ)
قرآن کریم اﷲ تعالیٰ کا کلام اور انوار و تجلیّاتِ الٰہیہ کا منبع و سرچشمہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے انسان کی طبیعت میں ایک طرف مادّی و سفلی تقاضے پیدا فرمائے، جو کائنات میں پائے جانے والے دوسرے حیوانات میں بھی ہیں، دوسری طرف انسان کی فطرت کو روحانیت اور ملکوتیت کا اعلیٰ جوہر بھی عطا فرمایا جو ملاء اعلیٰ کی بہترین مخلوق فرشتوں کی صفت ہے۔
اَروَاحِ بشریہ میں اُن انوار و تجلّیات ِ الٰہیہ کے ظہور سے رحجاباتِ بشریہ مانع ہوتے ہیں۔ ان رحجابات کے زوال اور کشف کا اعلیٰ ترین ذریعہ روزہ ہے۔ یہی بندے کے لیے قرآن اور رمضان کے عملی رشتے کو مضبوط تر بناتا ہے۔
قرآن ہدایت اور روشنی ہے، یہ تو قوموں میں انقلاب برپا کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے، اس پر عمل کرنے والوں کو سارے جہاں پر فضیلت بخشی گئی۔
ہماری سوچ کیوں کر محدود ہوگئی کہ ہم نے اِسے اتنے معمولی کاموں کے لیے سمجھ لیا اور اتنے پر اکتفا کرلیا کہ بس کسی پریشانی یا موت، میت کے وقت قرآن پڑھوا دیا جائے، آسیب زَدہ ، بیمار پر اِس سے ہوا کردی، بیٹی رخصت کرتے وقت اُس کے سر پر سائبان کردیا جائے، کہیں اپنا کردار داؤ پر لگا ہو تو اپنی ذات بچانے کے لیے یا اپنی سچائی یا جھوٹ کے تصفیے کے لیے، ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے بہ طور قسم اٹھا لیا جائے، کیا ہمارا قرآن سے بس اتنا ہی واسطہ ہے۔۔۔۔ ؟ یہ بھی اچھی بات ہے لیکن قرآن حکیم کا اصل مقصد تو غور و فکر کرنا ہے اسی لیے اﷲ تعالیٰ واضح طور پر قرآن مجید میں غور کرنے کا حکم ارشاد فرما رہا ہے۔
اسلام کا یہ نظریہ ہرگز نہیں کہ جسے ہمارے معاشرے میں اپنا لیا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے، مفہوم : ''توکیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے یا اُن کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔'' پھر ایک مقام پر اپنے اِس کلام کی عظمت کو بیان فرمایا کہ پہاڑ جیسی سخت جان شے ہمارے خوف سے ریزہ ریزہ ہوتی دکھائی دیتی ، اگر یہ قرآن اُس پر نازل ہوجاتا۔ اﷲ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: ''اگرہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کردیتے تو (اے مخاطب!) ضرور تُو اُسے جھکتا ہوا۔
اﷲ کے خوف سے پھٹا ہوا دیکھتا۔'' (الحشر) انسان کے قلب کو اﷲ تعالیٰ نے قرآن سے مُزیّن فرمایا اور پھر یہ ارشاد فرمایا، مفہوم:'' بے شک! ہم نے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر اپنی امانت پیش کی، تو وہ اِس کے اٹھانے پر آمادہ نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔
بے شک! وہ بڑا زیادتی کرنے والا، نادان تھا۔'' (احزاب) تشریح : ظلم کی تعریف: وضع الشیٔ الی غیر محلہ (کسی شے کو اُس کی جگہ سے ہٹا دینا ظلم ہے) اس آیت میں ظلم بہ معنیٰ قوتِ برداشت ہے یعنی انسان نے خود کو اس بوجھ کے اٹھانے کے قابل سمجھا۔ جہل کے معنی بے خبر اور غافل ہونے کے ہیں یعنی کسی اور نے یہ بوجھ کیوں نہ اٹھایا، اس سے غافل ہوکر انسان نے اِس بوجھ کو اٹھا لیا۔
رسول اﷲ ﷺ رمضان اور قرآن کے باہمی ربط کو حدیث پاک میں یوں بیان فرماتے ہیں، حضرت عبداﷲ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: '' (روزِ قیامت) روزے اور قرآن (دونوں) بندے کی رب کے حضور شفاعت کریں گے۔
روزے عرض کریں گے: اے رب العزت! میں نے اِسے دن کے وقت کھانے، پینے اور لذّتِ شہوات سے روکے رکھا، پس میری شفاعت اِس کے حق میں قبول فرما اور قرآن یہ عرض کرے گا: مولیٰ! میں نے اِسے رات کی بھرپور نیند سے محروم رکھا (کہ راتوں کو اٹھ کر تلاوت کرتا تھا) پس میری شفاعت اِس کے حق میں قبول فرما۔ اﷲ تعالیٰ ان دونوں کی شفاعت کو قبول فرمائے گا۔'' (بیہقی)
اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: نماز میں قرآن کی تلاوت کرنا، غیر نماز میں تلاوت کرنے سے افضل ہے اور نماز کے علاوہ قرآن کی تلاوت کرنا تسبیح و تکبیر سے افضل ہے اور تسبیح کرنا صدقہ کرنے سے افضل ہے اور صدقہ کرنا روزے سے افضل ہے اور روزہ جہنم سے ڈھال ہے۔
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں رسول اﷲ ﷺ شب بیداری فرماتے یوں تو صبح و شا م زندگی کا ہر لمحہ یادِ خدا میں بسر ہوتا تھا، لیکن رمضان المبارک میں خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اﷲ ﷺ کمر ہمت باندھ لیتے، شب بیداری فرماتے اور اہل و عیال کو بھی بیدار فرماتے۔ (صحیح بخاری)
اُسوۂ رسول ﷺ یہ درس دیتا ہے کہ ہم اِن ساعات کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی بخشش کا ساماں کریں، غفلت کی دبیز چادر کو اتار پھینکیں اور عبادات پر کمربستہ نہیں ہوسکتے تو کم از کم اَخلاق و کردار تو سنوار سکتے ہیں۔
رمضان المبارک انسانی زندگی میں حقیقی انقلاب کی نوید سناتا ہے۔ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی جس طرح بڑے پیمانے پر ہمارے معمولات و مشغولات میں تبدیلی آتی ہے، لوگوں میں نیکی کا جذبہ بڑھ جاتا ہے، مساجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔
سڑکوں، بازاروں، محلوں، گلی کوچوں میں ایک مسرت کا سماں بندھ جاتا ہے۔ آج اعتکاف کرنے والوں کی بڑی تعداد ہر محلے میں موجود ہے، خوش آئند بات یہ ہے کہ اکثریت نوجوانوں کی ہے لیکن ضروری یہ ہے کہ اعتکاف کی نفسِ روح کو سمجھا جائے اور شرعی تقاضوں کے مطابق ادا کیا جائے۔
اِن سارے حقائق کی روشنی میں ہونا تو یہ چاہیے کہ رمضان کے بعد بھی رمضان المبارک کے روحانی اَثرات ہم پر ظاہر ہوں اور رمضان کے بعد بھی ہمارے شب و روز کے معمولات اور اَطوار میں تبدیلی آئے، لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے۔
شوال المکرم کا چاند نظر آتے ہی سارے بندھن کھل جاتے ہیں اور لوگ رمضان کی کیفیات سے باہر نکل آتے ہیں، فحاشی کا ایک سیلاب اُمڈ آتا ہے، جب کہ حدیثِ پاک میں شبِ عید کے قیام کا اجر بیان کرتے ہوئے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جس نے عیدالفظر اور عید الاضحی کی دونوں راتوں میں اﷲتعالیٰ کی ذات سے اجر کی امید پر نفلی عبادت کے لیے قیام کیا تو جس دن بدعملوں کے دلوں کی موت واقع ہوگی، اس کا دل نہیں مرے گا۔'' (ابن ماجہ) یعنی اس کا دل ایمان اور اﷲ تعالیٰ کے عرفان اور اس کے نبی ﷺ کی محبت سے منور رہے گا۔
کاش! ہم ویسے ہوجائیں جیسا کہ قرآن ہمیں دیکھنا اور بنانا چاہتا ہے۔ ہمارے اَعمال سے جھوٹ، دھوکا، بے ایمانی، خود فریبی جیسی صفاتِ رذیلہ دور ہوجائیں۔
نیکی کا جذبہ سارے جذبات پر غالب آجائے، حسنِ سلوک ہماری عادت بن جائے، امن و محبت ہمارا شِعار بن جائے، تعمیر و ترقی ہماری سوچ بن جائے۔ پھر ہم بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا سیکھ سکتے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سے افضل ہے اور رمضان المبارک رسول اﷲ ﷺ اور قرا ن رمضان کے کے لیے
پڑھیں:
فضائلِ رمضان المبارک
رمضان المبارک رحمتوں اور بخششوں کا مہینہ ہے۔ اس ماہِ مقدس کو نیکیوں کی فصلِ بہار قرار دیا جاتا ہے۔ روزے کی فرضیت، تاریخ اور مقصد کو سورہ بقرہ کی ایک مختصر مگر جامع آیت میں واضح طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ مفہوم: ''اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے امتوں پر فرض کیے گئے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔''
مذکورہ آیتِ کریمہ میں اﷲ تعالیٰ صرف ایمان والوں کو مخاطب کرکے فرما رہا ہے کہ تم پر روزے فرض کیے گئے، پھر روزے کی تاریخ کا تذکرہ کیا کہ تم سے پہلے بھی روزے فرض کیے گئے، یعنی روزہ ایک عالم گیر عبادت ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ادوار میں بھی روزہ رکھا جاتا تھا۔
پھر روزہ رکھنے کا مقصد واضح کیا کہ تقویٰ کا حصول ہوتا ہے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ تقویٰ کا حصول کیا ہے؟ تقویٰ دل کی وہ کیفیت اور خوفِ خدا کا وہ درجہ ہے جہاں پر انسان ہر وہ کام کرتا ہے جو اﷲ کی رضا کا باعث ہو اور ہر اس کام سے اجتناب کرتا ہے جو اﷲ کی ناراضی کا باعث ہو۔ یعنی تقویٰ ایک ایسا جامع وصف ہے کہ اس کے حصول کے بعد ایک مسلمان میں تمام اعمالِ قبیحہ سے اجتناب اور اعمالِ صالح کا شوق بیدار ہوتا ہے۔ یعنی تقویٰ اور پرہیز گاری روزے کی حقیقی روح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہِ رمضان المبارک میں مسلمانوں کے اندر دینی مزاج اور صبر و تقویٰ پیدا کرنے کے لیے ایک مخصوص دینی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔
اب ہمیں چاہیے کہ اپنے رب کی رضا کے مطابق زندگی بسر کریں تاکہ ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں اور اپنے خالق و مالک، رب العالمین کے پسندیدہ بندے بن جائیں۔ بلاشبہ! روزے سے اخلاق کی حفاظت، روح کی پاکیزگی اور نفس کی تربیت ہوتی ہے۔ اس ماہِ مقدس کی مشق کے عادی بن کر انہیں اپنی زندگی کے لیل و نہار میں ہمیشہ کے لیے شامل کرلیں۔
ماہِ رمضان کی فضیلت کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہے کہ اسی مبارک ماہ میں قرآن نازل کیا گیا جو آخری الہامی کتاب ہے اور خاتم الانبیاء رحمۃاللعالمین حضرت محمد ﷺ پر نازل فرمایا گیا، جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات پیش کرتا ہے۔
فرمان الہی کا مفہوم: ''اس ماہِ مبارک میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کھول کر رکھ دینے والی ہے۔'' (سورۃ البقرہ)
ماہِ رمضان کی فضیلت اس اعتبار سے بھی ہے کہ اس ماہ میں لیلۃ القدر موجود ہے یعنی وہ رات جس میں عبادت کرنے کا ثواب ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔
مفہوم: ''ہم نے اس قرآن کو شبِ قدر میں نازل کیا۔ تم کیا جانو شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔'' (سورۃ القدر)
روزہ بہ ظاہر ایک مشقت والی عبادت ہے لیکن حقیقت میں اپنے مقصد اور نتیجے کے لحاظ سے یہ دنیا میں موجبِ راحت اور آخرت میں باعثِ رحمت ہے۔ روزے کے علاوہ دوسری عبادات ظاہری حرکات سے ادا ہوتی ہیں مگر روزہ ایسی عبادت ہے جس کا تعلق باطن سے ہے، یہ ایک مخفی عبادت ہے جس کا علم سوائے رب العزت کے کوئی نہیں جانتا۔ روزے دار کے اس خلوص بھرے جذبے کو دیکھ کر ہی حدیث قدسی کے ذریعے یہ عظیم فیصلہ کردیا،
حضور پاکؐ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم: ''روزہ میرے لیے ہے، اور میں خود ہی اس کی جزا دوں گا۔'' حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے: ''جب رمضان کا مہینہ آتا ہے، رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنّم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔'' (صحیح بخاری)
''اور ایک پکارنے والا پکار کر کہتا ہے اے نیکیوں کے طالب! آگے بڑھ اور اے برائیوں کے طالب باز آ جا۔'' (سنن ترمذی) اب جو کوئی ایمان کے تقاضوں کی تکمیل اور بارگاہِ الٰہی سے ثواب کی امید کے ساتھ روزے رکھے اور ماہِ مقدس کی راتوں میں اپنے رب کے حضور قیام کرے، نفل نمازوں، تہجد اور تلاوتِ قرآن پاک اور بارگاہِ الٰہی کے حضور دعاؤں کا اہتمام کرے تو اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔
حضورِ پاکؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ''روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں، ایک خوشی اس کے افطار کے وقت اور ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔''
روزہ دار کے لیے جنت میں خصوصی دروازہ ہے۔ جیسا کہ حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے:
''جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریّان کہا جاتا ہے، قیامت کے دن پکارا جائے گا روزہ رکھنے والے کہاں ہیں؟ چناں چہ جو شخص روزہ رکھنے والوں میں سے ہوگا وہ اس میں داخل ہو جائے گا اور جو اس میں داخل ہوگیا اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔'' (سنن ابنِ ماجہ)
اس ماہِ مقدس میں جہاں ہم اعمالِ صالحہ زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کریں وہیں ہم اپنے اعمال کا محاسبہ بھی کریں کہ وہ کون سے اعمال ہیں جو اﷲ کو ناپسند ہیں۔
ان سے پرہیز کریں، بعض دفعہ ہم غلط کام کرتے جاتے ہیں اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا، مثلاً کوشش کریں کہ ہماری ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے، ہماری بات سے کسی کی دل آزاری نہ ہو، کسی کو حقارت سے نہ دیکھیں، حسد نہ کریں، جھوٹ نہ بولیں، بدگمانی اور غیبت نہ کریں، فالتو اور لغو باتوں سے پرہیز کریں۔ اپنے وقت کی قدر کریں اور اس کا درست استعمال کریں۔ یہ مقدس ماہ خیر خواہی کمانے کا ہے لہٰذا کوشش ہونی چاہیے مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں، جب ہی ہم رمضان کی برکات و ثمرات سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
رسول کریمؐ نے اس ماہِ مقدس کو شہرالمواساۃ یعنی غم گساری کا مہینہ بھی فرمایا ہے۔ تمام عبادات روزہ، نماز، قیام اللیل اور انفاق فی سبیل اﷲ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کیوں کہ ایک فرض ستّر فرائض کے برابر ہوتا ہے، اسی لیے اکثر اہلِ ایمان زکوٰۃ کی ادائی کے لیے اسی بابرکت ماہ کو منتخب کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹ سکیں۔ حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ حضورؐ رمضان میں تیز آندھیوں سے بھی زیادہ صدقہ و خیرات فرمایا کرتے تھے۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم: ''قیامت کے دن جب کوئی سایہ نہ ہوگا تو صدقہ مومن پر سایہ بن جائے گا۔''
دورِ حاضر میں جب کہ ہر طرف معاشی بحران زور پکڑتا جا رہا ہے، ناصرف غرباء جو کہ زکوٰۃ کے حق دار ہیں بل کہ وہ سفید پوش لوگ بھی جو زکوٰۃ کے مستحق نہیں ہیں ان کے لیے بھی زندگی بسر کرنا مشکل ہوگیا ہے، ایسے ہی لوگوں کے لیے قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ جو لوگوں سے سوال بھی نہیں کرتے تم ان کو ان کے چہرے سے پہچان لو گے۔
وقت کی اشد ضرورت ہے کہ اصحابِ ثروت انفاق فی سبیل اﷲ کے ذریعے اس طرح مدد کریں کہ ان کی عزتِ نفس بھی مجروح نہ ہو۔ اگر معاشی بحران کی صورت پیدا ہو جائے تو اغنیا پر زکوٰۃ کے علاوہ انفاق فی سبیل اﷲ بھی بڑی نیکی ہے۔ حضورؐ نے فرمایا: ''بے شک! مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے۔'' ''جنہیں رزق میں فراخی عطا کی گئی ہے ان کا فرض ہے کہ وہ مفلس اور محتاج لوگوں کی مدد کریں۔''
ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم: ''ان کے مال میں ضرورت مند سائل اور محروم کا حق ہے۔'' (الذاریٰت) اﷲ تبارک و تعالیٰ نیکی کے کاموں میں سبقت حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے۔
''نیک کاموں میں آگے بڑھنے کی کوشش کیا کرو۔'' (سورۃ البقرہ)
زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اﷲ کے ذریعے معاشرے کے محروم و مفلس لوگوں کی مدد ہو جاتی ہے اور اس طرح معاشرے میں ہم دردی و احترام اور باہمی محبت کے جذبات کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ ہمیں ماہِ رمضان کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق دے (آمین)۔ بارگاہِ الٰہی سے ہم سب کی دعا ہے کہ امتِ مسلمہ کی مشکلات کو دور فرما دے اور پاکستان کو استحکام، ترقی و خوش حالی سے ہم کنار فرما دے۔ (آمین)